Tag: sindh police

  • سندھ پولیس کے گریڈ 16 کے افسران کی اگلے گریڈ میں ترقی

    سندھ پولیس کے گریڈ 16 کے افسران کی اگلے گریڈ میں ترقی

    کراچی : سندھ حکومت نے گریڈ 16 کے پولیس افسران کو گریڈ 17 میں آفس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی۔

    سندھ پولیس کے گریڈ 16 کے 62 ترقی کے منتظر سینئر موسٹ اسسٹنٹ کو گزیٹیڈ گریڈ 17 آفس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ ترقی ان افسران کے 5 سال اسسٹنٹ گریڈ 16کے عہدے پر برقرار رہنے کے بعد دی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ان تمام پولیس افسران کو مؤرخہ 05.12.2024 کو اگلے عہدے پر ترقی کے لیے کنسیڈر کیا تھا۔

    ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن آج مورخہ 25.03.2025 کو جاری کردیا گیا ہے، تمام افسران کو نیا رینک مبارک ہو۔

    یاد رہے کہ سندھ حکومت نے پولیس کی تفتیشی صلاحیت مزید بہتر بنانے کیلیے 2 ہزار اے ایس آئی انویسٹی گیشن بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس حوالے سے گزشتہ روز چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی زیرِ صدارت سروس اسٹرکچر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیشی صلاحیت کی بہتری کیلیے 2 ہزار اے ایس آئی بھرتی کریں گے، اقدام پولیس کی تحقیقاتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلیے اہم ہے۔ آصف حیدر شاہ نے کہا کہ پولیس کی انویسٹی گیشن برانچ بہتر بنا کر جرائم پر قابو پایا جائے گا۔

  • سراغ رساں کتوں کی تربیت کیسے کی جاتی ہے؟

    سراغ رساں کتوں کی تربیت کیسے کی جاتی ہے؟

    دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جرائم کی سرکوبی کیلیے سراغ رساں کتوں کی صلاحیت سے استفادہ لیا جاتا ہے، جس کیلیے انہیں خصوصی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

    دہشت گردی کا واقعہ ہو، منشیات تلاش کرنی ہو یا کسی لاپتہ شخص کو ڈھونڈنا ہو اس کیلیے پولیس کی جانب سے سراغ رساں کتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    Dog 2

    اس سلسے میں سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ ان کتوں کو خصوصی تربیت دیتی ہے، کراچی میں کے نائن نامی یونٹ سندھ پولیس کا خصوصی یونٹ ہے جس میں سراغ رساں کتوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

    اس حوالے سے کے نائن یونٹ کے ٹرینر نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس 40سراغ رساں کتے ہیں جن میں لیبرا ڈار، روڈ ویلر جرمن شیفرڈ اور دیگر نسلوں کے قیمتی کتے شامل ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    ان کتوں کو تربیت دینے کیلیے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے اگر کتے کو صرف نارکوٹکس پر ہی لگا دیا جائے تو وہ صرف منشیات کی ہی کٹیگری میں کام کرے گا۔

    یہ کتے انتہائی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور صورت حال کے حساب مختلف قسم کی خدمات انجام دیتے ہیں جن میں منشیات کی تلاش، دھماکہ خیز مواد کا پتہ چلانا، گم شدہ یا اغوا شدہ افراد تک رسائی، جبکہ ایسے مقامات تک پہنچنا جہاں کوئی جرم ہوا وغیرہ شامل ہیں۔

    Dog

    ڈیوٹی کے دوران وہ اپنے ہینڈلر کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور احکامات کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہینڈلر یا مالک کی آواز کے علاہ محض اشارے سے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ان کو کیا کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

    ان کتوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کبھی عام لوگوں کو تنگ نہیں کرتے، کسی بھی رش کے مقام پر کتنے ہی لوگ پھر رہے ہوں لیکن یہ کسی پر نہیں بھونکتے نہ ہی ان کے پیچھے بھاگتے ہیں تاوقتیکہ ان میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کے پاس کوئی غیرقانونی چیز نہ ہو یا پھر کوئی جرم کرکے آ رہا ہو۔

