کراچی: شہرِقائد میں جاری فرقہ وارانہ قتل و غارت اور گرفتاریوں کے خلاف کراچی کے علاقے ملیر میں جاری احتجاجی دھرنا پولیس نے شدید شیلنگ اور لاٹھی چارج کرکے منتشر کردیا ہے ۔
تازہ ترین اپ ڈیٹس کے مطابق پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کرکے مظاہرین کو منتشر کرکے گلیوں میں دھکیل دیا ہے اور ایک ٹریک کا ٹریفک بحال کردیا گیا ہے۔
واضح رہےکہ ملیر میں یہ دھرنا گزشتہ آٹھ گھنٹے سے جاری تھا جس کے سبب کراچی اور ٹھٹہ کے درمیان آمد و رفت لگ بھگ معطل ہوکر رہ گئی تھی۔
کراچی کے علاقے ملیر پندرہ میں اہل تشیع برادری کی جانب سے شہر میں فرقہ وارانہ قتل و غارت اور گرفتاریوں کے خلاف جاری دھرنے کو منتشر کرنے کےلیے پولیس کی جانب سے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے دھرنے میں شریک متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
کراچی میں گزشتہ دو دنوں میں سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی اور آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کےسربراہ مولانا مرزا یوسف حسین سمیت متعدد افراد کو حراست میں لیے جانے پر دھرنا دیا گیا تھا۔
گرفتاریوں اور قتل و غارت کے خلاف شہر قائد کے علاقے ملیر 15 میں مشتعل مظاہرین نے نا صرف شاہراہ فیصل کو نیشنل ہائی وے سے ملانے والی سڑک بند کردی ہے بلکہ ٹرین کے ٹریک کو بھی بند کردیا ہے جس کے سبب تیز گام کو لانڈھی اسٹیشن پر روک دیا گیا ہے جس سے ٹرینوں کی آمدو رفت معطل ہوگئی ہے۔ مظاہرین نے شالیمار ایکسپریس پر بھی پتھراؤ کیا۔ دھرنے کے سبب متعدد ٹرینوں کو پچھلے اسٹیشنوں پر روک لیا گیا تھا اور وہ کئی گھنٹے سے وہیں موجود ہیں۔
‘‘دھرنے میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے’’
پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے اور سڑک پر ٹریفک کی روانی کو بحال کرنے کے لیےبھاری مقدار میں شیلنگ کی گئی جبکہ پولیس کے تازہ دم دستوں نے مظاہرین کو لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کیا۔
واضح رہے کہ کراچی کے میں ہونے والے قتل و غارت اور اہل تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی گرفتاریوں کے خلاف گزشتہ روز بھی نمائش اور اولڈ رضویہ کے مقام پر دھرنا دیا تھا‘ مظاہرین کا موقف تھا کہ ہمارے ہی لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے اور ہمارے ہی رہنما گرفتار بھی کیے جارہے ہیں۔
کراچی: سانحہ صفورہ میں ملوث ملزمان کی سی سی ٹی وی تصاویر اے آروائی نیوز نے حاصل کرلیں۔
تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آور ایک اوراور تین موٹر سائیکلوں پرسوار تھے۔
تصاویر کی مدد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حملہ آورجس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے واپس بھی گئے۔
گزشتہ روز سندھ حکومت نے سانحے میں ملوث چارافراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن کا تعلق کالعدم تنظیم القائدہ سے بتایا گیا ہے۔
سانحہ صفورہ میں اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 47 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 13 زخمی ہیں۔
واقعے کی ملکی اورغیرملکی رہنماؤں نےدنیا بھرسے مذمت کی تھی اور ذمہ داروں کی فوری گرفتاری کامطالبہ کیا تھا۔
یہ ٹویٹر پر ایکصارف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ سندھحکومت کے پاس بھرپور وسائل موجود ہیں صرف ملزمان کی گرفتاری سے کچھ نہیں ہوگا یہ 47 بے گناہ افراد کی ہلاکت کی معاملہ ہے۔
SG has enough police & equipment that #SafooraCarnage shouldn’t have happened. Haven’t achieved much by arresting them. 40+ killed.
