Tag: sense of smell

  • سونگھنے کی حِس میں کمی کا موت سے کیا تعلق ہے؟ ہوشربا تحقیق

    سونگھنے کی حِس میں کمی کا موت سے کیا تعلق ہے؟ ہوشربا تحقیق

    انسان میں پائی جانے والی چھ نمایاں حِسوں میں سونگھنے کی حِس کئی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس حِس کا ہماری یادداشت اور جذبات دونوں سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی سے دماغی بیماری ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو بگڑنے کے بعد انسان کو موت کی جانب بھی لے جا سکتا ہے۔

    ایک نئی سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بو یا خوشبو کو پہچاننے کی صلاحیت میں کمی (جسے "اولفیکٹری امپیئرمنٹ” کہا جاتا ہے) بڑی عمر کے افراد میں موت اور دماغی بیماریوں، خاص طور پر ڈیمنشیا کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔

    طبی جریدے میں شائع کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ماہرین نے سونگھنے کی حس میں کمی یا اس سے متعلق مسائل کے شکار افراد میں پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا۔

    یہ تحقیق سوئیڈش نیشنل اسٹڈی آن ایجنگ اینڈ کیئر” کے ڈھائی ہزار سے زائد افراد پر کی گئی، جن کی عمریں زیادہ تھیں، اس مطالعے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی کا شکار زیادہ تر لوگ عمر رسیدہ ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل افراد کو 16 سوالات پر مشتمل خوشبو پہچاننے کا ٹیسٹ دیا گیا، محققین کے مطابق ٹیسٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اگر کوئی شخص 16 مختلف خوشبوؤں میں سے زیادہ تر کی پہچان نہ کر سکے، تو چھ سال میں اس کی موت کا خطرہ 6 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جبکہ 12 سال بعد یہی خطرہ 5 فیصد رہ جاتا ہے، یہ کمی دل، دماغ اور سانس کی بیماریوں سے بھی منسلک پائی گئی۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈیمنشیا، یعنی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں کمی، سونگھنے کی حس میں کمی اور موت کے درمیان سب سے مضبوط تعلق رکھنے والا عنصر تھا اور تقریباً 25فیصد موت کے خطرے کی وضاحت صرف اسی ایک وجہ سے ہوئی۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جسمانی کمزوری اور خوراک کی کمی بھی ان افراد کی صحت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جن کی سونگھنے کی حس کمزور ہوچکی ہو۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : اگر آپ یا آپ کے کسی عزیز کو سونگھنے کی حس میں کمی محسوس ہو رہی ہو تو اسے معمولی نہ سمجھیں بلکہ جلد از جلد اپنے معالج سے رجوع کرکے علاج کا آغاز کریں۔

  • یادداشت کی بہتری کیلیے خوشبو کا استعمال، لیکن کیسے ؟

    یادداشت کی بہتری کیلیے خوشبو کا استعمال، لیکن کیسے ؟

    انسان میں پائی جانے والی حسوں میں سونگھنے کی حس بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ جو لوگ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی کا شکار ہوتے ہیں انہیں دماغی امراض کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    مذکورہ افراد میں دماغی غیر فعالیت کی بیماریاں جیسا کہ ڈیمینشیا اور الزائمر سمیت ڈپریشن کی مختلف اقسام، سر درد، مائیگرین اور ملٹی پل اسکلروسیس جیسی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سونگھنے کی حس کا محرک ہونا انسان کی یاد داشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

    جرنل فرنٹیئر اِن نیورو سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے 60 سے 85 برس کے درمیان 43 صحت مند رضا کاروں کا معائنہ کیا۔

    تحقیق کے مطابق نصف گروہ کو چار ماہ تک ہر رات دورانِ نیند دو گھنٹوں تک 7 اقسام کی خوشبوئیں سنگھائی گئیں انہوں نے یادداشت کے زبانی امتحان میں دیگر کی نسبت 226 فی صد بہتر کارکردگی دِکھائی اور یادداشت کو معاون دماغی راہداریوں کے عمل میں بہتری دیکھی گئی اور ان کے دماغ کے اسکین میں بھی فرق دیکھے گئے۔

