Tag: Serial Killer

  • ٹیڈ بنڈی : خوفناک قاتل کی کہانی، جس نے درجنوں لڑکیوں کا انتہائی بے رحمی سے قتل کیا

    ٹیڈ بنڈی : خوفناک قاتل کی کہانی، جس نے درجنوں لڑکیوں کا انتہائی بے رحمی سے قتل کیا

    تھیوڈور رابرٹ بنڈی جسے عام طور پر ٹیڈ بنڈی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی اصل پہچان ایک خطرناک قاتل (سیریل کلر) کی ہے جو خصوصاً لڑکیوں کو نشانہ بناتا تھا۔

    وہ بظاہر شریف، خوش شکل نوجوان اور قانون کا طالب علم تھا لیکن اندر سے وہ ایک ایسا درندہ تھا جس نے کم از کم 30 لڑکیوں کو 7 مختلف ریاستوں میں قتل کیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیڈ بنڈی 24 نومبر 1946 کو ورمونٹ، امریکہ میں پیدا ہوا، نوجوانی میں ایک لڑکی سے محبت میں ناکامی نے اس کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ 1967 میں اس کی ملاقات اسٹیفنی بروکس نامی لڑکی سے ہوئی جو اس کی محبت کی پہلی بڑی ناکامی تھی۔ کچھ عرصے دوستی کے بعد اسٹیفنی نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی جو بنڈی کے لیے ایک شدید صدمہ تھا۔

    اس ناکامی نے اس کی شخصیت میں غصے اور نفرت کو جنم دیا، جس نے اس کے مجرمانہ رویے کو تقویت دی۔ ٹیڈ بنڈی نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں نوجوان خواتین کو نشانہ بنانا شروع کیا، وہ انتہائی ذہین، پرکشش اور بات چیت میں ماہر نوجوان تھا، جو اس کے شکار کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا۔ اس نے پہلا شکار 1974 میں کیا اور اگلے چند سالوں میں اس نے درجنوں خواتین کو قتل کردیا۔

    سال 1974میں امریکہ کی شمال مغربی ریاستوں (خاص طور پر واشنگٹن اور اوریگن) میں پولیس سخت پریشان تھی۔ نوجوان لڑکیاں کالجوں سے پراسرار طور پر غائب ہو رہی تھیں، اور پولیس کے پاس کوئی خاص سراغ نہیں تھا کہ یہ وارداتیں کر کون رہا ہے؟۔

    صرف چھ ماہ کے دوران میں چھ لڑکیاں اغوا ہوئیں، شہر میں خوف کی فضا اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب دو لڑکیاں دن دہاڑے ایک مقامی جھیل پارک سے غائب ہوگئیں۔

    ان لڑکیوں کے اغوا کے بعد سے پولیس کو پہلا بڑا سراغ ملا، تحقیقات کے دوران متعدد لڑکیوں نے پولیس کو بتایا کہ ایک خوبصورت نوجوان ان سے مدد مانگ کر اپنی گاڑی تک لے جانے کی کوشش کر رہا تھا، اس کی گاڑی براؤن رنگ کی ووکس ویگن بیٹل تھی اور اس نے اپنا نام ٹیڈ بتایا تھا۔

    اس دوران پولیس نے چھان بین کی تو چار افراد نے ٹیڈ بنڈی کے بارے میں بتایا ان چار افراد میں اس کی سابقہ گرل فرینڈ، اس کا ایک دوست، ایک ساتھی ملازم اور ایک نفسیات کا پروفیسر شامل تھے لیکن ابتدائی طور پر پولیس نے ٹیڈ بنڈی کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ ان کے خیال میں ایک صاف ستھرا قانون کا طالب علم قاتل نہیں ہو سکتا تھا اور وہ ان کے بنائے ہوئے مجرم کے پروفائل پر پورا نہیں اترتا تھا۔ یہی غلطی ٹیڈ بنڈی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی۔

    اس کے بعد اس نے مسلسل نوجوان، خوبصورت، زیادہ تر کالج کی طالبات کو نشانہ بنایا، وہ لڑکیوں کو اپنی ظاہری معصومیت اور میٹھی باتوں سے بہلا پھسلا کر اپنی گاڑی تک لے جاتا تھا۔ اس کا نشانہ زیادہ تر وہ لڑکیاں ہوتیں جو آزاد، خود مختار اور اکثر اکیلی ہوتی تھیں یہ اس کا خاص طریقہ بن گیا تھا۔

    وہ ان مغوی لڑکیوں کو جنگل میں لے جا کر زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کردیتا، کولوراڈو اور ایڈاہو میں بھی اس نے یہی طریقہ اپنایا۔ لڑکیاں غائب ہوتیں اور ان کی لاشیں سنسان مقامات سے پولیس کو ملتیں۔

    بالآخر ٹیڈ بنڈی کو 1975 میں گرفتار کرلیا گیا، وہ دو بار جیل سے فرار ہونے میں بھی کامیاب رہا۔ 1978 میں فلوریڈا میں دوبارہ گرفتار ہونے کے بعد اس پر متعدد قتل کے مقدمات چلائے گئے۔ اس کے مقدمے نے میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی اور اس کی چالاکی اور بے گناہ نظر آنے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوئے کہ کیا واقعی وہ اتنے سنگین جرائم کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے؟۔

    موت کی درد ناک سزا 

    بالآخر 24 جنوری 1989 کو کئی برسوں کی اپیلوں اور التواء کے بعد ٹیڈ بنڈی کو عدالت نے موت کی سزا سنائی اور فلوریڈا کی ایک جیل میں برقی کرسی پر بٹھا کر اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اس کی لاش کو اس کے اہلِ خانہ نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے جیل حکام نے اس کی مقامی قبرستان میں تدفین کردی۔

    لوگ آج تک سوچتے ہیں کہ کیا بنڈی خود بچپن میں ظلم کا شکار تھا؟ اگر تھا بھی تو کیا وہ اس درندگی کی وضاحت کر سکتا ہے؟ یا واقعی اس کے اندر کوئی چیز بنیادی طور پر ٹوٹ چکی تھی؟