    Dog 3

    اس موقع پر ان تربیت یافتہ کتوں کی صلاحیت کا امتحان لینے کیلیے ایک ڈیمو بھی کیا گیا جس میں ایک گاڑی کے خفیہ مقام پر منشیات کو چھپایا گیا جسے کتے نے چند منٹوں میں ہی کھوج لیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان آرمی کے زیراہتمام راولپنڈی میں کتوں کی تربیت کیلیے ایک باقاعدہ ٹریننگ سنٹر اور اسکول بھی ہے جس کو 1952 میں قائم کیا گیا تھا۔

  • ویڈیو: سی ویو پر گہرے پانی سے سندھ پولیس کی ڈوبی گاڑی برآمد، گاڑی کون چلا رہا تھا؟

    ویڈیو: سی ویو پر گہرے پانی سے سندھ پولیس کی ڈوبی گاڑی برآمد، گاڑی کون چلا رہا تھا؟

    کراچی: شہر قائد میں سی ویو پر گہرے پانی سے سندھ پولیس کی ایک ڈوبی گاڑی برآمد ہوئی ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گاڑی پر لگی نمبر پلیٹ جعلی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے نمبر کی گاڑی رات سے سی ویو پر ڈوبی ہوئی تھی، اور اب سے کچھ دیر پہلے دو تین گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ریسکیو 1122 کے رضاکاروں نے ہیوی مشینری کے ذریعے نکالی۔ بتایا جا رہا ہے کہ چار لڑکے تھے جو مبینہ طور پر نشے میں تھے، وہ مستی میں اس کار کو پانی میں لے گئے تھے۔

    ریسکیو کے مطابق رات کو اندھیرے کی وجہ سے آپریشن نہیں کیا جا سکا تھا، جس پر گاڑی صبح نکالی گئی، گاڑی پر ’ایس پی 286 اے‘ کی نیلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہے، جب کہ کار حادثے میں کسی شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

    سندھ پولیس کار

    حیرت کی بات یہ ہے کہ پورے ساؤتھ میں کار کا پتا کیے جانے کے باوجود کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں تھا کہ یہ گاڑی کس کی تھی، اور کیسے ڈوبی، کار چلانے والا نوجوان اور دیگر کون تھے؟ جب ریسکیو 1122 کو اطلاع ملی تو رضاکاروں کی ٹیم موقع پر پہنچی اور ہیوی مشینری کے ذریعے کار کو باہر نکالا گیا، حیرت انگیز طور پر کار سے متعلق نہ ہی کوئی اعلیٰ افسر نہ ہی تھانیدار جواب دے سکے۔

    ویڈیو رپورٹ: کار حادثے میں جاں بحق شہری کی شناخت اور فرار لڑکے اور لڑکی کا پتا نہ چل سکا

    آدھا دن گزرنے کے بعد آخرکار معلوم ہوا ہے کہ کار پر لگی ہوئی پولیس کی نمبر پلیٹ جعلی ہے، پولیس حکام کے مطابق اصل نمبر پلیٹ ایک اعلیٰ افسر کے اسٹاف افسر کے نام پر الاٹ ہے، ساؤتھ پولیس نے سمندر سے نکالی جانے والی گاڑی کو ڈیفنس کے علاقے سے برآمد کر لیا ہے, جس پر سے نمبر پلیٹ بھی اتار دی گئی تھی۔

    یہ انکشاف بھی ہوا کہ جعلی نمبر پلیٹ لگانے والے افراد کوئٹہ کے رہائشی ہیں، پولیس کے پہنچنے پر بتایا گیا کہ ایس ایس پی کا بھتیجا ہوں، لیکن جب ایس ایس پی سے معلوم کیا گیا تو پتہ چلا ایس ایس پی کا کوئی بھتیجا نہیں ہے۔

    پولیس ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ کوئٹہ کے خلجی افراد کی جانب سے ریسکیو اہلکاروں سے جھگڑا بھی کیا گیا تھا، جیسے ہی گاڑی پانی سے نکالی گئی، انھوں نے تقاضا کیا کہ انھیں پانے دیے جائیں تاکہ وہ نمبر پلیٹ اتار سکیں، لیکن جب ان کو اسکرو ڈرائیور اور پانا نہیں دیا گیا تو انھوں نے تلخ کلامی بھی کی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔

    جعلی نمبر پلیٹ

    درخشاں پولیس نے ملزم کے گھر سے ایک اور جعلی نمبر لگی کار بھی برامد کی، جس پر نیلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی، برآمد ہونے والی دوسری کار پر ایس پی 312 نمبر لگا ہوا ہے۔

