Tag: sea

  • ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    پانی سے ہی زندگی ہے اور تازہ پانی بقا، صحت، خوراک کی پیداوار، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زراعت عالمی میٹھے پانی کا تقریباً 70 فی صد استعمال کرتی ہے، آب پاشی فصل کی نشوونما کو سہارا دیتی ہے اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بناتی ہے۔ پانی کی کمی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر قحط، اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

    پانی کی کمی صحت کے شدید مسائل یا اموات کا باعث بن سکتی ہے جب کہ صاف میٹھے پانی تک رسائی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکتی ہے جیسا کہ ہیضہ، پیچش، جو کہ اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صفائی کی ناکافی سہولیات ہیں۔

    اسی طرح پانی کا استعمال صنعتوں میں کولنگ، اور توانائی کی پیداوار کے لیے بھی ہوتا ہے (مثلاً، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، تھرمل پلانٹس)۔ پانی کی قلت سپلائی چینز اور انرجی گرڈز میں خلل ڈال سکتی ہے اور زرعی و صنعتی پیداوار، افرادی قوت کی صحت کو محدود کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    میٹھے پانی کی کمی


    حالاں کہ پانی پر بڑے پیمانے پر جنگیں نہیں ہوئی ہیں، تاہم یہ اکثر وسیع تر تنازعات میں ایک اہم عنصر، اسٹریٹجک ہدف، یا آلہ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تازہ پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، اور ریسرچ اسٹڈیز اور رپورٹس میٹھے پانی کی دست یابی میں کمی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث میٹھے پانی کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں طلب میں اصافہ اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے حکومتوں، صنعتوں اور سول سوسائٹیوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    کھارا پانی


    دوسری طرف کھارا پانی یعنی کہ سمندروں کی اچھی صحت کا براہ راست تعلق انسانی بقا، معاشی استحکام اور ماحولیاتی توازن سے ہے۔ سمندر ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے، غذا دیتا ہے، گرمی کو جذب کر کے ماحول میں توازن بناتا ہے، اور بخارات کی صورت میں بارشیں برساتا ہے۔ عالمی تجارت کا 90 فی صد سمندری راستوں سے ہوتا ہے، جو معیشتوں کو جوڑتا ہے اور وسائل کی تقسیم کو فعال کرتا ہے۔

    بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا 3 فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے، لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔


    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات


    امریکی سائنسی ایجنسی ’’یو ایس جیولوجیکل سروے‘‘ (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زیر زمین ہے۔

    سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

    سمندروں کی نقشہ سازی اور نئی انواع


    کھارے پانی کی بات کریں تو امریکی حکومتی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے اور یہ کہ 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے۔

    بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 2 لاکھ 42,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً 2000 نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

    غیر دریافت شدہ سمندر


    اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

    فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریانا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔

    سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

  • خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے میں خلا میں ہونے والی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے، تاہم اب خلا میں موجود کچرا زمین کے سمندروں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

    بین االاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور خلا میں کی جانے والی کمرشل سرگرمیوں نے دنیا بھر کے سمندروں کو زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ خلائی آلودگی کے خطرے سے بھی دو چار کردیا ہے۔

    انسانوں کی خلا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے وہاں خلائی کچرے کی مقدار میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، خلا میں ناکارہ ہونے والے بڑے جہاز، راکٹ اور دیگر ملبے کے لیے زمین پر پہلے ہی آلودگی کے شکار سمندروں کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

    روس گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پیدا ہونے والے ٹنوں وزنی ملبے کو بحرالکاہل میں ڈبو رہا ہے۔

    لیکن یہ معاملہ صرف روس یا بحر الکاہل تک ہی محدود نہیں ہے، ماضی میں روس کے خلائی اسٹیشن اور چین کے تیانگ گونگ ون کی زندگی کا اختتام بھی سمندر کے پانیوں میں کیا گیا۔

    اسی طرح 1979 میں امریکا کا تجرباتی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب بھی ٹکڑوں کی شکل میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر بکھر گیا تھا۔ آنے والے چند سالوں میں خلائی کچرے کا ایک اور بڑا ٹکڑا زمین پر واپس آنے والا ہے۔

    سائنس دان 2030 میں اپنی عمر تمام کرنے والے 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں اس جگہ گرانے کی تیاری کر رہے ہیں جسے پوائنٹ نیمو کے نام سے جاتا ہے۔

