Tag: sindh river

  • ویڈیو: سندھ میں ڈولفن کو موت سے کیسے بچایا جاتا ہے؟

    ویڈیو: سندھ میں ڈولفن کو موت سے کیسے بچایا جاتا ہے؟

    دنیا کی نایاب نابینا ڈولفن سندھ کے باسیوں کے لیے ایک پرسرار اور دیومالائی حیثیت رکھتی ہے، سندھ وائلڈ لائف کا محکمہ سردیوں میں پانی کی کمی پر انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔

    پاکستان میں ڈولفن کا پہلا باقاعدہ سروے 1974 میں سوئٹزرلینڈ کے پروفیسر جورجیو پیلری نے کیا تھا اور 150 ڈولفن شمار کی تھیں، اس کے بعد ڈولفن کے لیے آبی تحفظ گاہ قائم کی گئی تھی۔

    صرف پاکستان میں

    میٹھے پانی میں 4 اقسام کی ڈولفن پائی جاتی رہی ہے، جن میں سے اب 3 اقسام کی ڈولفنیں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ نابینا ڈولفن ایک زمانے تک سندھ کے علاوہ پنجاب کے کچھ نہری علاقوں میں بھی پائی جاتی تھی مگر اب یہ صرف سندھ کے بالائی علاقوں سکھر اور گدو بیراج تک محدود ہو چکی ہے۔

    پاکستانی ڈولفن دنیا کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتی، نابینا یا بلائنڈ ڈولفن کو ایک عرصے تک مقامی مچھیرے شکار کر کے اس کی چربی استعمال کرتے تھے، جس سے اس کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے، مگر اب اس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔

    بینائی جانے کی وجہ؟

    دریائے سندھ میں گدو اور سکھر بیراج میں پائی جانے والی نابینا ڈولفن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے گدلے پانی کی وجہ سے ان کی بینائی متاثر ہو جاتی ہے، جس سے یہ اندھی ہو جاتی ہیں۔ نابینا ڈولفن کو سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے اور سندھ کا محکمہ جنگلی حیات اس نایاب آبی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

    ڈولفن کو موت سے کیسے بچایا جاتا ہے؟

    عدنان حامد نے بتایا کہ انڈس ڈولفن کے سر پر بلو ہول ہوتا ہے جسے وہ اس وقت کھولتی ہے جب وہ مشکل میں پھنس جائے۔ بلو ہول کھل جانے سے پانی اس کے جسم میں پھیپھڑوں تک چلا جاتا ہے، جس سے وہ فوراً ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ’’اس لیے ہمیں ڈولفن کے بلو ہول کھولنے سے پہلے ہی اسے ریسکیو کرنا ہوتا ہے اور یہ 60 سے 80 سیکنڈ کا دورانیہ ہوتا ہے، جس میں ہمیں اسے بچانا ہوتا ہے۔‘‘

    انھوں نے بتایا کہ ’’انڈس ڈولفن کو ریسکیو کرنا بڑا مہارت طلب کام ہے، جال کے ذریعے ڈولفن کو کم پانی میں لا کر نکالا جاتا ہے، اگر پانی 4 فٹ سے زیادہ ہو تو اس کے بچنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔‘‘

    انڈس ڈولفنوں کی تعداد اب کتنی ہے؟

    سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر محمد عدنان کا کہنا ہے کہ سندھ میں نابینا ڈولفن کی تعداد 2009 میں 900 کے لگ بھگ تھی، جو اب 1900 ہو گئی ہے۔ یہ ڈولفن سردیوں کے موسم میں دریا سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے اکثر پانی کے بہاؤ میں تیرتی ہوئی چھوٹی نہروں میں جا کر جھاڑیوں میں پھنس جاتی ہیں، جنھیں ریسکیو کر کے واپس سکھر بیراج لایا جاتا ہے۔

