Tag: separation

  • راکھی ساونت نے شوہر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    راکھی ساونت نے شوہر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    معروف بالی ووڈ اداکارہ راکھی ساونت نے اپنے مبینہ شوہر رتیش سے علیحدگی کی تصدیق کردی، راکھی نے بگ باس سیزن 15 میں رتیش کو اپنے شوہر کے طور پر متعارف کروایا تھا۔

    راکھی ساونت نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر شوہر سے علیحدگی سے متعلق بتاتے ہوئے لکھا کہ میں اپنے تمام چاہنے والوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ رتیش اور میں نے اب الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    راکھی ساونت نے کہا کہ بگ باس شو کے بعد بہت کچھ ہوا ہے، میں کچھ چیزوں سے لاعلم تھی جو میرے قابو سے باہر تھیں۔

    انہوں نے لکھا کہ ہم نے اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن میرے خیال میں یہ بہتر ہے کہ ہم دونوں آگے بڑھیں اور دوستانہ طور پر دونوں الگ الگ اپنی زندگیوں سے لطف اندوز ہوں۔

    راکھی نے مزید لکھا کہ میں واقعی میں اداس ہوں اور میرا دل بھی ٹوٹا ہوا ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے سے پہلے ہونا تھا لیکن مجبوراً ہمیں فیصلہ کرنا پڑا۔

    انہوں نے رتیش کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔

    خیال رہے کہ راکھی ساونت نے بگ باس سیزن 15 میں رتیش کو اپنے شوہر کے طور پر متعارف کروایا تھا۔

  • اسکاٹ لینڈ ایک بار پھر برطانیہ سے آزادی کے لئے پر تولنے لگا

    اسکاٹ لینڈ ایک بار پھر برطانیہ سے آزادی کے لئے پر تولنے لگا

    ایڈن برگ: اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے علیحدگی کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرانے کا اعلان کردیا ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نے سن دوہزار تیئس کے اختتام تک برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔

    نکولا اسٹرجن کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے علیحدگی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے لیکن یہ معاملہ اس سال پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آئے گا، انہوں نے کہا کہ ہم یہ کام صرف اس وقت کریں گے جب کرونا کی وبا ختم ہوجائے گی۔

    اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نے کہا کہ کرونا کے دوران بھی ہمیں موقع ملا تو ہم سن دوہزار تئیس کے اختتام تک ریفرنڈم کراسکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اسکاٹ لینڈ میں اس وقت برطانیہ سے آزادی کی تحریک اپنے تاریخی عروج پر ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: برطانیہ سے آزادی، اسکاٹ لینڈ کا بڑا قدم

    یاد رہے کہ اس سے قبل سال دوہزار چودہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں پچپن فیصد اسکاٹ لینڈ کے باشندوں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے جب کہ پینتالیس فیصد نے علحیدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    سال دو ہزار چودہ کے بعد سال دو ہزار سولہ میں بھی اسکاٹ لینڈ میں 38 فیصد کے مقابلے میں 62 فیصد افراد نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

  • یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    لندن : یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کو خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے اگلے وزیراعظم کے لیے بورس جانسن اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہے جن میں سے کوئی ایک مستقبل میں بریگزٹ کی ذمہ داری نبھائے گا اس حوالے سے بورس جانسن اور جیریمی ہنٹ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تھریسا مے کی جانب سے برسلز سے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے 3 مرتبہ مسترد کیا تھا۔

    برسلز میں سربراہان کے اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ویسٹ منسٹر میں جاری سیاسی ڈرامے کے باوجود یورپی یونین صبر کا مظاہرہ کرے گا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں کچھ فیصلوں کی وجہ سے بریگزٹ کا عمل پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہونے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دیگر 27 یورپی یونین رہنما اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے قانونی معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔

    ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اگر برطانیہ چاہتا ہے تو ہم لندن اور یورپی یونین کے مستقبل پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

    یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ، جنہوں نے بریگزٹ پر بات چیت کےلئے یورپی یونین کی سربراہی کی تھی نے کہا کہ رہنماؤں نے اتفاق رائے سے بارہا کہا تھا کہ علیحدگی کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے۔برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسا مے کے بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے تاہم ان امیدواروں میں بورس جانسن انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ وہی ہیں جو برسلز سے جیت سکتے ہیں جبکہ ناقدین ان کے طریقہ کار اور عدم توجہ پر تنقید کرتے ہیں۔

    بورس جانسن سے حالیہ خطرات یہ ہیں کہ وہ برطانیہ کا 3 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈز (4 کروڑ 40 لاکھ یورو، 5 کروڑ ڈالر) مالیت کا قانون اس وقت روک دیں گے جب تک یورپی یونین بہتر شرائط پر آمادہ نہیں ہوتا۔

    واضح رہے کہ بریگزٹ 2 مرتبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے، جیریمی ہنٹ اور بورس جانسن کہتے ہیں کہ برطانیہ کو موجودہ ڈیڈلائن 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانا چاہیے، چاہے کسی معاہدے کے بغیر ایسا ہو تاہم جیریمی ہنٹ نے تجویز دی ہے کہ اگر برسلز کے ساتھ معاہدے کے قریب ہو تو بریگزٹ میں تاخیر ہوسکتی اور بورس جانسن نے 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدگی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    تھریسا مے استعفے کے باوجود نئے سربراہ کے انتخاب تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گی جو جولائی کے اواخر میں منتخب ہوں گے، لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

  • اقتدار سے علیحدگی کے بعد کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھوں گی‘جرمن چانسلر

    اقتدار سے علیحدگی کے بعد کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھوں گی‘جرمن چانسلر

