Tag: Sindh High Court

  • نیب گرفتاری کا خوف، پی پی رہنماء عدالت پہنچ گئے، ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی

    نیب گرفتاری کا خوف، پی پی رہنماء عدالت پہنچ گئے، ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی

    کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) کے خوف اور گرفتاری سے محفوظ رہنے کے لیے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر اسمبلی کی آمدن سے زائد اثاثوں میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی نے سندھ ہائی کورٹ میں عبوری ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کردی۔

    رکن قومی اسمبلی اعجاز جاکھرانی جبکہ اراکین سندھ اسمبلی تیمور تالپور، عبدالرزاق کو سندھ ہائی کورٹ کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی جبکہ عدالت نے نیب کو جام خان شورو کے خلاف کارروائی سے بھی روک دیا۔

    مزید پڑھیں: زیر حراست اسپیکر کی سربراہی میں اجلاس، آغا سراج درانی کی نیب کے خلاف ہرزہ سرائی

    رکن سندھ اسمبلی تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ ’نیب نے اثاثوں کی تفصیلات کے ساتھ طلب کیا ہے لہذا گرفتاری سے روکا جائے‘۔

    ایک اور درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی جس کے دوران جام خان شورو کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل کا حیدرآباد میں سی این جی اسٹیشن 8 ماہ پرانا ہے، نیب انہیں طلب کر کے ہراساں کررہا ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو جام خان شورو کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے چیئرمین نیب سمیت دیگر فریقین کو 14 مارچ کے لیے نوٹس جاری کردیے۔

    یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب آغا سراج درانی کی فیملی سے بدسلوکی کا نوٹس لیں: وزیر اعلیٰ سندھ

    یاد رہے کہ نیب نے دو روز قبل اسلام آباد سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد اُن کے گھر پر چھاپہ مار کر اہم دستاویزات بھی قبضے میں لی گئیں، بعد ازاں احتساب کورٹ نے اسپیکر اسمبلی کو 10 روز کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا۔

  • کراچی سے لاپتہ بچوں کے کیس کی تحقیقات کے لئے  جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    کراچی سے لاپتہ بچوں کے کیس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتہ بچوں کے مقدمے میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا اور احکامات دئیے کہ بچوں کی بازیابی کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جائے، عوامی مقامات پر بچوں کی تصاویر آویزاں کی جائیں اور اکیس مارچ کو پیشرفت رپورٹ پیش کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں شہر کراچی میں گزشتہ سال بچوں کے اغوا اور گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،کے معاملے کی سماعت ہوئی ، سماعت کے دوران والدین کی جانب سے دی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ بچوں کو شہر کے علاقوں سے اغوا کیے گئے ، بچوں کی عمریں ڈھائی سے 14سال ہیں، گمشدہ بچوں میں کبری، مسلم جان، رابعہ، گل شیر، ابراہیم جاوید، بوچا، عدنان محمد ،منزہ، نور فاطمہ، صائمہ، عبدالواحد، محمد حنیف، ثانیہ، سہیل خان بھی گمشدہ بچوں میں شامل ہیں۔

    درخواست میں بتایا گیا کہ 20 لاپتہ بچوں میں سے اب بھی 12 بچے لاپتہ ہیں پولیس تفتیش میں تعاون نہیں کررہی، گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ کا  بچوں کی بازیابی کیلئےجدیدآلات کااستعمال اور عوامی مقامات پر بچوں کی تصاویر آویزاں کرنے کا حکم

    ڈی آئی جی سی آئی ای عارف حنیف نے جواب داخل کراتے ہوئے بتایا کہ دو لاپتا بچوں کے والدین نے بی فارم فراہم کیے، ان بچوں نے ملک سے باہر سفر نہیں کیا۔

    جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے بچوں کی بازیابی سے متعلق پولیس رپورٹس کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بچوں کی بازیابی سے متعلق پولیس کے کارکردگی غیر سنجیدہ ہے، لاپتا بچوں کی بازیابی کے لیے مارڈرن ڈیوائسز کا استعمال کیا جائے اور عوامی مقامات پر بچوں کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔

    یاد رہے 17 جنوری کو ہونے والی سماعت میں پولیس نے عدالت میں لاپتہ بچوں کی بازیابی میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تھا ، جس پر عدالت نے حکم دیا تھا کہ کچھ بھی کریں بچوں کو بازیاب کرائیں، ہمیں پیش رفت چاہئے۔

    مزید پڑھیں : کراچی پولیس کا لاپتہ بچوں کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف، سندھ ہائیکورٹ برہم

    عدالت نے لاپتہ بچوں کی گمشدگی کے معاملے پر جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پولیس حکام سے اکیس مارچ کو پیش رفت رپورٹ طلب کرلی اور سماعت ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ 4 ماہ قبل اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اے آئی جی سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا تھا کہ سال2018میں اب تک اغواء کے 8 کیسز رپورٹ ہوئے، تمام آٹھ بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر امیر شیخ کا مزید کہنا تھا کہ 2018 میں اب تک 186 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 90 فیصد مل گئے، اس کے علاوہ اغوا کا کوئی واقعہ ہے تو وہ ہماری اطلاع میں لایا جائے۔

  • اے کلاس مقدمات کی متنازعہ رپورٹس پر سندھ ہائی کورٹ کا اظہار عدم اطمینان

    اے کلاس مقدمات کی متنازعہ رپورٹس پر سندھ ہائی کورٹ کا اظہار عدم اطمینان

    کراچی : صوبہ سندھ میں اے کلاس مقدمات سے متعلق پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور آئی جی کی رپورٹوں میں تضادات پر سندھ ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں صوبے بھر کے اے کلاس مقدمات سے متعلق رپورٹ پیش کردی گئی، اے کلاس مقدمات پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور آئی جی کی عدالتوں میں پیش کی گئی رپورٹس میں تضاد پایا گیا ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے مذکورہ رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا، اس حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام نے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کوسنجیدہ نہیں لیا۔

    آئی جی سندھ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ بھر میں54ہزار400مقدمات زیرالتوا ہیں جبکہ پراسیکیوٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق88ہزار211مقدمات زیر التوا ہیں۔

    عدالت کا مزید کہنا ہے کہ صرف کراچی کے3اضلاع میں46ہزار مقدمات زیرالتوا ہیں، سندھ پولیس کے اے کلاس مقدمات کا جامع ریکارڈ نہیں ہے، اے آئی جی لیگل اے کلاس مقدمات سے بےخبر ہیں اور اب تک عدالت کی معاونت کرنے میں ناکام رہے ہیں، ریکارڈ کو اپ ڈیٹ رکھنا پولیس مجسٹریٹ عدالتوں کی ذمہ داری ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ ہر15دن بعد اے کلاس مقدمات کو کازلسٹ میں شامل کیا جائے اور عدالتیں مقدمے میں متاثرہ فریق اور تفتیشی افسر کو طلب کریں۔

    عدالت کی جانب سے ایم آئی ٹی کو حکم جاری کیا گیا کہ ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ کا ریکارڈ ویب پراپ لوڈ کیا جائے، عدالت نے آئی جی سندھ کو صوبے بھر میں تفتیشی سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ مذکورہ تفتیشی سیل صوبے، ڈویژن اور ضلعی سطح پر بنائےجائیں۔

    چیئرمین نادرا کو بھی معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پولیس سے بھرپور تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اس کے علاوہ عدالت نے اےآئی جی کراچی کو اے کلاس مقدمات کی علیحدہ تفصیل جمع کرانے کی ہدایت ہوئےسی ٹی ڈی، ایس آئی یو، اے وی سی سی کو بھی ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا۔

  • کراچی پولیس کا لاپتہ بچوں کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف، سندھ ہائیکورٹ برہم

    کراچی پولیس کا لاپتہ بچوں کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف، سندھ ہائیکورٹ برہم

    کراچی : پولیس نے عدالت میں لاپتہ بچوں کی بازیابی میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا، عدالت نے حکم دیا کہ کچھ بھی کریں بچوں کو بازیاب کرائیں، ہمیں پیش رفت چاہئے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں کراچی سے لاپتہ بچوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر پولیس نے رپورٹ جمع کرائی جس میں اعتراف کیا گیا کہ اٹھارہ بچوں کی بازیابی میں کامیابی تاحال نہیں ملی ہے۔

