Tag: سندھ

  • الیکشن میں  اسکولوں کی چھٹیاں  ، ایک اور اہم خبر آگئی

    الیکشن میں اسکولوں کی چھٹیاں ، ایک اور اہم خبر آگئی

    کراچی : سندھ میں انتخابات کے دوران 5 سے 9 فروری تک اسکولوں کی چھٹیاں ہوں گی، محکمہ تعلیم نے سمری تیارکرلی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں انتخابات کے دوران اسکولوں کی تعطیلات کے معاملے پر محکمہ تعلیم نے سمری تیارکرلی ہے۔

    وزیراعلیٰ کی منظوری سےنوٹیفکیشن ہوگا، ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں 5 سے 9 فروری تک اسکولوں کی چھٹیاں ہوں گی۔

    6 فروری سے تمام سرکاری وبیشترنجی اسکول الیکشن کمیشن کے حوالے کردیئےجائیں گے، ذرائع کے مطابق پولنگ اسٹیشنز پر 7 فروری سے عملہ اور سامان کی ترسیل ہوگی۔

    یاد رہے پنجاب نے بھی 6 سے 9 فروری تک تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔

  • خیرو تیغانی گینگ کا سربراہ بدنام ڈاکو خیرو تیغانی گرفتار

    خیرو تیغانی گینگ کا سربراہ بدنام ڈاکو خیرو تیغانی گرفتار

    شکارپور: پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے خیرو تیغانی گینگ کے سربراہ بدنام ڈاکو خیرو تیغانی کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شکار پور کے کچے کے علاقے گڑھی تیغو کے ڈاکو خیرو تیغانی کو پولیس آپریشن کے دوران گرفتار کر لیا گیا۔

    ایس ایس پی محمد عمران خان کے مطابق چند روز قبل کچے میں ڈاکوؤں کا آپس میں جھگڑا ہوا تھا جس میں فائرنگ کی گئی تھی، اس فائرنگ سے ڈاکو خیرو تیغانی زخمی ہو گیا تھا۔

    ایس ایس پی نے بتایا کہ جب زخمی ڈاکو کو رحیم یار خان کے اسپتال میں منتقل کیا گیا تو خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے مطلوب ڈاکو کو اسپتال سے گرفتار کر لیا، خیرو تیغو40 سے زائد مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا، اور حکومت سندھ نے خیرو کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر 70 لاکھ انعام رکھا تھا۔

  • 5 سیاسی جماعتوں کا سندھ میں بیشتر قومی و صوبائی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق

    5 سیاسی جماعتوں کا سندھ میں بیشتر قومی و صوبائی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق

    کراچی: الیکشن 2024 کے سلسلے میں شہر قائد میں 5 سیاسی جماعتوں کے درمیان گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں بیش تر نشستوں پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں قومی و صوبائی نشستوں پر اہم سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسمنٹ کا اتفاق ہوا ہے، این اے229، این اے 230، این اے 231 ملیر پر ن لیگ کو دیگر جماعتوں کا سپورٹ ملنے کا امکان ہے۔

    ذرائع کے مطابق پی ایس 105 پر جی ڈی اے کے عرفان اللہ مروت تمام جماعتوں کے متفقہ امیدوار ہونے کا امکان ہے، این اے 239 لیاری کی نشست پر جے یو آئی یا آزاد امیدوار عبدالشکور شاد مشترکہ امیدوار ہونے کا امکان ہے، جب کہ این اے 232 کورنگی کی نشست پر فیصلہ ہونا باقی ہے، ن لیگ اس نشست پر اویس نورانی کو ٹکٹ دینے کی خواہش مند ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پی ایس 107 پر ن لیگ کے تنویر جدون مشترکہ امیدوار ہونے کا امکان ہے، اے این پی ایک صوبائی نشست پر امیدوار نامزد کرے گی اور دیگر جماعتیں حمایت کریں گی، پی ایس 106 لیاری پر جے یو آئی امیدوار ناصر محمود کو اتحادی سپورٹ کریں گے۔