    یہ دنیا کا سب سے غیر آباد اور ناقابل رسائی علاقہ تصور کیا جاتاہے، اس جگہ سے قریب ترین سمندری حصہ بھی 1450 ناٹیکل میل (2 ہزار 685 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔

  • دو منزلہ مکان سمندر میں جا گرا، خوفناک ویڈیو وائرل

    دو منزلہ مکان سمندر میں جا گرا، خوفناک ویڈیو وائرل

    بیونس آئرس: سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جس میں ایک دو منزلہ مکان سمندر میں گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ ویڈیو جنوبی امریکی ملک ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کی ہے۔ مذکورہ مکان سمندر سے کچھ دور واقع تھا تاہم سطح سمندر میں اضافے کے باعث سمندر کی لہریں گھر تک آ پہنچی تھیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سمندر کی زور دار لہریں گھر کی بنیادوں سے ٹکرا رہی ہیں جو مستقل ٹکراؤ سے کمزور ہوچکی ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے دو منزلہ مکان اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے اور دھماکے سے سمندر میں جا گرتا ہے۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، گھر کے مالکان اور رہائشی خوش قسمتی سے اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔

  • سپرسائیکلون کیار: پاک بحریہ کا ریسکیو آپریشن

    سپرسائیکلون کیار: پاک بحریہ کا ریسکیو آپریشن

    کراچی: ترجمان پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ پاک بحریہ کے عملے نے کیٹی بندر اور شاہ بندر کے نواحی علاقوں میں ریسکیو آپریشن کیا اور سمندری طوفان سے متاثرہ علاقے میں لوگوں کی مدد کی۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان پاک بحریہ نے کہا ہے کہ سپرسائیکلون کیار کے باعث تین سو مکانات متاثر ہوئے، جس کے باعث پاک بحریہ کے عملے نے کیٹی بندر اور شاہ بندر کے نواحی علاقوں میں ریسکیو آپریشن کیا۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن کے دوران متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا، متاثرہ عوام کو بنیادی طبی امداد اور دیگر اشیائے ضروری فراہم کی گئیں۔

    ’پاک بحریہ نے سمندری کٹاوُ روکنے کے لیے بند کی دوبارہ تعمیر میں مدد بھی کی، جبکہ سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے‘۔

    خیال رہے کہ گوادر کے ساحلی بستی گنز میں بے قابو سمندری لہروں نے تباہی مچا دی ہے، بستی میں سمندر کی بے قابو لہریں داخل ہوچکی ہیں اور درجنوں گھروں کو ڈبو دیا ہے۔

    سپرسائیکلون’کیار‘کی شدت میں کمی ، کراچی میں کل رات اور پرسوں ہلکی بارش کا امکان

    کئی مکانات اور دیواریں منہدم جبکہ گھروں کے مکین سخت مشکلات اور خوف کا شکار ہیں، اور رات کے اوقات میں مزید پانی آنے کی ڈر سے قریبی پہاڑی پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

    دوسری جانب چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا ہے کہ سپرسائیکلون کی شدت میں بتدریج کم ہورہی ہے۔

  • اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    روم : آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے عینی شاہدین نے بتایا کہ آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے ہمیں آتش فشاں پھٹنے کا اندازہ ہو گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی کے جزیرے اسٹروم بولی میں آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا جس کے باعث سیاحت کے لئے آئے لوگوں نے ڈر کر قریبی سمندر میں چھلانگ لگا دی، آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے وقت اس جزیرے پر موجود لوگوں نے آسمان پر ابھرتے ہوئے سیاہ بادلوں اور اڑتی ہوئی چنگاریوں کو دیکھا جس سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جزیرے پر موجود اس واقعے کے عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ہم لوگ دن کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ تمام لوگ ایک رخ کی جانب گردن گھما کر دیکھ رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ چکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ آتش فشاں پھٹنے کے باعث ایک جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شخص آتش فشاں کی جانب بڑھ رہا کہ پھتروں سے ٹکرانے کے باعث ہلاک ہوا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے جزیرے پر موجود تمام لوگوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے، اسٹروم بولی بحیرہ روم میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو سیاحت کے لئے دنیا بھر میں مقبول ہے۔