کسی بھی معاشرے کے علماء و فضلاء اس کی بنیاد ہوتے ہیں اور اس کی ذہنی استعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں معاشرے کی ذہنی بلوغت کی عکاسی اس کے اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرزاورصحافیوں کے ذمہ ہے۔
عروس البلاد کراچی کبھی مملکتِ خداداد پاکستان میں علم و ہنرکا مرکز ہوا کرتا تھا اس کے آسمان پررئیس امروہوی، حکیم سعید، ڈاکٹررشید جمعہ اور فیض احمد فیض جیسے نابغۂ روزگار افراد مثلِ آفتاب چمکتے تھے۔
صد حیف کے اس شہرِنگاراں کو نظرِبد لگی اورچمن کی شاخیں لہوسے رنگین ہونے لگیں اور ایک ایک کرکے اس شہر کے دماغ کونشانہ بنایا جانے لگا۔
فرقہ ، نسل ، زبان ، علاقہ ، برادری
اس کشمکش میں کتنے ہی قابل چلے گئے
آج کراچی کے اساتذہ، ڈاکٹرزاور وکلاء کو سیاست، مسلک اور بھتہ نہ ادا کرنے کی بناء پرٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے گزشتہ چند سالوں میں سینکڑوں قابل افراد کونشانہ بنایا جاچکا ہے جن میں سے منتخب افراد کے بارے میں آج ہم آپ کو معلومات فراہم کررہے ہیں جس سے آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کون سے عوامل شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی پشت پرکارفرما ہیں۔
اساتذہ
پروفیسر وحید الرحمان
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ پروفیسر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی 29 اپریل 2015 کو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں نامعلوم حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، یاسررضوی جامعہ کراچی سے قبل جامعہ وفاقی اردو میں بھی درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ بنیادی طور پر صحافی تھے۔
اسٹنٹ پروفیسروحید الرحمن
ڈیبرا لوبو
کراچی میں مقیم امریکی شہری ڈیبرا لوبو کو 16 اپریل 2014 کو نامعلوم حملہ آوروں نے گولیوں نشانہ بنایا۔
حملے میں شدید زخمی ہونے والی ڈیبرا جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل تھیں۔
ڈیبرا لوبو
پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل الرحمن
جامعہ کراچی کی فیکلٹی آف اسلامی اسٹڈیز کے ڈین ڈاکٹر محمد شکیل الرحمن کو گلشنِ اقبال میں نامعلوم حملہ آوروں نے 18 ستمبر2014 کو موت کے گھاٹ اتاردیا، ان کے ساتھ گاڑی میں موجود طالبہ بھی شدید زخمی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج ایک درجن سے زائد کتابوں کے خالق تھے اورمتعدد تحقیقی مققالے ان کے نام سے منسوب ہیں۔ انہیں ان کے لبرل اسلامی نظریات کے باعث چند مخصوص حلقوں متنازعہ سمجھا جاتا تھا اور کورنگی میں واقعہ ایک مدرسے کی جانب سے مبینہ طور پر ان کے قتل کا فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شکیل اوج
مولانا مسعود بیگ
جامعہ کراچی کی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے وزٹنگ پروفیسر اور جاعہ بنوریہ کے مہتم مولانا مسعود بیگ کو 10 فروری 2014 کو نارتھ ناظم آباد میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ مولانا مسعود معروف عالمِ دین مفتی نعیم کے داماد اور جامعہ بنوریہ کے شعبہ نسواں کے مہتم تھے۔
پروفیسر تقی ہادی
معروف عالمِ دین اور ماہرِ تعلیم پروفیسرتقی ہادی نقوی 27 فروری 2014 کو بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے دفتر سے گھر واپسی پر نشانہ بنایا گیا ، نامعلوم حملہ آوروں نے رکشہ جس میں تقی ہادی سوار تھے بفرزون کے علاقے میں اس کے قریب آکر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ زخموں کی تاب نا لاےتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ تقی ہادی 2001 سے میٹرک بورڈ کراچی کی انسپکشن کمیٹی سے وابستہ تھے۔