    ٹیڈ بنڈی کی کہانی ایک سبق آموز مثال ہے جو ہمیں اس بات سے باخبر کرتی ہے کہ ہر چہرے کے پیچھے سچائی چھپی نہیں رہتی، بعض اوقات سب سے معصوم دکھائی دینے والا شخص بھی اندر سے درندہ نما شیطان ہو سکتا ہے۔

  • درجنوں ٹرک ڈرائیوروں کا قاتل : سیریل کلر ’درزی‘ کی خوفناک داستان

    درجنوں ٹرک ڈرائیوروں کا قاتل : سیریل کلر ’درزی‘ کی خوفناک داستان

    بھارت کے بڑے شہر بھوپال کا ایک درزی جو رات کو ایک سیریل کلر کا روپ دھار لیا کرتا تھا، قاتل کی وارداتوں سے علاقہ پولیس بھی چکرا کر رہ گئی۔

    مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال کے ایک علاقے میں واقع چھوٹی سی دکان میں آدیش کھمارا نامی درزی جو دِن میں کپڑوں کی سلائی کا کام کرتا اور رات کے وقت جب وہ سونے جاتا تھا تو اس کے ذہن میں خوفناک وارداتیں انجام دینے کے خیالات گردش کرنے لگتے تھے۔

    serial killer

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ داستان سال 2010 سے شروع ہوئی جب امراوتی ،ناسک اور مدھیہ پردیش کے مختلف مقامات سے لاوارث لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر، اتر پردیش اور بہار میں بھی کئی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ان بھیانک وارداتوں کے پیچھے ایک ہی سیریل کلر کا ہاتھ تھا، ان 33 مقتولین میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سب ٹرک ڈرائیور تھے یا ان کے معاون اور کلینر وغیرہ۔

    Bhopal tailor

    منڈی دیپ کے رہنے والے ایک درزی پر کسی کو شک تک نہ گزرا کیونکہ سیریل کلر اس صفائی سے واردات کیا کرتا کہ پیچھے کوئی ایسی نشانی نہیں چھوڑتا کہ پولیس یا کسی اور کو اس تک رسائی ملے۔

    تاہم کئی دنوں تک خاک چھاننے کے بعد ایک خاتون پولیس اہلکار نے 3 دن تعاقب کے بعد بالآخر اس پراسرار سیریل کلر آدیش کھمارا کو حراست میں لے ہی لیا، اتر پردیش کے سلطان پور کے ایک جنگل سے گرفتار کیے جانے والے ملزم نے دوران تفتیش ایسے انکشافات کیے کہ پولیس بھی حیرت زدہ رہ گئی۔

    جس کے بعد مختلف ریاستوں میں سرد خانے میں پڑی قتل کے واقعات کی فائلیں دوبارہ کھل گئیں۔ ملزم نے 33 لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا جو تمام ٹرک ڈرائیور یا ان کے مددگار تھے۔

    33 truck

    بھوپال پولیس کے مطابق آدیش کھمارا نے ان کی ٹرک ڈرائیوروں لاشیں ویران علاقوں میں پھینک دیں اور ٹرکوں کو فروخت کر دیا تھا اور لوٹا ہوا سامان مقامی گروہوں کی مدد سے فروخت کیا جاتا تھا۔

    ملزم کھمارا جو پیشے کے لحاظ سے درزی تھا، نے گرفتار ہونے کے بعد اعتراف کیا کہ یہ وارداتیں 2007 سے اگست 2018 کے درمیان مختلف ہائی ویز پر کی گئی تھیں۔ کھمارا کے گروہ کے افراد ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ کھانے کی جگہوں پر دوستی کرتے، بعد ازاں انہیں نشہ آور ادویات دے کر بے ہوش کرتے اور پھر ان کا قتل کر دیتے۔

    پولیس تحقیقات کے مطابق سیریل کلر کھمارا کے ساتھ منسلک صرف دو گروہوں کی تفصیلات ملی ہیں، کھمارا کے ساتھ بہت سے لوگ وابستہ تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے الگ گروہ بنائے، جس کی وجہ سے گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کو ٹاٹا ٹرکوں سے خاص دلچسپی تھی کیونکہ ان کی رفتار اچھی ہوتی تھی اور فی ٹرک 2 لاکھ سے 3 لاکھ روپے میں فروخت ہوتا تھا۔

  • خواتین کو قتل کر کے لاشیں مصر کے صحرا میں پھینکنے والے سیریل کِلر نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

    خواتین کو قتل کر کے لاشیں مصر کے صحرا میں پھینکنے والے سیریل کِلر نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

    قاہرہ: خواتین کو قتل کر کے لاشیں مصر کے صحرا میں پھینکنے والا سیریل کِلر امریکی یونیورسٹی سے گریجویٹ نکلا۔

    العربیہ نیوز کے مطابق امریکی یونیورسٹی سے گریجویٹ مصری اپنی بیوی سے علیحدگی کے بعد سیریل کلر بن گیا، مصر کے سیکیورٹی اداروں نے صحرا سے ملنے والی خواتین کی لاشوں کا معمہ آخر کار حل کر کے سیریل کلر کو گرفتار کر لیا۔

    صحرا سے تین خواتین کی لاشیں ملی تھیں، جنھیں بے دردی سے قتل کیے جانے کے بعد پورٹ سعید اور اسماعیلیہ کے صحرائی علاقوں میں پھینکا گیا تھا۔

    بیوی سے علیحدگی

    سیکیورٹی اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ قاتل امریکی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہے، اور مصر اور امریکا کی دہری شہریت کا حامل بھی ہے، پہلے وہ ایک ٹیچر تھا، لیکن پھر تدریس چھوڑ کر تجارت شروع کی۔ ملزم نے بتایا کہ چار برس قبل بیوی سے علیحدگی کے بعد اس نے نامعلوم وجوہ پر تنہا دیکھی جانے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا شروع کیا، اور وہ ’نیو قاہرہ سلاٹر‘ اور ’خواتین کا قاتل‘ کے ناموں سے مشہور ہو گیا۔

    رات کو گھومنے والی لڑکیاں

    ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ رات کے وقت گھومنے والی لڑکیوں کو اپنے فلیٹ میں لے جاتا اور قتل کر کے لاش گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر صحرائی علاقے میں جا کر پھینک دیتا، ملزم کے مطابق وہ انٹرنیٹ یا کیفے اور نائٹ کلبوں میں متاثرہ خواتین سے ملتا تھا اور انھیں منشیات لینے پر مجبور کر دیتا۔

    سیکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ متاثرہ خواتین کی تعداد 6 ہے، تاہم ابھی صرف تین لاشیں ملی ہیں، جس پر پولیس نے خواتین کی گمشدگی کی رپورٹ کے حوالے سے تحقیقات تیز کر دی ہیں۔ قاہرہ میں جب یکے بعد دیگرے تین خواتین کے ہولناک قتل کی خبریں سامنے آئیں تو شہر میں دہشت پھیل گئی تھی۔

    پولیس نے جب لاشوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ انھیں ایک ہی انداز سے قتل کیا گیا تھا، یعنی قاتل ایک تھا، اس کے بعد پولیس کے لیے قاتل تک رسائی آسان ہو گئی۔

  • 16 لڑکیوں کا زیادتی کے بعد قتل، دل دہلا دینے والی  داستان ۔۔

    16 لڑکیوں کا زیادتی کے بعد قتل، دل دہلا دینے والی داستان ۔۔

    یوں تو دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہوئیں، مگر 16غریب لڑکیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعہ نے لوگوں کے دل دہلا دیئے۔

    پولیس نے 2009 میں میں بھارت کے شہر گوا میں ایک شخص مہانند نائیک کو اس لئے حراست میں لیا تھا کہ اس نے ایک خاتون کو انتہائی بے رحمی سے گلا دبانے کے بعد قتل کردیا تھا۔

    ملزم کی گرفتاری سے قبل قتل ہونے والی متعدد لڑکیوں کے قتل کی کڑیاں بھی ملزم تک پہنچ رہی تھیں، ان جرائم کا اتکاب 1994 سے سنہ 2009 کے درمیان کیا گیا تھا۔

    یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد گوا میں سیر و تفریح کرنے کے لئے آنے والوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا، ملزم مہانند نائیک غریب و لاچار لڑکیوں کو پہلے شادی کے لئے راضی کرتا تھا اس کے بعد زیادتی کرکے قتل کردیتا تھا۔

    ملزم مہانند نائیک کا پہلا شکار اس کی بیوی کی بہن (سالی) بنی ہوئی، ملزم نے اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد اسے انتہائی بے رحمی سے قتل کردیا تھا، تحقیقات میں پولیس کو ملزم پر شک ہوا، مگر ملزم مہانند نائیک انتہائی مہارت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

    یہ جرم کامیابی سے انجام دینے کے بعد ملزم مہانند نائیک کو مزید حوصلہ مل گیا تھا، جس کے بعد اس نے مزید 15 لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد انتہائی بے رحمی سے قتل کردیا تھا۔

    سیریل کلر مہانند نائیک غریب لڑکیوں سے شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے ان سے زیادتی کرتا اور ان کے زیورات، موبائل اور رقم لوٹ لیا کرتا تھا۔ ملزم مہانند نائیک اپنا مطلب نکلنے کے بعد لڑکیوں کو سائینائیڈ نامی انتہائی مہلک زہر دے کر قتل کردیتا تھا۔

    ملزم کی نگاہ ایسی لڑکیوں پر ہوتی تھی جو شادی کے لئے جہیز نہ لاسکتی ہوں، یا جنہیں رشتے نہ مل رہے ہوں، جیسے ہی مناسب وقت یا موقع ملتا تو ملزم اُن خواتین سے فائدہ اُٹھا کر انہیں موت کی نیند سلادیا کرتا تھا۔

    ملزم لوٹے ہوئے زیورات اس بہانے سے فروخت کرتا تھا کہ اس کی بیوی بہت زیادہ بیمار ہے اور اسے علاج کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ملزم نے جن لڑکیوں کو اپنا نشانہ بنایا وہ مالی طور پر بہت کمزور تھیں اور کچے مکانوں میں ان کی رہائش تھی۔

    شوہر نے بیوی کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کروا دیا

    گاؤں والوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ ملزم مہانند ان جرائم میں ملوث ہے تو انہوں نے مشتعل ہوکر اس کے گھر کو آگ لگادی، اس کے بعد مہانند کی بیوی گھر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ساتھ محفوظ مقام پر منتقل ہوگئی۔

    ملزم مہانند کے خلاف اس کے علاوہ بھی دیگر کئی مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں،بعض میں ملزم نے اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا ہے، جبکہ کچھ کیسز کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

  • خزانے کا پتا بتانے والا سیریل کلر نکلا، دل دہلا دینے والے انکشافات

    خزانے کا پتا بتانے والا سیریل کلر نکلا، دل دہلا دینے والے انکشافات

    تلنگانہ: بھارتی ریاست تنلنگانہ میں پولیس نے ایک سیریل کلر کو گرفتار کیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے خزانے کا پتا بتانے کے بہانے لوگوں کو لوٹ کر قتل کیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق تلنگانہ کے ضلع نگرکرنول میں پولیس نے منگل کو ایک سیریل کلر کو گرفتار کیا ہے، 47 سالہ رماتی ستیہ نارائن پر مبینہ طور پر 11 افراد کا بے دردی سے قتل کا الزام ہے۔

    پولیس حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ رماتی نارائن نے تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں گیارہ افراد کو وحشیانہ طور پر قتل کیا، اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ لوگوں کو خفیہ خزانہ ظاہر کرنے کا دعویٰ کر کے ٹھگ لیتا تھا۔

    پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم لوگوں کو یقین دلا دیتا تھا کہ وہ اپنے خاص عمل کے ذریعے چھپا خزانہ ظاہر کر سکتا ہے، اس کے عوض وہ لوگوں سے رقم لیتا تھا یا زمین اپنے نام کروالیتا تھا، اور پھر سنسان جگہ پر لے جا کر متاثرہ شخص کو تیزاب یا ایک نامعلوم زہر پلا دیتا تھا، جس سے وہ نڈھال ہو کر گر جاتا تھا، اس کے بعد وہ بھارتی پتھر سے اس کا سر کچل دیتا تھا۔

    ملزم 2020 سے اس قسم کی وارداتوں میں ملوث ہے اور ایک بار پولیس کے جال سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوا، پولیس رپورٹ کے مطابق اب تک ملزم نے گیارہ افراد کو قتل کیا ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

