Tag: Sewage Water

  • عباسی شہید اسپتال کے سامنے سیوریج کا پانی جمع، مریض ذہنی اذیت کا شکار

    عباسی شہید اسپتال کے سامنے سیوریج کا پانی جمع، مریض ذہنی اذیت کا شکار

    کراچی : عباسی شہید اسپتال کے اطراف گٹر ابلنے سے مرکزی دروازے اور ایمرجنسی کے سامنے سیوریج کا پانی جمع ہونے سے تعفن پھیل گیا۔

    سیوریج کے پانی کے باعث مریضوں کو اسپتال آنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، تعفن سے مریضوں اور تیمارداروں کا سانس لینا محال ہوگیا ہے۔

    اس حوالے سے اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پچھلے2 ماہ سے سیوریج کا مسئلہ ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی سیوریج لائن بند ہونے کے باعث اسپتال میں گندہ پانی جمع ہورہا ہے۔

    شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کئی دنوں سے درپیش ہے لیکن گزشتہ روز بارش ہونے بعد تو زیادہ ہی پانی کھڑا ہوگیا ہے۔ انتظامیہ بھی ناقص ہے ہم اپنے بچے کے علاج کے لئے آئے ہوئے لیکن یہاں پر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ عباسی شہید اسپتال میں صحت کی سہولیات کا پہلے ہی فقدان ہے اب صفائی کی صورتحال انتظامیہ کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کے ایم سی انتطامیہ بھی صورت حال کا جائزہ لے چکی ہے تاحال سیوریج کے پانی کے نکاسی کوئی انتظام نہیں کیے گئے۔

  • سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف

    سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف

    جھنگ: پنجاب کے شہر جھنگ میں سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوڈ اتھارٹی جھنگ نے سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک ایکڑ سے زائد فصل کو تلف کر دیا۔

    ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ تلف کی گئی فصل میں سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کی جا رہی تھی، یہ سبزیاں منڈی میں سپلائی کی جانی تھیں۔

    ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی پر کاشتکاروں کو سخت وارننگ جاری کی گئی ہے۔

  • ملک کے 5 شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس کا انکشاف

    ملک کے 5 شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس کا انکشاف

    اسلام آباد : پاکستان کے مختلف شہروں میں پولیو وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، نیشنل پولیو لیب کی رپورٹ میں 5شہروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے پانچ مختلف شہروں کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، نیشنل پولیو لیب نے سیوریج میں پولیو کی تصدیق کی ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور، سوات، راولپنڈی کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بنوں اور جنوبی وزیرستان کے علاقے میں بھی سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق سامنے آئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق رواں برس بنوں کے سیوریج میں آٹھویں بار پولیو وائرس پایا گیا ہے، رواں برس پشاورکے سیوریج میں چوتھی بار پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

    رواں برس راولپنڈی اور سوات کے سیوریج کے پانی میں تیسری بار پولیو وائرس پایا گیا ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کے سیوریج میں پہلی بار پولیو وائرس سامنے آیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق متاثرہ شہروں سے پولیو ٹیسٹ کیلئے سیمپلز 30اگست تا8ستمبر لئے تھے، رواں برس 27ماحولیاتی سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوچکی ہے۔

    اس کے علاوہ رواں برس کے پی کے17ماحولیاتی سیمپلزمیں پنجاب کے8 ماحولیاتی سیمپلز میں اورسندھ کے ایک، اسلام آباد کے ایک سیمپل میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سیوریج سیمپلز میں موجود پولیو وائرس کی جنیاتی تشخیص جاری ہے، 2021میں65ماحولیاتی سیمپلز میں پولیو وائرس پایا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی سے لیے گئے سیوریج کے نمونموں میں بھی پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔ محکمہ صحت کے مطابق لانڈھی بختاور ولیج کے مقام سے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا۔ پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر 11مقامات پرسیوریج کے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : کراچی میں سیوریج کے نمونموں میں پولیو وائرس کی تصدیق

    رواں برس پولیوکیسزکی تعداد15ہوچکی ہے پولیووائرس کی روک تھام کےلئےہرماہ سیوریج پانی سےنمونےحاصل کئے جاتے ہیں۔

    کراچی سےپچھلامثبت نمونہ مئی2021 میں رپورٹ ہوا تھا ضلع سے آخری پولیو وائرس کیس جون 2020 میں رپورٹ ہوا تھا ضلع میں حالیہ پولیو مہم 15 سے 21 اگست کو چلائی گئی تھی۔

