Tag: Sindh High Court

  • قومی ٹیم میں سلیکٹ کیوں نہ کیا ؟ کرکٹر عدالت پہنچ گیا

    قومی ٹیم میں سلیکٹ کیوں نہ کیا ؟ کرکٹر عدالت پہنچ گیا

    کراچی: ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلئے قومی ٹیم میں سلیکٹ نہ کرنے پر ڈیرہ مراد جمالی کے کرکٹر تیمور علی نے پی سی بی کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔

    وکیل درخواست گزار کے مطابق تیمور علی پاکستان کے بہترین فرسٹ کلاس کرکٹر ہیں، ان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں بہترین پرفارمنس رہی ہے۔

    وکیل کے مطابق ورلڈکپ کیلئے سلیکٹ کھلاڑیوں کا پرفارمنس ریکارڈ درخواست گزار سے انتہائی کم ہے۔ تیمور علی نے امتیازی سلوک کیخلاف پی سی بی میں سیکشن 37 کے تحت اپیل دائر کی ہے۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پی سی بی نے تاحال درخواست گزار کی اپیل پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، پی سی بی کو تیمور علی کی اپیل پر فیصلہ کرنے کاحکم دیا جائے۔

    کپتانوں کی تبدیلی، پی سی بی کا اہم بیان سامنے آگیا

    جسٹس عدنان اقبال کا کہنا تھا کہ کیا سندھ ہائیکورٹ پی سی بی کیخلاف کرکٹرکی درخواست سننے کی مجازہے؟ وکیل نے کہا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر دانش کنیریا کی درخواست پر اعلیٰ عدالتوں نے فیصلے جاری کر رکھے ہیں۔

    عدالت نے درخواست گزار وکیل سے کرکٹر سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کی نقول طلب کرلیں، سند ھ ہائیکورٹ نے سماعت دو روز کے لیے ملتوی کردی۔

  • درسی کتب کی عدم فراہمی : سندھ ہائیکورٹ نے حکم جاری کردیا

    درسی کتب کی عدم فراہمی : سندھ ہائیکورٹ نے حکم جاری کردیا

    کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے صوبے میں درسی کتب کی عدم فراہمی کے کیس کی سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    حکم نامہ کے مطابق سیکرٹری اسکولز اینڈ ایجوکیشن اور سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی، سندھ حکومت نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے7رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

    رپورٹ کے مطابق حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی سربراہی چیف سیکرٹری سندھ کریں گے، کمیٹی میں چیئرمین پلاننگ اینڈڈیولپمنٹ، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن، سیکریٹری فنانس شامل ہیں۔

    سی ایم آئی ٹی رکن، متعلقہ ڈپٹی کمشنر و دیگربطور ممبر شامل ہیں، کمیٹی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے موجودہ اور مستقبل کے منصوبوں کی نگرانی کرے گی۔

    مذکورہ کمیٹی محکمہ اسکول ایجوکیشن میں غیر ملکی فنڈنگ والے منصوبوں کی نگرانی کرے گی، کمیٹی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لئے متعلقہ اسٹیئرنگ کمیٹی کو تجاویز دے گی۔

    تحریری حکم نامہ کے مطابق کمیٹی فنڈز کے صحیح استعمال سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کی رپورٹس کا جائزہ لے گی اور منصوبوں میں شفافیت، بروقت تکمیل، فنڈزکے استعمال کی مانیٹرنگ کرے گی۔

    2رکنی بینچ نے9اکتوبر کے اپنے حکم نامے میں ترمیم کردی، عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ کو کمیٹی کی ماہانہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، عدالت نے درخواست 4 ہفتوں بعد سماعت کے لئے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

  • دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی حوالگی ناکامی پر عدالت ہوم ڈیپارٹمنٹ پر برہم

    دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی حوالگی ناکامی پر عدالت ہوم ڈیپارٹمنٹ پر برہم

    کراچی: دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی حوالگی ناکامی پر عدالت نے ہوم ڈیپارٹمنٹ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی دبئی سے پاکستان حوالگی کے کیس میں آج سماعت ہوئی، مفرور ملزم کی حوالگی میں تاخیر میں سرکاری اداروں کی کارکردگی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ عدالتی حکم پرعمل درآمد کرانے میں ناکام رہا ہے، ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ نےعمل درآمد رپورٹ پیش کر دی ہے۔

