Tag: Sindh High Court

  • اہم خبر  ، ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ واپس

    اہم خبر ، ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ واپس

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پرپابندی کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے پی ٹی اے کو ٹک ٹاک کی بحالی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پرپابندی کے حوالے سے پی ٹی اے کی متفرق درخواست پر سماعت ہوئی ، جس میں پی ٹی اے نے حکم امتناع واپس لینے کی استدعا کی اور کہا شکایت کنندہ کی درخواست پر5 جولائی تک فیصلہ کردیں گے۔

    جس پر عدالت نے پی ٹی اے کو ایل جی بی ٹی سے متعلق درخواستیں جلد نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی پی ٹی اے شکایت کنندہ کی درخواست پر 5 جولائی تک فیصلہ کرے۔

    دوران سماعت سندھ ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پرپابندی کا فیصلہ واپس لے لیا اور پی ٹی اے کو ٹک ٹاک کی بحالی کا حکم دیا ، عدالت نے فیصلہ پی ٹی اے کی متفرق درخواست پر دیا۔

    یاد رہے 28 جون کو سندھ ہائیکورٹ نے ٹک ٹاک معطل کرنےکاحکم دیاتھا ، بیرسٹر اسد اشفاق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ٹک ٹاک پر غیر ‏اخلاقی ،غیر اسلامی مواد رکھا جارہا ہے اور پی ٹی اے کو شکایت دی تاحال کارروائی نہیں ہوئی۔

    درخواست گزار کے مطابق پشاور ہائیکورٹ بھی وارننگ جاری کرچکی ہے اس کے باوجود پی ٹی اے ‏غیراخلاقی موادہٹانےمیں کامیاب نہ ہوئی۔

    جس کے بعد پی ٹی اے نے 30جون کوٹک ٹاک کو ملک بھرمیں بند کردیا تھا۔

  • سگ گزیدگی کے واقعات: کیا سب کام عدالتیں کریں؟ ججز کا متعلقہ محکموں پر اظہار برہمی

    سگ گزیدگی کے واقعات: کیا سب کام عدالتیں کریں؟ ججز کا متعلقہ محکموں پر اظہار برہمی

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں آوارہ کتوں کی بہتات اور ویکسینز کی عدم فراہمی سے متعلق کیس میں عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتے کاٹے کی اطلاع دینے والی ہیلپ لائن 109 کو تبدیل کر کے 7 ہندسوں کا نمبر کیوں رکھا گیا؟ عدالت نے پرانی ہیلپ لائن بحال کرنے کا فوری حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں آوارہ کتوں کی بہتات اور ویکسینز کی عدم فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آوارہ کتوں کی ویکسی نیشن سے متعلق قانون سازی ہو رہی ہے، سندھ کابینہ نے قوانین کی منظوری دے دی ہے۔

    عدالت نے ایڈیشنل سیکریٹری سے دریافت کیا کہ قوانین کی منظوری کا نوٹیفکیشن کب تک جاری ہوگا؟ عدالت نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دے دی۔

    عدالت نے کے ایم سی اور تمام ڈی ایم سیز کو قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے اور کنٹونمنٹ بورڈز میں آوارہ کتوں کی روک تھام کرنے کی ہدایت کی۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بڑی مشکل سے بائی لاز بنائے گئے ہیں، اب عمل درآمد کا وقت ہے۔

    کنٹونمنٹ بورڈز کے وکلا نے کہا کہ آوارہ کتوں کو ویکیسن کے بعد ٹیگ لگایا جا رہا ہے، عدالت نے کہا کہ ڈی ایم سی ملیر میں کتوں کی بہتات ہے جس پر نمائندہ ڈی ایم سی ملیر نے کہا کہ بھینس کالونی میں کتوں کو ویکیسن لگائی جارہی ہے۔