  • بھارت میں کورونا نے پنجے گاڑ لیے، سیوریج کا پانی بھی خطرناک

    بھارت میں کورونا نے پنجے گاڑ لیے، سیوریج کا پانی بھی خطرناک

    لکھنؤ : بھارت میں سیوریج کا پانی بھی کورونا زدہ نکلا، ممبئی کے بعد اتر پردیش کے شہر لکھنؤ میں تین مقامات پر سیوریج کے پانی میں کورونا وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

    کورونا کی عالمی وباء کی دوسری اور خطرناک لہر کے دوران بھارتی ریاست یوپی کی انتظامیہ بحران پر قابو پانے کا دعویٰ تو کررہی ہے جبکہ اب سیوریج کے پانی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد دارالحکومت لکھنؤ میں ہلچل مچ گئی ہے۔

    لکھنؤ کی لیبارٹری میں پانی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے بعد پانی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ سیوریج واٹر میں کورونا وائرس موجود ہونے کی خبریں منظر عام پر آنے سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

    پی جی آئی مائیکروبیولوجی ڈیپارٹمنٹ (ایچ او ڈی) کے سربراہ ڈاکٹر اُجوالہ گھوشل نے بتایا کہ ملک میں سیوریج کے نمونے لینے کا کام آئی سی ایم آر-ڈبلیو ایچ او نے شروع کیا تھا۔ اس میں یوپی کے مختلف اضلاع سے بھی سیوریج کے نمونے بھی لئے گئے ہیں۔

    یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے کچھ ماہ قبل ممبئی میں بھی سیوریج کے پانی میں کورونا وائرس کی موجودگی کی خبریں سامنے آئی تھیں اور اب لکھنؤ میں تین مقامات پر سیوریج واٹر میں کورونا وائرس پائے جانے سے عوام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں و سائنسدانوں کی فکر میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

    میڈیا ذرائع کے مطابق لکھنؤ کے کھدرا، مچھلی محل اور گھنٹہ گھر کے پاس والے علاقہ میں موجود سیویج میں کورونا وائرس ملے ہیں۔ سیوریج کے پانی سے کورونا وائرس انفیکشن بڑھنے کے سوال پر ڈاکٹروں نے کہا کہ پانی سے انفیکشن پھیلے گا یا نہیں، یہ ریسرچ کے بعد ہی پتہ چل پائے گا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل پی جی آئی کے مریضوں میں ایک تحقیق کی گئی تھی اس وقت پتہ چلا تھا کہ کورونا وائرس پانی تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

    ان حالات میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا تمام مریضوں کے پاخانہ سے وائرس سیوریج تک پہنچ گیا ہے۔ کئی دیگر تحقیقی مقالوں میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 50فیصد مریضوں کے پاخانہ کے وائرس سیوریج تک پہنچتے ہیں۔

  • بارش کو کئی گھنٹے گزر گئے، پانی سڑکوں پر تاحال موجود

    بارش کو کئی گھنٹے گزر گئے، پانی سڑکوں پر تاحال موجود

    کراچی : گزشتہ روز بارش کے بعد کئی علاقوں سے نکاسی نہیں ہوسکی، بارش کا پانی گھروں میں موجود تاحال موجود ہے، اہم شاہراہوں پر برساتی پانی کے باعث ٹریفک کی روانی انتہائی سست ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں گزشتہ روز ہونے والی موسلادھار بارش کے بعد شہر کی صورتحال بدستور پہلے جیسی ہے، پچھلی بارش کی طرح کئی علاقوں سے برساتی پانی نکالا نہیں جاسکا۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ شارع فیصل اور دیگراہم شاہراہوں سے برساتی پانی نکال لیا گیا ہے، گجر نالے کا پانی اطراف کی گلیوں میں تاحال کھڑا ہے، مختلف علاقوں میں بارش اور سیوریج کا پانی جمع ہے، سٹی ریلوے کالونی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے،۔

    نیوکراچی،سرجانی، نارتھ ناظم آباد میں نکاسی نہیں ہوسکی، سہراب گوٹھ پل اور شفیق موڑ کے قریب بارش کا پانی موجود ہے، ہاکس بےروڈ پر گلبائی سے ماری پور تک صورتحال بدترین ہوگئی۔

    تباہ حال ہاکس بےروڈ پر رہی سہی کسر بارش نے نکال دی، ہاکس بےروڈ پر گڑہوں، جگہ جگہ پانی کھڑا ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے۔

    اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں موجود ہے، گھروں کے اندر اور باہر برساتی پانی سے
    معمولات زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے، نکاسی نہ ہونے سے بفرزون سیکٹر 15 کے مکین پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔

    شہریوں کا  کہنا ہے کہ گھروں میں پانی داخل ہونے کے باعث سارا سامان خراب ہوگیا، نکاسی آب کے لیے انتظامیہ سے اب تک کوئی نہیں آیا۔

    ذرائع کے مطابق شہری اپنی مدد آپ کےتحت گھروں سے پانی نکالنے لگے، شہری گھروں میں موجود سامان کو بھی منتقل کرنے
    لگے۔

  • کراچی کے کئی علاقوں میں سیوریج کا پانی جمع، سڑکیں تالاب بن گئیں

    کراچی کے کئی علاقوں میں سیوریج کا پانی جمع، سڑکیں تالاب بن گئیں

    کراچی : شہر قائد میں اختیارات کی جنگ اور اداروں کی نااہلی کے سبب ابلتے گٹروں کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، جس کے باعث ٹریفک کی روانی بھی شدید متاثر ہورہی ہے، میئر کراچی بھی صورتحال سے پریشان ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق واٹر اینڈ سیوریج بورڈ افسران کی نااہلی کے باعث کراچی کے کئی علاقوں میں سیوریج کا پانی جمع ہوگیا، شہر قائد کی اہم ترین شاہراہوں پر سیوریج کے گندے پانی کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    کراچی کی مصروف شاہراہ نیپا چورنگی، یونیورسٹی روڈ سیوریج کے پانی سے بھری ہوئی ہیں گلستان جوہر میں سیوریج کے پانی سے سڑک پر گڑھے پڑگئے۔

    اس کے علاوہ حسین ہزارہ گوٹھ اور بروہی گوٹھ سیوریج پانی سے شدید متاثر ہیں، دونوں گوٹھوں میں ایک ماہ سے نکاسی اور ابلتے گٹر صاف نہ کیے جاسکے، متعدد بار شکایات کے باوجود واٹراینڈ اینڈ سیوریج بورڈ حکام نے کوئی توجہ نہیں دی۔

    اس صورتحال سے مئیر کراچی وسیم اختر بھی پریشان ہوگئے، ان کا کہنا ہے کہ محدود وسائل میں سڑک بناتے ہیں، سیوریج کے پانی سے ان میں گڑھے پڑ جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ لائن ڈالنے کیلئے سڑک کھود دیتا ہے لیکن دوبارہ نہیں بنائی جاتی۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ بارشوں کے بعد شہر کے اکثر سڑکوں کے گٹر ابل پڑے تھے، جن کے بارے میں اب معلوم ہوا ہے کہ ان میں بڑے پتھر ڈال کر جان بوجھ کر چوک کیا گیا تھا۔

    اس سے پہلے بھی کراچی کی مشہور سڑکوں ایم اے جناح روڈ، سولجر بازار، آئی آئی چندریگر روڈ سمیت اورنگی ٹاؤن میں بھی گٹر لائنوں کو قصداً چوک کرایا جا چکا ہے، تاہم ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

  • بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم میں پولیو وائرس کی تصدیق

    بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم میں پولیو وائرس کی تصدیق

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پولیو بابر بن عطا کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پولیو بابر بن عطا نے تفصیلات جاری کردیں۔ بابر عطا کے مطابق کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔

    معاون خصوصی کے مطابق کراچی کے علاقے گڈاپ اور کورنگی جبکہ پشین، قلعہ عبد اللہ اور بنوں کے سیوریج میں بھی پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

    بابر عطا کا کہنا ہے کہ شہروں کے سیوریج سے نمونے دسمبر 2018 میں لیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان میں ایک اور پولیو کیس سامنے آیا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں 16 ماہ کی انعم میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

    یہ سنہ 2019 کا پاکستان میں سامنے آنے والا پہلا پولیو کیس ہے۔

    گزشتہ برس یعنی سنہ 2018 میں 10 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں پولیو کیسز کی شرح بتدریج کم ہونے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ گزشتہ برس کے آخر تک پاکستان پولیو فری ملک بن جائے گا، یہ تعداد نہایت مایوس کن اور تشویش ناک تھی۔

    مزید پڑھیں: 3 کروڑ 70 لاکھ پاکستانی بچے پولیو سے محفوظ

    اینڈ پولیو پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز کی بلند ترین شرح سنہ 2014 میں دیکھی گئی جب ملک میں پولیو وائرس کے مریضوں کی تعداد 306 تک جا پہنچی تھی۔

    یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    تاہم اس کے بعد عالمی تنظیموں کے تعاون سے مقامی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد سنہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 54 اور سنہ 2016 میں صرف 20 تک محدود رہی۔

    سنہ 2017 میں پولیو کے 8 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