Tag: Sherlock Holmes

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے شرلاک ہومز کا طریقہ

    چیزوں کو یاد رکھنا آج کل ہر شخص کے لیے مسئلہ بن چکا ہے اور لوگ اپنی خراب یادداشت سے پریشان ہیں، یادداشت کو بہتر بنانے کے بہت سے طریقے ہیں اور ایسا ہی ایک طریقہ شرلاک ہومز کا بھی ہے۔

    اگر آپ نے معروف فکشن کردار سراغرساں شرلاک ہومز کی کہانیاں اور فلمیں پڑھ اور دیکھ رکھی ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ ہر قسم کی تفصیلات ایک مائنڈ (دماغ) پیلس میں محفوظ کرتا ہے۔

    یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جو قدیم یونان میں سامنے آئی تھی اور اب محققین نے دریافت کیا ہے کہ یہ طریقہ کار واقعی طویل المعیاد یادوں کو تشکیل دینے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

    میتھڈ آف لوسائی نامی اس تکنیک میں کوئی شخص ذہنی طور پر کسی جانے پہچانے مقام پر گھومتے پھرتا ہے۔

    جیسے گھر یا کوئی پسندیدہ پارک، ذہنی طور پر گھومتے ہوئے جو چیزیں یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ وہاں مختلف حصوں میں رکھ دی جاتی ہیں اور بعد ازاں حقیقت میں اپنے قدموں پر دوبارہ چلتے ہوئے ان تفصیلات کو اٹھا لیا جاتا ہے۔

    مثال کے طور پر اگر آپ مینار پاکستان سے واقف ہیں تو تصور کریں کہ وہاں آپ چہل قدمی کر رہے ہیں اور کسی لفظ جیسے کتاب کو جھیل میں گرا دیا، پھر ایک اور لفظ کسی اور جگہ گرا دیا۔

    اب جب آپ حقیقت میں مینار پاکستان جائیں گے تو اسی نقشے کو ذہن میں اجاگر کرتے ہوئے ان مقامات پر چلتے ہوئے ان چیزوں کو اٹھا لیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق کہ اس طریقہ کار سے لوگ الفاظ کی فہرستیں، ہندسوں کی سیریز اور دیگر اشیا کو طویل عرصے یاد رکھ سکتے ہیں۔

    ویانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 17 میموری ایتھلیٹس یا چیمپیئنز کی خدمات حاصل کی گئیں جو یادداشت کے مقابلوں میں دنیا کے سرفہرست 50 افراد میں شامل تھے۔

    اسی طرح 16 ایسے افراد کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو عمر اور ذہانت کے حوالے سے ان میموری ایتھلیٹس کا مقابلہ کرسکتے تھے۔

    ان رضا کاروں کے دماغوں کے ایف ایم آر آئی اسکینز اس وقت کیے گئے جب وہ ایک فہرست سے مختلف الفاظ پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان رضا کاروں سے کہا گیا کہ وہ ان الفاظ کو اسی ترتیب سے یاد کریں جس طرح فہرست میں دی گئی تھی۔

    تحقیق کے دوسرے حصے میں 50 ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا یادداشت کی تربیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان میں سے 17 کو 6 ہفتوں تک میتھڈ آف لوسائی استعمال کرنے کی تربیت فراہم کی گئی۔

    ان میں سے 16 افراد کو ایک اور مختلف طریقہ کار کی تربیت فراہم کی گئی جبکہ باقی افراد کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی گئی۔

    تمام افراد کے دماغوں کو ایف ایم آر آئی اسکینز تربیت سے پہلے اور بعد میں کیے گئے اور وہی ٹاسکس کرائے گئے جو پہلے حصے میں دوسرے گروپ سے کروائے گئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو میتھڈ آف لوسائی کی تربیت دی گئی تی انہوں نے طویل المعیاد یادوں کے حوالے سے دیگر کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس طریقہ کار کی تربیت سے ان افراد کی پائیدار یادوں میں نمایاں اضافہ ہوا مگر مختصر المدت یادوں میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ میموری ایتھلیٹس اور لوسائی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی الفاظ کی فہرستوں اور ترتیب کو یاد رکھنے کی دماغی سرگرمی ملتی جلتی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار کو سیکھنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے، بس کچھ وقت اور مشق کو معمول بنانے کی ضرورت ہوگی، چاہے ہر ایک کے لیے یہ موزوں نہ ہو مگر اس سے یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔

  • معروف سراغ رساں شرلاک ہومز کی بہن نیٹ فلکس پر تہلکہ مچانے کو تیار

    معروف سراغ رساں شرلاک ہومز کی بہن نیٹ فلکس پر تہلکہ مچانے کو تیار

    امریکی ویڈیو اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس نے نئی فلم کی ریلیز کی تاریخ کا اعلان کردیا، فلم اینولا ہومز مشہور و معروف سراغ رساں شرلاک ہومز (فرضی کردار) کی بہن کی کہانی ہے۔