پروفیسر تقی ہادی
ڈاکٹر جاوید قاضی
جامعہ کراچی کے کی فیکلٹی آف میڈیسن کے ڈین ڈاکٹر جاوید اقبال قاضی کو 17 فروری 2014 کوقتل کیا گیا۔ ڈاکٹر قاضی کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال قاضی
انجینئیرمحمد یوسف
این ای ڈی (نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا) انجینئرنگ یونی ورسٹی کے لیکچرار انجینئر محمد یوسف المعروف منتظرمہدی کو 13اپریل 2014 کو کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
منتظر مہدی اندرونِ سندھ کے گرایجویٹس اور پیشہ وران پر مشتمل فلاحی تنظیم اصغریہ آرگنائزیشن کے اسپیشل پراجیکٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
محمد یوسف عرف منتظر مہدی
استاد پروفیسر سبطِ جعفر
پاکستان کے معروف مرثیہ خواں اور ادارہ ترویجِ سوزخوانی کے بانی استاد پروفیسر سبطِ جعفرکو 18 مارچ 2013 کو نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا کرقتل کردیا۔
پروفیسر سبطِ جعفر لیاقت آباد میں واقع کالج کے پرنسپل تھے اور انہیں کالج سے واپسی پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کا قائم کردہ ادارہ ترویجِ سوز خوانی ملک میں رثائی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
استاد پروفیسر سبطِ جعفر
اظفر رضوی
ماہرتعلیم اور پاکستان ایسوسی ایشن آف پریس فوٹو گرافر کے سرپرستِ اعلیٰ اظفر رضوی کو 31 مئی 2013 کو کراچی کے علاقے کریم آباد میں نشانہ بنایا گیا۔
اظفررضوی کراچی کے معروف تعلیمی ادارے ڈھاکہ ایجوکیشن سسٹم کے بانی اور سی ای او تھے۔ اظفر رضوی انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔
اظفررضوی
وکلاء
ایڈووکیٹ علی حسنین بخاری
معروف وکیل ایڈووکٹ علی حسنین بخاری کو 4 مارچ 2015 کو کراچی کے علاقے کورنگی نمبر 1.1/2 میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
مقتول وکیل متحدہ قومی موومنٹ کی لیگل ایڈ کمیٹی کے ممبر تھے اور پارٹی کے کئی اہم مقدمات کی پیروی کررہے تھے۔
ایڈووکیٹ علی حسنین بخاری
محمد ادریس
معروف وکیل محمد ادریس کو ان کے ڈرائیور کے ہمراہ 3 مئی 2014 کو اورنگی ٹاؤن میں نشانہ بنایا گیا۔
محمد ادریس کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ کی لیگل ایڈ کمیٹی کے ممبرتھے۔
ایڈووکیٹ سید غلام حیدر
ایڈووکیٹ سید غلام حیدر کوکراچی کے علاقے مارٹن روڈ میں 11 اپریل 2014 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
مقتول وکیل ایک سرگرم اہل تشیع سماجی کارکن تھے اور کئی تنظیمی مقدمات کی پپیروی کررہے تھے۔
شکیل احمد جان بنگش
قانون دان شکیل احمد جان بنگش کو 3 مئی 2013 کوکراچی کے علاقے بغدادی میں آئی سی آئی پل پرنشانہ بنایا گیا۔
ایڈووکیٹ عسکری رضا
ایڈووکیٹ عسکری رضا کو 1 جنوری 2012 کو کراچی میں قتل کیا گیا، وہ متعدد شیعہ تنظیمی مقدمات کی پیروی کررہے تھے۔ انہیں اہلِ تشیع سماجی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل تھا۔
ایڈوکیٹ عسکری رضا کے قتل پر اہل ِ تشیع تنظیموں کی جانب سے گورنر ہاؤس کراچی کے باہر دھرنا بھی دیا گیا تھا
ایڈووکیٹ عسکری رضا
ڈاکٹرز
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 2010 سے 2014 تک 4ڈاکٹرز ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا گیا، واضح رہے کے 90 کی دہائی کے اواخر میں اسی شہرِ بے اماں میں حکیم محمد سعید جسی نامور شخصیت کو بھی قتل کیا جاچکا ہے۔
ڈاکٹرعلی اکبر/ڈاکٹریاورزیدی
