Tag: Sindh HC

  • ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے، جسٹس صلاح الدین پنہور

    ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے، جسٹس صلاح الدین پنہور

    کراچی: وکلا کی جانب سے کلائنٹس کے خلاف مقدمات کے اندراج سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے ریمارکس میں کہا ’’ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے۔‘‘

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں وکلا کی جانب سے کلائنٹس کے خلاف مقدمات کے اندراج سے متعلق درخواستوں کے کیس میں آئی جی سندھ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی عدالت میں پیش ہوئے، انھوں نے وکلا کی جانب سے مقدمات کی رپورٹ پیش کی۔

    اے آئی جی نے بتایا کہ سال بھر میں وکلا کی جانب سے 581 مقدمات درج کیے گئے ہیں، 14 مقدمات پولیس اور 14 کلائنٹس کے خلاف بھی درج کیے گئے، بیش تر کیسز میں چالان ہو چکے ہیں، کچھ کیسز کو اے کلاس کر دیا گیا ہے اور کچھ میں کمپرومائز ہو گیا۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ وکلا سے بہت زیادتیاں ہو رہی ہیں، وکلا کو قانونی کارروائی کے لیے پولیس اسٹیشن جانا پڑتا ہے اور وہ 608 مقدمات درج کرا چکے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، انھوں نے کہا پولیس کر کیا رہی ہے؟ قتل کا مقدمہ درج کرنے کو پولیس تیار نہیں ہوتی۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا جتنی زیادتیاں ہو رہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے جوڈیشل نوٹس کا حق تو بنتا ہے، کوئی بڑی گاڑی جا رہی ہو تو پولیس میں ہمت نہیں اسے روکے، اگر ایک پولیس کانسٹیبل کیمرہ لگا کر کھڑا ہو تو بڑا آدمی ہو یا سیاست دان، رکنا ہی پڑے گا، کوئی پولیس سے بدتمیزی کرے گا تو ویڈیو بھی وائرل ہوگی اور کارروائی بھی ہوگی۔

    انھوں نے کہا پولیس کو اتنا کمزور بنا دیا گیا ہے کہ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ بڑے لوگوں کو روک سکیں، پولیس صرف غریب لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، کراچی کے حالات بہت خطرناک ہو چکے ہیں، کسی شہری کو کراچی چھوڑنے کا موقع ملے تو کوئی نہیں رہے گا۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے، سندھ کے سرداروں کی وجہ سے سندھ میں ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں، کیا آج تک کسی ایک سردار کے خلاف بھی مقدمہ کیا گیا؟ کیا کوئی کارروائی کی گئی؟

    سماعت مکمل ہونے پر سندھ ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر فریقین سے تازہ رپورٹس طلب کر لیں۔

  • گمشدہ افراد کی بازیابی میں عدم پیش رفت، مایوس شہریوں نے عدالت پیش ہونا چھوڑ دیا

    گمشدہ افراد کی بازیابی میں عدم پیش رفت، مایوس شہریوں نے عدالت پیش ہونا چھوڑ دیا

    کراچی: گمشدہ افراد کی بازیابی میں عدم پیش رفت کے باعث مایوس شہریوں نے عدالت میں پیش ہونا چھوڑ دیا، یہ بات سندھ ہائیکورٹ میں گم شدہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جج نے کہی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں آج جمعرات کو گم شدہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، تاہم کیس کی پیروی کے لیے گم شدہ شہریوں کے اہل خانہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے صورت حال پر ریمارکس دیے کہ عدالت شہریوں کی آخری امید ہے، لیکن گم شدہ افراد کی بازیابی کے لیے پیش رفت نہ ہونے سے شہری مایوس ہو رہے ہیں، اور پیش رفت نہ ہونے کے باعث اب شہری پیش نہیں ہو رہے۔

    سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کے علاقے فیروز آباد سے گمشدہ نعیم کی بازیابی کے لیے 28 جے آئی ٹی اجلاس ہو چکے ہیں، لیکن جے آئی ٹی اجلاس میں اہل خانہ شریک نہیں ہو رہے، محمد غفور کے اہل خانہ بھی اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔ جس پر عدالت نے کہا تفتیشی افسران شہریوں کے اہل خانہ کی جے آئی ٹی میں شرکت یقینی بنائیں۔

