Tag: سندھ

  • ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔

    اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔

    زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔

    جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔

    باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔

    سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔

    سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔

    سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں

    سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔

    جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔

    زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔

    اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔

    اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔

    سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں

    دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔

    ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب

    پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔

    جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔

    26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔

    کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

    دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔

    15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔

  • برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں، بحالی پروگرام بنا لیا: وزیر اعلیٰ سندھ

    برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں، بحالی پروگرام بنا لیا: وزیر اعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا پروگرام بنا لیا ہے، متاثرہ علاقوں سے برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آج اتوار کو کراچی میں قائم مقام گورنر سندھ آغا سراج درانی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔

    وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ سیلاب سے سندھ میں سوا کروڑ کے قریب لوگ متاثرہیں، اس خطے کے لوگوں کا قصور نہیں ہے، یہ سب قدرت سے لڑنے کی وجہ سے ہوا ہے، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا اثر سامنے آیا ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ اتنی بڑی تباہی کہیں نہیں دیکھی۔

    انھوں نے کہا برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں، لوگوں کی بحالی کا پروگرام بنا لیا ہے، یو این سیکریٹری جنرل سے کہا کہ ہمیں پیسے نہیں بلکہ ضروری سامان اور دوائیں چاہئیں۔

    مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں 18 ہزار کے قریب سیلاب متاثرین آئے ہیں، جن کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔

    وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ بارش اور سیلاب سے 1500 کے قریب لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں، 50 ارب روپے کا نقصان لائیو اسٹاک کا ہوا ہے، ہزاروں گھر منہدم ہوئے، کسانوں کو ساڑھے 3 سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔

    کراچی میں گرمی کے حوالے سے انھوں نے کہا میں گزشتہ روز لاڑکانہ میں تھا، کراچی سے زیادہ وہاں گرمی ہے، تاہم کراچی میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق پاور ڈویژن اور وزیر اعظم تک پیغام پہنچا دیا ہے، ہم پاور کمپنیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم

    سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم

    کراچی: صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں، متاثرین میں اب تک ڈیڑھ لاکھ کے قریب خیمے تقسیم کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں بارش اور سیلاب سے 20 اگست سے اب تک ہونے والی امدادی سرگرمیوں اور نقصانات کی تفصیلات جاری کردی گئیں۔

    فوکل پرسن فلڈ ریلیف کا کہنا ہے کہ صوبے کے متاثرہ اضلاع میں اب تک متاثرین کے لیے 2 ہزار 31 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، 5 لاکھ 91 ہزار 950 متاثرین کو ان ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

    فوکل پرسن کے مطابق شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں 577، سکھر ڈویژن میں 568، لاڑکانہ ڈویژن میں 481، حیدر آباد ڈویژن میں 296، میر پور خاص ڈویژن میں 68 اور کراچی ڈویژن میں 41 ریلیف کیمپ قائم کے گئے ہیں۔

    متاثرین میں اب تک 1 لاکھ 40 ہزار 610 خیمے تقسیم کیے گئے ہیں جبکہ 9 لاکھ 23 ہزار 255 مچھر دانیاں، 4 ہزار 293 فولڈنگ بستر اور 1350 چولہے بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔

    فوکل پرسن کے مطابق بارش کے باعث ہونے والے نقصانات کا سروے جاری ہے، بارش اور سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرنا ترجیح ہے۔

    اب تک بارشوں کے باعث 583 افراد جاں بحق جبکہ 11 ہزار 556 افراد زخمی ہوئے ہیں، صوبے بھر میں 45 ہزار 483 مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

    بارشوں کے باعث 16 لاکھ 81 ہزار 380 مکانات کو نقصان پہنچا، 44 لاکھ 26 ہزار 431 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہوگئیں۔

    فوکل پرسن کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بارشوں سے 235 تعلقہ اور 1051 یونین کونسلز متاثر ہوئی ہیں۔

  • چئیرمین تحریک انصاف عمران خان آج سندھ  کا دورہ کریں گے

    چئیرمین تحریک انصاف عمران خان آج سندھ  کا دورہ کریں گے

    اسلام آباد : چئیرمین تحریک انصاف عمران خان آج سندھ  کا دورہ کریں گے، جہاں وہ پی ٹی آئی کیمپ میں امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چئیرمین تحریک انصاف عمران خان آج سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔

    عمران خان آج سکھر میں سیلاب متاثرین کیلئے لگائے گئے پی ٹی آئی کیمپ میں امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے۔

    چیئرمین تحریک انصاف سیلاب متاثرین کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھائیں گے اور سکھر کے بعد جعفرآباد جائیں گے۔

    پی ٹی آئی رہنماؤں ارسلان تاج اورعالمگیر خان نے عمران خان کے دورہ سندھ کے حوالے سے پریس کانفرنس میں بتایا کہ عمران خان آج سکھر میں سیلاب زدگان کیلئےریلیف کیمپ کاافتتاح کریں گے۔