    برلن : انجیلا مرکل نے چانسلر کے عہدے سے شبکدوش ہونے کے بعد کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھو گی، انجیلا مرکل 2005 سے اس عہدئے پر فائز ہیں جو 2021 میں اپنے عہدے سے شبکدوش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ 2021ء تک ملک کی چانسلر ہیں۔ اقتدار سے علاحدہ ہونے کے بعد وہ کوئی سیاسی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھیں گی۔

    ان کا کہنا ہے کہ اقتدار سے علاحدگی کے بعد وہ کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لینے کےلیے پرعزم ہیں۔ اپنے ملک، یورپی یونین یا کسی دوسرے ملک یا ادارے میں کوئی عہدہ نہیں لیں گی۔

    خبر رساں اداروں کے مطابق برلن میں صحافیوں سے بات چیت کےدوران ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2021ءکو چانسلر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی کوئی عہدہ اپنے پاس رکھنے کی خواہاں ہوگی؟

    ان کا کہنا تھا کہ میں کسی پارٹی کی قیادت کروں گی اور نہ کوئی حکومتی یا سیاسی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھوں گی۔جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ مستقبل کے میرے سیاسی پروگرامات میں کسی کی سیاسی سرگمی میں حصہ لینے کا کوئی پروگرام شامل نہیں۔

    جرمن چانسلر نے کہا کہ میں جرمنی یا یورپی یونین میں کوئی عہدہ نہیں لوں گی۔خیال رہےکہ انجیلا میرکل کی جانب سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری جانب ان کا نام یورپی کونسل کی سربراہ کے لیے تجویز کیے جانے کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔

    ان خبروں کے مطابق مسز میرکل کو 2021ء میں جرمن چانسلر کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد یورپی کونسل کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ انجیلا میرکل 2005ء سے جرمنی میں چانسلرکے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ 2021ء کو اس عہدے سے سبکدوش ہوںگی۔

  • روس نے بھی آئی این ایف معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا

    روس نے بھی آئی این ایف معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا

    ماسکو : آئی ایف معاہدے سے امریکی انخلاء پر ردعمل دیتے ہوئے روس نے بھی ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے روس پر جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کا معاہدہ معطل کردیا، روسی صدر نے امریکا کو یورپ میں جوہری میزائل نصب کرنے پر خطرناک نتائج کی دھمکی دے دی۔

    روس نے آئی این ایف معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کو درست ثابت کرنے لیے روس پر الزام عائد کررہا ہے۔

    صدر پیوٹن نے روسی حکام کو امریکا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی کمی سے متعلق گفتگو کا آغاز نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ روس سپر سانک میزائل سمیت کئی میزائل تیار کرے گا۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ روس یورپ میں اس وقت تک میزائل نصب نہیں کرے گا جب تک امریکا یورپ میں زمین سے زمین پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نصب نہیں کرے۔

    مزید پڑھیں: امریکا کا روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان

    واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ روس نے 1987 کے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

    آئی این ایف معاہدے کے مطابق زمین سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پرپابندی ہے، یہ فاصلہ 500 سے 5500 کلومیٹرہے۔

    امریکی صدر نے کہا تھا کہ امریکا روس کو ان ہتھیاروں کی اجازت نہیں دے گا، روس برسوں سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا۔

    یاد رہے کہ روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے 2007 میں اعلان کیا تھا کہ یہ معاہدہ اب روسی مفادات میں نہیں ہے۔

  • جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    واشنگٹن : امریکی صدر نے جے پی او سی کے اجلاس میں باقاعدہ ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا، جس کے بعد سنہ 2015 سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ نافذ کردی جائیں گی.

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج جے سی او پی کے ساتھ امریکی تعاون کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے کی رو سے ایران پر سنہ 2015 سے پہلے عائد پابندیوں کا دوبارہ اطلاق ہوجائے گا جو ایٹمی معاہدے کے باعث ختم کی گئی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کا دفتر برائے بیرونی اثاثہ جات اس حوالے سے فوری اقدمات کررہا ہے۔

    امریکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کچھ پابندیاں تین ماہ کے اندر لاگو کردی جائیں گی جبکہ کچھ پابندیوں 6 ماہ کے اندر اندر نافذ العمل کیا جائے گا، اس دوران ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے تمام کمپنیاں اپنے آپریشن بند کردیں ورنہ ان پر بھی سختی کی جائے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں میں پرائمری اور ثانوی دونوں نوعیت کی پانبدیاں شامل ہیں، او ایف اے سی نے اپنی دیب سایٹ پر امریکی صدر ٹرمپ سے کیے گئے سوالات کو شائع کیا ہے جس میں لگائی گئی پابندیوں کی تفصیلات واضح ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر وزیر خزانہ اسٹیون ٹی کا کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ حلف لینے کے بعد سے متواتر کہتے آئے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ ایران کی جانب سے پیدا کی گئی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو مکمل طور ہر حل کرنے کےلیے پُر عزم ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترین منصوبہ سازی کے ذریعے ایسا لائحہ عمل معاہدہ تیار کریں گے جو ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہوگا۔

    اسٹیون ٹی کا کہنا تھا کہ ’امریکا ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں کے لیے درکار سرمائے تک رسائی کو سرے سے ختم کردے گا، کیوں کہ ایران دہشت گردوں کا سب سے بڑی پشت پناہی کرنے والی ریاست ہے‘۔

    امریکی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں امریکا کے اتحادیوں و حامیوں کے خلاف استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائل، شامی صدر بشار الااسد کی حمایت اور اپنے ہی عوام کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بین الااقوامی مالیاتی نظام کا استعمال شامل ہے‘۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