    سرکاری وکیل نے کہا زبیر موسیٰ اور تاج محمد از خود غائب ہیں،

    عدالت نے انوسٹگیشن افسر کو ایف آئی اے سے شہریوں کی ٹریول ہسٹری سے متعلق رپورٹ حاصل کرنے کی ہدایت کی، اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے بھی تازہ رپورٹس آئندہ سماعت تک طلب کر لیں۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت درخواستوں کی مزید سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

  • 11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں 11 سال سے لاپتا شہری سمیت 15 سے زائد لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی، ملیر کے علاقے سے لاپتا حبیب خان کے بزرگ والد عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران شہری کے والد نے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا میں 11 سال سے پولیس اسٹیشنز اور عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہوں، اب تک کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ انھوں نے بتایا 2011 میں حبیب خان ڈیوٹی سے گھر واپس آرہا تھا، اسی دوران اسے راستے سے غائب کر دیا گیا۔

    مدعی نے عدالت کو بتایا میرا بیٹا تاحال لاپتا ہے اب تک پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، 11 سال سے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے، کیا انھوں نے اللہ کو جواب نہیں دینا؟

    عدالت نے کہا کہ بتایا جائے شہری کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جے آئی ٹیز میں ان کو بلایا جاتا ہے تو یہ جے آئی ٹی اجلاس میں نہیں آتے۔ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے بیٹے کا دماغی توازن سہی نہیں تھا۔ اس پر شہری کے والد نے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاس کے لیے ہمیں بتایا تک نہیں جاتا اور ہماری کالز کا بھی جواب نہیں دیا جاتا۔ عدالت نے کہا کہ اب جے آئی ٹی ہوگی تو یہ خود آپ سے رابطہ کریں گے۔

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جنید احمد نیو کراچی کے علاقے سے، حبیب خان ملیر کے علاقے سے، طارق خان عوامی کالونی اور دیگر شہری کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا ہیں۔ حبیب خان سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی کے لیے متعدد جے آئی ٹی اجلاس اور پی ٹی ایف سیشنز ہو چکے ہیں۔ شہریوں کی بازیابی کے لیے ملک بھر کی ایجنسیوں اور حراستی مراکز کو خطوط ارسال کیے گئے ہیں۔

    عدالت نے ایف آئی اے سے گم شدہ شہریوں کی ٹریول ہسٹری طلب کر لی، عدالت نے جے آئی ٹیز اور پی ٹی ایف سیشنز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی، عدالت نے درخواستوں کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • کلرک بھرتی ہونے والے ملازم کی ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے تقرری عدالت میں چیلنج

    کلرک بھرتی ہونے والے ملازم کی ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے تقرری عدالت میں چیلنج

    کراچی: ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کلرک بھرتی ہونے والے ملازم عرفان بیگ کی سیکریٹری اور ڈائریکٹر لیگل تقرری عدالت میں چیلنج کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری اور ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے عرفان بیگ کی تقرری سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کی گئی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 اگست کو جواب طلب کر لیا ہے۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عرفان بیگ کو ایم ڈی اے میں کلرک بھرتی کیا گیا تھا، اور دستاویزات سے معلوم ہوا کہ عرفان بیگ ایک وقت میں 2 پوسٹوں پر تعینات ہیں۔

    وکیل نے مزید بتایا کہ عرفان بیگ کو سیکریٹری ایم ڈی اے اور ڈائریکٹر لیگل کا چارج دیا گیا ہے، جب کہ قانون کے مطابق نچلے گریڈ کے ملازم کو اعلیٰ عہدے کا چارج نہیں دیا جا سکتا۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ عرفان بیگ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا جائے۔

    واضح رہے کہ عرفان بیگ کو لوکل گورنمنٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں گریڈ 5 میں تعینات کیا تھا، لیکن اس کے برعکس وہ غیر قانونی طور پر گریڈ 19 کے مختلف اعلیٰ مناصب پر براجمان رہے، ان پر غیر قانونی کاموں اور زمینوں کے قبضوں میں براہِ راست ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے۔ ماضی میں حکومت سندھ نے انھیں بہ طور ڈائریکٹر لیگل افیئر معطل بھی کیا تھا۔