    پی ایس 114 کیماڑی پی ایس 111 کیماڑی پر جے یو آئی کا امیدوار نامزد ہونے کا امکان ہے، این اے 211 میرپور خاص پر ن لیگ کے امیدوار اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ہونے کا امکان ہے، این اے 205 پر ن لیگ کے اصغر شاہ امیدوار ہوں گے۔

    پی ٹی آئی کے اہم امیدوار عبدالعلیم خان کے حق میں دستبردار

    ذرائع کے مطابق این اے 216 پر بشیر میمن پیپلز پارٹی کے مخدوم جمیل کے مد مقابل الیکشن لڑیں گے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ علامہ راشد سومرو لاڑکانہ میں بلاول بھٹو کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے، پی ایس 18 گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کی نشستوں پر جے یو آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی ایس 5، پی ایس 6، پی ایس 9 پر ن لیگ کے امیدوار کھڑے ہوں گے، شکارپور، کشمور اور جیکب آباد کی اکثریتی نشستوں پر جے یو آئی اور چند پر ن لیگ کے امیدوار نامزد ہونے کا امکان ہے۔

  • پاکستان کے ڈرائیونگ  لائسنس کن ملکوں میں تسلیم کئے جاتے ہیں؟

    پاکستان کے ڈرائیونگ لائسنس کن ملکوں میں تسلیم کئے جاتے ہیں؟

    کراچی : ڈی ائی جی لائسنس برانچ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ کے ڈرائیونگ لائسنس کینیڈا سمیت کئی ملکوں میں تسلیم کئے جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ سے بنے ہوئے ڈرائیونگ لائسنس کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی میں بھی مانے جانے لگے۔

    اس حوالے سے ڈی ائی جی لائسنس برانچ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ کینیڈا، اسٹریلیا اور جرمنی کے حکام سندھ سے بنائے گئے ڈرائیونگ لائسنس کی تصدیق کے لیے رابطہ کرتے ہیں اور وہاں یہ لائسنس مانے بھی جاتے ہیں۔

    دوسری جانب ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر شہر بھر میں ٹریفک پولیس کے جا بجا چالان ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود پورے سال صرف دو لاکھ ساٹھ ہزار شہریوں نے پرماننٹ اور 2 لاکھ 80 ہزار لرنر لائسنس بنوائے۔

    سندھ بھر کے ڈرائیونگ لائسنس برانچز سے رواں برس فیسوں کی مد میں حاصل 52 کروڑ 78 لاکھ سے زائد رقم سندھ حکومت کو جمع کرائی گئی ہے۔

  • کراچی شہر کا پھیلاؤ ایک المیہ، کروڑوں لوگ اصلاحات کے منتظر

    کراچی شہر کا پھیلاؤ ایک المیہ، کروڑوں لوگ اصلاحات کے منتظر

    پاکستان میں اربنائزیشن کا عمل عمومی طور پر غیر منظم طور پر، بغیر منصوبہ بندی جاری ہے۔ اسلام آباد پاکستان کا نیا آباد کیا جانے والا منصوبہ بند شہر بھی بے ہنگم طور پر اپنے اطراف میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ شہر اپنی بے ہنگم ترقی کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک عبرت ناک مثال ڈھائی کروڑ سے زائد انسانوں کا شہر کراچی ہے، جہاں چاروں سمت سے انسانوں کی بھیڑ چلتی چلی آ رہی ہے اور شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔

    کراچی کی آبادی، آمدن اور ضروریات

    یوں تو پاکستان اور بالخصوص سندھ کے تقریباً تمام اربن سینٹرز مسائل کا شکار ہیں، لیکن کراچی میں شہری سہولیات کا خطرناک حد تک فقدان شہریوں کے غصے اور افسردگی کو اس لیے بھی شدید کر دیتا ہے کہ یہ شہر ملک کے دیگر شہروں کی نسبت ٹیکسوں اور آمدن کی مد میں اتنا کچھ دیتا ہے، کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شہر اپنے محل وقوع کی بنا پر ہمیشہ ہی جاذب نظر رہا ہے، تاہم اس کی زمین اور دولت ہی اس کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔

    کراچی شہر میں واقع دو سمندری بندرگاہیں، ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ، 95 فی صد غیر ملکی تجارت اور نصف سے زائد فی صد ملکی و غیر ملکی صنعت، اور کاروباری اور مالیاتی اداروں کا مرکزہ ہونے کے باوجود یہاں نہایت ہی بنیادی نوعیت کی انسانی ضروریات شرم ناک حد تک ناپید ہیں۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی سالانہ جی ڈی پی 164 ارب ڈالرز یعنی 27 ہزار 650 ارب روپے ہے، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 20 سے 25 فی صد اور سندھ کی جی ڈی پی کا 95 فی صد ہے۔ یہ شہر ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 980 ارب روپے سے زائد ٹیکس کی مدد میں دیتا ہے، جو جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا 41 فی صد ہے لیکن اس کے جواب میں شہر سالانہ 30 ارب سے بھی کم اپنی ضروریات کے لیے حاصل کر پاتا ہے۔

    شہری ووٹ

    پاکستان میں جمہوری قدروں کی پامالی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ عددی طور پر دیہات میں ووٹوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے مگر اس ملک میں شہری ووٹ سیاسی عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پر اپنا کام کرتا رہا ہے۔ شہری سیاست کا رخ ہمشیہ ہی بے تابی کا سا رہا ہے، دارالحکومت کی حیثیت چھننے، صنعتی اور تعلیمی مرکز ہونے نے جہاں اسے ایوب آمریت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کا مضبوط مورچہ بنا دیا تھا، وہیں انقلابی تحریکوں کا گڑھ بھی بنا دیا۔ لیکن یہی شہر آگے چل کر مذہبی جماعتوں کو اس وقت پارلیمنٹ میں پہنچانے کا باعث بنا، جب پورا ملک ترقی پسند اور قومی حقوق کی علم بردار سیاسی قوتوں کی آواز بنا ہوا تھا۔ اور ایک وقت میں نسلی اور لسانی ابھار نے شہر کی ہر اس اعلیٰ روایت کو بندوق اور خوف کے زور پر مسخ کر ڈالا جسے اس نے صدیوں کے سماجی سفر میں پال کر توانا کیا تھا۔

    شہر کے تمام دعوہ گیروں نے وہ تباہی مچائی ہے جو شاید حملہ آور بھی نہیں کرتے۔ انھوں نے نہ صرف اس کی ہر خوب صورتی کو بگاڑا بلکہ شہر کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اپنی شان دار تاریخ رکھنے والا یہ شہر ایک تاریخی کُل یعنی سندھ کا جُز ہے اور نہایت اہمیت کا حامل جُز لیکن یہ کُل نہیں ہے اور نہ ہی اسے تاریخی کُل سے جدا کیا جا سکتا ہے۔ اسی تاریخ حقیقت پر ہر بار ضرب لگانے کی لاحاصل کوشش کی جاتی رہی ہے اور نفرت کے انگارے بھڑکا کر ہاتھ تاپنے کی کوشش میں نہ صرف ہاتھ جلے بلکہ اس الاؤ میں شہر کی ہمہ رنگ خوب صورتی بھی جھلس گئی۔

    تاریخ اور میئر شپ

    سندھ پر 1847 میں میانی کی جنگ کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کا آغاز ہوا، اور 1840 سے اسے سندھ کا کیپیٹل قرار دیا گیا۔ سندھ کے اس ساحلی شہر کو میونسپلٹی بننے کا اعزاز 1910 میں ملا اور اس کے پہلے صدر سر چارلس مول اور ان کے بعد غلام علی چھاگلہ اس عہدے پر فائز ہوئے، جن کے بیٹے نے پاکستان کا سرکاری ترانہ کمپوز کیا تھا۔ کراچی کے نامور شہری جمشید نسروانجی مہتا بھی 20 برس اس عہدے پر رہے۔ 1933 میں کراچی سٹی میونسپل کمیٹی ایکٹ پاس ہوا اور اس کا سربراہ میئر قرار پایا۔ پاکستان وجود میں آنے سے کچھ ماہ پہلے حکیم محمد احسن کراچی کے میئر بنے تھے۔ اب تک 24 میئر شہر کے انتظامات چلاتے آئے ہیں، یہ برصغیر کی اولین میونسپلٹی تھی جس نے رہائشی/ پراپرٹی ٹیکس عائد کیا۔