  • اسامہ بن لادن کی لاش سمندر برد کی تاکہ لوگ مزار نہ بنالیں، شہزادہ ترکی الفیصل

    اسامہ بن لادن کی لاش سمندر برد کی تاکہ لوگ مزار نہ بنالیں، شہزادہ ترکی الفیصل

    ریاض : ترکی الفیصل نے اسامہ بن لادن سے متعلق انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ آپریشن کے وقت اسامہ نے اسلحہ اٹھا رکھا تھا،تدفین سے خدشہ تھا لوگ مزارنہ بنالیں اس لئے لاش سمندر برد کی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکومت نے طالبان کے سابق امیر مُلا محمد عمر سے متعدد بار بن لادن کو ریاض کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے سعودی عرب کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔

    سعودی عرب نے ملا عمر کو خبردار کیا تھا کہ بن لادن کی حوالگی سے انکار پر افغانستان کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ طالبان کی طرف سے انکار کے بعد ریاض نے طالبان حکومت سے تعلقات ختم کر دیے گئے۔

    عرب ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ اسامہ بن لادن کی نعش دفنانے کے بجائے سمندر بُرد کیوں کی؟ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ کی لاش سمندر برد کرنے کا فیصلہ اس بنا پر کیا گیا کہ تدفین کی صورت میں لوگ ان کا مزار نہ بنا لیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک سوال کے جواب میں شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ بن لادن حیران کن انداز میں اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے تاکہ ان کے ٹھکانے کی نشاندہی نہ ہو۔ سعودی حکام اسامہ کے اہل خانہ کو صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر ان سے ملنے کی اجازت دیتے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کا بن لادن کے قتل کا کوئی منصوبہ نہیں تھا، امریکی فوجیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کارروائی کے وقت بن لادن نے اسلحہ اٹھا رکھا تھا جس کے باعث انہیں قتل کیا گیا۔

  • کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر کی تہہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سمندر کی تہہ کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود زیادہ تر کاربن سمندر کی تہہ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ سمندر کی تہہ میں کیلشیئم کاربونیٹ موجود ہوتی ہے اور یہ دونوں گیسیں مل کر سمندر میں کاربن کو توازن میں رکھتے ہیں۔

    تاہم فضا میں کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے یہ توازن خراب ہورہا ہے۔

    اب سمندر کی تہہ میں کاربن کی مقدار زیادہ اور کیلشیئم کاربونیٹ کی کم ہوگئی ہے جس سے سمندر کی تہہ میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی آبی حیات و نباتات کے لیے سخت خطرناک ہے۔

    سمندر میں بڑھنے والی تیزابیت سے مونگے کی چٹانیں بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ ان چٹانوں پر انحصار کرنے والی آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری زمین پر موجود سمندر کی تہہ کا مکمل جائزہ لینا تو مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق سمندر کی 40 فیصد زمین کاربن کے اس اضافے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

  • یو اے ای اور سعودی عرب کے تعلقات سمندر سے زیادہ گہرے ہیں، محمد بن سلمان

    یو اے ای اور سعودی عرب کے تعلقات سمندر سے زیادہ گہرے ہیں، محمد بن سلمان

    ریاض : سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اتحادی ممالک کے دورے کے دوسرے مرحلے میں بحرین پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ریاست کے حاکم شاہ سلمان بن عبد العزیز کی ہدایت پر گذشتہ کچھ دنوں سے اتحادی ممالک کے دورے پر ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان پہلے مرحلے میں تین روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی پہنچے اور اتوار کے روز یو اے ای کا دورہ مکمل کرکے بحرین پہنچے ہیں۔

    ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی کے تعلقات مثالی اور خصوصی ہے جس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے مربوط رکھا ہوا ہے۔

    محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی اتحاد سمندر سے گہرا اور وسیع ہو۔

    سعودی ولی عہد کا کہنا ہے کہ دونوں عرب ریاستیں پہلے بھی مضبوط اور مثالی تعلقات کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زاید محمد بن سلمان کا استقبال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امارات ہمیشہ سعودی عرب کا معاون و مددگار رہے گا اور ہمیں ان تعلقات پر فخر ہے‘۔

    سعودی ولی عہد نے بھی پُر جوش استقبال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مابین قائم تعلقات دونوں ممالک کے لیے مفید اور مفاد میں ہیں‘۔