    ڈی آئی جی کرائم برانچ نے عدالت کو بتایا کہ بازیابی کی پوری کوشش کررہے ہیں، ایک بچی عاصمہ سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ بچی بلوچستان میں ہے۔

    ڈائریکٹر ایف آئی اے نے اپنے بیان میں کہا کہ اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل بچوں کی بازیابی کیلئے کام کررہا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ باربارحکم کے باوجود بچوں کو بازیاب نہیں کرایاجارہا ، ہمیں پیشرفت چاہئے، کچھ بھی کریں بچوں کو بازیاب کرائیں۔

    مزید پڑھیں: کراچی سے تمام بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے: اے آئی جی سندھ

    عدالت نے پولیس کو لاپتہ بچوں کا مکمل نادرا ریکارڈ ایف آئی اے کو دینے کا حکم دیتے ہوئے پولیس اور ایف آئی اے سے اکتیس جنوری تک پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

    واضح رہے کہ ساڑھے تین ماہ قبل اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اے آئی جی سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا تھا کہ سال2018میں اب تک اغواء کے 8 کیسز رپورٹ ہوئے، تمام آٹھ بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر امیر شیخ کا مزید کہنا تھا کہ 2018 میں اب تک 186 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 90 فیصد مل گئے، اس کے علاوہ اغوا کا کوئی واقعہ ہے تو وہ ہماری اطلاع میں لایا جائے۔

  • نجی تعلیمی اداروں کی اضافی فیسوں کی وصولی سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی

    نجی تعلیمی اداروں کی اضافی فیسوں کی وصولی سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی

    کراچی :  پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے طلباء و طالبات کی اضافی فیسوں سے متعلق درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ میں16جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے اضافی فیس وصولی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسکول کے وکیل کی عدم حاضری کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی۔

    درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ ماہ اپریل میں تعلیمی سیشن مکمل اورالوداعی تقریب منعقد ہوگی جبکہ تعلیمی ادارہ جولائی تک کی فیس مانگ رہا ہے۔

    اس کے علاوہ اے لیول کے امتحانات سے ادارے کی انتظامیہ کا کوئی تعلق نہیں، درخواست گزار نے استدعا کی کہ تعلیمی ادارے کو اضافی فیسوں کی وصولی سے روکا جائے۔

    دوران سماعت عدالت نے تعلیمی ادارے کے وکیل سے استفسار کیا کہ جو طالب علم آپ کے ادارے کیلئے سابق ہوگیا تو اس کی فیس کس لیے مانگ رہے ہیں؟

    جواب میں جونیئر وکیل کا کہنا تھا کہ مذکورہ اسکول کے وکیل فیصل صدیقی اسلام آباد میں مصروف ہیں، اس سے پہلے بھی چار مرتبہ فیصل صدیقی کی مصروفیات کے باعث سماعت ملتوی ہوچکی ہے، جس پر عدالت نے کیس کی سماعت16جنوری تک ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اسکولوں میں فیسوں میں اضافوں کے خلاف کیس میں اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ تعلیم کاروبار یا انڈسٹری نہیں بنیادی حق ہے۔

    نجی اسکول مافیا نے ملی بھگت سے سرکاری اسکولوں کابیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اسکولوں کے وکلاء نے استدعا کی کہ فیسوں کے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: نجی اسکول مافیا نے ملی بھگت سے سرکاری اسکولوں کابیڑہ غرق کر دیا، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے اس پر از خود نوٹس لینے کے بارے سوچ رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے لوگوں نے اسکولز کھول کر والدین کا استحصال شروع کر رکھا ہے، اتنی تنخواہ نہیں جتنی والدین کو فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں، فیسیں دے دےکر والدین چیخ اٹھتے ہیں۔