ڈاکٹر علی اکبر اور ڈاکٹر یاورزیدی کو 10 جنوری 2015 کو کراچی کے علاقے پاپوش نگر میں چند منٹ کے وقفے سے نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر احسن علی
یکم جنوری 2015 کوڈاکٹر احسن علی کو کراچی میں قتل کیا گیا۔
ڈاکٹر شمیم رضا
ڈاکٹر شمیم رضا کو 1 دسمبر 2014 کو کراچی کے علاقے کورنگی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ ڈاکٹر شمیم رضا شیعہ سماجی تنظیموں کے ایک سرگرم رکن تھے اور سال 2014 کی آخری سہہ ماہی میں کورنگی کے علاقے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل ہونے چوتھے ڈاکٹر تھے۔
ڈاکٹر روبینہ خالد
ڈاکٹر روبینہ خالد ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے بحیثیت سینئر پروفیسر وابستہ تھیں۔ انہیں 25 نومبر 2014 کو یونی ورسٹی روڈ پر نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر روبینہ خالد
ڈاکٹر منظور میمن
ڈاکٹر منظور میمن کو 13 مئی 2014 کو کراچی کے علاقے دہلی کالونی اورنگی ٹاؤن میں نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر منظور جناح پوسٹ گرایجویٹ میڈیکل کالج میں میڈیکو لیگل کالج کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر غضنفر علی زیدی کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد ڈاکخانے پر 22 اگست 2013 کو نامعلوم حملہ آوروں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا۔ ان کے قتل کے بارے میں ایس ایس پی سینٹرل عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔
ڈاکٹر منظور میمن
حکیم محمد سعید
معروف ماہرتعلیم، ماہر طب اور سماجی رہنماء حکیم محمد سعید کو کراچی میں واقعہ ان کے مطب کے باہر 17 اکتوبر 1998کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔
حکیم سعید ہمدرد فاوٗنڈیشن کے بانی اور روح رواں تھے آپ گورنر سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کے ادارے کے تحت شائع ہونے والا بچوں کا ادبی پرچہ ’نونہال‘ آج بھی بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے۔
حکیم محمد سعید
صحافی
حامد میر
ممتاز صحافی حامد میر کو 19 اپریل 2014 کو جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ملحقہ کراچی کی معروف سڑک شاہراہِ فیصل پر دن دہاڑے نشانہ بنایا گیا۔ حامد میر حملے میں شدید زخمی ہوئے لیکن فوری طبی امداد کے سبب ان کی جان بچ گئی۔
حامد میر
ثاقب میر
ثاقب میر نامی صحافی ایک نجی اخبار’امت‘سے وابستہ تھے انہیں 22 نومبر 2012 کو کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
سالک علی جعفری
ایسوسی ایٹ پروڈیوسر سالک علی جعفری 22 نومبر 2013 کو کراچی کے علاقے انچولی میں ہونے والے دھماکوں میں زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
سالک علی جعفری ایک نجی چینل سے وابستہ تھے صحافتی تنظیموں کی سرگرمیوں میں متحرک رہتے تھے۔ سماجی تنظیم ’شہیدفاؤنڈیشن‘سے منسلک رہ چکے تھے۔
کراچی : شہر کے گنجان آباد علاقے پاپوش نگرمیں پندرہ منٹ میں فائرنگ کے دو واقعات پیش آئے جن کے نتیجے میں دو ڈاکٹرزجاں بحق ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق پاپوش نگر کے علاقے انار کلی بازار میں واقع کلینک پرنامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر علی اکبراپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دوسری جانب پاپوش میں واقع قبرستان کے نزدیک چند منٹ کے وقفے سے ایک اور کلینک پر فائرنگ کا واقع پیش آیا جس میں ڈاکٹر سید یاور حسین جاں بحق ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آورموٹر سائیکلوں پرسوارتھے اورواردات کرتے ہی جائے وقوعہ سے فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق واقعے کی نوعیت فرقہ وارانہ ہے