  • سعودی عرب کا قومی دن، غوطہ خوروں کا سمندر کی تہہ میں روایتی رقص

    سعودی عرب کا قومی دن، غوطہ خوروں کا سمندر کی تہہ میں روایتی رقص

    ریاض : سعودی عرب کے 88 ویں قومی دن کے موقع پر سعودی غوطہ خوروں نے سمندر کی تہہ میں قومی پرچم اور تلواروں کے ہمراہ سعودیہ کا روایتی رقص پیش کرکے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے 88 ویں قومی دن کے موقع پر سعودی غوطہ خوروں کے ایک گروپ کی جانب سے اپنے وطن سے محبت کے اظہار کا انوکھا طریقہ اپنایا، غوطہ خوروں نے سمندر کی تہہ میں جاکر سعودیہ کا رویتی رقص ’عرضہ‘ پیش کیا۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ غوطہ خوروں کے گروپ نے سمندر کی گہرائی میں تلواروں کے ہمراہ روایتی ڈانس نجدی لباس میں ملبوس ہوکر پیش کیا، غوطہ خوروں نے سمندر کی تہہ میں پرچم اور مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کا عکس بھی اٹھا رکھا تھا۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ غوطہ خوروں نے سمندر کی گہرائی میں کیے گئے رقص اوعر پڑھے گئے ملّی نغمے اور سعودی ترانے کو کیمرے میں محفوظ بھی کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سمندر کی گہرائی میں کیے گیے سعودی عرب کے روایتی رقص کی ویڈیو وائرل ہوئی سوشل میڈیا صارفین نے مذکورہ شہریوں کی حب الوطنی کے اس انوکھے انداز کو بہت پسند کیا۔

    یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے سعودی عرب کے 88 ویں قومی دن کے موقع پر خصوصی مہر تیار کی گئی تھی جو متحدہ عرب امارات آنے والے سعودی شہریوں کا استقبال کرنے کے لیے 23 ستمبر تک ان کے پاسپورٹ پر لگائی گی۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ اماراتی حکام کی جانب سے سعودی عرب کے 88ویں قومی دن کے موقع پر دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلفیہ پر روشنیوں کی مدد سے سعودی پرچم بنایا گیا تھا۔

  • روسی سمندر میں ناراض آکٹوپس نے غوطہ خور پر حملہ کردیا

    روسی سمندر میں ناراض آکٹوپس نے غوطہ خور پر حملہ کردیا

    ماسکو : روس کے گہرے سمندر میں تصویر بنانے پر ناراض آکٹوپس نے غوطہ خور پر حملہ کرکے چار چار ہاتھوں سے پکڑ لیا، سمندر ی مخلوق نے غوطہ خور کا کیمرہ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔

    سمندر میں رہنے والا آکٹوپس جسے 8 ٹانگیں ہونے کی وجہ سے ہشتت پا بھی کہا جاتا ہے بظاہر تو بے ضرر جاندار لگتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بات اس جانور کو ناپسند ہو تو یہ کتنا خطرناک ہوجاتا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سایٹ پر روسی غوطہ خور کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تصاویر اور ویڈیو بنانے پر آکٹوپس نے غصّے میں روسی غوطہ خور پر حملہ کیسے حملہ کیا۔

    روس کے گہرے سمندر میں آکٹوپس نے غوطہ خور پر حملہ کرکے چار چار ہاتھوں سے ایسا جکڑا کہ ڈائیور کا خود کو چھڑانا مشکل ہوگیا۔

    ہشت پا کہی جانے والی سمندر مخلوق نے غوطہ خور کا کیمرہ بھی چھوڑ نے انکار کردیا۔

    خیال رہے کہ اب سے 40 کروڑ سال قبل وجود میں آنے والا یہ جانور زمین کے اولین ذہین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی جس وقت یہ زمین پر موجود تھا، اس وقت ذہانت میں اس کے ہم پلہ دوسرا اور کوئی جانور موجود نہیں تھا۔

    آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات (نیورونز) موجود ہوتے ہیں اور انسانوں کی نسبت 10 ہزار گنا زائد جینز موجود ہوتے ہیں جنیہیں یہ مخلوق اپنے مطابق تبدیل کرسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ آکٹوپس موقع کے حساب سے اپنے آپ کو ڈھالنے کی شاندار صلاحیت رکھتا ہے، یہ نہ صرف رنگ بدل سکتا ہے بلکہ اپنی جلد کی بناوٹ تبدیل کرکے ایسی شکلیں اختیار کر لیتا ہے کہ دشمن یا شکار نزدیک ہونے کے باوجود بھی دھوکہ کھا جاتا ہے۔