  • سندھ ہائی کورٹ نے  2005 سے فیس بڑھانے والے اسکولوں کی تفصیل طلب کرلی

    سندھ ہائی کورٹ نے 2005 سے فیس بڑھانے والے اسکولوں کی تفصیل طلب کرلی

    کراچی : اسکول فیس میں پانچ فیصد سے زائد اضافے سے متعلق کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے دو ہزار پانچ سے حکومتی منظوری کے بغیر فیس بڑھانے والے اسکولوں کی تفصیل طلب کرلی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اسکول کھولنے کے بعد فیسوں میں مزید اضافہ کردیا گیا، عدالتی احکامات کا مذاق مت بنائیں، اپنےحکم پرعمل درآمد یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اسکول فیسز میں پانچ فیصد سے زائد اضافے کے خلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت ہوئی ، ڈی جی پرائیویٹ اسکولز ڈاکٹرمنصوب صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا توہین عدالت کی درخواست کی کاپی نہیں ملی، عدالتی حکم پرعمل درآمدرپورٹ جمع کرادی ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس میں کہا درخواست کی کاپی کیاگھرپرجاکردیں گے؟ پرانے ریٹس پر فیسوں کے چالان ایشو کریں۔

    جسٹس عقیل احمد نے استفسار کیا سپریم کورٹ میں سماعت اورحکم امتناع سےمتعلق پوچھاتھا، لوگ پریشان ہیں،عدالتی حکم پرعمل کابتائیں، سماعت مزیدملتوی کریں گےتولوگ مزیدپریشان ہوں گے۔

    عدالت نے مزید کہا اسکول کھولنے کے بعد فیسوں میں مزیداضافہ کردیا، عدالتی احکامات کا مذاق مت بنائیں، جس پروکیل فاؤنڈیشن اسکول نے بتایا 5فیصد سےزیادہ فیس میں اضافہ نہیں کیا، اسکول مالکان عدالتی حکم پر بالکل عمل درآمدنہیں کررہے، جسٹس عقیل احمدعباسی نے کہا عدالت کو معاملات کا پتہ ہوتا ہے، جواضافی اسکول فیس لے گئی وہ ایڈجسٹ کرنےکا کہا ہے۔

    بیکن ہاؤس اور سٹی اسکول کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے ، جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتےہیں عدالت فردجرم عائدکرے، آپ اپنی درخواست واپس لیں۔

    ڈی جی پرائیویٹ اسکول سےمکالمہ میں کہا ہم نے درخواست دی کہ ہم والدین کوکہیں فیس جمع کرائیں؟ آپ نےکہاریکارڈبارش میں خراب ہوگیا،اپنے حکم پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ڈی جی پرائیویٹ اسکول سے2005 سے فیس میں اضافے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت کی بغیرمنظوری فیس بڑھانے والوں کی تفصیلات دیں۔

    درخواست گزار نے کہا اسکول والے2 سے 3 ماہ کی فیسیں ایک ساتھ لے لیتے ہیں، جس پر اسکول مالکان کا کہنا تھا کہ اضافی فیس سپریم کورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سمیت 4 اسکولوں کوتوہین عدالت کے نوٹس جاری کئے تھے ، عدالت نے تمام اسکولوں کو حکم نامے پر مکمل عمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت سےفیس اسٹرکچر کاریکارڈ بھی مانگا تھا۔

    واضح رہے یاد رہے کہ 3 ستمبرکو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کا اختیار نہیں ہے، عدالت نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس وصولی سے روک دیا تھا۔

  • متنازع ٹی 10 لیگ کسی پاکستانی شہر کا نام اپنے مفاد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی: سندھ ہائی کورٹ

    متنازع ٹی 10 لیگ کسی پاکستانی شہر کا نام اپنے مفاد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی: سندھ ہائی کورٹ

    کراچی: متنازع ٹی 10 لیگ اب پاکستان کے کسی شہرکا نام اپنےمفاد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی.

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے نے ٹی 10 لیگ پر پاکستانی شہر وں کے نام استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی.

    عدالتی فیصلے کے مطابق ٹی ٹین لیگ میں کراچی، کراچینز یا اس سے ملتےجلتے نام استعمال نہیں کیے جائیں گے.

    عدالت کے مطابق کراچی، کراچینز، کنگز  یا اس سے  ملتے جلتے ناموں کے اشتہارات بھی جاری نہیں کیے جا سکتے.

    متنازع ٹی 10 لیگ انتظامیہ کی جانب سےکراچی یا ملتے جلتے نام استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے.

