Tag: SHAKESPEARE

  • تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے‘ وقت بدلنے کے ساتھ تھیٹر بھی اپنی جہت تبدیل کررہا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیرکا تھیٹر


    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے’شکنتلا‘نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    شکنتلا ڈرامے سے ماخوذ عکس

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔

    ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    آغا حشر کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی

    برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے‘ جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    آغا حشر کے ڈرامے ’یہودی کی لڑکی‘ کا منظر

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    تھیٹر میں نئی جہت


    گزشتہ سال لندن میں پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں روبوٹ اداکار کو پیش کر کے اس شعبے میں نئی جہت اور نئی جدت پیش کردی گئی۔ ڈرامے میں اداکاری کرنے والے فنکاروں کا کہنا ہے کہ گو روبوٹ انسانوں جیسے تاثرات تو نہیں دے سکتا، تاہم اداکاری کے شعبے میں سائنسی مشین کی شمولیت فن، محبت اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین امتزاج ہے۔ لندن کے بات جاپان میں بھی اس جہت ک بھرپور پذیرائی ملی اور جاپانی تھیڑ میں روبوٹ کا بکثرت استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔

    جاپانی تھیٹر کا ایک منظر

    یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی جدید فلمی دنیا میں بھی تھیٹر اپنے آپ میں ایک سحر رکھتا ہے اور اس کے اداکار و فنکار ‘ اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ ‘ ڈائیلاگ کی ادائیگی اور نپی تلی حرکات و سکنات سے جو ماحول تشکیل دیتے ہیں ‘ وہ ماحول دیکھنے والے کو مبہوت کردیتا ہے۔

  • اگاتھا کرسٹی، جس نے شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج کر دیا تھا

    اگاتھا کرسٹی، جس نے شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج کر دیا تھا

    دنیائے ادب میں شیکسپئر کا سکہ چلتا ہے. اس معتبر انگریز قلم کار جیسی شہرت شاید ہی کسی ادیب کو ملی ہو، البتہ ایک ادیبہ ایسی بھی ہے، جو اپنی اثر پذیری اور مقبولیت کے باعث شیکسپئر کو چیلنج کرتی ہے.

    تفصیلات کے مطابق اپریل 1564 میں برطانیہ میں آنکھ کھولنے والے ولیم شیکسپئر نے پچاس کے لگ بھگ کتابیں‌ لکھیں، جن کی گذشتہ چھ صدیوں‌ میں‌ چار ارب کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ متعدد زبانوں میں اُن کے تراجم ہوئے.

    گو چند محققین ولیم شیکسپئر کو افسانوی کردار قرار دیتے ہیں‌ اور ایسے کسی ادیب کی موجودگی سے متعلق تشکیک کا شکار ہیں، البتہ اس سے شیکسپئر کا سحر مزید بڑھ جاتا ہے. اس فسوں گر کی کئی کتاب آج بھی تواتر سے شایع ہورہی ہیں‌اور یکساں دل چسپی سے پڑھی جاتی ہیں.

    بعد میں‌ آنے والے قلم کاروں میں‌ کوئی شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج نہیں کرسکا۔ البتہ 15 ستمبر 1890 کو برطانیہ میں آنکھ کھولنے والی اگاتھا کرسٹی کے قلم میں‌ کچھ ایسا جادو تھا، جو اس جید ادیب کی مقبولیت کے لیے پہلا خطرہ ثابت ہوا.


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


    محققین متفق ہیں کہ شیکسپئر کے بعد جس لکھاری کو سب سے زیادہ پڑھا گیا، وہ جاسوسی ادب کی بے تاج ملکہ اگاتھا کرسٹی ہی تھی۔ اگاتھا کرسٹی نے دنیائے ادب کو Hercule Poirot اور Miss Marple جیسے یادگار کردار دیے۔ اُن کی 85 کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اُس کا نام سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ناول نگار کے طور پر درج ہے۔

    اگاتھا کرسٹی کے ایک ناول And Then There Were None کی ایک ارب کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اُسے دنیا کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا مسٹری ناول تصور کیا جاتا ہے۔ آج تک کوئی اس کی گرد بھی نہ پاسکا۔


    کتاب، جس نے دنیا کو دیوانہ بنا دیا


    مجموعی طور پر اگاتھا کرسٹی کی کتابوں کا 103 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے، جس تک کوئی اور مصنف رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ اُس کی فروخت ہونے والی کتب کی تعداد ساڑھے تین سے چار ارب کے درمیان خیال کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ شیکسپئر کے برعکس اگاتھا کرسٹی نے یہ مرحلہ صرف سوا صدی میں طے کر لیا۔

    گو آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، گذشتہ چند دہائیوں‌ میں‌ کئی قلم کاروں نے عالمی شہرت حاصل کی، ان کی کتابیں ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئیں، مگر اب تک کوئی اگاتھا کرسٹی کی مانند شیکسپئر کی عظمت کے سامنے کھڑا نہیں‌ہوسکا اور مستقبل میں بھی اس کا امکان نہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ: فلم "شیکسپیئر ان لوو”اسٹیج ڈرامے کی صورت میں مقبول

    برطانیہ: فلم "شیکسپیئر ان لوو”اسٹیج ڈرامے کی صورت میں مقبول

    شیکسپیئر پر بنی ہوئی فلم شیکسپیئر ان لوو اب اسٹیج ڈرامے کی صورت میں برطانیہ میں مقبول ہے۔

    یہ کہانی بہت پرانی ہے، رومیو اور جولیٹ پر داستان لکھتے لکھتے خود لکھاری کو محبت  ہوگئی تھی، ڈرامہ بناتے بناتے خود بھی وہ ایک کردار بن گیا، ایک ایسا کردار جس میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا۔

    یہ داستان ولیم شیکسپیئر کی ہے، دوسروں کی محبت کی کہانیاں لکھنے والے شیکسپیئر پر فلم شیکسپیئر ان لوو بن گئی، انیس سو اٹھانوے کی اس فلم کو اب برطانیہ میں اسٹیج ڈرامے کی صورت میں پیش کیا گیا تو مقبول عام ہوگیا۔

    فلم میں شیکسپیئر کا کردار اداکار جوزف  نے اور وائلا کا کردار گینیتھ پیلٹرو نے ادا کیا ہے، کامیڈی اور رومینس سے بھرپور اسٹیج ڈرامہ اب ہر خاص و عام کو محظوظ کررہاہے۔