  • میتھ میں بی اے کیا ہے، 17 گریڈ کے افسر کا جواب سن کر جج حیران رہ گئے

    میتھ میں بی اے کیا ہے، 17 گریڈ کے افسر کا جواب سن کر جج حیران رہ گئے

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پہنور اُس وقت حیران رہ گئے جب 17 گریڈ کے ایک افسر نے استفسار پر بتایا کہ انھوں نے میتھ میں بی اے کیا ہے۔

    آج ہفتے کو سندھ ہائیکورٹ میں قریشی کوآپریٹو سوسائٹی میں لیز پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، ایڈمنسٹریٹر کوآپریٹو سوسائٹی محرم علی ساند عدالت کے طلب کیے جانے پر پیش ہوئے۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈمنسٹریٹر قریشی کوآپریٹو سوسائٹی محرم علی ساند نے لیز پلاٹوں کی لیز منسوخ کر دی ہے، جس پر درخواست گزار عدالت سے انصاف کی استدعا کر رہے ہیں۔

    دوران سماعت عدالت نے محرم علی ساند پر اظہار برہمی کیا، وہ اپنی تعلیمی قابلیت سے متعلق پوچھے گئے سوالات سے جج کو مطمئن نہ کر سکے، جسٹس صلاح الدین پہنور نے استفسار کیا کہ کون سے محکمے کے ملازم ہو؟ محرم علی ساند نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ میں گریڈ 17 کا افسر ہوں۔

    جسٹس صلاح الدین پہنور نے پوچھا آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ محرم علی ساند نے بتایا ریاضی میں بی اے کیا ہے، جسٹس صلاح الدین پہنور نے پوچھا کہ میتھ میں بی اے کون سی یونیورسٹی سے ہوتا ہے؟ محرم علی ساند نے بتایا کہ شاہ لطیف یونیورسٹی سے پرائیویٹ میں بی اے کیا ہے۔

    عدالت نے محرم علی ساندھ سے پھر استفسار کیا کہ میتھ کے اسپیلنگ کیا ہیں؟ تاہم جب لوکل گورنمنٹ کا گریڈ 17 کا افسر میتھ کے اسپیلنگ بتانے میں ناکام رہے تو وکلا اور سائلین کے قہقہے نکلے۔

    وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ایڈمنسٹریٹر کوآپریٹو سوسائٹیز ضمیر عباسی بھی گریڈ 18 کے افسر ہیں، جب کہ وہ گریڈ 19 میں تعینات ہیں، عدالت نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ کیس کی سماعت کے بعد عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 22 مئی تک ملتوی کر دی۔

  • لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششوں پر عدالت کا عدم اطمینان کا اظہار

    لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششوں پر عدالت کا عدم اطمینان کا اظہار

    کراچی: لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششوں پر سندھ ہائیکورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاپتا افراد کی تلاش سے متعلق درخواستوں پر سندھ ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، عدالت نے اب تک کی کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو حلف نامے کے ساتھ تحریری جواب جمع کرانے کا بھی حکم دیا، عدالت نے کہا بتایا جائے کہ لاپتا افراد کہاں اور کس حالت میں ہیں، کیا وہ زندہ بھی ہیں؟

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں سے رابطے میں ہیں جلد پیش رفت کی توقع ہے، ادریس اسماعیل کی تلاش کے لیے جے آئی ٹی کے 20 اجلاس ہو چکے ہی، اور جے آئی ٹی ہیڈ کو عدالتی ہدایات سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔

    عدالت نے موچکو گوٹھ سے گمشدہ شہریوں کی تلاش کے لیے تفتیش ایس پی رینک کے افسر سے کرانے کا حکم بھی دیا۔ پولیس نے بتایا کہ انور اور عظیم کو حراست میں لیا گیا اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا تھا، عدالت نے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

  • انٹرنیٹ کی بندش سے دنیا ہم پر ہنستی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی

    انٹرنیٹ کی بندش سے دنیا ہم پر ہنستی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی

    کراچی: چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے انٹرنیٹ بندش کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ دنیا ہم پر انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے ہنستی ہے، وزارت داخلہ کو ایک ہفتے کی مہلت ہے خط واپس لے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں ایکس اور انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے وزارت داخلہ کو ایکس کی بندش کا خط ایک ہفتے میں واپس لینے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتے میں خط واپس نہیں لیا گیا تو عدالت اپنا حکم جاری کرے گی، عدالت نے 9 مئی تک وزارت داخلہ کو ایکس بندش کی وجوہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔

    وکیل درخواست گزار کے مطابق وزارت داخلہ نے تسلیم کر لیا ہے کہ ایکس کی بندش کے لیے پی ٹی اے کو خط لکھا تھا، اس کی کوئی وجوہ نہیں بتائی گئیں، جو قانون ہے جو شرائط ہیں وہ بھی نہیں بتائی گئی ہیں، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ کس وجہ سے ایکس بند کیا گیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل تو چل رہا تھا۔

    چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ آج بھی چل رہا ہے یا نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ہدایات لے لیتا ہوں چل رہا ہے یا نہیں، عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ 22 فروری کے عدالتی احکامات کے باوجود ایکس کی بندش توہین عدالت ہے۔

    وکیل درخواست گزار کے مطابق آخرکار تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ایکس بند کیا گیا ہے، جس دن کمشنر راولپنڈی نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اس دن کے بعد سے بند ہے، عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ میڈیا کو تو کنٹرول کر لیا گیا ہے لیکن ایکس پر تبصرے ہوتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی ضیاء مخدوم ایڈووکیٹ نے ایکس کی بندش سے متعلق وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن پڑھ کر سنا دیا۔

    عبدالمعیز ایڈووکیٹ کے مطابق پی ٹی اے نے تسلیم کر لیا ہے کہ ٹویٹر انھوں نے بند کیا ہے جو نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا گیا وہ 17 فروری کا ہے، وکیل نے کہا کہ اس سے پہلے پی ٹی اے یہ بات تسلیم نہیں کر رہا تھا، سرکاری وکلا وی پی این سے ٹویٹر چلا کر عدالت کو گمراہ کرتے تھے کہ ٹویٹر چل رہا ہے، لیکن اب نوٹیفکیشن سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ جس دن کمشنر راولپنڈی نے پریس کانفرنس کی اس روز سے غیر معینہ مدت کے لیے ٹویٹر بند ہے۔

    انٹرنیٹ بندش کیس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اہم ریمارکس میں کہا کہ قانون میں کہیں نہیں ہے کہ حساس اداروں کی رپورٹس پر وزارت داخلہ کارروائی کرے، کچھ لوگ سوچ رہے ہیں جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہیں، اتنے پاورفل ہیں کہ ملک چلا رہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بند کرنے سے کیا مل رہا ہے؟ پوری دنیا ہم پر ہنستی ہوگی۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 8 فروری کو موبائل فون سروس اسی لیے بند کی گئی کہ کوئی دھماکا نہ ہو جائے، جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ایکس یا سوشل میڈیا استعمال کرنے سے دھماکے نہیں ہوتے، جسٹس عبدالمبین لاکھو نے کہا کہ ایکس استعمال کرنے سے ورچوئل دھماکے نہیں ہوتے کیا؟ چیف جسٹس سندھ نے کہا کہ بادی النظر میں ایکس پر پابندی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غلط خبر چلانے والی سوشل میڈیا ایپ پر 500 ملین تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے، اور سوشل میڈیا بند کرنے سے قبل سروس پروائیڈر کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے، سروس پروائیڈر کی جانب سے جواب نہ دیے جانے پر سوشل میڈیا بند کیا جاتا ہے۔

    وکیل نے مزید بتایا کہ 4 سے 5 کروڑ لوگ پاکستان میں ایکس استعمال کرتے ہیں، اب وی پی این استعمال کیا جا رہاہے جس کے ذریعے انٹرنیٹ کی اسپیڈ انتہائی کم ہو جاتی ہے، وکیل نے کہا کہ ایک جنبش قلم سے ایکس بند کر دیا گیا کہ ہمیں اوپر سے انفارمیشن آئی ہے۔