    نیٹ فلیکس نے اینولا ہومز کا پہلا ٹیزر ایک روز قبل جاری کیا جبکہ اس کا پوسٹر گزشتہ رات جاری کیا گیا ہے۔ پوسٹر کے مطابق فلم 23 ستمبر کو نیٹ فلکس پر ریلیز کردی جائے گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    alone loshme reeebtpms wnettyrhitd 🕵️‍♀️🔍

    A post shared by Netflix US (@netflix) on

     

    View this post on Instagram

     

    one mystery is solved: Millie Bobby Brown is ENOLA HOLMES — only on Netflix Sept. 23rd 🔎

    A post shared by Netflix US (@netflix) on

    فلم میں اینولا کا مرکزی کردار ملی بوبی براؤن ادا کر رہی ہیں جبکہ ان کے بھائی شرلاک ہومز کا کردار ہنری کیول ادا کریں گے جو اپنے کردار سپر مین کے لیے مشہور ہیں۔

    ہیلینا بونہم کارٹر ان دونوں کی والدہ یوڈوریا ہومز کا کردار ادا کریں گی اور ناول کے مطابق اینولا کی زندگی میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔

    نیٹ فلکس کی جانب سے جاری کردہ تصاویر

    یاد رہے کہ جاسوسی کی دنیا کا مشہور کردار شرلاک ہومز ایک فرضی کردار تھا، اس کے مصنف سر آرتھر کونن ڈائل نے یہ کردار جوزف بیل (1911-1837) نامی ایک شخص سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ جوزف اور آرتھر اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا سے تعلق رکھتے تھے۔

    شرلاک ہومز (تخیلاتی کردار)

    جوزف ویسے تو ڈاکٹر تھے تاہم وہ بالکل شرلاک جیسی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ذہانت، باریک بینی، فوری مشاہدہ اور واقعات کا فوری اور صحیح تجزیہ کرلینے جیسی صلاحیتوں کے باعث وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مختلف معمے حل کرنے میں مدد دیا کرتے تھے۔ جوزف مشاہدے اور باریک بینی کو اپنا بنیادی ہتھیار گردانتے۔

    ڈاکٹر جوزف ملکہ وکٹوریہ کے ذاتی معالج اور میڈیکل کی ابتدائی کتابوں کے مصنف بھی تھے، وہ اکثر کسی اجنبی کو راہ چلتے روکتے اور صرف چال ڈھال، حرکات و سکنات اور حلیے سے اس کا پیشہ اور حالیہ سرگرمیاں بتا دیتے۔

    شرلاک ہومز کے مصنف آرتھر کونن ڈائل نے 1977 میں رائل انفرمری ہسپتال ایڈنبرا میں ڈاکٹر جوزف کے کلرک کے طور پر ملازمت اختیار کی۔

    ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جوزف نے ان کی عادات دیکھیں تو شرلاک کا فرضی کردار تخلیق کر ڈالا۔ ان کی کہانیوں کا ایک اور کردار ڈاکٹر واٹسن کا بھی تھا جو شرلاک کا معاون تھا۔

    شرلاک کی بہن اینولا ہومز کا کردار امریکی مصنفہ نینسی اسپرنگر کا تخلیق کردہ ہے، نینسی نے 50 کے قریب کتابیں لکھی ہیں جبکہ متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں، اینولا ہومز کے بارے میں انہوں نے 6 ناولز لکھے ہیں۔

    ناول کے مطابق اینولا کی کہانی اس کی سولہویں سالگرہ سے شروع ہوتی ہے جب اس کی والدہ لاپتہ ہیں اور اس کے بھائی شرلاک اور مائی کرافٹ زبردستی اسے واپس اسکول بھیج دیتے ہیں۔

    نیٹ فلکس کی جانب سے جاری کردہ تصاویر

    تاہم اینولا لڑکے کے بھیس میں فرار ہو کر لندن پہنچ جاتی ہے اور سراغ رسانی شروع کردیتی ہے۔ ناول کے مطابق وہ اپنے جاسوس بھائی شرلاک، جس کی ذہانت کی ایک دنیا معترف ہے، سے بھی زیادہ ذہین ہے اور اس جیسی ہی صلاحیتوں کی مالک ہے۔

    شرلاک ہومز کے بارے میں اب تک متعدد فلمز اور ڈرامے بنائے جاچکے ہیں جبکہ بی بی سی کی پروڈکشن سیریز شرلاک نیٹ فلکس پر بھی دستیاب ہے، اینولا ہومز کے بارے میں یہ پہلی فلم ہے جس کے ہدایت کار ہیری بریڈبر ہیں۔