  • سندھ پولیس کے دستے میں 2 جدید ترین آرمرڈ پولیس موبائلز کا اضافہ

    سندھ پولیس کے دستے میں 2 جدید ترین آرمرڈ پولیس موبائلز کا اضافہ

    کراچی: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے سندھ پولیس کے دستے میں 2 جدید ترین آرمرڈ پولیس موبائلز کا اضافہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کچے کے علاقے میں کافی عرصے سے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پولیس کارروائیاں جاری ہیں، ان مقابلوں میں کئی افسران اور جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ پولیس کی جانب سے جدید آرمرڈ پولیس موبائلیں تیار کروائی گئی ہیں۔

    جدید ترین آرمرڈ پولیس موبائلز میں سے ایک کشمور اور دوسری شکارپور پولیس کو دے دی گئی ہے، آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ جدید پولیس موبائل بڑے بور کا ہتھیار روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    انھوں نے کہا جہاں مسائل چل رہے ہیں وہاں پولیس میں اپگریڈیشن جاری ہیں، کچے میں کئی مقامات پر رینج کا بھی فرق ہوتا ہے، پولیس موبائل میں 6 اہلکار پیچھے 2 آگے بیٹھ سکتے ہیں، جب کہ جدید پولیس موبائل میں ایک ٹاور بھی بنایا گیا ہے، چار اہلکار سائیڈ سے ایک کھڑا ہو کر فائرنگ کر سکتا ہے۔

    کراچی پولیس کی پُھرتی : چھینی گئی کار چند گھنٹوں میں کیسے ملی؟

    غلام نبی میمن کے مطابق ٹاور کے ذریعے اوپر سے مانیٹرنگ بھی کی جا سکتی ہے، موبائل کو چاروں جانب سے مکمل طور پر کور کیا گیا ہے، جوان گشت پر ہوں اور حملہ ہو جائے تو مقابلے میں آسانی ہوگی۔

    انھوں نے کہا فی الحال ٹرائل بیسز پر دو پولیس موبائلیں لی گئی ہیں، اگر یہ تجربہ کامیاب ہوا تو مزید ضلعوں کو بھی یہ موبائلیں دیں گے۔

  • جعلی ویب سائٹس سمیت سندھ پولیس کے سوشل میڈیا پر 97 فیک اکاؤنٹس کا انکشاف

    جعلی ویب سائٹس سمیت سندھ پولیس کے سوشل میڈیا پر 97 فیک اکاؤنٹس کا انکشاف

    کراچی: سوشل میڈیا پر سندھ پولیس کے 97 جعلی پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز بنا دی گئیں، 5 جعلی ویب سائٹس اور واٹس ایپ پر 21 جعلی گروپس کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر صرف ایک ایک اصل اکاؤنٹ موجود ہے، تاہم نامعلوم افراد نے 97 جعلی صفحات، آئی ڈیز اور اکاؤنٹس بنا دیے ہیں، آئی جی سندھ نے ڈی جی ایف آئی اے کو اس سلسلے میں فوری ایکشن کے لیے خط لکھ دیا ہے۔

    سندھ پولیس کی جانب سے عوام کی آگاہی سمیت اپنی پروگریس رپورٹ جاری کرنے کے لیے فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ایک صفحہ، آئی ڈی یا اکاؤنٹ بنائے گئے لیکن نامعلوم جعل سازوں کی جانب سے سندھ پولیس کے 97 جعلی پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے جعلی اکاؤنٹس چلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے تمام اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنے کے لیے اور ان عناصر کی معلومات کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھ دیا ہے۔

    سی پی او حکام کے مطابق سندھ پولیس کی 5 جعلی ویب سائٹس، واٹس ایپ پر 21 جعلی گروپ ہیں، فیس بک پر 37، ٹویٹر پر 7، ٹک ٹاک پر 14، انسٹاگرام پر 13 جعلی اکاؤنٹس ہیں جو مجموعی طور پر 97 بنتے ہیں۔

    خط میں آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ نامعلوم شخص سندھ پولیس کا جعلی صفحہ اور آئی ڈیز چلا رہا ہے، ان پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز کا سندھ پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ عوام میں سندھ پولیس کے غلط تاثر کی عکاسی کر سکتے ہیں اور کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔

    خط میں کہا گیا کہ انھیں چلانے والا سندھ پولیس کا ترجمان یا فوکل پرسن نہیں، ایسے تمام پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز کو بلاک کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور ان کی تمام تفصیلات سندھ پولیس کو بھی فراہم کی جائیں تاکہ ذمہ دار کے خلاف قواعد کے مطابق قانونی کارروائی کی جا سکے۔

  • نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا

    نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا

    کراچی میں نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا ہے، جس سے یہ چھبتا سوال ابھرا ہے کہ کیا آئی جی سندھ کو اپنا ہی حکم نامہ واپس لینا پڑے گا؟

    شہر قائد میں ایک جانب پولیس جرائم پر قابو پانے کے لیے کوششیں کرتی نظر آتی ہے، تو دوسری جانب ایسے بااثرعناصر بھی موجود ہیں جو اپنے ’عزیزوں‘ کو نہ صرف تھانے دار کی سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے لیے ڈھال بن کر بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔

    آئی جی سندھ کی رٹ

    بااثر عناصر کی وجہ سے شہر قائد میں آئی جی سندھ کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا ہے، جس سے یقینی طور پر آئی جی سندھ کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے دو احکامات جاری کیے گئے تھے، جن میں ایک حکم نامہ کراچی رینج کے 66 پروموٹ ہونے والے افسران سے متعلق تھا۔

    اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ان تمام افسران کو 2 سال کے لیے شعبہ تفتیش میں لازمی تبادلہ کیا جائے، جب کہ دوسرا حکم نامہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز کو ہٹانے کا تھا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں احکامات ردی کی ٹوکری میں ڈالے گئے اور تاحال ان پر مکمل طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے، جس سے اہل افسران کی حق تلفی ہوتی نظر آتی ہے۔

    ایس ایچ اوز کے تبادلے کیسے رُکے؟

    ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بااثر ایس ایچ اوز نے سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے تبادلے رکوا دیے ہیں، اس وقت کراچی کے مختلف اضلاع میں تاحال نان اپر کوالیفائڈ اور پروموٹڈ افسران تعینات ہیں، پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان میں ایک بااثر سیاسی شخص کے ڈرائیور کا بھائی بھی شامل ہے، جس کو ہٹانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ایسی سیاسی شخصیات کسی طرح بھی اپنے ایس ایچ اوز ہٹوانے پر راضی نہیں ہوتے۔

    رٹ چیلنج ہونے کے امن و امان پر اثرات

    رواں سال اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم پر مبنی 31 ہزار 641 سے زائد وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں، 5 ماہ کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر 72 شہریوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں 18 وہ شہری بھی شامل ہیں جن کو سی ٹی ڈی کے مطابق قتل تو فرقہ ورانہ دہشت گردی میں کیا گیا، لیکن طریقہ کار ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کا اختیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے سینکڑوں شہریوں کو زخمی بھی کیا۔

    اس 5 ماہ میں شہریوں کو 18 ہزار کے قریب موٹر سائیکلوں سے محروم کیا گیا، تو 851 گاڑیاں بھی چوری یا چھینی گئیں۔ رواں سال شہریوں سے 9 ہزار کے قریب موبائل فون چھینے گئے جب کہ گھروں میں ڈکیتی کے 36، دکانوں پر 57 واقعات رپورٹ ہوئے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 282 سے زائد پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 19 ملزمان ہلاک اور 437 سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔

    وزیر داخلہ کا حکم اور بعض ایس ایچ اوز کے ساتھ نرمی

    کراچی میں وزیر داخلہ ضیا لنجار کے حکم پر ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اوز کو فوری ہٹانے کا عمل شروع کیا گیا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق کسی جگہ نرمی بھی برتی جا رہی ہے، مثال کے طور پر کورنگی میں نوجوان باسط کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا، تاہم ایس ایچ او زمان ٹاؤن کو وزیر داخلہ نے نہیں ہٹوایا، حالاں کہ ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر وزیر داخلہ صاحب گلشن اقبال کے 2 ایس ایچ اوز کو ہٹا چکے ہیں۔

    ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی اہم تھانوں میں جو تھانے دار ہیں، ان کو اپنے ہی علاقوں تک کا نہیں پتا، اس لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر داخلہ صاحب اس سزا اور جزا کے عمل کی شروعات تب کرتے جب تمام ایس ایچ اوز میرٹ پر لگے ہوتے اور کسی سیاسی دباؤ پر تھانے دار تعینات نہ کیے جاتے۔ یعنی کے ’مارو بھی اور رونے بھی نہ دو‘۔

    حل کیا ہے؟

    اگر کراچی میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا ہے تو سیف سٹی پراجیکٹ سے زیادہ میرٹ پر تعیناتی ہونی چاہیے۔ یہی آئی جی سندھ کا وژن بھی ہے۔

    ماڈل تھانے قائم ہونے چاہئیں جن میں نہ فنڈ کی کمی ہو، نہ ہی کسی بھی قسم کی سہولیات کی اور حکم کی تعمیل ایسے ہونی چاہیے جیسے آئی جی پنجاب کا حکم ملتے ہی ماتحت افسران کرتے ہیں، نہ کہ آخری وقت تک کوشش کی جاتی ہے کہ اس حکم نامے کو روکا جائے تاکہ ان عناصر کی خوش نودی حاصل ہو سکے جو آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔

    ایک زمانے میں صرف رینکر ہی اس دباؤ کے نیچے ہوتے تھے، لیکن اب پی ایس پی افسران بھی سخت سیاسی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ صرف پولیس کو اسٹریٹ کرائم یا دیگر جرائم کا ذمہ دار قرار دے، کیوں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آتے ہیں۔ سیاسی و بااثر عناصر کے دباؤ کی وجہ سے ان افسران کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کا منفی اثر صرف اُس عوام پر پڑے گا جو پہلے ہی نہ جانے کتنے جوانوں کی لاشیں اٹھا چکے ہیں۔

    آئی جی سندھ کا مؤقف

    انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کا خبر کے حوالے سے پہلا مؤقف یہ سامنے آیا ہے کہ پولیس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز بالکل بھی برداشت نہیں ہیں، ان کو ہٹانے کے احکامات دے دیے ہیں، جب کہ پروموٹ ہونے والے ایس ایچ اوز کو جب ہٹانے کے لیے حکم دیا تو ایڈیشنل آئی جی آفس سے ایک ریکوئسٹ آئی تھی کہ 10 ایس ایچ اوز ایسے ہیں جن کے ہٹائے جانے سے جرائم کے خلاف کاررائیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم انھیں پھر سی پی او کی جانب سے جواب دیا گیا کہ اس سلسلے میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے، سب کو ہٹایا جائے۔ چناں چہ انھیں بھی مرحلہ وار ہٹا دیا جائے گا۔

  • سندھ پولیس میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

    سندھ پولیس میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

    کراچی: سندھ پولیس کے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ میں مبینہ کروڑوں کی کرپشن کا انکشاف ہوا جس کے بعد 10 افسران و اہلکار کو معطل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے، اے آئی جی خادم حسین نے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کے 10 افسران و اہلکاروں کو معطل کرکے انہیں بی کمپنی میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ کارروائی خفیہ تحقیقات کے بعد مبینہ کرپشن کے الزامات پر کی گئی ہے، بی کمپنی بھیجے گئے افسر اور اہلکاروں کو اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن کے الزامات پر ہٹایا گیا۔

    معطل افسر اور اہلکاروں پر سی پیک پروجیکٹ کیلئے دی گئی سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال کا بھی الزام ہے، افسران و اہلکاروں میں اسپیشل پروٹیکشن یونٹ سکھر کے انسپکٹر محمد فہیم  اور ہیڈ کانسٹبل شامل ہیں۔

    ذرائع نے بتایاکہ ڈی آئی جی اسپیشل پروٹیکشن یونٹ آفس میں تعینات صدام حسین بلو پر بھی کرپشن کا الزام ہے، سی پیک تھرپارکر کے 3 اہلکاروں کو بھی اختیارات کے غلط استعمال پر بی کمپنی بھیجا گیا ہے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    کراچی: الیکشن 2024 کی سیکیورٹی کے سلسلے میں سندھ پولیس کے ہزاروں دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات میں سندھ پولیس کے 10 ہزار 954 دفتری اہلکار بھی اضافی نفری کے طور پر سیکیورٹی ڈیوٹی دیں گے۔