    ماہرین کہتے ہیں چند سال قبل تک اس کی نسل کو شدید خطرات تھے، مگر مختلف تنظیموں اور سرکاری سطح پر عوام میں شعور پیدا ہونے اور اس کے شکار کی روک تھام سے اب ان کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ دنیا کی نایاب نابینا ڈولفن پاکستان کے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

  • گہرے دریا سے لاشیں نکالنے والا ہیرو محمد علی میرانی

    گہرے دریا سے لاشیں نکالنے والا ہیرو محمد علی میرانی

    سکھر : سندھ کی سرزمین کا قابل فخر بیٹا محمد علی میرانی جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    محمد علی میرانی دریائے سندھ اور مختلف بیراجوں پر لوگوں کو ڈوبنے سے بچانے اور اور بہہ جانے والی لاشوں کو دریا سے نکالنے کا کام کئی سال سے کررہا ہے۔

    سندھ کا یہ سپوت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس نیکی کے کام کا نہ تو کوئی معاوضہ لیتا ہے اور نہ ہی کسی رعایت کا طلبگار ہے۔ اس کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔

    اے آر ائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی میرانی نے بتایا کہ مین بچپن سے ہی تیرنے کا شوق رکھتا ہوں میں یہ کام کرکے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

    محمد علی میرانی کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا یہ کام کرتے ہوئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا، بندہ چاہے زندہ یو یا مرجائے وہ اسے دریا سے باہر نکال کر لے آتا ہے۔

    محمد علی میرانی کے اس کارنامے اور خدمات کے اعتراف میں محکمہ آبپاشی نے اسے دو ماہ کیلئے اعزازی نوکری بھی ہے۔

    محکمہ کے ایک افسر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ نوجوان سرکاری اور ایدھی کے رجا کاروں کے ساتھ بھی مکمل تعاون کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بھی بٹاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میری حکومت سے اپیل ہے کہ محمد علی میرانی کی ان خدمات پر اس کی مالی مدد کرے تاکہ اس کو حوصلہ مزید بلند ہو۔

  • دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ

    دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ

    سکھر : حالیہ موسلا دھار بارشوں کے بعد دریاؤں میں پانی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہی سندھ میں بھی سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہے۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، گڈو بیراج پر24گھنٹے کے دوران21ہزار کیوسک پانی کا اضافہ ہوا۔

    اس حوالے سے محکمہ آبپاشی حکام کا کہنا ہے کہ تربیلا، کالا باغ چشمہ ،تونسہ ،گڈو اور سکھر بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔

    ذرائع کے مطابق تربیلا میں پانی کی آمد2لاکھ97ہزار ،اخراج2 لاکھ43ہزارکیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ کالاباغ میں پانی کی آمد2لاکھ87ہزار287،ا خراج2لاکھ83 ہزار488 کیوسک جبکہ چشمہ میں پانی کی آمد3 لاکھ75ہزار755 ،اخراج3لاکھ67ہزار755کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    اطلاعات کے مطابق تونسہ میں پانی کی آمد3لاکھ35ہزار972 ،اخراج3لاکھ28 ہزار972کیوسک، سکھربیراج میں پانی کی آمد3لاکھ32ہزار469،اخراج3لاکھ3ہزار629 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق کوٹری بیراج میں پانی کی آمد ایک لاکھ54ہزار349،اخراج ایک لاکھ27 ہزار474کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

  • سندھ کے بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی شدت میں تیزی

    سندھ کے بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی شدت میں تیزی

    سکھر : ملک بھر میں بارشوں کی وجہ سے دریاؤں اور بیراجوں پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی صورتحال سیلابی اور شدت میں بھی تیزی آگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق  ملک بھر میں  میں بارشوں کے سبب دریائے سندھ میں گڈو سکھر بیراج کے مقاما ت پر پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہو گئی ہے، دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

    محکمہ آبپاشی کے زرائع کے مطابق اس وقت دریائے سندھ دریائے سندھ پر بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی صورتحال بتدریج خطرناک ہورہی ہے، گڈو کے بعد سکھربیراج پر بھی درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔

    گڈو بیراج پرپانی کی آمد 458199 اور اخراج 451471 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، 24گھنٹےمیں گڈو بیراج پر پانی کی آمد میں 58ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا، سکھر بیراج پرپانی کی آمد 359878 اور  اخراج339338 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔

    محکمہ آبپاشی کے زرائع کے مطابق سکھر بیراج پر پانی کی آمد میں52 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا، کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 176892، اخراج176092کیوسک رہا۔

    دوسری جانب ممکنہ سیلابی طغیانی میں اضافہ کے سلسلہ میں محکمہ آبپاشی اورصوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سمیت متعلقہ اداروں کی جانب سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، اور پانی کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے.

    زرائع کے مطابق آئندہ دنوں میں دریائے سندھ میں پانی کی آمد کے باعث دریائی سطح بتدریج مذید بلند ہونے کا امکان ہے ۔

  • سکھر میں غلاظت ملے پانی کی فراہمی، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا

    سکھر میں غلاظت ملے پانی کی فراہمی، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا

    سکھر : سیوریج کا گندہ پانی دریائے سندھ میں چھوڑنے کے بعد وہیں سے یہ پانی سکھر کے شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے جو شہروں کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر کے مکین دریا سندھ کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہوگئے۔ متعلقہ انتظامیہ کی لاپرواہی اور غفلت کھل کر سامنے آگئی۔

    شہرکے سیوریج کا غلاضت اور کچرے والا پانی دریائے سندھ میں چھوڑ دیا گیا ہے پھر وہی پانی واٹر سپلائی کے ذریعے شہریوں کو پینے کے لیے فراہم کیا جارہا ہے جبکہ ایسے پانی سے دریائے سندھ کا پانی آبی حیات کے لیے بھی خطرے کا باعث بن گیا ہے۔

    سپریم کورٹ کی بنائی گئی واٹر کمیشن کی جانب سے پابندی کے باوجود دس لاکھ سے زائد انسانی آبادی والے شہرمیں غلاضت ملا اور زہریلا پانی استعمال کرنے سے شہری مختلف خطرناک بیماریوں میں بھی مبتلا ہونے لگے ہیں مگر منتخب نمائندوں اور انتظامیہ کو کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ اس سنگین مسئلے کا کوئی حل تلاش کریں۔

    سکھر کے رہائشیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ ان کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

    یاد رہے کہ دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لانا معمولات زندگی میں شامل ہے اور یہ ایک ایسی جبری مشقت ہے جو زیادہ تر خواتین کے فرائض کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔

    سندھ کے دیہاتوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف خواتین پر لاگو ہونے والی یہ ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔

  • سکھر: لاپتہ چھ بچوں کا تین روز بعد بھی سراغ نہ مل سکا، وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لے لیا

    سکھر: لاپتہ چھ بچوں کا تین روز بعد بھی سراغ نہ مل سکا، وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لے لیا

    سکھر : کوئنس روڈ کے علاقے سے لاپتہ چھ بچوں کا تین روز بعد بھی سراغ نہ مل سکا، وزیراعلیٰ سندھ نے بچوں کی گمشدگی کا نوٹس لے کر انتطامیہ کو بچوں کے والدین سے مکمل تعاون کی ہدایات جاری کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق کوئنز روڈ پر حماد پلازہ کے رہائشی چھ بچے جمعہ کی شام گھروں سے کرکٹ کھیلنے کا کہہ کر نکلے اور واپس گھرنہیں پہنچے، لاپتہ بچوں کی عمریں گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہیں جن میں تین سگے بھائی بھی شامل ہیں۔

    بچوں کے کپڑے سکھربیراج کے پاس سے ملے تھے، جس کے بعد نہاتے ہوئے بچوں کے دریا میں ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا گیاہے، نیوی کے غوطہ خوروں نے بچوں کی تلاش کیلئے زیرو پوائنٹ سے سکھر بیراج تک ریسکیو آپریشن کیا لیکن تاحال بچوں کاسراغ نہیں مل سکا۔