    تاہم کیس کی پیروی کرنے والے جبران ناصر ایڈووکیٹ نے اس پر اعتراض کیا کہ ’’وہی پرانے بہانوں پر مشتمل رپورٹ ایک بار پھر پیش کر دی گئی ہے، معاملہ وزارت خارجہ اور داخلہ سے متعلق ہے جود بئی حکام کو مطمئن نہیں کر پا رہے ہیں۔‘‘

    جبران ناصر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت نے 6 بار سیکریٹری خارجہ کو طلب کیا لیکن وہ پیش نہیں ہوتے، عدالت نے کہا کہ 4 نومبر تک آخری موقع دیتے ہیں، اس کے بعد کوئی اقدام کریں گے۔

    وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ اگر ملزم کا پاسپورٹ ہی کینسل کر دیں تو دبئی حکام ملزم کو ڈی پورٹ کر دیں گے۔

    کرپشن کا راز افشا کرنے والے شہری کے مبینہ قاتل تقی حیدر کی پاکستان حوالگی کیوں نہ ہو سکی؟

    درخواست گزار ماہم امجد کے مطابق ان کے والد کو ان کے دفتر کے ساتھی تقی شاہ نے 2008 میں قتل کر دیا تھا، ماہم امجد کے مطابق ان کے والد نے لائف انشورنس کمپنی کے دفتر میں اربوں روپے بدعنوانی کا سراغ لگایا تھا۔ قتل کی اس واردات کی مناسب پیروی نہ ہونے پر ملزم کو دبئی فرار ہونے کا موقع مل گیا تھا۔

    ماہم امجد کے مطابق انھوں نے ملزم تقی حیدر شاہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش کیا تھا کہ وہ دبئی میں ہے، جس پر انھوں نے ملزم کو دبئی میں گرفتار کرواد یا تھا۔ تاہم عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کی حوالگی سے متعلق دستاویزات دبئی حکام کو فراہم نہیں کی گئیں، پاکستانی حکام کی تاخیر کی وجہ سے دبئی حکام نے ملزم تقی حیدر شاہ کو رہا کیا۔

  • کرپشن کا راز افشا کرنے والے شہری کے مبینہ قاتل تقی حیدر کی پاکستان حوالگی کیوں نہ ہو سکی؟

    کرپشن کا راز افشا کرنے والے شہری کے مبینہ قاتل تقی حیدر کی پاکستان حوالگی کیوں نہ ہو سکی؟

    کراچی: انشورنس کمپنی میں بدعنوانی کے سراغ پر شہری کو مبینہ طور پر قتل کرنے والے تقی حیدر شاہ کی پاکستان حوالگی میں تاخیر پر سندھ ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی دبئی سے پاکستان حوالگی کے کیس میں تاخیر میں سرکاری اداروں کی کارکردگی پر عدالت نے برہم کا اظہار کیا ہے، عدالت نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو مختلف محکموں کے سیکریٹریز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا، اور سیکریٹری داخلہ اور خارجہ کو آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر طلب کر لیا۔

    وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ تاخیر کا سبب سندھ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مکمل دستاویزات فراہم نہ کیا جانا ہے، اس پر عدالت نے ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ کو 10 یوم میں کیس کی تمام دستاویزات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ دستاویزات وصول ہونے کے بعد 15 یوم میں دستاویزات وزارت خارجہ کو فراہم کرے، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا وزارتِ خارجہ دستاویزات مکمل ہونے کے بعد مفرور ملزم کو عدالت میں پیش کرے، عدالت نے آئندہ سماعت 6 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

    وکیل درخواست گزار جبران ناصر نے کہا عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کی حوالگی سے متعلق دستاویزات دبئی حکام کو فراہم نہیں کی گئیں، پاکستانی حکام کی تاخیر کی وجہ سے دبئی حکام نے ملزم تقی حیدر شاہ کو رہا کر دیا ہے، وکیل نے کہا 11 جولائی 2023 کو وزارت خارجہ کی جانب سے دستاویزات پر دبئی حکام کے اعتراض سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔

    درخواست گزار ماہم امجد کے مطابق ان کے والد کو ان کے دفتر کے ساتھی تقی شاہ نے 2008 میں قتل کر دیا تھا، ماہم امجد کے مطابق ان کے والد نے لائف انشورنس کمپنی کے دفتر میں اربوں روپے بدعنوانی کا سراغ لگایا تھا۔ قتل کی اس واردات کی مناسب پیروی نہ ہونے پر ملزم کو فرار ہونے کا موقع مل گیا تھا۔

    ماہم امجد کے مطابق انھوں نے ملزم تقی حیدر شاہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش کیا تھا کہ وہ دبئی میں ہے، جس پر انھوں نے ملزم کو دبئی میں گرفتار کروایا تھا۔

  • سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف

    سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف

    کراچی: صوبہ سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف ہوا ہے۔

    کراچی میں ایک شہری علی نواز انڑ نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ گمبٹ سوبھودیرو میں جنگلات کی 24 ہزار ایکڑ زمین پر با اثر شخصیات کا قبضہ ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ جنگلات و دیگر کو نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری قانون اور جنگلات سے رپورٹ بھی طلب کر لی اور کہا کہ اگر آئندہ سماعت تک پیش رفت نہ ہوئی تو احکامات جاری کریں گے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ با اثر شخصیات جنگلات کی زمین پر کاشت کاری کر کے لاکھوں کما رہے ہیں۔

    سیکریٹری جنگلات اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ عدالت میں پیش ہوئے، اور کاربن کریڈٹ کی مد میں غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے ملنے والے فنڈز کی رپورٹ پیش کی گئی، عدالت نے سیکریٹری جنگلات کو زمینوں پر قبضے ختم کرانے کے لیے تمام اقدامات کی ہدایت کی۔

    عدالت نے کہا جنگلات کی زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کے لیے رینجرز اور سیشن جج کی مدد لی جائے، کے پی اور پنجاب میں جنگلات کی زمین کی حفاظت کے لیے فورس موجود ہے۔ سیکریٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا کہ قانون میں ترمیم کر کے جنگلات کی حفاظت کے لیے فورس بنائی جا رہی ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ میں کیس کی مزید سماعت 4 ستمبر کو ہوگی۔

  • ایف آئی اے کے لاپتا ریٹائرڈ افسر کا سراغ کیوں نہیں لگ سکا؟

    ایف آئی اے کے لاپتا ریٹائرڈ افسر کا سراغ کیوں نہیں لگ سکا؟

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے ریٹائرڈ افسر کا سراغ لگانے کے لیے فوری جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج سندھ ہائی کورٹ میں ایف آئی اے ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت 10 سے زائد گمشدہ افراد کی بازیابی کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے پولیس کی جانب سے روایتی کارروائی پر اظہار برہمی کیا۔

    عدالت میں دی گئی درخواست کے مطابق سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد جان کو اپریل میں غائب کیا گیا تھا، وکیل نے کہا کہ متعلقہ تھانہ ایف آئی آر درج کرنے سے بھی گریزاں ہے، عدالت نے ایف آئی اے ریٹائرڈ افسر کا سراغ لگانے کے لیے فوری جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    ایس ایس پی نے ایک اور کیس میں عدالت کو بتایا کہ بوٹ بیسن سے گمشدہ حیدر از خود لاپتا ہو گیا ہے کسی ادارے نے حراست میں نہیں لیا، اس پر عدالت نے کہا اگر وہ خود لاپتا ہو گیا ہے تو تلاش کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑ سکتی۔

    عدالت نے ایک اور گم شدہ شہری کے کیس میں کہا کہ اسٹیریو ٹائپ رپورٹ کاپی پیسٹ کر کے عدالت میں جمع کرا دی جاتی ہے، جب گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات ہی نہیں کیے گئے ہیں تو رپورٹ میں لکھنے کیا ضرورت ہے۔

    جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے استفسار کیا کہ گمشدہ شہری ارسلان کے اہلخانہ کو معاوضہ دینے کا کہا گیا تھا، کیا اہلخانہ کو معاوضہ ادا کر دیا گیا؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ارسلان کی جبری گمشدگی کا تعین نہیں ہوا ہے۔ عدالت نے کہا جب معاوضہ نہیں دینا تو رپورٹ میں کیوں لکھا گیا؟