    سندھ کو ممبئی پریذیڈنسی کے ماتحت کر دیے جانے کے خلاف ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد جب یکم اپریل 1936 کو سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا، تو کراچی ایک بار پھر اس کا دارالحکومت بنا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی ملک کا کیپٹل قرار پایا اور اسے سندھ سے 1948 میں الگ کر دیا گیا، جس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اکتوبر 1955 میں ون یونٹ کے نام پر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی، جو ون یونٹ مخالف تاریخی تحریک کے نتیجے میں یکم جولائی 1970 میں دوبارہ بحال ہوئی اور کراچی ایک بار پھر سندھ کا کیپٹل قرار پایا۔

    ایک بڑا شہر ایک بڑی پناہ گاہ

    سندھ اور اس کے اکثر شہروں اور خصوصاً کراچی کی ڈیموگرافی میں غیر متناسب طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان سے آنے والوں کی اکثریت سندھ اور خصوصاً اس کے شہروں میں رہائش پذیر ہوئے۔ کراچی کے کیپٹل بننے کے نتیجے میں ملک کے دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں سندھ اور خصوصاً کراچی کی جانب نقل مکانی ہوئی، ون یونٹ کے پندرہ سالوں میں ملک کے دیگر علاقوں سے اس شہر کی جانب آنے کا سلسلہ جاری رہا، صنعتی شہر اور واحد سمندری بندرگاہ ہونے کی بنا پر روزگار کے متلاشیوں کے لیے بھی یہ شہر ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا۔ بنگلادیش کے قیام کے بعد وہاں سے آنے والوں کے لیے بھی کراچی ہی وہ شہر تھا جہاں وہ رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اسی عرصے میں برما سے بھی بہت سی برادریوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔

    80 کی دہائی کے آخری سالوں میں ایران میں شاہ مخالف انقلاب اور افغانستان پر تھوپے جانے والے جہاد کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی اسی شہر کی جانب ہی تھا۔ اس کے بعد حالیہ برسوں میں قبائلی اور دیگر علاقوں میں جاری آرمی آپریشن کے نتیجے میں بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کا رخ کیا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سکڑتے امکانات نے بھی لوگوں کو کراچی کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ یہی صورت حال پنجاب کے جنوبی علاقوں کی ہے جہاں سے کراچی کی جانب مائیگریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور غیر معمولی بارشوں نے بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

    مگر ترقی کے مدارج

    یوں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں آبادی کا دباؤ عام شرح کے برعکس بہت تیزی سے بڑھا ہے، لیکن اسی تناسب سے ترقی کے مدارج طے نہ ہو سکے۔ شہر کو اس کی آبادی کے تناسب سے وسائل کی فراہمی کبھی بھی ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اور اس سلسلے میں اگر جان بوجھ کر شہر کی آبادی ہی اصل سے 30 سے 40 فی صد کم دکھائی جائے، تو پھر شہر کا بحرانوں کے گرداب میں پھنسنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔

    پانی

    شہر کی نمائندگی کے دعوے داروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی، بلکہ شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمح نظر رہا۔ پارک، باغ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انھوں نے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی اور پانی کی ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔ بجلی کے 100 سالہ طریقہ کار کو غیر ملکی کمپنی کے ناتجربہ کار گروہ کے حوالے کر دیا، جس نے شہریوں کو تاریکیوں میں ڈوبی الم ناک داستان کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پانی جیسی انسانی ضرورت تک شہریوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی، شہریوں کو ان کا اپنا پانی مافیا نے بیچنا شروع کر دیا اور شہر کے 40 فی صد سے زائد علاقے آج بھی پانی کی پائپ لائنوں سے یکسر محروم ہیں۔

    نکاسئ آب

    حالیہ بارشوں نے نکاسئ آب کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ شہر کا تمام سیوریج اور کچرا قدرتی آبی گزر گاہوں میں پھینک کر قدرتی ماحول پر مجرمانہ حملہ کیا گیا۔ شہر کے دو دریا لیاری اور ملیر کے علاوہ 60 سے زائد چھوٹے بڑے ندی نالے جو سمندر میں برساتی پانی گرانے کا قدرتی ذریعہ تھے، انھیں گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان ندی نالوں میں صنعتی ادارے خطرناک کیمیائی فضلہ پھینک رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے شہر میں خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ سمندر کی جانب پانی کی نکاسی کے چار بڑے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پانی کے راستے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

