Tag: Serial Killer

  • سابق پولیس افسر کی موت نے 35 سال پرانے قتل اور زیادتی کے مقدمات حل کردیے

    سابق پولیس افسر کی موت نے 35 سال پرانے قتل اور زیادتی کے مقدمات حل کردیے

    پیرس: فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں کئی دہائیوں تک ایک سیریل کلر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پریشان کیے رکھا، اور بالآخر اس کی موت کے بعد اس کے ڈی این اے نے ان تمام کیسز کو حل کردیا جو اب حل نہ کیے جاسکے تھے۔ قاتل ایک سابق فوجی افسر اور پولیس اہلکار تھا۔

    مقامی طور پر فرانسوا ویروو کے نام سے منسوب اس سابق فوجی کا ڈی این اے لے گریلے سے منسلک کئی جرائم کے جائے وقوعہ میں پایا گیا تھا۔ قتل اور ریپ کے واقعات نے سنہ 1986 اور 1994 کے درمیان پیرس میں سنسنی پھیلا رکھی تھی لیکن یہ واقعات ملزم کے اعتراف سے قبل تک سلجھائے نہ جاسکے۔

    ان سے منسوب سنسنی خیز جرائم میں 11 سال کی سیسل بلوخ کا قتل بھی شامل تھا۔ سنہ 1986 میں جب وہ پیرس میں اپنے سکول نہ پہنچیں تو اس کے بعد ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔

    فرانسوا ویروو کو 4 قتل اور 6 ریپ کے واقعات سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن وکیل مسٹر سبان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ وہ مزید جرائم کے بھی مرتکب رہے ہوں گے اور ان کی موت سے بہت سے خاندانوں کے سوالوں کے جواب ادھورے رہ گئے ہیں۔

    یہ معاملہ بالآخر اس وقت حل ہونے لگا جب حال ہی میں ایک تفتیشی مجسٹریٹ نے پیرس کے علاقے میں اس زمانے میں تعینات 750 ملٹری پولیس افسران کو خط بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

    پولیس کو ایک فلیٹ میں ایک لاش ملی اور فلیٹ میں مردہ پایا جانے والا 59 سال کا یہ شخص پولیس افسر بننے سے پہلے ایک ملٹری پولیس کا اہلکار تھا اور وہ ریٹائر ہونے والا تھا۔

    پولیس نے 24 ستمبر کو پانچ دن کے بعد انہیں ڈی این اے کا نمونہ دینے کے لیے طلب کیا تھا لیکن ان کی بیوی نے 27 ستمبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔

    ان کی لاش بحیرہ روم کے ساحل پر گراؤ دو روئی میں ایک کرائے کے فلیٹ میں خودکشی کے ایک نوٹ کے ساتھ ملی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان کا ڈی این اے کئی جرائم کے مقامات سے ملنے والے شواہد سے ملتا ہے۔

    خط میں انہوں نے بظاہر متاثرین یا حالات کی تفصیل کے بغیر قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    مقتولہ سیسل بلوخ کے سوتیلے بھائی لوک رچرڈ ان رہائشیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس حادثے کے دن ایک شخص کو اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں دیکھا تھا جس کے چہرے پر کیل مہاسوں کے بہت سے نشان تھے۔

    بلوخ کی لاش بعد میں تہہ خانے میں پرانے قالین کے ایک ٹکڑے کے نیچے ملی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس لڑکی کا ریپ کیا گیا تھا، اس کا گلا گھونٹا گیا اور پھر چھرا گھونپا گیا اور اس واقعے نے پورے فرانس میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

    ان کے بھائی نے پولیس کو ملزم کا خاکہ بنانے میں مدد کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اس شخص کے ساتھ لفٹ شیئر کی تھی۔ رچرڈ نے کہا تھا کہ یہ واقعہ کسی سائے کی طرح تاعمر ان کا پیچھا کرتا رہا اور انہیں بہت بڑی ناانصافی کا احساس دلاتا رہا۔

    ڈی این اے شواہد نے بلوخ نامی نامی لڑکی کے قاتل کو دوسرے قتل اور ریپ کے واقعات میں بھی منسلک پایا۔ ان میں 1987 میں 38 سال کے گیلس پولیٹی اور ان کی جرمن ساتھی ارمگارڈ مولر کا قتل شامل تھا۔

    مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1994 میں 19 سال کی کیرین لیروئے کے قتل سے بھی منسلک تھا جو سکول جاتے ہوئے غائب ہونے کے ایک ماہ بعد جنگل کے کنارے مردہ پائی گئی تھیں۔

    ایک 26 سال کی جرمن خاتون کے ساتھ ساتھ 14 اور 11 سال کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ میں بھی ملزم کو ایک پولیس اہلکار کے طور پر پہچانا گیا تھا۔

    متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے فرانس انفو ٹی وی کو بتایا کہ ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ یا تو کوئی پولیس افسر تھا یا ایک ملٹری پولیس کا اہلکار کیونکہ انہوں نے اپنے متاثرین کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا اور جو ہتھکنڈے اپنائے دونوں اسی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