    ارسلان تاج کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی امدادی ٹرک آج سکھر پہنچیں گے، سندھ حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی جارہی۔

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا سندھ حکومت کے ریلیف کیمپس میں سہولتوں کا فقدان ہے ، سندھ بھر میں سیلاب متاثرین صوبائی وزراکےخلاف احتجاج کررہے ہیں۔

  • ملک بھر میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ

    ملک بھر میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ

    کراچی: ملک میں سیلاب متاثرین کو صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی ہدایت پر متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس نیشنل ایمرجنسی آپریشن سیل، صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹرز (ای او سی)، اور نجی یونیورسٹی کے اشتراک سے لگائے جائیں گے۔

    عبدالقادر پٹیل نے سیلاب متاثرین کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کے حوالے سے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں تقریباً 1200 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے۔

    عبدالقادر پٹیل کے مطابق ہیلتھ کیمپس میں بنیادی صحت کی خدمات فراہم کی جائیں گی، کیمپس میںبچوں کی ویکسینیشن، جلد کے امراض، آنکھوں کے انفیکشن، اور ڈائریا کے لیے ادویات فراہم کی جائیں گی۔

    انھوں نے کہا بلوچستان کے 6 اضلاع میں 3 سو کیمپ لگائے جائیں گے، کراچی میں مجموعی طور پر 95 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے، خیبر پختون خوا کے 8 اضلاع میں 4 سو ہیلتھ کیمپس، پنجاب کے 2 اضلاع ڈی جی خان، اور راجن پور میں 100 کیمپ، جب کہ اندرون سندھ کے 6 اضلاع میں 3 سو ہیلتھ کیمپس لگائے جائیں گے۔

  • عمران خان 5 ستمبر  سے سندھ میں سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے

    عمران خان 5 ستمبر سے سندھ میں سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے

    سکھر : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان 5 ستمبر سے سندھ میں سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے دورہ سندھ کا اعلان کردیا گیا ، عمران خان سندھ میں سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کا آغاز 5 ستمبر سے کریں گے۔

    چیئرمین تحریک انصاف عمران خان 5 ستمبر کو سکھر پہنچیں گے۔

    پی ٹی آئی نے بی ایڈ کالج شکارپور پھاٹک پر کیمپ لگانے کیلئے درخواست جمع کرادی تھی ، عمران خان 5 ستمبرکو ریلیف کیمپ کا دورہ کریں گے اور متاثرین کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔

    رہنماپی ٹی آئی صوفی بابر نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی جارہی ، ایک روز قبل ڈی سی سکھر نے کیمپ لگانے کی اجازت دی تھی۔

    ڈی سی سکھر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے کیمپ لگانے کیلئے تحریری درخواست دی ہے، تمام چیزوں کاجائزہ لیکرپی ٹی آئی کو کیمپ لگانے کی اجازت دیں گے۔

    جاوید احمد کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اور تمام تر انتظامات کے بعد پی ٹی آئی کو اجازت دیں گے۔

  • سیلاب زدہ علاقوں میں لوٹ مار: ہائی ویز کی سیکیورٹی کے لیے پولیس ٹیم تیار

    سیلاب زدہ علاقوں میں لوٹ مار: ہائی ویز کی سیکیورٹی کے لیے پولیس ٹیم تیار

    کراچی: سیلاب زدہ علاقوں میں بد نظمی اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد پولیس کی فلڈ ریلیف اسپیشل ٹیم تشکیل دے دی گئی، ٹیم میں شامل افسران کو ہائی ویز کی حفاظت اور سیکیورٹی ڈیوٹیوں پرتعینات کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں سیلابی صورتحال میں بدنظمی، ٹریفک جام اور لوٹ مار کی شکایات کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے حکم پر سندھ کی سب سے بڑی فلڈ ریلیف اسپیشل ٹیم تشکیل دے دی گئی۔

    99 اعلیٰ افسران پر مشتمل ٹیم سندھ کے 19 اضلاع میں رپورٹ کرے گی۔ فلڈ ریلیف اسپیشل ٹیم میں 6 ایس ایس پیز، 22 ایس پیز، 71 ڈی ایس پیز اور دیگر اعلیٰ افسر شامل ہیں۔

    افسران دادو، نوشہرو فیروز، خیرپور، قمبر، جامشورو، مٹیاری، جیکب آباد، شہید بے نظیر آباد، لاڑکانہ، کشمور، سکھر، شکار پور، میرپور خاص، حیدر آباد، گھوٹکی، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان، سجاول اور بدین میں تعینات ہوں گے۔