    عدالت نے ایڈیشنل سیکریٹری بلدیات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہیلپ لائن 109 کو 7 ہندسوں کے نمبر کرنے پر اب شہریوں کو یاد ہی نہیں رہتا، آپ نے ہیلپ لائن 109 کو تبدیل کیوں کیا؟ آپ کے خاندان میں کسی کو کتا کاٹے تو پتہ چلے گا، آپ لوگ چاہتے ہیں شہری نمبر ملا ہی نہ سکیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں بلدیات کے محکمے کو ختم کردیتے ہیں، آپ چاہتے ہیں سب کام عدالتیں کریں۔ جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس دیے کہ نمبر تبدیل کرنے کا مقصد لوگوں کو صرف اور صرف تنگ کرنا ہے۔

    عدالت نے ہیلپ لائن نمبر 109 فوری بحال کرنے کا حکم دے دی اور کہا کہ ہیلپ لائن 109 کی بحالی کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں۔

    عدالت نے سیکریٹری بلدیات سے عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کرلی، کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایم سیز سے بھی رپورٹ طلب کر کے کیس کی مزید سماعت 17 اگست تک ملتوی کردی گئی۔

  • سگ گزیدگی کے واقعات: افسران پر 50 ہزار ہرجانہ لگا دینا چاہیئے، عدالت برہم

    سگ گزیدگی کے واقعات: افسران پر 50 ہزار ہرجانہ لگا دینا چاہیئے، عدالت برہم

    کراچی: سگ گزیدگی کے واقعات اور آوارہ کتوں کی روک تھام سے متعلق کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو طلب کرلیا، عدالت نے افسران پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں آوارہ کتوں کی روک تھام اور کتے کے کاٹے کی ویکیسن سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، سیکریٹری بلدیات سندھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سگ گزیدگی کے واقعات بہت بڑھ چکے ہیں کوئی کنٹرول نہیں ہو رہا، ٹاسک فورس کو واقعات کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، بتائیں، آپ کے لوگ کر کیا رہے ہیں؟

    سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ ویکسین کی فراہمی اور نس بندی سے متعلق منصوبے پر کام جاری ہے، جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ اس کا حل موجود ہے، جیسے ہی کسی کو کتا کاٹے، سرکاری افسران کی جیب سے 10 ہزار روپے جرمانہ لگا دیں۔

    انہوں نے کہا کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں، واقعات رک ہی نہیں رہے، کنٹونمنٹ بورڈز اپنی حدود میں کیا کر رہے ہیں؟ جس پر وکیل کنٹونمنٹ بورڈ نے کہا کہ بورڈز نے کام شروع کردیا ہے۔

    جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ افسران پر 50 ہزار ہرجانہ لگا دیں پھر دیکھیں کیسے کام ہوتا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے اظہار برہمی کرتے ہوئے پوچھا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کہاں ہیں اور وہ کیوں نہیں آئے؟ کیا ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو توہین عدالت کے نوٹس بھیجیں؟ یا شوکاز نوٹس جاری کریں؟

    انہوں نے کہا کہ واقعات نہ رکنے پر ڈی ایم سیز اور کے ایم سیز حکام کے خلاف فیصلہ جاری کر دیتے ہیں۔

    سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ ویکسین قانون کے بائی لاز بنا دیے گئے، وزیر اعلیٰ نے منظوری دے دی ہے، آئندہ کابینہ اجلاس میں ڈرافٹ پیش ہوجائے گا، پروجیکٹ کے ٹینڈرز جاری کردیے گئے ہیں۔

    اینٹی ریبیز کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ پروگرام کے باقی امور بھی حتمی مراحل میں ہیں۔ عدالت نے اینٹی ریبیز کنٹرول پروگرام کے مراحل کو 10 دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔

    ڈائریکٹر نے کہا کہ 60 گاڑیوں کی ضرورت ہے جو کتے پکڑنے کے لیے استعمال ہوں گی، کابینہ نے ان گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے۔

    جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ فنڈز کھانے آتے ہیں، کتا پکڑا اور مارا نہیں جاتا، گاؤں میں کتا کاٹے تو کہیں ڈاکٹر نہیں کہیں ویکسین نہیں، حیدر آباد تک پہنچتے پہنچتے بچہ مر جاتا ہے۔ ڈی ایم سیز میں 350 ملازمین ہیں کیا کرتے ہیں؟ کبھی سنا ہے ڈی ایم سیز میں 350 ملازمین؟

    عدالت نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ایڈمنسٹریٹر پیش ہوں اور بتائیں فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا۔

    عدالت نے سیکریٹری بلدیات کو بھی سگ گزیدگی کے واقعات روکنے کا حکم دیا اور انہیں ذاتی حیثیت میں معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے تمام ڈی ایم سیز کو ہفتہ وار رپورٹس جمع کروانے کی ہدایت کی۔

    عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈز حکام کو بھی واقعات روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس کے رہائشی کتوں کے کاٹنے سے بہت زیادہ پریشان ہیں، پارکوں میں بزرگ شہری واک تک نہیں کر پاتے۔ واقعات کو کم کریں یہی پیش رفت اور اچھی کارکردگی کا پیمانہ ہے۔

    عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 جون تک ملتوی کردی۔

  • پاکستان میں روسی کورونا ویکسین کی فروخت کی اجازت

    پاکستان میں روسی کورونا ویکسین کی فروخت کی اجازت

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نےکورونا ویکسین اسپوتنک فائیو کی فروخت کی اجازت دے دی اور ریمارکس میں کہا ویکیسن جتنی جلدی لوگوں کو لگ سکتی ہے لگ جائے، ایسی صورتحال میں ویکسی نیشن روکنا مناسب نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں روسی کورونا ویکسین اسپوتنک کی ریلیز سے متعلق درخواست پرسماعت ہوئی ، سماعت میں ڈریپ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست پر جواب جمع کرایا گیا، جس میں کہا 31 مارچ کو ویکسین ریلیز کردی تھی۔

    جس پر عدالت نے استفسار کیا آپ نے ویکسین کی ریلیز میں کوئی رکاوٹ ڈالی تھی کیا؟ ویکسین جتنی جلدی لوگوں کو لگ سکتی ہے لگ جائے ، ایسی صورتحال میں ویکسی نیشن روکنا مناسب نہیں۔

    ڈریپ حکام نےجواب میں کہا نہیں ہم نے کوئی روکاٹ نہیں ڈالی تھی ، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پرائس فکس ہونے کے بعد معاملہ حل ہو جائے گا تو وکیل فارماکمپنی کا کہنا تھا کہ نہیں پرائس فکس ہونے سے بھی معاملہ حل نہیں ہوگا، کیا ویکسین کی قیمت 8ہزار روپے مقرر ہوجاتی ہے تو ہم فروخت کریں گے ؟

    وکیل ڈریپ نے کہا ویکسین درآمدکی اجازت دی گئی تھی اس وقت بھی پرائس فکس نہیں کیےگئے، کہا گیا تھا کہ ویکسین کی پرائس فکس کرنے کا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔

    عدالت نے ریمارکس میں کہا سندھ ہائیکورٹ نے ویکسین فروخت کرنے سے نہیں روکا، حکومت اب تک کیا کررہی تھی پرائس فکس کیوں نہیں کیے؟ جس پر وکیل ڈریپ نے بتایا کہ آئندہ ہفتےتک ویکسین کی فروخت سےروک دیں ہم پرائس فکس کردیں گے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے وکیل ڈریپ سے مکالمے میں کہا آپ کوتو جلدی کرنی چاہیے کورونا کی تیسری لہر آچکی ہے، وکیل فارماکمپنی مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ہم پرائس ڈیٹا دینے کو تیار ہیں ، 10لاکھ انجکشن کا معاہدہ کرلیا تھا اور 50ہزار ویکیسن منگوالی تھی۔