    وکیل خیال ہے کہ قاتل نے اپنے ڈی این اے کو جرائم کی جگہ سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اب ان کی شناخت ظاہر ہو گئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تمام جرائم کی دوبارہ تفتیش ہو جو حل نہیں ہوئے اور جس میں ڈی این اے کی تکنیک کبھی استعمال نہیں کی گئی۔

  • 13 عورتوں کو مارنے والا سفاک قاتل کرونا سے مر گیا

    13 عورتوں کو مارنے والا سفاک قاتل کرونا سے مر گیا

    لندن: 13 عورتوں کو مارنے والا برطانیہ کا سیریل کلر کرونا وائرس انفیکشن سے مرا تھا، یہ انکشاف ایک انکوائری میں سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیٹر ولیم سٹکلف کرونا وائرس سے مر گیا تھا، اس نے 1975 اور 1980 کے درمیان 13 عورتوں کو قتل کر دیا تھا، اور وہ یارکشائر ریپر کے نام سے مشہور تھا۔

    74 سالہ سفاک قاتل کو 1981 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، اور وہ فرینکلینڈ جیل میں قید تھا جہاں اس نے کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے سیلف آئسولیشن کی ہدایت ماننے سے انکار کر دیا تھا، یہ بے احتیاطی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہو گئی۔

    سٹکلف گزشتہ برس نومبر میں مرا تھا، اس کی موت کی وجہ جاننے کے لیے بٹھائی گئی ایک انکوائری میں معلوم ہوا کہ اس کی موت کرونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔

    اس نے یارکشائر اور نارتھ ویسٹ میں 13 عورتوں کو سفاکی سے قتل کیا تھا، ان واقعات کی دہشت ناک یاد اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔

    سٹکلف کو 20 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی تھی، جو کہ برطانیہ میں 15 برس کا عرصہ بنتا ہے، پھر عدالت نے اسے 30 سال قید کی سزا سنائی، لیکن 2010 میں ہائی کورٹ کے جج نے حکم جاری کیا کہ وہ کبھی بھی رہا نہیں ہوگا۔

    قید کے دوران حفاظتی اقدامات پر عمل سے انکار کی وجہ سے اسے کرونا وائرس لاحق ہو گیا تھا، مرنے کے بعد پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ اس کے پھیپھڑے خراب ہو گئے تھے جو کرونا وائرس کا ایک عام نتیجہ ہے۔

    انکوائری میں بتایا گیا کہ سٹکلف کی موت مشتبہ نہیں تھی، اسے ذیابیطس اور دل کی بیماریاں بھی تھیں۔

    سٹکلف ایک لاری ڈرائیور تھا، ماہرین کا کہنا تھا کہ شمالی برطانیہ میں قتل کرتے وقت وہ پاگل پن والی سکیزوفرینیا کا شکار تھا، قید کے دوران نفسیاتی یونٹ میں اس کا علاج بھی کیا گیا، نفسیاتی حالت بہتر ہونے پر اسے پھر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

    یارکشائر ریپر کے نام سے مشہور اس سفاک قاتل کی تلاش برطانوی پولیس کی سب سے بڑی ناکامی تھی، تاہم پولیس کی ان ناکامیوں اور کوتاہیوں نے اس بات پر نظر ثانی کی طرف راستہ ہموار کیا کہ کس طرح پیچیدہ مجرمانہ کیسز کی تحقیقات کی جائیں۔

  • جیل سے رہائی پانے والے سیریل کلر نے اب کیا کردیا!

    جیل سے رہائی پانے والے سیریل کلر نے اب کیا کردیا!

    حیدر آباد: بھارتی جیل سے ایک سیریل کلر کو اچھے رویے کی بنیاد پر معاف کر کے آزاد کردیا گیا، تاہم قاتل نے جیل سے باہر آتے ہی مزید کئی قتل کر ڈالے۔

    بھارتی ریاست حیدر آباد میں 13 افراد کے قتل میں ملوث سیریل کلر کا ایک طویل عرصے تک عدالت میں مقدمہ چلتا رہا، کمزور شواہد کی بنا پر عدالت نے ملزم کو 11 قتل کے مقدموں سے بری کردیا۔

    سنہ 2007 میں بقیہ 2 قتل کے مقدموں میں اسے عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

    سنہ 2013 میں مجرم کو اچھے رویے کی بنیاد پر آزاد کردیا گیا۔ کچھ ماہ بعد ہی اس نے پھر سے اپنا سفاک دھندا شروع کردیا اور صرف ایک سال کے عرصے میں 8 خواتین کو قتل کردیا۔

    مذکورہ قاتل کو دوبارہ گرفتار کیے جانے کے بعد ایک بار پھر سے قتل کے تمام واقعات کے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اگر یہ تمام قتل ملزم پر ثابت ہوجاتے ہیں تو یہ بھارتی تاریخ کا خطرناک ترین سیریل کلر کہلائے گا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے زیادہ تر قتل خواتین کا قیمتی سامان اور زیورات چرانے کے دوران مزاحمت پر کیے۔ مقتولین میں ملزم کے بھائی کی خوشدامن بھی شامل ہے جن کے ساتھ ملزم کے تعلقات بھی تھے۔

    پولیس نے قاتل کی بیوی کو بھی گرفتار کر رکھا ہے جو خواتین کے زیورات چرانے میں اپنے شوہر کی مدد کرتی رہی۔