مقتول ڈاکٹرعلی اکبر کی میت پوسٹ مارٹم کے لئے عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ہے جہاں سے ضابطے کی کاروائی کے بعدمیت ورثہ کے حوالے کی جائے گی۔
اسلام آباد: پاکستان میں طالبان کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں میں 2007 سے اب تک ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
یہاں ہم سن 2007 میں ان کے قیام سے لے کر اب تک کئے جانے والےبڑےدہشت گرد حملوں کی تفصیلات بتارہے ہیں:
2007
اکتوبر 18: پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کے قافلے پر حملہ کیا جس میں 139 افراد جاں بحق ہوئے۔ بعد ازاں دسمبر 27 کو بینظیر بھٹو کو بھی ایک خودکش حملے میں قتل کردیا گیا۔
2008
اگست 21: دو خودکش حملوں میں 64 افراد جاں بحق ہوئے ، حملہ اسلام آباد کے نزدیک پاکستان کے مرکزی اسلحہ ساز ادارے ’واہ آرڈیننس فیکٹری‘ کے باہر کیا گیا۔
ستمبر 20: ایک خودکش حمہ آور بارودی مواد سے بھرا ٹرک لے کر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے جا ٹکرایا۔ اس حملے میں 60 افراد جاں بحق ہوئے۔
2009
اکتوبر 28 : پشاور کے ایک بازار میں کار میں بم لگا کر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 125 افراد جاں بحق ہوئے۔
2010
جنوری 1: بنوں میں ایک کار بم حملے میں 101 افراد جاں بحق ہوئے، حملہ والی بال کے میچ کے دوران ہوا۔
مارچ 12:لاہور میں آرمی پر دو خودکش حملے کئے گئے جن میں 57 افراد شہید ہوئے۔
مئی 28: احمدیوں کی عبادت گاہ پر مسلح افراد نے حملہ کیا اور قتل و غارت کے بعد خعد کش حملے کئے، اس واقعے میں 82 افراد جاں بحق ہوئے۔
جولائی 9:مہمند قبائلی علاقے کے ایک مصروف بازار میں ایک خودکش حمہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ا105 افراد جاں بحق ہوئے۔
ستمبر 9 : کوئٹہ میں منعقدہ شیعہ ریلی میں کئے گئے خودکش حملے میں 59 افراد جاں بحق ہوئے۔
نومبر 5: درہ آدم خیل میں جمعے کی نماز کے دوران ایک خودکش حملہ آور کے حملے کے نتیجے میں 68 افراد جاں بحق ہوئے۔
2011
اپریل 3: ڈیرہ غازی خان میں ایک صوفی بزرگ کے مزار پر کئے گئے خودکش حملے میں 50 افراد جاں بحق ہوئے۔
مئی 13 : چارسدہ کے پولیس ٹریننگ کالچ پر ہونے والے دو خودکش حملوں میں 98 افراد جاں بحق ہوئے۔
اگست 19:خیبر ڈسٹرکت میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے خودکش حملے میں 43 افراد جاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
2012
جنوری 11: قبائلی علاقہ جات کے بازار میں کئے جانے والےریموٹ کنٹرول حملے میں 35 افراد جاں بحق ہوئے۔
اگست 16: مانسہرہ میں مسلح افراد نے 20 شعیہ افراد کو بس سے اتار کر گولیوں سے بھون ڈالا
2013
جنوری 10: کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے خودکش حملے میں 92 افراد جاں بحق ہوگئے۔
فروری 16:کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں ہی ایک اور بم حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 89 افراد جاں بحق ہوئے۔
مارچ 3: کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں ایک کار بم حملے کے نتیجے میں 45 افراد جاں بحق ہوئے۔
جولائی 27: پاکستان کے شمال مغربی علاقہ جات کے مصروف بازار میں ہونے والے خودکش حملے میں 41 افراد جاں بحق ہوئے۔
اگست 9: کوئٹہ میں ایک سینئر پولیس افسر کے جنازے کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں 38 افراد جاں بحق ہوئے۔