    عدالت میں استغاثہ کے دلائل پر وکیل صفائی کے پاس نہ تو کوئی دلیل تھی نہ کوئی جواب تھا، ٹی ٹین انتظامیہ کو عدالتی فیصلہ ماننا پڑا۔

    تجزیہ کاروں نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستانی کرکٹ کے مالی مفادات محفوظ ہوں گے.

    واضح رہے کہ ٹی 10 لیگ پہلے ہی  کئی مشکلات کا شکار ہے، گذشتہ دونوں ٹی ٹین لیگ کے پہلے سیزن کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا، جب آئی سی سی نے کرپشن کے الزامات پر  سابق سری لنکن کرکٹر دلہارا لوکوہیٹگے کو معطل کر دیا تھا.

    یاد رہے کہ آل راؤنڈر شعیب ملک نے بھی گذشتہ دونوں‌ٹی 10 لیگ نہ کھیلنے کا اعلان کیا تھا، پاکستان کرکٹ بورڈ بھی متنازع لیگ پر تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، جب کہ اس کے لیے فنڈنگ کا معاملہ بھی واضح نہیں۔

  • سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس

    سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں صوبے میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت میں عدالت نے افسران کی سخت سرزنش کی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں کام کرنے والی گیس و پیٹرول کمپنیوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    درخواست گزار نے کہا کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر کمپنیاں عملدر آمد نہیں کر رہیں، مقامی سطح پر ترقیاتی اور فلاح و بہبود کے کام میں تعاون نہیں کیا جا رہا۔

    عدالت نے 30 اکتوبر تک قمبر شہداد کوٹ اور بدین میں کمپنیز سے رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ رپورٹ میں ملازمین کی تفصیل ڈومیسائل کے ساتھ پیش کی جائے، مولوی اور مؤذن کی تفصیل بھی ڈومیسائل کے ساتھ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

    عدالت میں قمبر شہداد کوٹ میں گیس فیلڈ مزرانی میں مقامی ملازمین کی بھرتی کی رپورٹ پیش کی گئی۔

    ڈپٹی کمشنر قمبر شہداد کوٹ جاوید جاگیرانی نے بتایا کہ 6 میں سے ایک انجینئر مقامی ہے باقی سب باہر سے آئے ہیں۔

    عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتہ ہے آپ کے ضلع میں مقامی لوگوں سے ناانصافی ہو رہی ہے؟ ایسی صورتحال پیدا نہ کریں کہ آپ کی آنے والی نسلیں بھیک مانگیں۔

    چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ اپنی ڈیوٹی کے فرائض انجام نہیں دے رہے، کیوں نہ آپ کے چیف سیکریٹری کو لکھا جائے کہ آئندہ آپ کو فیلڈ پوسٹنگ نہ دی جائے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ کو بھی طلب کرلیا۔

    سماعت میں ضلع گھوٹکی کے سابق ڈپٹی کمشنر کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قادر پور گیس فیلڈ نے ترقیاتی کاموں کی مد میں فنڈ نہیں دیا۔ گیس فیلڈ نے نمائندے نے کہا کہ ہم نے فنڈز دیے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر نے جب رپورٹ میں سچ لکھا تو اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ عدالت نے نئے تعینات ڈپٹی کمشنر گھوٹکی کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا۔

    عدالت نے کہا کہ بیان حلفی میں بتائیں 2013 سے کمپنیوں نے ترقی کے لیے کتنی رقم خرچ کی، کمپنی والوں کو مولوی اور مؤذن بھی باہر سے چاہئیں۔

    سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے مزرانی گیس فیلڈ افسران کی بھی سرزنش کی گئی۔ ہائیکورٹ میں کیس کی مزید سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

  • اغوااور گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی، آئی جی سندھ کلیم امام  کو  پیش ہونے کا حکم

    اغوااور گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی، آئی جی سندھ کلیم امام کو پیش ہونے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے آئی جی سندھ کو طلب کرکے بچوں کی بازیابی کے لئے ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت میں فوکل پرسن ڈی آئی جی کرائم برانچ غلام سرور جمالی پیش ہوئے۔

    عدالت نے فوکل پرسن سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں، کیا پیشرفت ہوئی، غلام سرور جمالی نے بتایا کہ تئیس میں سے ایک بچی واپس گھر آئی۔

    جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ باقی بچوں کا کیا ہوا؟ بازیابی کیلئے اجلاس کب ہوا؟ آئی جی سندھ کو کہا تھا کسی فعال ڈی آئی جی کو لگائیں اور بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی تھی، آپ نے اجلاس کرکے رسمی کارروائی پوری کردی۔

    عدالت نے آئی جی سندھ کو کیس فعال کرنے اور ڈی آئی جی کے سپرد کرنے کی ہدایت جاری کی اور حکم دیا کہ بچوں کی بازیابی کے لئے ٹیم بھی تشکیل دیں اور لاپتا بچوں کی بازیابی کو جلد سے جلد یقینی بنائیں۔

    عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی کلیم امام کوآئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں پیش وضاحت کریں۔

    سندھ ہائیکورٹ نے بچوں کی بازیابی کے لیے پولیس کو تمام جدید ٹیکنیکس استعمال کرنے اور بچوں کو بازیاب کراکے تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہےآج صبح  آئی جی سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا  کہ غیر جانبدار رہتے ہوئے پولیس اپنا کام جاری رکھے گی، پولیس پر کوئی دباؤ نہیں، اچھا کام کرنے والے کو انعام دیا جائے گا۔

    ئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی بڑا شہر ہے، پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔ ہماری کوتاہی کی نشاندہی کریں، عوام کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ نیک نیتی سے کام کریں گے۔

  • سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا، تحقیقات کی مانیٹرنگ کےلیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے سینئر جج مقرر کرنے کی سفارش بھی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالت نے سانحہ کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مانیٹرنگ کے لیے سینئرجج مقرر کرنےکی سفارش کردی جبکہ صوبائی حکومت کو حکم دیا گیا کہ انکوائری کے حوالے سے  سندھ ہائی کورٹ کو انکوائری کو خط لکھا جائے۔

    عدالت نے ٹربیونل کے دائرہ کار کا بھی تعین کردیا اور کہا کہ تحقیقاتی ٹریبونل امن و امان خراب کرنے اور ذمہ داران کا تعین کرے اور یہ بھی تعین کرے  کہ کس کے حکم پر راستے بند اور شہر کا امن خراب کیا گیا۔

    عدالت نے اب تک ہونے والی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ  کیا اس وقت کے چیف جسٹس کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا؟ ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کس کے حکم یرغمال بنایا؟ پولیس شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہوئی؟

    سندھ ہائی کورٹ نے 12مئی اور اس سے قبل اداروں میں رابطوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا 12 مئی کو ممکنہ صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے حکام نے کیا احکامات دیے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے اور بتایا جائے پولیس نے بند راستے کھولنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے؟

    عدالت نے کہا کہ  بتایا جائے  کہ چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے؟ استقبال کرنے والوں کو کسی خاص جماعت نےنشانہ بنایا؟ کسی خاص جماعت کے کارکنان نے نشانہ بنایا تو جماعت و ذمہ دران کا تعین کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والےادارےشہریوں کی جان ومال کےتحفظ میں کیوں ناکام ہوئے؟ سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کی مدد لی تھی؟ کیاسندھ حکومت امن وامان کی ممکنہ صورتحال سےآگاہ تھی؟ اور اے این پی، پی پی، ایم کیو ایم و دیگر کو 12مئی کو ریلی کی اجازت کیوں دی گئی؟

    خیال رہے درخواست گزاراقبال کاظمی نے کیس دوبارہ سننے اور سانحے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی جبکہ عدالتی معاونین نے کمیشن بنانے کے حق میں دلائل دیے کہ دو رکنی بینچ ازسر نو تحقیقات کے لئے کمیشن بناسکتی ہے۔

    درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف ، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بنایا گیا ہے اور کہا کہا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا، 2008 میں سندھ ہائی کورٹ کےلارجر بینچ نے درخواستوں کو ناقابل قرار دے دیا تھا۔

    سندھ حکومت کی جانب سے کمیشن بنانے کی مخالفت کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 12 مئی 2018 کو ہائی کورٹ کو تین ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کے وکلاء سمیت عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    واضح رہے 12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آمد پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور چیف جسٹس کو کراچی ائیر پورٹ پر روک دیا گیا تھا، اس دوران مختلف مقامات پر فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے واقعات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