  • عوام کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک قانون کے مطابق رسائی یقینی بنائی جائے، عدالت کا حکم

    عوام کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک قانون کے مطابق رسائی یقینی بنائی جائے، عدالت کا حکم

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ عوام کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک قانون کے مطابق رسائی یقینی بنائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انٹرنیٹ سروس کی بندش پر اظہار افسوس کیا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے، پی ٹی اے کی جانب سے انٹرنیٹ بند کرنے کی ٹھوس وجوہ نہیں بتائی گئیں، تمام متعلقہ ادارے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بحالی کو یقینی بنائیں۔

    عدالت نے حکم دیا کہ عوام کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک قانون کے مطابق رسائی کو یقینی بنایا جائے، اور کہا کہ اگر انٹرنیٹ بندش کی ٹھوس وجوہ نہ بتائی گئیں تو متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی، بغیر کسی ٹھوس وجوہ انٹرنیٹ بند نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی رفتار کم کی جائے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہتی ہے تو آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ وکیل پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ 8 فروری کو الیکشن کے دن وزارت داخلہ اور مختلف اداروں کی رپورٹ پر انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا، اضافی جواب جمع کرانے اور متعلقہ حکام سے ہدایات لینے کے لیے مہلت دی جائے۔

    عدالت نے کہا وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے وکیل نے بھی جواب کے لیے مہلت طلب کی ہے، اس لیے کیس کی مزید سماعت اب 5 مارچ کو کی جائے گی۔

  • بنارس چورنگی رفاہی پلاٹ پر قبضہ، عدالت کا غیر قانونی دکانیں ختم کرنے کا حکم

    بنارس چورنگی رفاہی پلاٹ پر قبضہ، عدالت کا غیر قانونی دکانیں ختم کرنے کا حکم

    کراچی: بنارس چورنگی میں رفاہی پلاٹ پر قبضہ کر کے غیر قانونی دکانیں بنانے کے کیس میں عدالت نے پلاٹ خالی کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے علاقے بنارس چورنگی پر بنی غیر قانونی دکانوں کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے رفاہی پلاٹ خالی کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے اور گرین بیلٹ بحال کی جائے، درخواست گزار ذاکر کے مطابق بنارس چورنگی 43 سو مربع گز پر واقع ہے، یہ اسکیم 27 کا حصہ ہے، لیکن اسکیم 28 کی جعلی دستاویزات کی آڑ میں یہ دکانیں بنائی گئی ہیں۔

    درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ غیر قانونی دکانیں منہدم کر کے یہاں پارک بنایا جائے تاکہ علاقے کے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کے لیے جگہ دستیاب ہو۔

    درخواست میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، ایس بی سی اے، کے ڈی اے کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، اینٹی انکروچمنٹ سیل اور آئی جی پولیس کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

  • عدالت نے بیشتر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس رپورٹس غیر تسلی بخش قرار دے دیں

    عدالت نے بیشتر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس رپورٹس غیر تسلی بخش قرار دے دیں

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے بیشتر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس رپورٹس غیر تسلی بخش قرار دے دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، عدالت نے بیش تر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس رپورٹس غیر تسلی بخش قرار دے دیں۔

    جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے کہا کہ بتایا جائے، ایک مہینے کا وقت دیا تھا اتنے دنوں میں کیا اقدامات کیے؟ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں کو خطوط لکھے گئے لیکن جواب نہیں ملا، جس پر عدالت نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو لاپتا افراد کے معاملے میں مداخلت کرنے کی ہدایت کر دی۔

    عدالت نے کہا کہ دیکھا جائے لاپتا افراد کہاں گئے اور انھیں کون لے گیا، عدالت نے لاپتا شہری عمران، فیضان علی، بہادر، جنید احمد و دیگر کی بازیابی کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔

    عدالت نے محمد یونس، عمیر زمان، عبدالحسن، سعدیہ، زرداد خان کو بھی بازیاب کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کا سراغ نہ لگائے جانے پر درخواست گزار مایوسی کا شکار ہیں، کئی لاپتا افراد کے اہل خانہ اور وکلا پیش نہیں ہوئے، عدالت نے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