ستمبر 22: پشاور میں ایک چرچ پر ہونے والے دو خودکش حملوں کے نتیجے میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 82 افراد جاں بحق ہوئے۔
ستمبر 29: پشاور کے ایک مصروف بازار میں کار بم حملے میں 42 افراد جاں بحق ہوئے۔
2014
جنوری 19: بنوںمیں ملٹری قافلے پر ہونے والے بم حملے میں 20 سپاہی شہید ہوئے۔
جنوری 21:بلوچستان میں شیعہ زائرین کی بس پر ہونے والے بم حملے میں 24 افراد جاں بحق ہوئے۔
جون 10: ٹی ٹی پی کے 10 مسلح جنگجوؤں نے کراچی ایئرپورٹ کو یرغمال بنا لیا اس حملے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے۔
نومبر 2:پاکستان انڈیا بارڈر پر روزانہ منعقد ہونے والی تقریب پر ہونے والے خودکش حملے میں 55 افراد جاں بحق ہوئے۔
دسمبر 16:تحریک ِ طالبان کے مسلح دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر دھاوا بول دیا اور اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 132 معصوم بچوں سمیت 141 افراد جاں بحق ہوئے۔
کوئٹہ: ہزارہ ٹاؤن میں خودکش دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک دو خواتین سمیت پانچ افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ بیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوگئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق دھماکہ ہزارہ ٹاؤن کےعلاقےعلی آباد میں ہوا جوکہ انتہائی گنجان آباد علاقہ ہےاورشام کے اوقات میں علاقہ مکینوں کی ایک کثیرتعداد وہاں موجود ہوتی ہے، دھماکے کی نوعیت اتنی شدید تھی کہ اس کی آواز دوردرازعلاقوں میں بھی سنی گئی۔
اطلاعات کے مطابق جائے وقوعہ پر متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے چند کی حالت تشویشناک ہے جنیہیں علاقہ مکینوں اورریسکیواہلکاروں کی مدد سے بولان میڈیکل کامپلکس اور سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
آج صبح بھی اسی علاقےمیں ایک دھماکہ ہوچکا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور کا نشانہ قریبی بازار تھا لیکن وہ اپنے ٹارگٹ تک نہیں پہنچ پایا اور گرلز اسکول کے نزدیک دھماکہ کردیا ۔
شیعہ علماء کونسل نے واقعے کے خلاف ملک بھرمیں ایک روزہ سوگ ک اعلان کیا ہے جبکہ بلوچستان شیعہ کونسل نے سات روزہ سوگ کا اعلان کیاہے۔
کراچی:پولیس کے مطابق لیاقت آباد میں دکان پر فائرنگ سے علی رضا نامی شخص جان سے گیا ، لیاقت آباد ہی کے علاقے سی ون ایریا میں بھی فائرنگ سے زخمی ہونیوالا طارق نامی شخص جانبر نہ ہوسکا۔
لالوکھیت میں ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوا جسے طبی امداد کے لیے ریسکیو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کردیا گیا۔
کراچی:ایم کیوا یم کےرہنما حیدرعباس رضوی نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کالعدم تنظیموں کو کنٹرول کرنے کیلئےفیصلہ کن قدم اٹھائیں۔
کراچی کےعلاقےانچولی میں علامہ طالب جوہری کے داماد مبارک رضا کاظمی کی نماز جنازہ کےبعد میڈیا سے گفتگو میں حیدرعباس رضوی نے کہا کہ دہشتگر د یہ بھول گئے ہیں کہ شہادتیں علمائےحق کے بزرگوں کی وراثت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کراچی میں اہل تشیع اوراہل سنت کے لوگوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔
حیدرعباس رضوی نے مزید کہا کہ کالعدم تنظیموں کےسربراہوں کولگام دینےوالا کوئی نظر نہیں آتا اور وہ کھلےعام پریس کانفرنسوں میں نفرت انگیزتقاریرکر تے نظر آتے ہیں، کراچی میں جاری قتل عام کا محض ایک سیاسی پہلو نہیں بلکہ اس کے کئی پہلو ہیں۔