    وکیل فارماکمپنی نے کہا کمپنی نے ویکسین کی قیمت 12ہزار 226روپے مقرر کررکھی ہے، ہر شہری کی مرضی ہے وہ کتنے پیسوں میں ویکسی نیشن کراتے ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی کمپنی سے 20 لاکھ ویکسین کامعاہدہ کررکھا ہے ، معاہدے کےمطابق غیر ملکی کمپنی سے ویکسین لینی ہے ، ورنہ بھاری نقصان ہوگا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے کورونا ویکسین اسپوتنک 5 کی فروخت کی اجازت دیتے ہوئے درخواست کی مزید سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی۔

  • سندھ ہائی کورٹ نے گجر نالہ آپریشن روکنے سے انکار کردیا

    سندھ ہائی کورٹ نے گجر نالہ آپریشن روکنے سے انکار کردیا

    کراچی :سندھ ہائی کورٹ نے گجر نالہ آپریشن روکنے سے انکار کردیا اور کہا پہلے بھی واضح کر چکےکسی کو حکم امتناع نہیں دیں گے، کسی کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ سےرجوع کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں گجر نالہ آپریشن روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، مکینوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہمارے مکانات پر نشانات لگائےگئے، ہمارے گھر نالے کی حدودمیں نہیں پھربھی نشانات لگائے گئے۔

    عدالت نے کہا شواہد پیش کریں کہ درخواست قابل سماعت ہے اور درخواست کےقابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرلیے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے گجر نالہ آپریشن روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا گجر نالہ آپریشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے، عدالت
    پہلے بھی واضح کر چکےکسی کو حکم امتناع نہیں دیں گے، کسی کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ سےرجوع کرے۔

    یاد رہے کراچی کے گجر نالے کو اصل شکل میں بحال کرنے اور نالے پر قائم تجاوزات کے خاتمے کیخلاف آپریشن تیسرے روز بھی جاری ہے، نالے کے دونوں اطراف آٹھ آٹھ کلومیٹر تک کچی تجاوزات ہٹادی گئی ۔

    ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی کاکہنا ہے کہ 70فیصد سے زائد متاثر مکانات کے متاثرین کو دو سال کا کرایہ دیں گے۔

  • چھالیہ اگر گٹکا نہیں ہے تو کیوں ضبط کی جارہی ہے؟ سندھ ہائیکورٹ

    چھالیہ اگر گٹکا نہیں ہے تو کیوں ضبط کی جارہی ہے؟ سندھ ہائیکورٹ

    کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کی جانب سے چھالیہ ضبط کرنے اور مقدمات درج کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت پر سندھ فوڈ اتھارٹی کو نوٹس جاری کردیا، عدالت کا کہنا ہے کہ چھالیہ گٹکا نہیں ہے تو پھر کیوں ضبط کی جارہی ہے؟

    سندھ ہائی کورٹ میں چھالیہ ضبط کرنے اور مقدمات کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے سندھ فوڈ اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل سے چھالیہ سے متعلق قانونی نکات طلب کرلیے۔

    اس موقع پر اسسٹنٹ اے جی نے اپنے بیان میں کہا کہ گٹکا آرڈیننس کے تحت چھالیہ کی فروخت پر پابندی نہیں ہے تاہم چھالیہ کا مکسچر مضر صحت ہوسکتا ہے۔

    تفتیشی افسر نے ضبط شدہ چھالیہ کا تھیلا عدالت میں پیش کردیا، جسٹس محمد علی مظہر نے تھیلے کو کھلوا کر چھالیہ کا جائزہ لیا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ مقدمہ آرڈیننس پاس ہونے کے 4 ماہ بعد درج کیا گیا، کیا پولیس کو بتایا نہیں گیا تھا کہ چھالیہ پرپابندی نہیں ہے؟

