Tag: sea

  • چینی فوج کی بحیرہ جنوبی چین میں عسکری سرگرمیاں، امریکا نے وارننگ دے دی

    چینی فوج کی بحیرہ جنوبی چین میں عسکری سرگرمیاں، امریکا نے وارننگ دے دی

    واشنگٹن: امریکا نے چینی فوج کی بحیرہ جنوبی چین میں عسکری سرگرمیاں روکنے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی سرگرمیاں خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر وفاع چیمز میٹس نے سنگاپور میں جاری سالانہ سیکیورٹی کانفرنس میں آج شرکت کی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی عسکری سرگرمیاں ہمسایہ ملکوں کو ڈرانے دھمکانے کے برابر ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ چین نے دعووں کے برعکس اس سمندری علاقے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ ساتھ میزائل شکن بحری جہاز کو متعین کر رکھا ہے جبکہ چینی صدر شی جن پنگ ہمسایہ ممالک سے کیے گئے وعدوں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں انہیں فوری طور پر عسکری سرگرمیاں روکنا ہوں گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ چین کے دعوؤں کے برعکس ہھتیاروں کے اس نظام کو وہاں نصب کرنے کا براہ راست تعلق ان کا فوجی استعمال ہے جس کا مقصد ڈرانا دھمکانا اور دباؤ ڈالنا ہے۔


    بھارت افغانستان میں کروڑوں ڈالرزکےمنصوبوں پرکام کررہاہے،امریکی وزیردفاع


    جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کی پالیسی ہماری آزادانہ نقل و حرکت کو فروغ دینے کی حکمت عملی کے خلاف ہے، یہ چین کے وسیع مقاصد سے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار کرتی ہے۔

    واضح رہے کہ چین بحیرہ جنوبی چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے دوسری طرف اس متنازع خطے پر ویت نام، فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور تائیوان بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔


    بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے طالبان کو استعمال کررہا ہے، امریکی وزیردفاع


    خیال رہے کہ چین نے اپنی سرحدوں سے باہر اپنی طاقت کو پروجیکٹ کرنا شروع کر دیا ہے جس میں زیادہ قابل ذکر بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں پر تعمیراتی اور عسکری سرگرمیاں ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریںْ۔

  • رات کی تاریکی میں اچانک سمندر پر نیلی روشنی نمودار

    رات کی تاریکی میں اچانک سمندر پر نیلی روشنی نمودار

    کیلی فورنیا: سین ڈیگو کے ساحل پر رات کے پہر انتہائی خوبصورت اور دلکش قدرتی منظر دیکھا گیا جس نے لہروں کو رنگین بنادیا۔

    تفصیلات کے مطابق کیلی فورنیا کے ساحل پر گزشتہ شب دلکش اور قدرتی منظر نمودار ہوا جسے دیکھنے والے آنکھیں جھپکنا بھول گئے، رات کی تاریکی میں اچانک سمندر حیران کن طور پر روشن ہوگیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق شب کے درمیانی حصے میں گہرے اور شفاف پانی پر نیلے رنگ کی چمک اور روشنی دور دور تک واضح طور پر نظر آئی جس کی وجہ سے منظر انتہائی دلکش ہوگیا۔اتفاق سے ساحل پر پہنچے ہوئے فوٹو گرافر نے اس تمام قدرتی منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا جس کو دیکھنے والے واقعی سحر میں گرفتار ہوگئے۔

    ماہرین کے مطابق سمندر میں بننے والی یہ روشنی قدرتی عمل سے پیدا ہونے والے بائیولیومن کا نتیجہ ہے جسے دیکھنے کے لیے کہی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔

    کیلی فورنیا کے جنوبی علاقے میں واقع سین ڈیگو کے ساحل پر آنے والی لہروں پر نیلے رنگ کی روشنی جن لوگوں نے دیکھی وہ ماہرین کی رائے کے بعد اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھنے لگے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔

    معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر

    وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

    کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟

    کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔

    کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔

    سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔

    کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

    کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔

    دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

    لیکن خطرہ کیا ہے؟

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔

    وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔

    جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے

    اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک خطرہ جان

    صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔

    اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔

    کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔

    گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    سمندروں کی آلودگی کا مسئلہ نیا نہیں اور اب یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندروں میں پانی سے زیادہ کچرا اور پلاسٹک بھرا ہوا ہوگا۔

    تاہم حال ہی میں ایک سیاح نے ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو بظاہر تو بہت منفرد معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کا پس منظر نہایت خوفناک ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے جسٹن ہوف مین نامی سیاح اور ماحولیاتی کارکن نے لکھا کہ کاش یہ منظر مجھے دیکھنے کو نہ ملتا، مگر اب میں اسے پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔

    It’s a photo that I wish didn’t exist but now that it does I want everyone to see it. What started as an opportunity to photograph a cute little sea horse turned into one of frustration and sadness as the incoming tide brought with it countless pieces of trash and sewage. This sea horse drifts long with the trash day in and day out as it rides the currents that flow along the Indonesian archipelago. This photo serves as an allegory for the current and future state of our oceans. What sort of future are we creating? How can your actions shape our planet?
.
thanks to @eyosexpeditions for getting me there and to @nhm_wpy and @sea_legacy for getting this photo in front of as many eyes as possible. Go to @sea_legacy to see how you can make a difference. . #plastic #seahorse #wpy53 #wildlifephotography #conservation @nhm_wpy @noaadebris #switchthestick

    A post shared by Justin Hofman (@justinhofman) on

    انہوں نے لکھا کہ سمندر کی لہروں کے ساتھ بے تحاشہ کچرا بھی سمندر کے اندر آجاتا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ان کے مطابق انڈونیشیائی جزیروں کے پانیوں میں کھینچی جانے والی اس تصویر میں موجود یہ ننھا سا سمندری گھوڑا بھی اسی کچرے زدہ پانی سے گزر کر آیا ہوگا اور واپسی پر یہ کانوں کی صفائی کرنے والی ایئر بڈ میں پھنس گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس سے زور آزمائی کر کے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے یا اسے کوئی دلچسپ چیز سمجھ کر اس پر سواری کر رہا ہے۔

    جسٹن ہوف کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ہمارے خوفناک مستقبل کی ایک مثال ہے۔ ’یہ کیسی ترقی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ اپنے ماحول، فطرت اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا کر کی جانے والی ترقی کسی کام کی نہیں‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سری لنکن نیوی نے سمندر میں ڈوبنے والے 2ہاتھیوں کو بچالیا

    سری لنکن نیوی نے سمندر میں ڈوبنے والے 2ہاتھیوں کو بچالیا

    کولمبو : سری لنکا میں بے چارے ہاتھی سمندر میں پھنس گئے، سری لنکن نیوی نے بروقت کارروائی کر کے دونوں ہاتھیوں کو گہرے پانی سے نکال کر بچا لیا۔

    ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ہاتھیوں کو نہ بخشا، بے چارے ہاتھی پانی کے تیز بہاؤ سے اپنا توازن کھو بیٹھے اور بہتے ہوئے بیچ سمندر میں جا پہنچے، ساحل پر معمور کوسٹ گارڈ کو سمندر میں ہاتھیوں کی سونڈیں نظر آئیں، جس سے انہیں ہاتھیوں کے ڈوبنے کا اندازہ ہوا۔

    جس کے بعد نیوی کے اہلکاروں نے رسیوں کی مدد سے پانچ گھنٹے میں کھینچ کر ہاتھیوں کو پانی سے باہر نکالا اور انھیں امداد دی۔

    سری لنکن بحریہ کے مطابق ان دونوں ہاتھیوں کو کنارے تک لانا بہت مشکل عمل ثابت ہوا۔ اس کے لیے نیوی کے سپاہی، غوطہ خوروں ، ٹگ بوٹس اور بڑی رسیوں کے ذریعے دونوں ہاتھیوں کو خشکی کی جانب لے جایا گیا۔


    مزید پڑھیں : بیچ سمندر میں ڈوبنے والے ہاتھی کو سری لنکن نیوی نے بچا لیا


    یاد رہے کہ دو ہفتے قبل بھی ان اہکاروں نے ایک ہاتھی کے بچے 8 کلومیٹر دور تک پانی میں چلے گئے تھے، جنھیں سمندر سے بارہ گھنٹے میں باہر نکالا تھا جبکہ یوی اہلکاروں نے ہاتھی کو بچنے کو معجزہ قرار دیا۔

    خیال رہے کہ سمندر کے ساتھ ہی ایک اتھلی کھارے پانی کی جھیل (لگون) ہے، جسے عبور کرکے ہاتھی کبھی کبھی براہِ راست سمندر تک آجاتے ہیں۔

    رواں سال مئی میں بحریہ نے 20 وہیلوں کی جان بچائی تھی جو بھٹک کر ساحلوں پر آگئی تھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی کی سمندری حدود میں4.7شدت کازلزلہ

    کراچی کی سمندری حدود میں4.7شدت کازلزلہ

    کراچی: سمندری حدود میں رات گئے چاراعشاریہ سات شدت کے زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ  کئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی سمندری حدود میں رات گئے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے،  ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 4.7 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز کراچی سے 510 کلو میٹر جنوب مغرب میں تھا جبکہ گہرائی ایک سو ایک کلو میٹر ریکارڈ کی گئی۔

    زلزلے سے کسی بھی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں، زلزلہ پیما مرکز

    زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ چار اعشاریہ سات شدت کا زلزلہ معمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، جس سے کسی بھی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔

    تاہم اس سے کسی قسم کے جانی و مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

  • سمندر کے راز جاننے کیلئے امریکہ نے روبوٹک مچھلی تیار کرلی

    سمندر کے راز جاننے کیلئے امریکہ نے روبوٹک مچھلی تیار کرلی

    امریکہ :سمندری دنیا کی رکھوالی اور راز جاننے کیلئے امریکا کی بحریہ نے روبوٹک مچھلی تیار کرلی ہے۔

    دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس روبوٹ اب زیرِ سمندر بھی تہلکہ مچائیں گے، سمندر کی دنیا پر نظر رکھنے کیلئے امریکی بحریہ نے روبوٹ مچھلی تیار کرلی ہے۔

    امریکی نیول ریسرچ ڈیپارٹمنٹ نے سائلنٹ نیمونامی روبوٹک مچھلی سمندر میں اتار دی، روبوٹ مچھلی ڈیڑھ میٹر لمبی اور پینتالیس کلو وزنی ہے ۔

    ماہرین کے مطابق مچھلی سمندر کی گہرائی میں چھپے راز سے پردہ اٹھانے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں پر بھی نظر رکھے گی، روبوٹک مچھلی کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔

  • یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا

    یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا

    یونان: یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا ہے۔

    یونانی سائنسدانوں نے ایسا روبوٹ آکٹوپس تیار کیا ہے،جو پانی میں تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، فاﺅنڈیشن فارریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی نامی ادارے کے تحت بنایا جانے والا یہ روبوٹ آکٹوپس آٹھ مصنوعی بازوﺅں پرمشتمل ہے، جو صرف ایک سیکنڈ میں سات انچ تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹک آکٹوپس سمندر میں موجود مچھلیوں کی اقسام اور آبی ماحولیات کو جانچنےکیلئے تخلیق کیا گیا ہے۔

  • کراچی میں سونامی کا خدشہ، اقوام متحدہ کی رپورٹ

    کراچی میں سونامی کا خدشہ، اقوام متحدہ کی رپورٹ

    کراچی: محکمہ موسمیات کے مطابق سندھ کے سب سے بڑے ساحلی شہر میں میں انتہائی خوفناک ترین سونامی آ سکتا ہے اوراگر سمندر میں سونامی آیا تو پورا کراچی شہر صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے بحر ہند میں ایک فرضی مشق کی گئی، جس کا مقصد سونامی کے بارے میں پہلے سے آگاہی دینے والے نظام کی جانچ پڑتال تھی۔

    دوہزار چار میں انڈونیشیا میں سونامی کے بعد اس نظام کو نصب کیا گیا اوراب جب اس نظام کیلئے فرضی مشق کی گئی تو معلوم ہوا کہ مکران کے سمندر میں اگر نو شدت کا زلزلہ آیا تو سونامی کی تین سے تئیس فٹ اونچی لہریں ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی تک پہنچ جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سونامی کی یہ لہریں بہت اونچی اور انتہائی شدید ہوں گی، جس سے کراچی شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، چیف میٹیرولوجسٹ توصیف عالم اقوام متحدہ کی اس مشق کے سربراہ ہیں اور چیف میٹیرولوجسٹ توصیف عالم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی میں اس نوعیت کا سونامی آ سکتا ہے کہ جس سے پورا شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

  • رابطہ کمیٹی کا سمندرمیں ڈوب کرجاں بحق ہونے والوں کیلئے دکھ کا اظہار

    رابطہ کمیٹی کا سمندرمیں ڈوب کرجاں بحق ہونے والوں کیلئے دکھ کا اظہار

    کراچی:متحد ہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نےساحل سمندرمیں متعدد افراد کےڈوبنےکے باعث جاں بحق ہونےکے واقعہ پرگہرے دکھ اورافسوس کا اظہارکیا ہے ۔

    اپنے بیان میں رابطہ کمیٹی نےکہا کہ قیمتی انسانی جانوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ ساحل سمندرپردرجنوں افراد ڈوبنےکے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ساحلی مقامات پرعوام کےتحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے ۔

    رابطہ کمیٹی نےحکومت سندھ سےمطالبہ کیا کہ وہ ساحل سمندر پر تفریح کی غرض سے جانے والےشہریوں کی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئےموثراقدامات بروئے کار لائے اور ساحلی مقامات پر لائف گارڈز تعینات کئے جائیں۔

    انہوں نےدعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور سوگواران کو صبرجمیل عطا کرے۔

    دریں اثناء رابطہ کمیٹی نے گجرانوالہ میں کرنٹ لگنے کے باعث معصوم بچوں کی ہلاکت پر بھی گہرے دکھ اورافسوس کا اظہار کرتے ہوئےسوگوار لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اوردعا کی کہ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے ۔