    پبلک ٹرانسپورٹ

    شہر پر قابض مافیا نے پبلک ٹرانسپورٹ کے مؤثر ترین ذریعے کو ترقی دینے کی بجائے بیچ کھا لیا۔ آج کراچی شاید دنیا کا واحد میگا سٹی ہے جو پچھلی نصف صدی سے بغیر کسی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے ڈھائی کروڑ سے زائد شہریوں کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔ یہی صورت حال تعلیم اور صحت کے شعبے کی بھی ہے۔ کراچی کا جثہ اور اور آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے صحت اور تعلیم کے مواقع اتنی ہی تیزی سے مفقود ہوئے ہیں۔

    خصوصی پیکجز اور انتظامی معاملات

    وزیر اعظم کراچی کا چھٹی بار دورہ کر رہے ہیں، اور دوسری بار پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔ پچھلے اعلان شدہ 126 ارب کے پیکج کا آج بھی شہری انتظار کر رہے ہیں۔ شہریوں کو معلوم ہے کہ یہ پیکج بھی دیگر پیکجز کی طرح جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوگا۔ گزشتہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سو دن میں کراچی کا مسئلہ حل کر دے گی، لیکن دو سال کے بعد بھی کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کراچی کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صوبے با اختیار اور جمہوری شہری حکومتوں کا میسر نظام رائج ہو، تو کراچی جیسے شہروں کو کسی پیکج یا امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    شہر کے انتظامی اور سیاسی معاملات چلانے کے لیے ضروری شہری بلدیاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہر کے 40 فی صد حصے پر کنٹونمنٹ بورڈز، ڈی ایچ ایز اور وفاقی اداروں کی ملکیت قائم ہے اور رہی سہی کسر صوبائی حکومت نے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے شہری ترقی کے اہم اداروں پر قبضہ کر کے پوری کر دی ہے، جس سے شہری حکومت مفلوج ہو گئی ہے۔ شہر کی اضلاع میں تقسیم در تقسیم، شہر کے انتظامی معاملات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بر خلاف شہر پر کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر مصنوعی اداروں کا تسلط شہر کے جسم کو وحشی درندوں کے بھنبھوڑنے کے مترادف ہے۔

    مسئلے کا حل

    شہر کے مسئلے کا دائمی حل ایک حقیقی نمائندہ جمہوری، بااختیار شہری حکومت ہی میں مضمر ہے، باقی تمام راستے مزید تباہی اور بربادی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر عوامی مفاد کا ایک چارٹرمرتب کیا جائے جس میں یہ بنیادی مطالبات شامل ہوں:

    عوام کی مشاورت سے ایک با اختیار بدلیاتی نظام کا اجرا کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شہر میں قائم کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ ایز ختم کیے جائِیں اور شہر کا کنٹرول منتخب بدلیاتی اداروں ک سپرد کیا جائے۔ کے الیکٹرک اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو منتخب بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام دیا جائے۔ تمام شہریوں کو آئین کے مطابق رہائش فراہم کی جائے، اور جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے انھیں متبادل رہائش فراہم کی جائے۔

    آئین میں درج بدلیاتی اداروں کے اختیارات جن میں تعلیم، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسئ آب اور پولیسنگ جیسے شعبے شامل ہیں، حقیقی معنوں میں بحال کیے جائیں۔ شہری مسائل کو لسانی و نسلی تفرق کے لیے استعمال کرنے سے سختی سے گریز کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت کرائے جائیں، اور مزدوروں، عورتوں اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب براہ راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔ حلقہ بندیاں آبادی اور رقبے پر مبنی ہونی چاہئیں اور کسی بھی قسم کے امتیازی طریقہ کار سے اجتناب کیا جائے۔ شہر کی تمام آبی گزر گاہوں کو صاف کیا جائے اور سمندر پر کی جانے والی تمام ناجائز تجاوزات ختم کی جائیں۔ اور شہر کو پہلے مرحلے میں کم از 5 ہزار بسیں فراہم کی جائیں اور پانی کی سپلائی کا ٹھوس انتظام کیا جائے۔