    دوسری جانب سکھر پولیس نے تحقیقات کادائرہ وسیع کردیا ہے۔ سراغ رساں کتوں کے ذریعے دریا کنارے علاقوں میں بچوں کوتلاش کیا گیا۔

    پولیس کے مطابق ایک بچے نے بتایا کہ لاپتہ بچے ہر روز کرکٹ کھیلنے کے بعد دریا میں نہانے جاتے تھے، پولیس کو ملنے والے سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی بچوں کو دریا کی جانب جاتے دیکھا جا سکتا ہے، بچوں کی تلاش کیلئے انتظامیہ کی طرف سے بروقت نہ پہنچنے پرعلاقہ مکینوں نےاحتجاج بھی کیا۔

    علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چھ بچوں کی گمشدگی کا نوٹس لے لیا، انہوں نے بچوں کے والدین سے ٹیلفونک رابطہ کیا، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بچوں کے والدین کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو بچوں کےوالدین سے مکمل تعاون کی ہدایات بھی جاری کیں۔

  • سکھر: دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچے تاحال نہ مل سکے

    سکھر: دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچے تاحال نہ مل سکے

    سکھر : دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچوں کو تلاش نہیں کیا جا سکا، بچوں کے کپڑے دریائے سندھ کے کنارے سے مل گئے، نہاتے ہوئے بچوں کے دریا میں ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر کے رہائشی چھ بچے جمعہ کی شام کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلے تھے، جن کا تاحال پتہ نہیں چل سکا، والدین اور اہل محلہ نے لاکھ ڈھونڈا لیکن سکھر کے چھ بچوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔

    کوئنز روڈ پر حماد پلازہ کے رہائشی چھے بچے جمعہ کی شام ہنستے کھیلتے گھر سے نکلے تھے، گیارہ سے سولہ سال کے بچے محلے میں کرکٹ کھیلنے کے بعد کھیل کا سامان قریبی دکان پر رکھ کر دور نکل گئے۔

    لاپتہ بچوں کی عمریں گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔ پوری رات اور دن بھر کی مسسل تلاش کے باوجود بچے نہیں ملے،16سالہ محمد قاسم ،14 سالہ محمد انس،13سالہ احتشام اور گیارہ گیارہ سال کے احسان، عاصم اور حماد کی گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کرا دی گئی۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    ایک محلے دار بچے کی نشاندہی پر دریائے سندھ کے کنارے زیرو پوائنٹ سے بچوں کے کپڑے اور جوتے مل گئے، پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچے زیرو پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے، دوسری جانب ریسکیو ٹیموں کو پانی کے تیز بہاؤ کے سبب دریا میں سرچ آپریشن کے دوران مشکلات درپیش ہیں۔

  • دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    مٹیاری : دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں  نکال لی گئیں، ڈوبنے والوں میں خواتین اور بچےبھی شامل ہیں، گورنر سندھ اور بلاول بھٹو نے ہلاک افراد کےخاندانوں سے اظہار تعزیت کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے، اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت 6 افراد کی لاشیں نکال لیں ہیں جب کہ 8 افراد کی تلاش جاری ہے، ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کے ہمراہ آپریشن کررہے ہیں تاہم رات کے اندھیرے کے باعث امدادی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق انڑپور کے قریب دریائے سندھ میں کشتی ڈوبنے سے 6 افراد جاں بحق جب کہ 8افراد تاحال لاپتا ہیں، دریا سے برآمد ہونے والی لاشوں میں2خواتین بھی شامل ہیں۔

    حادثہ مٹیاری ضلع کی حدود میں ہوا، کشتی مٹیاری سے جامشورو ضلع کے علاقے دڑا ماچھی آ رہی تھی اور اس میں خواتین و بچوں سمیت 14مسافر سوار تھے، تیزہواﺅں اور خراب موسم کے باعث کشتی ڈوب گئی اور اس میں سوار افراد لاپتا ہوگئے۔