    26 نومبر کو ایک خاتون کی شکایت کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کی تھی، خاتون نے کہا تھا کہ ان کا شوہر وینکٹیش نگرکرنول میں ستیہ نارائن نامی شخص سے ملنے گھر سے نکلا تھا لیکن پانچ دن گزرنے کے بعد بھی وہ گھر واپس نہیں آیا۔ پولیس نے تفتیش شروع کی تو ملزم رماتی ستیہ نارائن کے رویے کو مشکوک پایا۔ پولیس نے بتایا کہ ملزم ناگرکرنول میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتا تھا اور جڑی بوٹیوں کی دوائی بھی کرتا تھا، اور وہ خزانے کی تلاش کا عادی تھا۔

    اس نے اپنے رئیل اسٹیٹ دوستوں کو بھی چھپے ہوئے خزانے تلاش کرنے کی صلاحیت سے آگاہ کیا تھا، پولیس حکام کے مطابق جب ملزم نے خاتون کے شوہر وینکٹیش سے کہا کہ وہ تین حاملہ خواتین کو قربان کرے، تو اس نے گھبرا کر اپنی رقم واپس مانگ لی، جس پر ملزم نے اسے مقدس پانی کی آڑ میں زہریلی جڑی بوٹیوں کا عرق پلایا اور پہاڑی پر لے جا کر بے ہوشی کی حالت میں اس پر تیزاب ڈال کر اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم رماتی ستیہ نارائن نے مزید 10 افراد کے ناقابل یقین اور سنسنی خیز قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔

  • دلی کا قصائی: قتل کر کے لاشوں کے ٹکڑے کرنے والا سیریل کلر

    دلی کا قصائی: قتل کر کے لاشوں کے ٹکڑے کرنے والا سیریل کلر

    نئی دہلی: بھارت میں دو دہائیوں تک قتل کر کے لاشوں کو ٹکڑے کر کے پھینکنے والے سیریل کلر نے ایک عرصے تک دہشت پھیلائے رکھی۔

    اس قاتل نے اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی لاشیں پھینکنے سے پہلے ان کے ٹکڑے کر دیے۔

    یہ سیریل کلر جھا ایک مزدور چندرکانت جھا تھا جو بہار کا رہائشی تھا، اس نے پہلا قتل سنہ 1998 میں کیا جس میں وہ پکڑا گیا لیکن 4 سال بعد عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوگیا۔

    بعد ازاں اس نے مزید 6 قتل کیے اور سب کے الزام سے بری ہوگیا۔

    امریکی اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر اس سیریل کلر سے متعلق سیریز بھی بنائی گئی، ’انڈین پریڈیٹر: بچر آف دہلی‘ نامی سیریز گزشتہ برس ریلیز کی گئی تھی۔

    نیٹ فلکس پر ریلیز کی جانے والی فلم 2006 کے واقعات سے شروع ہوتی ہے جب پولیس کو مغربی دہلی کی تہاڑ جیل کے باہر سے ایک مسخ شدہ لاش ملی۔

    جھا نے خود ہی گمنام شخص کے طور پر حکام کو لاش کے بارے میں کال کر کے بتایا۔

    پولیس کو لاش کے پاس سے ایک تحریر ملی جس میں جھا نے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ اگر پولیس انہیں بروقت پکڑنے میں ناکام رہی تو وہ ایک اور مقتول کی لاش اس کے حوالے کر دیں گے۔

    اگلے برس 2 نوجوانوں کی لاشیں ملیں جنہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینکا گیا تھا۔

    جھا نے ان 3 افراد کو بھی قتل کردیا جو اس کے ساتھ قتل کرنے اور لاشیں پھینکنے میں شریک تھے۔

    تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ جھا معمولی اختلاف کے بعد لوگوں کو قتل کر رہا تھا۔

    جھا کو 2 بار موت کی سزا اور مرنے تک عمر قید کی سزا سنائی گئی، بعد ازاں موت کی سزا کو 3 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

    https://youtu.be/giGP5jsW-0Y

  • نیپال نے لڑکیوں کے خطرناک سیریل کلر چارلس سوبھراج کو 19 سال بعد رہا کر دیا

    نیپال نے لڑکیوں کے خطرناک سیریل کلر چارلس سوبھراج کو 19 سال بعد رہا کر دیا

    کٹھمنڈو: نیپال میں عدالت نے سیاح لڑکیوں اور لڑکوں کے خطرناک سیریل کلر چارلس سوبھراج کو 19 سال بعد رہا کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بدھ کو نیپال کی سپریم کورٹ نے سیریل کِلر چارلس سوبھراج نامی فرانسیسی شہری کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قیدی کو مسلسل جیل میں رکھنا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق عدالت نے کہا کہ چارلس سوبھراج کے خلاف کوئی اور کیس زیر التویٰ نہیں ہے تو یہ عدالت اس کی رہائی اور 15 دنوں کے اندر اس کی ملک واپسی کا حکم دیتی ہے۔

    چارلس سوبھراج کو دنیا بھر میں ’سانپ‘ اور ’بکنی کِلر‘ کے ناموں سے جانا جاتا ہے، اس پر ہالی ووڈ میں فلم اور نیٹ فلیکس سیریز بھی بنی، اس پر ایشیا میں 20 سے زیادہ نوجوان سیاحوں کو قتل کرنے کا الزام تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ سوبھراج نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں سیاحوں کے مسلسل قتل کیے، آج جمعرات کو اسے کھٹمنڈو کی سینٹرل جیل سے رہا کیا جانا ہے۔

    بدنام زمانہ 78 سالہ قاتل کو نیپال کے دارالحکومت میں ایک امریکی خاتون کونی جو برونزیچ اور اس کے کینیڈین سیاح دوست لارینٹ کیریری کے قتل کے جرم میں 20،20 سال کی دو عمر قیدوں کی سزا ہوئی تھی، خیال رہے کہ نیپال میں عمر قید کی سزا 20 سال ہے۔

    چارلس سوبھراج نے پورے ایشیا میں کم از کم 20 نوجوان مغربی سیاحوں کو ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں نشہ آور چیز دے کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا، تاہم نیپال میں 2004 میں پہلی بار وہ عدالت میں مجرم پایا گیا۔

