Tag: security council

  • مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پراجلاس بھارت کی سفارتی محاذ پرشکست ہے: فاروق حیدر

    مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پراجلاس بھارت کی سفارتی محاذ پرشکست ہے: فاروق حیدر

    مظفر نگر: وزیر  اعظم آزاد کشمیر نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اجلاس بھارت کی سفارتی محاذ پر شکست ہے.

    تفصیلات کے مطابق وزیر  اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے آج کے اجلاس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 50 سال بعد آج سلامتی کونسل نے اپنے ادھورے ایجنڈے پر اجلاس بلایا.

    فاروق حیدر نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کا ایٹمی جنگ سے متعلق بیان سفارتی ناکامی کاردعمل ہے، سلامتی کونسل اجلاس رکوانے کے لئے بھارتی سازشیں ناکام ہوئیں.

    راجا فاروق حیدر نے مزید کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین خطے کو جنگ کے خطرات سے نکالیں.

    مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا صدر ٹرمپ کو ٹیلی فون، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال

    مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق خلاف ورزیوں پر دنیا کی تشویش بجا ہے، مودی کی چالیں الٹی پڑگئیں پاکستان نے کامیاب سفارت کاری کی.

    خیال رہے کہ آج پچاس سال کے طویل عرصے بعد سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر خصوصی اجلاس ہوا، جس میں‌ارکان ممالک کو اس مسئلے سے متعلق بریفنگ دی گئی.

    اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ آج بھارتی دعویٰ غالب ثابت ہوا کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے.

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔

  • مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا

    مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا

    نیویارک: مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب کرلیا گیا، سلامتی کونسل کا اہم اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج بلایا گیا ہے، اجلاس میں سلامتی قونصل اپنی ہی پانچ دہائیوں قبل کی قرارداد پر غور کرے گی ، سلامتی کونسل کے سامنے کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی حالیہ صورتحال بھی ہوگی کہ کس طرح بھارت بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔

    یہ بند کمرہ اجلاس امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے ہوگا۔ ہوگا۔

    دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی صدر کو خط لکھا تھا جس میں ان سے کونسل کے ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    دفترخارجہ کے مطابق سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنت کے غیرقانونی اقدام پر بات کی جائے گی جو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

    اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط سلامتی کونسل کی صدرکو پیش کیا تھا۔

    پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ

    مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی دنیا کو پاکستان کے بیانیے سے آگاہ کرنے میں متحرک نظر آرہے ہیں۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں امبیسیڈر بن کر کشمیر کی آواز دنیا میں اٹھاؤں گا۔

    قرارداد پیش کرنے کا طریقہ

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔

     

  • امید ہے سیکیورٹی کونسل کشمیر کی صورتحال پر اہم فیصلہ کرے گی: پاکستانی سفیر

    امید ہے سیکیورٹی کونسل کشمیر کی صورتحال پر اہم فیصلہ کرے گی: پاکستانی سفیر

    واشنگٹن: امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ بھارت مسلسل عالمی معاہدوں اور قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ امید ہے سیکیورٹی کونسل کشمیر کی صورتحال پر اہم فیصلہ کرے گی۔

    انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا بیان کشمیر کی متنازع حیثیت کی عکاسی کرتا ہے، اب وقت آگیا ہے امریکا کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرے، بھارتی اقدامات خطے کے امن واستحکام کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ امید ہے سیکورٹی کونسل کشمیر کی صورتحال پر اہم فیصلہ کرے گی، کشمیر کی صورت حال افغان امن عمل پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

    پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ بھارتی جارحیت کا ہر سطح پر بھرپور جواب دیا جائے گا، سلامتی کونسل کے اراکین کشمیر کی موجودہ صورت حال سے آگاہ ہیں، عالمی دنیا کو اب مسئلہ کشمیر میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

    امید ہے، سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    دوسری جانب وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ سیکیورٹی کونسل کا آئندہ ہونے والا اجلاس خوش آئند ہوگا۔

    اپنے ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ میری معلومات کے مطابق ابھی تک کسی نے اجلاس کی مخالفت نہیں کی۔

  • امید ہے، سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    امید ہے، سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    مظفر آباد: وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے امید ظاہر کی ہے کہ سیکیورٹی کونسل کا آئندہ ہونے والا اجلاس خوش آئند ہوگا.