    نفری میں سندھ پولیس کے مختلف اضلاع سے دفتری اسٹاف کے اہلکار شامل ہیں، ان میں سندھ پولیس کے ٹرینی، منسٹرل اور آئی ٹی کیڈر کے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔

    کراچی رینج سے 1770، حیدرآباد رینج سے 2198 ملازمین، میرپورخاص سے 2947، شہید بینظیر آباد سے 1601 ملازمین، سکھر سے 1013 اور لاڑکانہ سے 1425 ملازمین شامل ہیں۔

    ایران سے آپریٹ ہونے والے 2 بھتہ خور لیاری سے گرفتار

    دفتری اہلکاروں کو سندھ کے مختلف اضلاع میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ہر ضلع میں ایس پی رینک کے افسر کو ریجنل فوکل پرسن تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے، ان کے علاوہ آر آر ایف اور ایس ایس یو کے اہلکار کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کریں گے۔

  • کندھ کوٹ سے اغوا 7 بچے سخت خطرے میں، سندھ پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں میں معصوم پھول مسلے جانے لگے

    کندھ کوٹ سے اغوا 7 بچے سخت خطرے میں، سندھ پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں میں معصوم پھول مسلے جانے لگے

    کندھ کوٹ: صوبہ سندھ کے شہر کندھ کوٹ سے اغوا 7 بچے سخت خطرے میں ہیں، سندھ پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں میں معصوم پھول مسلے جانے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شہر کندھ کوٹ میں معصوم بچوں کی اغوا کی وارداتوں سے متعلق اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے بعد سندھ پولیس حکام حرکت میں آ گئے ہیں، ایس ایس پی عرفان سموں مغوی بچی علیشا کے گھر پہنچ گئے اور رشتے داروں کو بچی کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کرائی۔

    ذرائع کے مطابق کندھ کوٹ سے اغوا 7 بچے سخت خطرے میں ہیں، ڈاکو تشدد کے علاوہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بھی بناتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک بچے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بھی وائرل کر دی گئی تھی، دوسری طرف پولیس کی سست حکمت عملی کم سن پھولوں اور ان کے والدین کے لیے قیامت بنی ہوئی ہے۔

    تشویش ناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پولیس نے کندھ کوٹ میں بچوں کے اغوا پر آنکھیں بند کر لی ہیں، کیوں کہ پولیس کی جانب سے ورثا کو ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ ’’صبر کریں۔‘‘ آئی جی سندھ نے عجیب بیان دیا کہ ’’ڈاکو آپریشن رکوانے کے لیے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔‘‘ تو کیا ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ختم ہونے تک بچے اغوا ہوتے رہیں گے؟

    یاد رہے کہ اے آر وائی نیوز کو انٹرویو میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کچھ روز پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکو پولیس آپریشن رکوانے کے لیے بچوں اور اقلیتی کمیونٹی کے افراد کو اغوا کرتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے بعد محکمہ پولیس حرکت میں آئی، اور ایس ایس پی عرفان علی سموں نے علیشا کے والدین سے ملاقات میں اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں، بہت جلد مغوی کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انھوں نے کہا علاقے میں 7 بچوں کے اغوا سمیت جرائم کی وارداتوں پر حکام میں گہری تشویش پائی جاتی ہے، جرائم پیشہ افراد کوعبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

  • سندھ پولیس میں بھرتیوں کے حوالے سے خوش خبری

    سندھ پولیس میں بھرتیوں کے حوالے سے خوش خبری

    کراچی: سندھ پولیس میں 2 ہزار اے ایس آئی انویسٹیگیشن بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس میں اے ایس آئی انویسٹیگیشن بھرتی کیے جائیں گے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اے ایس آئی انویسٹیگیشن کی خصوصی پوسٹیں پیدا کرنے کی منظوری دے دی۔

    محکمہ داخلہ سندھ نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو خط لکھ دیا، سندھ پولیس میں 50 فی صد بھرتیاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائیں گی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق 50 فی صد پوسٹیں ڈپارٹمنٹ میں موجود افسران کو ترقی دے کر پوری کی جائیں گی۔