    خبر ملتے ہی مقامی افراد اور پولیس کی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں اور مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت 6 افراد کی لاشیں نکال لیں جب کہ 8 افراد کی تلاش جاری ہے۔پولیس کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کے ہمراہ آپریشن کررہے ہیں تاہم رات کے اندھیرے کے باعث امدادی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    دوسری جانب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے دریائے سندھ میں کشتی الٹنےسے ہونے والی اموات پراظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندوہناک حادثے کی خبر میرے لیے باعث صدمہ ہے، انہوں نے ہدایات جاری کی کہ ریسکیو آپریشن کیلئے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائےجائیں۔

    علاوہ ازیں گورنرسندھ عمران اسماعیل نے بھی حادثےمیں ہلاک افراد کےخاندانوں سےاظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرجامشورو کو امدادی کارروائیاں تیز کرنےکی ہدایت دی ہیں ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو ہرممکن مددفراہم کی جائے۔

  • دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    ڈی آئی خان: ڈیرہ اسمعیل خان کے شہریوں نے دریائے سندھ کو صاف کرنے کے عزم روایتی ثقافتی طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے دریا کو پھولوں سے خراج تحسین پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق موسم بہار کی آمد کے موقع پر جب ہر طرف رنگوں اور خوشیوں کی بہار نظر آتی ہے ۔ وہیں ڈی آئی خان میں دریائے سندھ کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے پھولوں کا خراج پیش کیا جاتا ہے ۔انتظامیہ نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا۔

    انتظامیہ کی اسی بے حسی کے خلاف یہ منفرد اور دلچسپ احتجاج ہر سال موسم بہار کی آمد کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی دریائے سندھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دریا میں پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔

    ہر سال کی طرح اب کی بار بھی ثقافتی وادبی تنظیم سپت سندھو سلہاڑ کے زیر اہتمام چیت بہار میلہ جسے عرف عام میں پھولوں والا میلہ بھی کہا جاتا ہے کا انعقاد کیاگیا۔جس میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان’ضلع ٹانک اور ضلع بھکر کے علاوہ سرائیکی وسیب کے دیگر شہروں سے بھی عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

    میلے کے شرکاء ریلی کی صورت میں امامیہ گیٹ پر اکھٹے ہوئے اور ڈھول کی تھاپ پر سرائیکی جھمر کا رقص پیش کرتے ہوئے اپنے روایتی راستے محکمہ موسمیات روڈ سے ہوتے ہوئے دریا ئے سند ھ کے کنارے پر پہنچے تو وہاں پر پہلے سے موجود شہریوں نے ریلی کا استقبال کیا۔جس کے بعدعاطف شہید پارک کے قریب دریا میں پھول بہا کر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دریا کے پانی کو کسی صورت گدلا نہیں ہونے دیں گے۔پانی میں ہی انسانوں کی بقاء اس لئے ہم دریا کی بقاء کی جنگ اپنی آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔

    تقریب میں شرکت کرنیوالے ملک علی آصف سیال نے بتایا کہ شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا ہے ۔گل پاشی کی تقریب کے بعد تمام شرکاء عاطف قیوم شہید پارک میں اکھٹے ہوئے جس سے پنڈال مرد وخواتین سے کچھا کھچ بھر گیا۔

    دریائے سندھ میں گل پوشی کے بعد عاطف قیوم شہید پارک میں سپت سندھو سلہاڑ کی پررونق تقریب سعید اختر سیال کی صدارت میں منعقد ہوئی۔جس میں سعید اختر سیال اور قیصر انور’ملک علی آصف سیال’سید حفیظ گیلانی’سلیم شہزادنے خطاب کیا اور دریا میں پھولوں بہانے کے اغراض ومقاصد اور پانی کی آلودگی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    ڈاکٹر نعمان لطیف سدوزئی اور محمد عرفان مغل نے بطور مہمان خصوصی شرکاء سے خطاب کیا جبکہ اعجاز قریشی اور آفتاب احمد اعوان نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دئیے۔اس موقع پر شرکاء کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری دنیا آبی وسائل کی بقاء جنگ لڑ رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے دریائے سندھ کے پانی کو محفوظ اور شفاف رکھنے کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے جس کی وجہ سے آج جہاں پانی ہر طرف پانی کی قلت کاسامنا ہے وہاں پانی کو آلودہ کیا جارہا ہے اور آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بقاء بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔

    لاکھوں کی کثیر آبادی والے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا سارا فضلہ دریا میں براہ راست گر رہا ہے جس کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں رہا تو دوسری طرف فلٹریشن پلانٹ نصب نہ ہونے کی وجہ سے عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے۔موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور وبائیں پھوٹنے کاخدشہ بھی درپیش ہے۔شرکاء نے کہا کہ شومئی قسمت کہ زمانوں پہلے ہمارے اجداد دریاکے کنارے پر آباد ہوئے اور ہمیشہ اس دریا سے محبت وعقیدت کااظہار کیا لیکن آج دریا کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

    شرکاء کا کہنا تھا کہ مقامی ڈیرے وال ہر سال 23 مارچ کو دریا پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے خاموش اورپرامن احتجاج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ شہر بھر کی گندگی کو پانی میں نہ انڈیلا نہ جائے ا ور جامعہ منصوبے وحکمت عملی سے شہر سے باہر نکاسی کے گندے پانی کو نکالا جائے تاکہ شہری تعفن زدہ پانی پینے سے محفوظ رہیں۔تاہم ہنگامی بنیادوں پر حکومت فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کو یقینی بنائے اور شہر میں پلاسٹک کے شاپر پر پابندی عائد کی جائے تاکہ دریا میں جمع ہونے والی گندگی کی روک تھام میں مدد مل سکے اور دریائی پانی آلودہ ہونے سے بچ سکے۔

    سپت سندھو سلہاڑ کے زیر انتظام اس میلے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی جبکہ شعراء نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرائیکی میں اپنا کلام پیش کرکے حاضرین کے دل موہ لئے۔اس کے علاوہ دھرتی ڈیرہ اسماعیل خان کے سپوت اور سرائیکی وسیب کے شہرازے لوک فنکار امجد نواز کارلو نے بھی اپنے فن کا جادو جگایا جس پر حاضرین جھومنے پر مجبور ہوگئے۔

  • دریائے سندھ میں پانی کی خطرناک قلت ہوگئی، فصلیں متاثر، کاشتکار پریشان

    دریائے سندھ میں پانی کی خطرناک قلت ہوگئی، فصلیں متاثر، کاشتکار پریشان

    سکھر : دریائے سندھ میں پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا، سکھر میں گندم سمیت مختلف فصلیں اگانے میں کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ،پانی کی یہ قلت ربیع کے موسم میں مزید بڑھ جائے گی جس کے باعث گندم سمیت کئی فصلیں اگانے کے لیے کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.

    موجودہ دنوں میں پانی کی قلت کا سبب بالائی علاقوں میں بارشیں نہ ہونا اور برف کا نہ پگھلنا ہے، زراعت کے لیے پانی کی فراہمی متاثر ہونے کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں جامشورو، ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈوالہیار حیدرآباد، اور ٹنڈو محمد خان کی فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ ہے.

    پانی کی اہمیت کو سمجھنا ہمارے لئیے انتہائی ضروری ہے ،بڑے ڈیم نہ ہونے سے ہر سال پانی ضائع ہوجاتا ہے جس پورے ملک کو انتہائی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    دریائے سندھ صوبہ پنجاب سے گذرتا ہوا مٹھن کوٹ کے مقام پر صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے، یہاں سے ٹھٹھہ تک دریائے سندھ کے چوڑائی بہت زیادہ اور گہرائی کم اور بہاؤ میں سستی آجاتی ہے۔ یہ ٹھٹھہ کے مقام پر بحیرہ عرب میں داخل ہوجاتا ہے۔