    تھائی لینڈ نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے وسط میں پٹایا کے ساحل پر 6 خواتین کو منشیات دینے اور قتل کرنے کے الزام میں اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔

    سوبھراج کو ’دی سرپنٹ‘ (سانپ) کے نام سے اس لیے جانا جاتا تھا کیوں کہ وہ پکڑ سے بچنے کے لیے اپنا بھیس بدلنے، جیل سے فرار ہونے، دوسری شناختیں اختیار کرنے، اور نوجوان خواتین کو اپنی جانب راغب کرنے میں بہت ماہر تھا۔ وہ 1980 کی دہائی کے وسط میں بھارت کی ایک جیل سے محافظوں کو نشہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ بعد میں اسے پکڑا گیا اور 1997 تک نئی دہلی کی سب سے زیادہ حفاظت والی تہاڑ جیل میں قید رکھا گیا، جہاں اس نے 20 سال قید کاٹی۔ اس کے بعد وہ ستمبر 2003 میں کھٹمنڈو کے ایک کیسینو میں دوبارہ سامنے آیا۔

    ماضی

    چارلس سوبھراج کا بچپن اچھا نہیں تھا، بچپن ہی سے اس نے جرائم کا آغاز کر دیا تھا، اور فرانس میں وہ کئی بار جیل کی ہوا کاٹ کر آیا، 1970 کی دہائی کے اوائل میں اس نے دنیا کا سفر کرنا شروع کیا، اور وہ یورپ سے جنوب مشرقی ایشیا تک ہپیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے نوجوان سیاحوں سے دوستی اور ان سے لوٹ مار کرنے لگا۔

    بنکاک میں 1975 میں اس نے مدد اور رہائش کے لیے نادین گیرس نامی خاتون سے دوستی کی، اس خاتون نے سوبھراج کو ’مہذب اور شائستہ‘ آدمی قرار دیا، لیکن وہ بہت تیز تیز باتیں کرتا تھا، مگر جلد ہی وہ اس سے خوف زدہ ہو گئی اور اسے ’لٹیرا، دھوکے باز، اور قاتل‘ قرار دے دیا، اس وقت سوبھراج نے جواہرات کے تاجر کا روپ دھارا ہوا تھا تاکہ آسانی سے نوجوان اور قلاش سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔

    وہ سیاحوں کو گلا گھونٹ کر مار دیتا تھا یا جلا دیتا تھا، اور اکثر اپنے مرد شکار کے پاسپورٹ کو اپنی اگلی منزل تک جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ 2008 میں جیل میں، سوبھراج نے نیہیتا بسواس سے شادی کی، جو اس سے 44 سال چھوٹی اور اس کے نیپالی وکیل کی بیٹی تھی۔ سوبھراج کا 2017 میں دل کا پانچ گھنٹے کا آپریشن بھی ہوا۔

    رہائی کیسے؟

    نیپال کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سوبھراج کی رہائی کا حکم دیا، اس کی قانونی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ ایک درخواست دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سوبھراج کو اس کی عمر 78 سال اور اچھے برتاؤ کی وجہ سے قید کی سزا میں رعایت دی جانی چاہیے۔ نیپالی قانون میں ایک شق ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کی اجازت دیتی ہے جنھوں نے اچھے کردار کا مظاہرہ کیا ہو اور اپنی قید کی 75 فی صد مدت پوری کر لی ہو۔

  • جادوئی پانی کے ذریعے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والی پراسرار سیریل کلر

    جادوئی پانی کے ذریعے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والی پراسرار سیریل کلر

    تاریخ میں مختلف سیریل کلرز گزرے ہیں جو اپنی ذہانت سے پکڑے جانے سے باز رہتے تھے، لیکن ایک خاتون سیریل کلر ایسی بھی رہی جس کا طریقہ واردات اس دور کے لحاظ سے نہایت جدید تھا لہٰذا طویل عرصے تک کوئی اسے پکڑ نہ سکا۔

    موجودہ مشرقی یورپی ملک رومانیہ سے تعلق رکھنے والی انا دی پسٹونا، بابا انوجکا یا بنات کی چڑیل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔

    وہ ایک شوقیہ کیمسٹ تھی، اپنی اس مہارت سے اس نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے دوران لگ بھگ ڈیڑھ سو لوگوں کی جان لی، اسی وجہ سے اسے تاریخ انسانی کی بدنام زمانہ سیریل کلر کہا جاتا ہے۔

    اس کی اصلیت ہمیشہ پراسرار انداز میں پوشیدہ رہی، کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ 1838 میں بنات ریجن میں ایک دولت مند مویشی پالنے والے شخص کے گھر پیدا ہوئی جو موجودہ دور کے مشرقی یورپی ملک رومانیہ میں واقع ہے۔

    تاہم اس کی زندگی پڑوسی ملک سابق یوگوسلاویہ (موجودہ سربیا) کے گاؤں ولادیمیرکووچ میں گزری۔ اس کا بچپن خاصا آرام دہ اور اچھا گزرا، لیکن نوجوانی میں ایک آسٹرین افسر کے ساتھ ناکام عشق کے بعد وہ آدم بیزار ہوگئی اور لوگوں سے نفرت کرنے لگی۔

    بعد ازاں اس نے کیمسٹری کے شعبے میں قدم رکھا اور مقامی لوگوں میں جن بھوت اتارنے کے حوالے سے مشہور ہوگئی۔

    اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مناسب رقم کے عوض کسی کو بھی غائب کرسکتی ہے، کچھ عرصے دنیا سے خود کو الگ رکھنے کے بعد اس نے ایک زمیندار سے شادی کرلی جس سے اس کے 5 بچے پیدا ہوئے، لیکن ان میں سوائے ایک کے کوئی بھی زندہ نہ رہا۔

    شوہر کے مرنے کے بعد اس نے جن بھوت اتارنے کا دھندہ شروع کیا اور اپنے گھر کے ایک حصے کو کیمسٹری لیب میں تبدیل کر لیا، جہاں وہ مختلف کیمیائی اجزا کو ملانے کے تجربات کرتی رہی اور لوگوں میں جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والی ماہرہ بن کر سامنے آئی۔