  • سندھ میں گیس کی تلاش : بڑی کامیابی مل گئی

    سندھ میں گیس کی تلاش : بڑی کامیابی مل گئی

    کراچی : پیٹرولیم کی مقامی کمپنی کے ڈہرکی میں قائم کنوئیں ’’غازیج ٹو‘‘ سے بھی گیس دریافت ہوگئی، گزشتہ ماہ غازیج ون کنویں سے گیس دریافت کی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق تیل وگیس کے شعبے سے اچھی خبر سامنے آئی ہے، صوبہ سندھ میں ایک اور کنوئیں سے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق ماڑی پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (ایم پی سی ایل) نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو جاری ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ کمپنی نے صوبہ سندھ کے علاقے ڈہرکی میں گیس کی پیداوار کے لیے ایکسٹینڈڈ ویل ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے۔

    ،ماڑی پٹرولیم کے ’غازیج ٹو‘ کنویں سے گیس کی پیداوار شروع ہوگئی، غازیج ٹو سے سوئی ناردرن کو یومیہ آٹھ ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جارہی ہے،حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غازیج 2 سے سوئی ناردرن کو یومیہ 8 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی جاری ہے۔

    حکام کے مطابق نئی گیس کی فراہمی سے توانائی کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی، نئی گیس شامل ہونے سے موسم سرما میں گیس کی طلب و رسد کا فرق کم ہوگا۔

    واضح رہے کہ یہ پیشرفت 9 اکتوبر کو ماڑی ڈویلپمنٹ اینڈ پروڈکشن لیز میں غازیج ٹو کنویں کی کامیاب کھدائی اور جانچ پڑتال کے بعد ہوئی، ماڑی پٹرولیم حکام کے مطابق نئی گیس سے زرمبادلہ کے ذخائر کی بھی بچت ہوگی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ میں غازیج ون کنویں سے ون 11 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دریافت کی گئی تھی، ماڑی پیٹرولیم کی جانب سے تیل و گیس کی تلاش کیلئے1016میٹر گہرا کنواں کھودا گیا تھا۔

  • سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج

    سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج

    کراچی سمیت سندھ بھر میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے میدان مار لیا۔ چیئرمین کی3 اور وائس چیئرمین کی ایک نشست جیت لی۔

    غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مرتضیٰ وہاب، سلمان عبداللہ مراد، سیف اللہ چیئرمین، حامد حسین وائس چیئرمین منتخب ہوگئے۔

    مجموعی طور پر 26یونین کونسلوں کی نشستوں پر 116 امیدوار مدمقابل تھے، جن کیلئے 182 پولنگ اسسٹیشنز قائم کئے گئے تھے، شہر قائد میں چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل ممبر کی 9 نشستوں پر پولنگ ہوئی، 9 نشستوں پر پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت 54 امیدوار میدان میں اترے۔

    ضلع ملیر، ضلع کیماڑی، ضلع جنوبی میں چیئرمین کی نشستوں پر انتخابات ہوئے جبکہ ضلع ملیر اور ضلع جنوبی میں وائس چیئرمین کی نشستوں پر بھی پولنگ ہوئی، ضمنی انتخاب والے حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 6 ہزار 686 ہے، شہر قائد میں 121 پولنگ میں سے تمام کو حساس اور انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔

    ضلع جنوبی یو سی 13 صدر ٹاؤن کے مکمل غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب 3967 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جماعت اسلامی کے نورالسلام ایک ہزار 566ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔

    ضلع ملیر گڈاپ ٹاؤن یو سی 7 میں 27 پولنگ سٹیشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق سلمان عبداللہ مراد 9ہزار 932 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے۔

    جماعت اسلامی کے ایوب خاصخیلی کو 1350 ووٹ جبکہ پی ٹی آئی کے عبدالحفیظ جوکھیو کو 303 ووٹ ملے۔ ریٹرننگ آفیسر کے مطابق ٹی ایل پی کے صالح محمد نےایک ہزار 45ووٹ حاصل کیے۔

    غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ملیر یو سی 2 میں جنرل کونسلر کی نشست پر پی پی امیدوار اسماعیل بلوچ کو شکست ہوگئی، آزاد امیدوار محمد عمر کامیاب ہوئے۔

    غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق کیماڑی یو سی 3 ماڑی پور میں پی پی کے سیف اللہ 5 ہزار 466 ووٹ لیکر چیئرمین منتخب ہوئے، ضلع ملیر گڈاپ ٹاؤن یو سی 1 میں جنرل کونسلر پر پی پی امیدوار 1596 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، ضلع وسطی یو سی 5 ناظم آباد میں جماعت اسلامی کے طلحہ احمد 364 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔

    یونین کمیٹی نمبر 12 صدر ٹاؤن کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کے حمید حسین نے وائس چیئرمین کی نشست پر بڑا میدان مار لیا، حمید حسین نے 3250 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے امتیاز خان صرف 757 ووٹ حاصل کرسکے۔

    قادر پور یوسی کے وارڈ 2 میں جنرل کونسلر کے انتخاب کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار 905 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جے یو آئی کے امیدوار برکت بھٹو نے 412 ووٹ حاصل کئے۔

    ،سلمان مراد نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ایسے تیر برسائے، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی والے یاد رکھیں گے، اب کراچی میں کام ہوتا ہوا نظر آئے گا، کراچی میں جلد بڑے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔

  • سندھ میں خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈز پر پابندی ختم کرنیکا مطالبہ

    سندھ میں خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈز پر پابندی ختم کرنیکا مطالبہ

    کراچی: سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے صوبے میں خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈز پر پابندی کے معاملے میں سندھ حکومت کے ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے نادرا کو خط لکھا گیا ہے۔

    اس حوالے سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا تھا کہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

    کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ دیگرصوبوں میں خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈز بن رہے ہیں۔ صرف سندھ میں قومی شناختی کارڈزنہیں بن رہے۔

    واضح رہے کہ خواجہ سراؤں کے آئی ڈی کارڈ پر شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد پابندی عائد کی گئی تھ۔

  • سندھ میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد

    سندھ میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد

    کراچی: سندھ میں اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے اسلحے کی نمائش پر تین ماہ کی پابندی عائد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق پابندی رینجرز کی سفارش پر نافذ کی گئی، رجسٹرڈ کمپنی کے گارڈ ڈیوٹی کے دوران لوکیشن پر اسلحہ لیکر ڈیوٹی کر سیکیں گے۔

  • تیل و گیس کی تلاش ، پاکستان نے ایک اور بڑی  کامیابی حاصل کرلی

    تیل و گیس کی تلاش ، پاکستان نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کرلی

    اسلام آباد : سندھ میں گیس کے نئے ذخائر دریافت کرلئے گئے، تیل و گیس کی تلاش کیلئے 1016 میٹر گہرا کنواں کھودا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق تیل و گیس کے شعبے میں پاکستان کیلئے بڑی خوشخبری آگئی، ماڑی پیٹرولیم نے سندھ سے گیس کے نئے ذخائر دریافت کرلئے۔

    سندھ میں غازیج ون کنویں سے ون 11 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دریافت کی گئی ، ماڑی پیٹرولیم کی جانب سے تیل وگیس کی تلاش کیلئے1016میٹر گہرا کنواں کھودا گیا تھا۔

    یاد رہے رواں سال جون میں خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کی بڑی فیلڈ کو قبل از وقت آپریشنل کردیا گیا تھا اور ضلع لکی مروت میں ولی فیلڈ سے یومیہ 1 ہزار بیرل تیل اور 10 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداوار شروع کر دی تھی۔

    او جی ڈی سی کا کہنا تھا کہ تیل و گیس کی فیلڈ کو 24 گھنٹے میں قومی پیداوار سے جوڑ دیا جائے گا، ولی فیلڈ کے دو مزید کنووں سے سے پیداوار جلد شروع ہونے والی ہے۔

    او جی ڈی سی کے مطابق دونوں کنووں سے گیس سسٹم میں آنے سے گیس کی یومیہ پیداوار 50 ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گی۔