    اسسٹنٹ اے جی نے بتایا کہ آرڈیننس کے حوالے پولیس اور تفتیشی ٹیم کو آگاہ کیا جارہا ہے، درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ پولیس جھوٹے مقدمات بنا کر تاجروں کو تنگ کررہی ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھا کہ چھالیہ گٹکا نہیں ہے تو پھر کیوں ضبط کی جارہی ہے، چھالیہ پان میں بھی ڈالی جاتی ہیں، پان تو بہت سے لوگ کھاتے ہیں۔

    اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولیس نے 95 بوری چھالیہ قبضے میں لے کر مقدمہ درج کرلیا، ایکٹ کا غلط استعمال کرکے پولیس اہلکار پان اور چھالیہ فروخت کرنے والوں کو بھی تنگ کرتے ہیں۔

  • عدالت نے سندھ حکومت کو ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کیخلاف کسی بھی کارروائی سے روک دیا

    عدالت نے سندھ حکومت کو ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کیخلاف کسی بھی کارروائی سے روک دیا

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نےصوبائی حکومت کوایس ایس پی ڈاکٹررضوان کےخلاف انکوائری سےروک دیا اور متعلقہ حکام سے انکوائری رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کےمطابق سندھ ہائی کورٹ میں ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان کے خلاف انکوائری کے معاملے پر سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالت نے استفسار کیا کیا ڈاکٹر رضوان کے خلاف انکوائری میں آئی جی سندھ کو اعتماد میں لیا گیا؟

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ انکوائری کروا سکتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ وہ قانونی نکتہ بتائیں کہ وزیراعلی انکوائری کرا سکتےہیں؟ کیا آئی جی سندھ کے علم میں لایا گیا کہ انکوائری کرائی جارہی ہے، سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ ہر انکوائری اسی طرح ہوتی ہے؟

    عدالت نے کہا ہزاروں کیسز آتے ہیں کیا ہر کیس میں اسی طرح ہوتا ہے ؟ دیکھنا ہوگا وزیراعلیٰ ہر شکایت پر اسی طرح اقدام کرتے ہیں، پولیس کا سربراہ تو آئی جی سندھ ہوتا ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے مکالمہ میں کہا آئی جی سندھ کے علم میں کیوں نہیں لایا گیا، کیا نئے آئی جی کو بتایا گیا ڈاکٹر رضوان کیخلاف انکوائری ہورہی ہے۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ امتیاز شیخ کے خلاف خبریں چلیں تو انکوائری بیٹھا دی گئی، امتیاز شیخ کے جرائم پیشہ عناصر سے متعلق لیٹرپرسب کچھ ہوا، ڈاکٹر رضوان کی انکوائری کے پیچھے امتیاز شیخ ہی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں مداخلت پر سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ فیصلے دےچکی، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا وزیراعلیٰ سندھ کے پاس انکوائری کا اختیار موجود ہے، وزیراعلیٰ سندھ کاڈاکٹر رضوان کیخلاف انکوائری کاحکم قانون کےمطابق ہے۔

    وکیل درخواست گزار نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ سے مشاورت کے بعد اختیار آئی جی سندھ ہی کو ہے، یہ اعلیٰ افسر کا ٹرائل کرنے کے مترادف ہے،آئی جی کے علم میں لائے بغیر، اس طرح تو حکومت کسی بھی پولیس افسر کے خلاف کارروائیاں کرتی رہے گی۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا انکوائری کہاں تک پہنچی تو سرکاری وکیل نے بتایا انکوائری جاری ہے اور معاملہ ایس ایم ڈی جی کو ارسال ہے، عدالت نے استفسار کیا ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کہاں کیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر رضوان کے تبادلے پر ٹھیک جواب نہ دینے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا محکمہ داخلہ، پولیس کسی کو نہیں پتہ کہ کہاں تبادلہ کیا گیا، جس پر محکمہ داخلہ سندھ نے بتایا ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ سی پی او کیا گیا ہے۔