    لیکن یہ جڑی بوٹی نہیں بلکہ متنازع زہریلے اجزا ہوتے تھے جن کے استعمال سے لوگ مرجاتے تھے، وہ فوجیوں کو ملٹری سروس سے ریٹائر کروانے کے لیے بھی زہریلی دوا دیتی جس سے وہ بیمار ہو کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔

    وہ خواتین کو شوہروں سے نجات دلانے کے لیے جادوئی پانی دیتی جس سے کچھ عرصے میں شوہر مرجاتے، یہ سب کرنے کے دوران لوگوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا چیز انہیں دے رہی ہے۔ اس کی زیادہ تر گاہک خواتیں تھیں۔

    1920 کے عشرے تک اس کے جادوئی پانی کا کاروبار اس قدر منفعت بخش بن چکا تھا اور اس نے اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ اس نے کلائنٹس لانے کے لیے سیلز ایجنٹس رکھ لیے تھے۔

    گو کہ کچھ لوگوں کو اس کے کیمیائی معاملات کا اندازہ تھا لیکن زیادہ تر لوگ اسے مافوق الفطرت طاقت کا حامل سمجھتے تھے۔

    سنہ 1924 میں ایک خاتون کلائنٹ کے شوہر کی موت کے بعد حکام کی توجہ اس کی جانب ہوئی اور اسے پکڑلیا گیا۔

    تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ آرسینک (زہریلا پانی) لوگوں کو دیا کرتی تھی، جس پر اسے 90 برس کی عمر میں 15 سال قید کی سزا دی گئی لیکن 8 برس بعد بڑھاپے کی وجہ سے اسے رہائی مل گئی۔ اس کے دو برس بعد 1938 میں اس کی موت واقع ہوگئی۔

  • 35 سال بعد ایک ڈی این نے ریپ اور قتل کے متعدد جرائم کا پردہ فاش کردیا

    35 سال بعد ایک ڈی این نے ریپ اور قتل کے متعدد جرائم کا پردہ فاش کردیا

    پیرس: یورپی ملک فرانس میں 80 کی دہائی میں پے در پے قتل اور ریپ کی وارداتوں میں ملوث پراسرار قاتل نے سنسنی پھیلا رکھی تھی، پولیس اس قاتل کو پکڑنے میں ناکام رہی تاہم اب قاتل نے اپنی موت سے پہلے خود ہی اس کا اعتراف کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق پیرس میں جرائم کی تفتیش کرنے والے اسکواڈ کو کئی دہائیوں تک ایک بدنام سیریل کلر کے جرائم نے پریشان کر رکھا تھا لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ ایک سابق فوجی اور پولیس افسر نے اپنی موت سے قبل ’لے گریلے‘ یعنی چیچک کے داغ والے شخص کے نام سے مشہور قاتل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

    مقامی طور پر فرانسوا ویروو کے نام سے منسوب اس سابق فوجی کا ڈی این اے ’لے گریلے‘ سے منسلک کئی جرائم کے جائے وقوعہ میں پایا گیا تھا۔

    قتل اور ریپ کے واقعات نے سنہ 1986 اور 1994 کے درمیان پیرس میں سنسنی پھیلا رکھی تھی لیکن یہ واقعات اس کے اعتراف سے قبل تک ناقابل حل رہے ہیں۔

    اس سے منسوب سنسنی خیز جرائم میں 11 سال کی سیسل بلوخ کا قتل بھی شامل تھا۔ سنہ 1986 میں جب وہ پیرس میں اپنے سکول نہ پہنچیں تو اس کے بعد ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی گئی۔

    متعدد واقعات میں خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل دیدیئر سبان نے کہا کہ ہم لے گریلے کے تمام جرائم کو کبھی نہیں جان پائیں گے۔

    فرانسوا ویروو کو 4 قتل اور 6 ریپ کے واقعات سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن مسٹر سبان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ وہ مزید جرائم کا بھی مرتکب رہا ہوگا اور ان کی موت سے بہت سے خاندانوں کے سوالوں کے جواب ادھورے رہ گئے ہیں۔

    قاتل کی لاش کرائے کے فلیٹ سے ملی

    پیرس جوڈیشل پولیس کی کرمنل بریگیڈ کی دیواروں پر لے گریلے کی ایک تصویر کئی دہائیوں سے لٹکی ہوئی ہے۔

    یہ معاملہ بالآخر اس وقت حل ہونے لگا جب حال ہی میں ایک تفتیشی مجسٹریٹ نے پیرس کے علاقے میں اس زمانے میں تعینات 750 ملٹری پولیس افسران کو خط بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

    فلیٹ میں مردہ پایا جانے والا 59 سال کا شخص پولیس افسر بننے سے پہلے ایک ملٹری پولیس کا اہلکار تھا اور وہ ریٹائر ہونے والا تھا، پولیس نے 24 ستمبر کو پانچ دن کے بعد ڈی این اے کا نمونہ دینے کے لیے طلب کیا تھا لیکن ان کی بیوی نے 27 ستمبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔

    قاتل کی لاش بحیرہ روم کے ساحل پر گراؤ دو روئی میں ایک کرائے کے فلیٹ میں خودکشی کے ایک نوٹ کے ساتھ ملی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کا ڈی این اے کئی جرائم کے مقامات سے ملنے والے شواہد سے ملتا ہے۔

    خط کے مندرجات کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن فرانسیسی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ جذبات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد سے انہوں نے خود کو یکجا کیا۔

    اس نے بظاہر متاثرین یا حالات کی تفصیل کے بغیر قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    لے گریلے کا نام سیسل بلوخ کے قتل کے وقت سے گردش میں رہا، مقتولہ کے سوتیلے بھائی لوک رچرڈ ان رہائشیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس حادثے کے دن ایک شخص کو اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں دیکھا تھا جس کے چہرے پر کیل مہاسوں کے بہت سے نشان تھے۔

    بلوخ کی لاش بعد میں تہہ خانے میں پرانے قالین کے ایک ٹکڑے کے نیچے ملی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس لڑکی کا ریپ کیا گیا تھا، اس کا گلا گھونٹا گیا اور پھر چھرا گھونپا گیا اور اس واقعے نے پورے فرانس میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

    ان کے بھائی نے پولیس کو ملزم کا خاکہ بنانے میں مدد کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اس شخص کے ساتھ لفٹ شیئر کی تھی۔