    عدالت نے دیگر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے 3 ہفتوں میں رپورٹس طلب کر لیں، عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو مؤثر اقدامات کرنے کا بھی حکم دیا۔

  • سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ سندھ ہائیکورٹ

    سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ سندھ ہائیکورٹ

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے موٹر وے اسکیم سے شہریوں کے متاثر ہونے کے کیس میں اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟‘

    سندھ ہائی کورٹ میں موٹر وے ایم 5 پر سروس روڈ سمیت دیگر سہولتوں تک رسائی کے کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ جن شہریوں کی جائیدادیں سپر ہائی وے کے اطراف ہیں انھیں وہاں رسائی سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

    وکیل این ایچ اے نے بتایا کہ ان شہریوں کے داخلے کے لیے انٹری گیٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن یہ لوگ تعمیرات کے لیے ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ یہ لوگ ادائیگی کیوں کریں گے؟ کیا اسکیم میں یہ شامل نہیں؟ ایک شخص کی یہاں زمین ہے اور اچانک سڑک بن جائے تو کیا حق ملکیت ختم ہو جائے گا؟

    سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ موٹر وے بناتے ہوئے پرانی زمینوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔

    عدالت نے نکتہ اعتراض اٹھایا کہ سکھر حیدرآباد، لاہور اسلام آباد موٹر وے تو نئے بنائے گئے، جی ٹی روڈ کو تو موٹر وے نہیں بنایا گیا۔ کیس کی سماعت کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے این ایچ اے سمیت دیگر فریقین سے 28 اگست کو جواب طلب کر لیا۔

  • کرونا ویکسین فراہم کرنے والی کمپنی کے کروڑوں روپے روکے رکھنے کا انکشاف، کیس سندھ ہائیکورٹ میں

    کرونا ویکسین فراہم کرنے والی کمپنی کے کروڑوں روپے روکے رکھنے کا انکشاف، کیس سندھ ہائیکورٹ میں

    کراچی: صوبہ سندھ میں کرونا ویکسین فراہم کرنے والی کمپنی کے کروڑوں روپے روکے رکھنے کا انکشاف ہوا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ میں آج منگل کو کرونا ویکسین کی فراہمی کی مد میں نجی دوا ساز کمپنی کو واجبات کی عدم ادائیگی کے کیس کی سماعت ہوئی، سندھ حکومت کی جانب سے واجبات ادا نہ کرنے پر چیف جسٹس عقیل عباسی نے فوکل پرسن پر برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کسی کے پیسے ہڑپ کر لیں گے تو کون بھروسا کرے گا؟ ملک کو قرض تک تو کوئی دینے کو تیار نہیں ہے، الٹا کر کے تو ملک چلانے کے لیے قرض مل رہا ہے۔

    وکیل دوا ساز کمپنی نے عدالت کو بتایا کہ 65 کروڑ کے واجبات طویل عرصے سے سندھ حکومت پر باقی ہیں، سندھ حکومت نے اس سلسلے میں تین کمیٹیاں بنائیں، تینوں نے واجبات ادا کرنے کی سفارش کی، لیکن واجبات ادا نہیں کیے گئے۔

    چیف عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ رقم بڑی ہے، یہ سوچتے ہوں گے ہمیں کیا ملے گا، یہ لوگ اپنا حصہ مانگ رہے ہوں گے، عوام کا پیسہ ویسے لٹاتے رہتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا، لیکن آج ان کو فکر لاحق ہو گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا سیکریٹری صحت کو بلاؤ، ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ پیسے دینے ہیں یا نہیں؟ سندھ کے محکمہ صحت کے فوکل پرسن نے کہا کہ ایک کمیٹی کے سربراہ ریٹائر ہو گئے ہیں، اس لیے اس کیس کا جائزہ لینے کے لیے وقت دیا جائے۔

    چیف جسٹس نے برہمی سے کہا کرونا وبا ختم ہو چکی، اب 5 سو سال تک کمیٹیاں بناتے رہو گے یا کمیشن چاہیے؟ سندھ ہائیکورٹ نے اس کیس میں 31 مئی تک محکمہ صحت سندھ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