    ان خیالات کا اظہار راجہ فاروق حیدر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کیا. وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ابھی تک کسی نے اجلاس کی مخالفت نہیں کی.

    فاروق حیدر کے مطابق کشمیر کی صورت حال سے متعلق یہ اجلاس ایک مثبت پیش رفت ہے، دنیا نے مسئلہ کشمیر کا نوٹس لے لیا ہے.

    وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے کہا کہ دنیا کو پتا چل گیا، جدید ہٹلرمودی کے اقدامات خطے کے لئے خطرناک ہیں.

    انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ سلامتی کونسل مسئلے کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی اور کشمیریوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گی.

    مزید پڑھیں: اگر کشمیریوں کے ساتھ کوئی نہ ہوا، تب بھی وہ اپنی جنگ لڑیں گے: شیخ رشید

    خیال رہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے کرفیو کا مسلسل گیارہواں روز ہے، جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیار کرگئی۔

    بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے کشمیر میں‌ کرفیو نافذ ہے۔

    نہتے اور آزادی کی آواز اٹھانے والے حریت پسند کشمیریوں کے لیے جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیار کرگئی کیونکہ مسلسل کرفیو کے باعث وہاں اشیائے خوردونوش، ادویات سمیت غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔

  • مسئلہ کشمیر پرسیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس کل طلب

    مسئلہ کشمیر پرسیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس کل طلب

    نیویارک: مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس کل طلب کرلیا گیا، سلامتی کونسل کا اہم اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس کل بلایا گیا ہے، اجلاس پاکستان کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے۔

    دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی صدر کو خط لکھا تھا جس میں ان سے کونسل کے ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    دفترخارجہ کے مطابق سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنت کے غیرقانونی اقدام پر بات کی جائے گی جو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

    پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ

    اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط سلامتی کونسل کی صدرکو پیش کیا تھا۔

    مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی دنیا کو پاکستان کے بیانیے سے آگاہ کرنے میں متحرک نظر آرہے ہیں۔

    نریندر مودی! اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا، وزیراعظم عمران خان

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں امبیسیڈر بن کر کشمیر کی آواز دنیا میں اٹھاؤں گا۔

  • پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ

    پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ

    نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط سلامتی کونسل کی صدرکو پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے بتایا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط سلامتی کونسل کی صدر کو پیش کر دیا گیا۔

    انہوں نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خط میں جموں وکشمیرکی صورت حال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی ہے۔

    ملیحہ لودھی نے کہا کہ وزیرخارجہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے میں ہیں، ابھی ہماری توجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہے۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے، سیکیورٹی کونسل کی قرارداد پردوبارہ سے بحث ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں بین الاقوامی کمیونٹی اس صورت حال پرتوجہ دے۔

    ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی گیارہ قراردادیں اب تک زیرالتوا ہیں۔

    انسانی حقوق پرلیکچردینے والوں کو کشمیری عوام کی بھی پرواہ ہونی چاہیے، ملیحہ لودھی

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارت کئی دہائیوں سے عالمی اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

    پاکستانی سفیر نے مزید کہا تھا کہ انسانی حقوق پر لیکچر دینے والوں کوکشمیری عوام کی بھی پرواہ ہونی چاہیے۔

  • پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا

    پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا

    پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کردی

    اسلام آباد: پاکستان  نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پرسیکیورٹی کونسل سے رابطہ کرلیا۔

    پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان نے سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج انھوں نے سیکیورٹی کونسل کے صدر کوخط لکھا تھا، جو انھیں موصول ہو چکا ہے، یکم اور 6اگست کو لکھے گئے خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

    وزیرخارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت کوبھی باور کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کی جارحیت پر پاکستان کا خاموش رہنا آپ کی غلط فہمی ہے، پاکستان اپنے دفاع میں ہر حد تک جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کشمیری مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت کی ایل او سی پر خودساختہ جھڑپ کی منصوبہ بندی

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کو اس کا اندازہ 27 فروری کے عملی مظاہرے سے ہو چکا ہے، انشا اللہ کل 14 اگست کو وزیر اعظم عمران خان مظفرآباد جا رہے ہیں، وزیر اعظم پاکستان کامؤقف آزاد کشمیر نمائندوں کے سامنے رکھیں گے، کل پورے پاکستان میں کشمیریوں سےاظہار یکجہتی کامظاہرہ ہوگا۔

    15 اگست کو پورے پاکستان میں یوم سیاہ ہو گا، دنیادیکھےگی، ہردار الخلافہ سے ان اقدامات کے خلاف آوازاٹھےگی، کشمیریوں کو پیغام دیناچاہتا ہوں کہ آپ تنہا نہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

  • سلامتی کونسل کا لیبیا میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

    سلامتی کونسل کا لیبیا میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

    نیویارک : اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے لیبی دارالحکومت میں جاری خانہ جنگی بند کرکے خلیفہ حفتر اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکرات کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی سلامتی کونسل نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں تاجوراءمہار کیمپ پر گزشتہ منگل کے روز کئے گئے فضائی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لیبی حکومت اور فوج کے درمیان جاری لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے طرابلس میں ایک مہاجر کیمپ پر بمباری کی مذمت سے متعلق بیان کسی واضح سبب کے بغیر موخر کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود سلامتی کونسل اس واقعے کی مذمت کے ساتھ فریقین پر جنگ بندی پر زور دیتی ہے۔

    بیان میں لیبیا کی اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ قومی وفاق حکومت اور جنرل ریٹائرڈ خلیفہ حفتر کی قیادت میں قائم نیشنل آرمی کے درمیان فوری مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ لیبیا میں دیرپا امن و استحکام تمام قوتوں پر مشتمل سیاسی پروگرام تشکیل دینے میں مضمر ہے، اس حوالے سے افریقی یونین، عرب لیگ دوسرے ممالک کی مساعی قابل قدر ہیں۔

  • کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعملدرآمد نہیں ہوا، ملیحہ لودھی

    کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعملدرآمد نہیں ہوا، ملیحہ لودھی

    نیویارک : اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے سلسلے میں مذاکراتی عمل جاری ہے، پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اصلاحاتی عمل کو مخصوص ممالک کی خواہشات کے تابع نہیں کیا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے مذاکراتی عمل پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ مستقل ارکان مفادات کو عالمی ذمہ داریوں پر فوقیت دیتے آئے ہیں، کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدر آمد نہیں ہوا۔

    ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ قرار دادوں پر عملدر آمد نہ کروا کے کونسل نے ذمہ داری نہیں نبھاہی، مقبوضہ علاقوں میں لوگوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔

    پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ وعدے پورے نہ کیے جانا سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کا 7 دفعہ غیر مستقل رکن رہا، پاکستان کونسل کے اندورونی ضوابط، کارروائیوں کا خاطر خواہ تجربہ رکھتا ہے، رکنیت کا باہمی تناسب غیر مستقل ارکان کے حق میں بڑھایا جائے۔

    ملیحہ لودھی نے کا کہا کہ غیر مستقل ارکان ہمیشہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں، ایک فعال اور جمہوری سلامتی کونسل بنانے کی ضرورت ہے۔

    مزید پڑھیں : عالمی برادری کشمیرمیں ریاستی دہشت گردی پرتوجہ دے‘ ملیحہ لودھی

    خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ اداروں کوچند ممالک کے سیاسی مفاد کا آلہ کارنہیں بننا چاہیے، حق خودارادیت کے انکار سے پیداصورت حال بھی دیکھی جائے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اداروں کو مزید مضبوط کیا گیا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں۔