    ڈی این اے شواہد نے بلوخ نامی نامی لڑکی کے قاتل کو دوسرے قتل اور ریپ کے واقعات میں بھی منسلک پایا، ان میں 1987 میں 38 سال کے گیلس پولیٹی اور ان کی جرمن ساتھی ارمگارڈ مولر کا قتل بھی شامل تھا۔

    مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1994 میں 19 سال کی کیرین لیروئے کے قتل سے بھی منسلک تھا جو اسکول جاتے ہوئے غائب ہونے کے ایک ماہ بعد جنگل کے کنارے مردہ پائی گئی تھیں۔

    ایک 26 سال کی جرمن خاتون کے ساتھ ساتھ 14 اور 11 سال کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ میں بھی ملزم کو ایک پولیس اہلکار کے طور پر پہچانا گیا تھا۔

    متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے فرانس انفو ٹی وی کو بتایا ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ یا تو کوئی پولیس افسر تھا یا ایک ملٹری پولیس کا اہلکار کیونکہ اس نے اپنے متاثرین کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا اور جو ہتھکنڈے اپنائے دونوں اسی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

  • خطرناک مجرم کی کہانی : جس نے جیل سےآکر 18 خواتین کو باری باری قتل کیا

    خطرناک مجرم کی کہانی : جس نے جیل سےآکر 18 خواتین کو باری باری قتل کیا

    بھارت میں 18 خواتین کے پے در پے قتل کی وارداتوں کے واقعات نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا، کافی عرصے تک تحقیقات کے بعد پولیس کسی نتیجے پر پہنچ سکی۔

    وہ 30 دسمبر کی یخ بستہ رات تھی، بھارتی ریاست حیدرآباد کے شہر یوسفگڈا میں واقع ایک کمپاؤنڈ میں کچھ لوگ بیٹھے نشہ آور دیسی مشروب پی رہے تھے۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس کمپاؤنڈ میں موجود ہر شخص نشے میں تھا، اس احاطے میں اُن کے علاوہ دو اور افراد بھی موجود تھے جو نشے سے چور تھے، ان دونوں افراد میں ایک 50 سالہ خاتون اور ایک 45 سالہ مرد تھا۔

    45سالہ مرد آہستہ آہستہ اُس خاتون کے پاس گیا اور جلد ہی ان کی بات چیت شروع ہوگئی، اس شخص نے کچھ دیر خاتون سے بات کی اور اس کے بعد وہ دونوں کمپاؤنڈ سے باہر نکل گئے۔ اب اِن دونوں نے شہر کے مضافات میں کسی ویران جگہ کی تلاش شروع کردی۔

    جلد ہی یہ ایک مضافاتی علاقے "انکوش پور” پہنچ گئے۔ یہ ایک ویران جگہ تھی۔ دونوں نے یہاں پہنچنے کے بعد مزید شراب پی لیکن اس کے بعد وہ آپس میں جھگڑنے لگے جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ اس شخص نے خاتون کو پتھر مار کر ہلاک کر ڈالا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    کلر

    اس واقعہ سے صرف 20 دن پہلے یعنی 10 دسمبر کو بالا نگر میں دیسی شراب کے ایک کمپاؤنڈ میں بھی کچھ ایسا ایک اور ہی واقعہ پیش آیا تھا۔

    یہ شخص (جس نے خاتون کو پتھر مار کر ہلاک کیا تھا) وہاں پہنچا اور جلد ہی اسے اس کمپاؤنڈ میں بھی ایک تنہا خاتون مل گئی۔ اس خاتون کی عمر40 سال کے لگ بھگ تھی دونوں نے وہاں شراب پی تھی اور جلد ہی وہ اپنے حواس کھو بیٹھے تھے۔

    گذشتہ واقعے کی طرح اس واقعے میں بھی یہ دونوں شہر کے ویران علاقے کی طرف چل پڑے، دونوں شہر کے سنسان علاقے سینگاریڈی ضلعے کے مولوگو علاقے کے سنگیاپللی گاؤں پہنچے۔

    وہاں پہنچ کر دونوں نے پھر نشہ آور مشروب پیا، اس کے بعد اس شخص نے خاتون کو اسی کی ساڑھی سے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا۔

    درحقیقت 30 دسمبر کو اُس شخص نے دوسرا قتل نہیں کیا تھا بلکہ یہ اس کا 18واں قتل تھا۔اس شخص کا نشانہ بننے والی تمام 18 خواتین اس کے باتوں میں آئیں، اس پر بھروسہ کیا مگر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکی۔

    خواتین کو قتل کرنے والے اس سفاک شخص کا نام ایم رامولو ہے۔ اس نے جتنی خواتین کو اپنا نشانہ بنایا ان میں ایک قدر مشترک تھی یعنی وہ یہ کہ ان میں سے بیشتر خواتین سنگل تھیں اور ان سب کو لگ بھگ ایک ہی طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ تمام قتل حیدرآباد کے ویران نواحی علاقوں میں ہوئے تھے۔

    مگر ایسا نہیں کہ یہ شخص جب یہ کام کر رہا تھا تو پولیس نے اسے گرفتار نہیں کیا تھا۔ پولیس صرف نو قتل کے بعد ہی اسے پکڑسکتی تھی۔

    پولیس

    سنہ 2003 میں تورپان پولیس اسٹیشن کے علاقے میں، سنہ 2004 میں رایا درگام پولیس اسٹیشن میں، سنہ 2005 میں سنگاریڈی پولیس اسٹیشن میں، 2007 میں رائے ڈرگ اسٹیشن کے ڈنڈیگل میں، 2008 میں نرسا پور کے علاقے میں اور سنہ 2009 میں کوکاٹپلی کے علاقے میں دو قتل کے سلسلے میں قاتل کو پکڑا جاسکتا تھا۔

    لیکن پہلی بار پولیس نے نرسنگی اور کوکاٹپللی کے علاقوں میں ہونے والی ہلاکتوں کو سنجیدگی سے لیا۔ سخت تحقیقات کے بعد ان معاملات کو حل کر لیا گیا اور پولیس نے چارج شیٹ دائر کردی۔

    رامولو کے خلاف دائر دیگر مقدمات ابھی اختتام کو نہیں پہنچے تھے لیکن فروری 2011 میں کوکاٹپللی اور نرسنگی کے مقدمات میں رنگاریڈی عدالت نے اسے مجرم قرار دیا اور اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔

    رامولو کا ’فلمی منصوبہ
    گرفتاری کے بعد رامولو نے اپنی پوری زندگی جیل میں گزارنے سے بچنے کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔

    جیل میں اُس نے ذہنی مریض کی طرح برتاؤ کرنا شروع کر دیا اور کچھ عرصے بعد لوگوں کو یہ گمان گزرا کہ شاید یہ شخص واقعتاً بیمار ہے۔ اس کے بعد انھیں سنہ 2011 میں ایراگڈا مینٹل ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

    وہاں ایک مہینہ قیام کے بعد وہ 30 دسمبر کی رات فرار ہوگیا۔ اس نے وہاں موجود پانچ دیگر قیدیوں کو بھی بھگا دیا جو ذہنی بیماریوں کا علاج کروا رہے تھے۔

    اس کے اسپتال سے فرار ہونے کے بعد ایس آر نگر پولیس اسٹیشن میں ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ جیل سے فرار ہونے کے بعد رامولو خواتین کے قتل کے اپنے پرانے کام پر دوبارہ لگ گیا.

    سنہ 2012 اور سنہ 2013 میں بوونپلی میں دو قتل ہوئے۔ سنہ 2012 میں چندا نگر میں اور پھر سنہ 2012 میں ہی ڈنڈیگل میں دو مزید قتل اور قتل ہونے والی پانچوں خواتین ہی تھیں۔

    پولیس نے ان ہلاکتوں پر دوبارہ توجہ دینا شروع کی۔ رامولو کو مئی سنہ 2013 میں بوونپلی پولیس نے دوبارہ پکڑ لیا۔ اس بار اسے پانچ سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گيا۔

    ہم نہیں جانتے کہ آیا رامولو کی قانون پر اچھی گرفت ہے یا اس کے پاس اچھے وکیل ہیں لیکن اس نے سنہ 2018 میں ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی اور وہ اپنی سزا کم کرنے میں کامیاب رہا تھا اور بلآخر اکتوبر 2018 میں فیصلہ رامولو کے حق میں آیا اور اسے رہا کر دیا گیا۔

    جیسے ہی وہ جیل سے باہر آیا ، اس نے پھر سے قتل کرنا شروع کر دیے۔ سنہ 2019 میں اس نے شمیر پیٹ میں ایک اور قتل کا ارتکاب کیا۔ اس طرح وہ اب تک 16 خواتین کو قتل کرچکا تھا۔

    جلد ہی وہ وہ ایک بار پھر پکڑا گیا مگر جولائی سنہ 2020 میں دوبارہ جیل سے رہا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

    مزید وارداتیں
    جولائی سنہ 2020 میں رہائی کے بعد اس نے پھر دو قتل کیے۔ 30 دسمبر کو ہلاک ہونے والی 50 سالہ خاتون کے شوہر نے اپنی اہلیہ کی گمشدگی کے بعد تھانے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس گمشدگی کی رپورٹ جوبلی ہلز پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی۔

    رپورٹ درج ہونے کے چار دن بعد پولیس کو ایک اور نامعلوم خاتون کی لاش ملی جس پر پولیس نے کیس کی تفتیش شروع کر دی۔

    آخر کار مختلف ضلعوں کی پولیس نے آپس میں بات کی۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے معلوم ہوا کہ قتل ہونے والی خاتون کسی مرد سے بات کر رہی تھیں۔ فوٹیج کی کھوج نے چیزوں کو مزید واضح کر دیا۔ معاملے کی مکمل چھان بین کی گئی۔

    اس کے بعد کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے سنہ 2009 میں اسی طرح ہونے والے قتل کے معاملے کی تحقیقات پر نظر دوڑائی، یہ وہی واقعہ تھا جس میں ابتدا میں رامولو کو سزا سنائی گئی تھی۔ جب تفتیشی افسر نے حالیہ قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، تو اسے شک ہوا۔

    حالیہ قتل کا انداز بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ایسی صورتحال میں پرانے مقدمے دیکھے گئے اور سچائی سامنے آنے لگی۔ اس کے بعد ان واقعات میں رامولو کی شمولیت کی تصدیق ہو گئی۔

    قتل کرنے کا طریقہ کار کیا تھا؟
    رامولو کی شکار بننے والی اکثر خواتین وہ تھیں جو اکیلی ہوتی تھیں، وہ ان خواتین کے ساتھ شراب کے اڈوں یا دکانوں پر ملتا، ان سے بات چیت کرتا اور اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرتا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں ویران مقامات پر لے جاتا۔

    وہاں وہ اپنی جنسی خواہش پوری کرتا اور اور پھر ان خواتین کا قتل کر دیتا زیادہ تر معاملات میں اس نے خواتین کو ان ہی کی ساڑھیوں سے گلا گھونٹ کر مارا۔

    کچھ معاملات میں اس نے بھاری پتھر کا استعمال کیا وہ قتل کے بعد ان خواتین کے پاس موجود قیمتی اشیاء بھی چوری کر لیتا تھا۔

    رامولو کا نشانہ عموماً غریب یا نچلے متوسط طبقے کی خواتین بنتی تھیں۔ رامولو کا تعلق ضلع سنگاریڈی کے کانڈی منڈل گاؤں سے ہے۔ اا کی شادی 21 سال کی عمر میں ہوئی تھی مگر شادی کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی اہلیہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

    اس کے گاؤں کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اس نے کسی دوسری خاتون سے شادی کرلی تھی مگر گذشتہ کچھ عرصے سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں رہتا تھا۔

    حالیہ دو قتل کے علاوہ رامولو مزید 21 مقدمات میں ملزم ہے۔ ان میں 16 قتل اور چوری کے چار واقعات شامل ہیں۔ پولیس کی تحویل سے فرار ہونے کا معاملہ بھی زیر تفتیش ہے۔ حال ہی میں اسے دو کیسز میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    ابھی تک پولیس کی معلومات اور تفتیش کے مطابق اس نے 18 خواتین کو ہلاک کیا ہے اور ان سے مزید پوچھ گچھ جاری ہے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ حیدرآباد پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات اور تفتیش پر مبنی ہے۔