    ٹیم میں شامل افسران آج متعلقہ اضلاع کے افسر کو رپورٹ کریں گے، افسران کو ہائی ویز کی حفاظت اور سیکیورٹی ڈیوٹیوں پرتعینات کیا جائے گا۔

    ٹیم ٹریفک کی روانی بحال رکھنے کی ذمہ داری بھی ہوگی۔

    مختلف علاقوں میں جائے وقوعہ کی حساسیت کے لحاظ سے ہائی ویز کو تقسیم کیا جائے گا، ایس ایس پیز 20 کلو میٹر اور ایس پیز 10 کلومیٹر میں گشت کریں گے۔

    ڈی ایس پی کی نارمل علاقے میں پٹرولنگ کی ذمہ داری ہوگی۔

  • سندھ میں‌ بارشوں‌ اور سیلاب سے 1 کروڑ کے قریب لوگ متاثر

    سندھ میں‌ بارشوں‌ اور سیلاب سے 1 کروڑ کے قریب لوگ متاثر

    کراچی: صوبہ سندھ میں‌ بارشوں‌ اور سیلاب سے 1 کروڑ کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے 20 اگست سے آج تک ہونے والے نقصانات اور ریسکیو کی تفصیلات جاری ہو گئیں۔

    فوکل پرسن فلڈ ریلیف کے مطابق صوبے کے متاثرہ اضلاع میں اب تک متاثرین کے لیے 1 ہزار 975 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، اور 5 لاکھ 81 ہزار 10 متاثرین کو ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔

    بارشوں اور سیلاب سے صوبہ بھر میں 91 لاکھ 82 ہزار 270 افراد متاثر ہوئے، اب تک بارشوں کے باعث 518 افراد جاں‌ بحق جب کہ 15 ہزار 51 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    بارشوں کے دوران صوبہ بھر میں 1 لاکھ 138 مویشی بھی ہلاک ہوئے۔

    نوشہرہ میں ریلیف کیمپ بند کرنے کا فیصلہ

    بارشوں کے باعث 1 کروڑ 35 لاکھ 51 ہزار 456 مکانات کو نقصان پہنجا، اور صوبے میں 31 لاکھ 72 ہزار 350 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہو گئیں۔

    رپورٹ کے مطابق بارشوں سے 235 تعلقہ اور 1 ہزار 51 یونین کونسلیں متاثر ہوئی ہیں۔

  • سندھ میں 31 لاکھ ایکڑ زمین پر موجود فصلیں تباہ ہوگئیں: وزیر اعلیٰ

    سندھ میں 31 لاکھ ایکڑ زمین پر موجود فصلیں تباہ ہوگئیں: وزیر اعلیٰ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 31 لاکھ 72 ہزار 726 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، صرف گھروں کی تعمیر کے لیے 450 ارب روپے درکار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی انٹرنیشنل ڈونرز سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی، وزیر اعلیٰ ور چیف سیکریٹری سہیل راجپوت نے ڈونرز کو سندھ کی صورتحال پر بریفنگ دی۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ جولائی میں عام بارشوں کے مقابلے میں 308 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں، اگست میں 784 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔

    انہوں نے کہا کہ سندھ کے 24 اضلاع، 102 تعلقہ اور 5 ہزار 727 دیہات شدید متاثر ہوئے ہوئے، 405 اموات اور 1 ہزار 74 لوگ زخمی ہوئے۔ 15 لاکھ گھر گر گئے ہیں جس کو تعمیر کے لیے 450 ارب روپے درکار ہیں۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سندھ میں 31 لاکھ 72 ہزار 726 ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوگئیں، بارشوں میں 2281.5 کلو میٹر کے 570 روڈ تباہ ہوگئے۔ ایک کلومیٹر کی تعمیر پر 10 ملین روپے کی لاگت ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نقصانات کا تخمینہ 860 بلین روپے بنتا ہے، سندھ حکومت کو اموات اور زخمیوں کا معاوضہ دینا ہے۔ گرے ہوئے گھر اور مرنے والے مویشیوں کا بھی معاوضہ دینا ہوگا۔

    وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ زرعی قرضہ معاف یا ایک سال کے لیے مؤخر اور اقساط میں کرنا ہوگا، زرعی مشینری، کھاد، کیڑے مار ادویات اور بیج پر سبسڈی دینا ہوگی۔

  • دادو میں سیلاب کا خطرہ

    دادو میں سیلاب کا خطرہ

    دادو: صوبہ سندھ کے شہر دادو کو سیلابی ریلے سے سخت خطرہ لاحق ہے، شہر میں ریڈ الرٹ جاری ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم این وی ڈرین میں سیلابی پانی کا جوہی شہر پر دباؤ ہے، سیلابی ریلے کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، بڑی تعداد میں شہری رنگ بند کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔

    شہری کشتیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کا بھاری کرایہ ادا کر کے نقل مکانی میں بھی مصروف ہیں۔

    خیال رہے کہ این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

    اب تک 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