    الزائمرز، پارکنسنز، شرٹزوفرینیا اور ڈپریشن جیسی متعدد اعصابی بیماریاں سونگھنے کی حس کے کمزور ہونے کے بعد وقوع پزیر ہوتی ہیں۔ اور یہ بات عرصہ دراز سے معلوم ہے کہ سونگھنے کی حس کو نقصان پہنچنا، یادداشت کھونے کا سبب ہوسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں ماہرین نے بتایا کہ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی بعض افراد میں مذکورہ بیماریوں کی ابتدائی علامت بھی ہوسکتی ہے۔

    یعنی بعض افراد میں سونگھنے کے مسائل اس وقت ہی شروع ہوئے ہوں گے جب وہ بیماریوں کا شکار ہوچکے ہوں گے۔

  • کورونا وائرس : سونگھنے کی حس نہ رہے تو کیا ہوتا ہے؟

    کورونا وائرس : سونگھنے کی حس نہ رہے تو کیا ہوتا ہے؟

    کراچی : سونگھنے کی حس سے محروم ہونا کورونا وائرس کی چند علامات میں سے ایک ہے جس کا فی الحال کوئی علاج موجود نہیں، بظاہر یہ جسمانی معذوری نہیں لیکن اس کے نفسیاتی اثرات کسی تکلیف سے کم نہیں ہیں۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق کورونا وائرس کے زیادہ تر متاثرین اپنی سونگھنے کی حس سے محروم ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر کیسز میں وائرس کے ٹھیک ہونے کے ساتھ ہی بحال ہو جاتی ہے، جبکہ چند کو طویل عرصے تک اس مشکل صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔

    انوسمیا یعنی سونگھنے کی صلاحیت مکمل طور پر کھو دینے سے انسان ہر قسم کی اچھی یا بری بو سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے متاثرین کی مدد کے لیے کھولی گئی کمپنی ’اینسومی‘ کے سربراہ کے مطابق اپنی زندگی کی تمام مہکوں سے محروم ہو جانا کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔

    سربراہ مائیکل ملرڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسی حالت میں نہ تو متاثرہ شخص اپنی صبح کی پہلی کافی کی خوشبو سونگھ سکتا ہے، نہ گھاس کی، اور نہ ہی اپنی جلد پر استعمال کیے گئے صابن کی۔

    اینسومی آرگنائزیشن سونگھنے کی حس سے محروم افراد کو ایک باقاعدہ نفسیاتی پروگرام کے ذریعے چند ایسی اشیا کی مہک سے متعارف کرواتی ہے جو ابھی بھی ان کی یاداشت کا حصہ ہوں۔

    اینسومی کے سربراہ مائیکل ملرڈ نے بتایا کہ وہ خود بھی اس پروگرام کا حصہ رہے ہیں جس کے ذریعے اب وہ دس مختلف اشیا کی

    مہک ایک مرتبہ پھر سے محسوس کر سکتے ہیں جن میں مچھلی، سگریٹ اور گلاب کی خوشبو شامل ہے، انہوں نے ایک حادثے کے بعد اپنی سونگھنے کی حس کھو دی تھی،آپ کو اس حس کا احساس ہی اسے کھونے کے بعد ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ’انوسمیا‘ کا شکار افراد صرف خوشگوار مہک سونگھنے سے ہی محروم نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کو آگ لگنے یا گیس لیک ہونے کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہو سکتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال چھ ماہ تک برقرار رہے تو اس کے نفسیاتی اثرات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ ماہرین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ایک فرانسیسی ڈاکٹر الین کورے کا کہنا تھا کہ کورونا کے علاوہ ذیابیطس، الزائیمر، پارکنسن اور دیگر چند بیماریاں بھی سونگھنے کی حس کو متاثر کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ انوسمیاکی وجہ سے لوگوں کی زندگی بے حد متاثر ہوتی ہے بلکہ لوگ ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
    ڈاکٹر الین کے مطابق کورونا کے مریضوں کی صحت یابی کے ساتھ ہی سونگھنے کی حس بھی واپس آجاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بیماری کے دوران ناک میں موجود متعلقہ ’نیورونز‘ مکمل تباہ ہو جاتے ہیں جو خود بخود بحال ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    دو فرانسیسی ہسپتالوں میں ’کوڈ او آر ایل‘ کے نام سے ایک تحقیق بھی جاری ہے جس کے تحت یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ کیا مختلف ناک دھونے والے محلول انوسمیا کا علاج کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق کورٹیزان نامی اسٹیرائڈ کے استعمال سے اینسومیا کے علاج میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