    عدالت نے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کے خلاف انکوائری پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ڈاکٹر رضوان کیخلاف کسی بھی کارروائی سےروک دیا اور کہا فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پرڈاکٹررضوان کیخلاف کارروائی نہ کی جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ حکام سے 17 مارچ تک انکوائری رپورٹ طلب کرلی اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا انکوائری مکمل کرکے متعلقہ حکام کو بھیجی جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے سروسز جنرل اینڈ کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ کو انکوائری رپورٹ پر فیصلےکی بھی ہدایت کی۔

  • ٹریفک پولیس شہریوں کو ہراساں نہ کرے، سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت

    ٹریفک پولیس شہریوں کو ہراساں نہ کرے، سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے ٹریفک پولیس کو متنبہ کیا ہے کہ شہریوں کو گاڑیوں کی نمبر پلیٹ سے متعلق ہراساں نہ کیا جائے، عدالت نے ایکسائز حکام کو فوری طور پر نمبر پلیٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے شہریوں کو گاڑیوں کے نمبر جاری نہ کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کی، درخواست گزار کا موقف تھا کہ دو سال سے نئی گاڑیوں کو نمبر پلیٹ جاری نہیں کی جارہیں، محکمہ ایکسائز نمبر پلیٹ نہیں دے رہا اور دوسری جانب ٹریفک پولیس ہراساں کر رہی ہے۔

    سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے محکمہ ایکسائز حکام سے استفسار کیا کہ آپ شہریوں کو نمبر پلیٹ دے نہیں رہے اور الٹا آپ ان کو روک رہے ہیں، کیا اب عوام کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی؟

    جس پر ایکسائز حکام کا کہنا تھا کہ شہریوں کو گاڑیوں کی نمبر پلیٹ جاری کرنا شروع کر دیا گیا ہے، ٹریفک پولیس کو شہریوں کو نمبر پلیٹ سے متعلق ہراساں کرنے سے روک دیا گیا، جن کے پاس نمبر پلیٹ کی جگہ سرٹیفکیٹ ہے انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔

    عدالت سندھ ہائی کورٹ کا ایکسائز حکام کو شہریوں کو فوری نمبر پلیٹ جاری کرنے کا حکم دیا، جج کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ڈی آئی جی ٹریفک جاوید علی مہر کیا کر رہے ہیں؟

    جواب میں نمائندہ ڈی آئی جی ٹریفک نے کہا کہ ہم صرف فینسی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو روک رہے ہیں، نمبر پلیٹس کے اجرا کا کام شروع کردیا گیا ہے، 7 ہزار نمبر پلیٹ بن رہی ہیں، عدالت نے کہا کہ سات ہزار نمبر پلیٹس سے کیا ہوگا آپ گزشتہ دو سال سے نمبر پلیٹ جاری نہیں کر رہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شہر میں دو سے3 لاکھ گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے چل رہی ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے باوجود گاڑیوں کو کیوں روک رہے ہیں؟ جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ڈی آئی جی ٹریفک نے پولیس آفیشلز کو نئی ہدایات جاری کردی ہیں۔

  • زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    کراچی: خواتین سے زیادتی کے متعلق قانون سازی کے کیس میں عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آئے گی تو ملزمان کو سزا کیسے ہوگی؟

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں خواتین سے زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دلوانے پر قانون سازی سے متعلق کیس کے دوران، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ کیسز کے متعلق اصلاحات نہیں ہوئیں، 6، 6 ماہ تک مقدمات درج نہیں ہوتے۔ عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ سماعت میں پہنچے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب بتائیں، کیا فنڈز کا کوئی ایشو ہے گواہوں کے تحفظ کا قانون بنایا مگر کیا عمل کر رہے ہیں؟ ریپ کیسز میں اسکریننگ تک نہیں ہو رہی، آئی جی صاحب، تفتیشی افسر ڈی این اے لینے سے انکار کردے تو کیا کریں گے؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ بہت سے کیسز میں ڈی این اے کیے گئے ہیں، ہمارا ایک ایس او پی ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ ایک تفتیشی افسر نے 6 ماہ تک ڈی این اے نہیں کروایا جس پر عدالت نے آئی جی سے دریافت کیا کہ آپ اپنے تفتیشی افسر کا کیا کریں گے جو ایس او پی پر عمل نہیں کرتا۔

    عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ایس ایچ او کو کوئی ہدایات جاری کیں؟ لوگوں کو تو سادہ ایف آئی آر تاخیر سے کٹنے کی شکایت ہوتی ہے۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی این اے کے لیے لکھا جاتا ہے، ’اگر ضروری ہو تو‘، ان الفاظ پر آپ کے تفتیشی افسران فائدہ اٹھاتے ہیں، ریپ کیسز میں ڈی این اے میں ’اگر ضروری ہو‘ کہاں سے آگیا؟

    عدالت نے کہا کہ سندھ میں 598 تھانے ہیں مگر ڈی این اے ٹیسٹ کتنوں میں ہوا۔ درخواست گزار نے کہا کہ ڈی این اے کروانے کے بعد تفتیشی افسر 6 ماہ تک کٹ لے کر گھومتے رہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ڈی این اے رپورٹ اس لیے نہیں دی کہ پیسے نہیں تھے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ کیا پولیس کے پاس فنڈز نہیں؟ جامعہ کراچی میں جامعہ جامشورو کے فنڈز سے ڈی این اے ہو رہے ہیں۔ اس طرح آپ کیس خراب کر رہے ہیں، ملزمان بری ہو جائیں گے۔ الزام عدالت پر آتا ہے کہ ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوگئیں۔

    آئی جی سندھ نے کہا کہ زیادتی کے 796 کیسز زیر سماعت ہیں ان کی پوری طرح ذمہ داری لینے کو تیار ہیں، ایک ہفتہ دیں پوری تیاری کر کے عدالت کو آگاہ کردیں گے۔

    عدالت نے کہا کہ 2، 2 سال رپورٹ نہیں آئے گی تو زیادتی کیسز میں سزا کیسے ہوگی، 2016 اور 2017 کے کیسز میں رپورٹس نہیں آئیں۔ بچوں کے کیسز میں اس طرح مت کریں۔

    جج نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی اور جامشورو یونیورسٹی نے بھی مذاق بنا رکھا ہے، یونیورسٹیز نے کیوں 2، 2 سال سے رپورٹس کو دبائے رکھا ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو فوری اجلاس طلب کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے زیادتی کے کیسز میں سندھ حکومت کو فنڈز کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا۔

    عدالت نے زیادتی کے کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے اور ڈی این اے ٹیسٹ بروقت کروانے کو یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

  • تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے: والد کی عدالت میں دہائی

    تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے: والد کی عدالت میں دہائی

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے مبینہ طور پر اغوا شدہ لڑکی کے والد نے عدالت کے سامنے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں مبینہ طور پر اغوا شدہ لڑکی کی عدم بازیابی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ لڑکی کے والد اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

    لڑکی کے والد نے عدالت میں موجود تفتیشی افسر پر اغوا کا الزام عائد کردیا۔ والد نے کہا کہ میری بیٹی کو سعید آباد سے سنہ 2014 میں اغوا کیا گیا۔

    تفتیشی افسر نے عدالت میں کہا کہ لڑکی نے پسند کی شادی کی ہے اور اب وہ اٹک بھاگ گئی ہے۔ افسر نے والد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ چلیں ہم لڑکی کو بازیاب کرواتےہیں۔

    لڑکی کے اہلخانہ نے پولیس کے ساتھ اٹک جانے سے انکار کردیا، لڑکی کے والد نے کہا کہ جس تفتیشی افسر نے بیٹی اغوا کی اس کے ساتھ کیسے جائیں۔

    عدالت نے ڈی آئی جی ویسٹ کو لڑکی کی تلاش سے متعلق نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