  • کے الیکٹرک کے خلاف ڈیڑھ کروڑ ہرجانے کا نمٹایا جانے والا کیس دوبارہ بحال

    کے الیکٹرک کے خلاف ڈیڑھ کروڑ ہرجانے کا نمٹایا جانے والا کیس دوبارہ بحال

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف ڈیڑھ کروڑ ہرجانے کا نمٹایا جانے والا کیس دوبارہ بحال ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک اور بلڈر کے خلاف ڈیڑھ کروڑ روپے ہرجانے کے دعویٰ والا کیس، جو وکیل کی عدم حاضری کے سبب نمٹا دیا گیا تھا، اب دوبارہ بحال ہو گیا ہے۔

    درخواست گزار کی وکیل نائلہ تبسم ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پہلے وکیل بیرون ملک آباد ہو گئے، اس لیے کیس کی پیروی نہیں ہو سکی تھی، جس پر جسٹس محمود اے خان نے عذر قبول کرتے ہوئے فوری سماعت کے لیے امتیاز آفندی کو کمشنر مقرر کر دیا، اور حکم دیا کہ تین ماہ میں شہادتیں ریکارڈ کر کے فیصلہ کر دیا جائے۔

    نائلہ تبسم ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ 18 سالہ حافظ زین العابدین 2006 میں گلبرگ کے علاقے میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے تھے، حافظ زین گھر میں پردے لگا رہے تھے کہ راڈ بجلی کے ٹرانسفارمر سے ٹکرا گئی، کے الیکٹرک اور بلڈر کی ملی بھگت سے ٹرانسفارمر گھر کی دیواروں کے بہت قریب لگایا گیا تھا۔

    مرحوم حافظ زین کے والد نے عدالت کو بتایا کہ حافظ زین کی ہلاکت کے ذمہ دار بلڈر اور کے الیکٹرک ہیں، میرا بیٹا اوائل جوانی میں فریقین کی غلطی سے ہلاک ہوا، انھیں ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا جائے۔

  • صحافی جان محمد قتل کیس : سندھ حکومت اور سیکورٹی اداروں کو نوٹس جاری

    صحافی جان محمد قتل کیس : سندھ حکومت اور سیکورٹی اداروں کو نوٹس جاری

    سکھر : سندھ ہائیکورٹ سکھر کی ڈبل بینچ نے کیبنٹ ڈویژن، وزارت دفاع اور سندھ حکومت، وزارت داخلہ، آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی شہید جان محمد مھر کے قاتلوں اور کچے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف رینجرز اور فوج کی نگرانی میں آپریشن کیلئے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔

    نامور ایڈوکیٹ بیرسٹر خان غفار خان کی معرفت سکھر پریس کلب کے نائب صدر لالہ شہباز خان کی آئینی درخواست پر آج سندھ ہائی کورٹ سکھر کی ڈبل بینچ نے کیبنٹ ڈویژن، وزارت دفاع اور سندھ حکومت، وزارت داخلہ، آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

    سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے درخواست پر 12 اکتوبر کو سماعت مقرر کردی، سکھر پریس کلب کے نائب صدر لالا شھباز پٹھان کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس اقبال احمد کلھوڑو اور جسٹس ارباب علی ھکڑو نے سماعت کی۔

    بیرسٹر خان غفار خان نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کندھکوٹ، گھوٹکی، شکارپور اور سکھر کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں جہاں پولیس بھی نہیں جا سکتی۔

    انہوں نے کہا کہ کچے کے علاقے پولیس کیلئے نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں جبکہ شہید جان محمد مھر اور پروفیسر اجمل ساوند کے قاتلوں نے بھی کچے میں ڈاکوؤں کے پاس پناہ لی ہوئی ہے، ڈاکوؤں نے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ساگر کمار سمیت کئی دیگر افراد کو بھی تاوان کیلئے اغوا کیا ہوا ہے۔

    دو سال قبل سکھر کے علاقے سنگرار سے اغوا ہونے والی معصوم بچی پریا کماری بھی اب تک بازیاب نہیں ہوسکی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق کچے کے علاقے میں ایک سو سے زائد افراد کو ڈاکوؤں نے تاوان کیلئے مغوی بنایا ہوا ہے جبکہ کچے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف پاک فوج، رینجرز اور پولیس کا مشترکہ گرینڈ آپریشن کیا جائے، امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے مستقل اقدامات کیے جائیں۔