Tag: سندھ

  • سندھ میں بلدیاتی انتخابات: سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات: سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    اسلام آباد: صوبہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 28 اگست کو ہی انتخابات کرنے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستیں نمٹا دیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مرحلے کے سندھ بلدیاتی انتخابات 28 اگست کو ہی ہوں گے۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ ایم کیو ایم پہلے مناسب فورم سے رجوع کرے، حقائق کا تعین ہونے پر ہی قانونی نکات عدالتوں میں اٹھائے جا سکتے ہیں، کوئی بھی آئینی عدالت حقائق کے درست تعین کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتی۔

    عدالت نے کہا کہ جو نکات ہائی کورٹ میں نہیں اٹھائے گئے انہیں اپیل میں براہ راست نہیں سنا جا سکتا، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے انتخابات شیڈول کے تحت ہونے کی استدعا کی۔

    جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات پہلے ہی ڈھائی سال تاخیر کا شکار ہیں، عدالت سے درخواست ہے کہ انتخابات ملتوی نہ کیے جائیں۔

    انہوں نے کہا کہ مردم شماری اور ووٹر لسٹس پر اعتراضات ہیں، مردم شماری کے خلاف صوبائی حکومت بھی مجاز فورم پر اعتراض کر چکی ہے۔

    چیف جسٹس کی جانب سے کہا گیا کہ مناسب ہوگا کہ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں۔

    سپریم کورٹ فیصلے پر عملدر آمد کی تحریک انصاف کی درخواست بھی نمٹا دی گئی، عدالت نے کہا کہ تحریک انصاف اختیارات منتقلی کے یکم فروری کے فیصلے پر عملدر آمد کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن کسی صورت ملتوی نہیں کریں گے۔

  • انٹر سال اول میں داخلہ لینے والے طالبعلموں کے لیے بڑی خبر

    انٹر سال اول میں داخلہ لینے والے طالبعلموں کے لیے بڑی خبر

    کراچی : سندھ میں انٹر سال اول کے داخلوں کی تاریخ میں 20 اگست تک کی توسیع کرتے ہوئے ڈومیسائل اور پی آرسی کی شرط بھی ختم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق انٹر سال اول میں داخلہ لینے والے طلبا کے لیے اچھی خبر آگئی، سندھ بھر میں انٹرسال اول میں داخلوں کی تاریخ میں بیس اگست تک توسیع کردی گئی۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    ڈائریکٹرکالجز راشد احمد مہر نے بتایا کہ داخلے کیلئے ڈومیسائل اور پی آرسی کی شرط ختم کردی ہے لیکن ڈومیسائل امتحانات اور رجسٹریشن کے وقت جمع کرانا ہوگا۔

    راشد احمد مہر کا کہنا تھا کہ ساتھ ہی یہ بھی کہا انٹرمیڈیٹ سال اول میں داخلے کے وقت والد یا والدہ کا شناختی کارڈ اور بے فارم کی نقل بھی جمع کرانا ہوگی۔

    دوسری جانب بعض کالج پرنسپلز نے ڈائریکٹرکالجز کے احکامات ماننے اور متعدد گرلز کالجز میں طالبات کے داخلہ فارم وصول کرنے سے انکار کردیا۔

    یاد رہے سندھ میں سرکاری کالجوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل اور پی آرسی کی شرط عائد کردی گئی تھی ، جس کے باعث طلبا کو مشکلات کا سامنا تھا۔

    آن لائن فارم اور مکمل ریکارڈ محکمہ تعلیم کے پاس جمع ہونے غیر ضروری دستاویزات کالجوں میں طلب کی جارہی ہے، طلبہ وطالبات کے مطابق مطلوبہ داخلہ میعار مکمل ہونے باوجود داخلہ مرحل مشکل ہوچکا ہے۔

    طالب علموں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اون فارم جمع کراتے پورا بائیو میٹرک محکمہ تعلیم کو فراہم کرچکے ہیں، وزیر اعلی سندھ صورت حال کا نوٹس لیں۔

    بعد ازاں محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے انٹرسال اول میں داخلے کے لیے ڈومیسائل اور دیگر دستاویز طلب نہ کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔

  • دادو اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے

    دادو اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے

    کراچی: صوبہ سندھ کے شہر دادو اور اس کے گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے کی شدت 4.1 ریکارڈ کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر دادو اور اس کے گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

    زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 4.1 ریکارڈ کی گئی، اس کی زیر زمین گہرائی 88 کلو میٹر تھی جبکہ مرکز شمال مغرب سندھ بلوچستان بارڈر تھا۔

    زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہی لوگ خوفزدہ ہو کر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں صوبائی دارالحکومت کراچی میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تھے، زلزلے کی شدت 4.1 ریکارڈ کی گئی تھی۔

    زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکز ڈی ایچ اے کراچی سے 15 کلو میٹر شمال میں تھا۔

  • سندھ بھر میں ڈبل سواری پر پابندی لگ گئی

    سندھ بھر میں ڈبل سواری پر پابندی لگ گئی

    کراچی: محکمہ داخلہ سندھ نے صوبے بھر میں ڈبل سواری پر پابندی لگا دی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام اضلاع میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی، 6 محرم سے 12 محرم تک ڈبل سواری پر پابندی ہوگی۔

    محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، ڈبل سواری پر پابندی کے لیے آئی جی سندھ نے درخواست کی تھی۔

    حکومت سندھ نے لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے دفعہ 144 کے تحت پابندی لگائی ہے، معمر حضرات، صحافی، خواتین اور بچے اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔

    قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور اہل کاروں کو بھی استثنیٰ حاصل ہوگا، پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

  • کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    رپورٹ: فریحہ فاطمہ / جی ایم بلوچ

    پاکستان میں مون سون کے حالیہ اسپیل نے ملک کے بیشتر حصے کو شدید متاثر کیا ہے اور متعدد علاقوں میں سیلاب آچکا ہے، ان گنت علاقے تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں۔

    بارشوں کے حالیہ سلسلے نے جہاں صوبائی دارالحکومت کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کردی وہیں سندھ کے دیگر حصے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور کاچھو کا علاقہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    سندھ کے ضلع دادو میں واقع کاچھو کا علاقہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں ہے اور یہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ ہے، سندھ اور بلوچستان کے درمیان موجود یہ قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑ 9 ہزار اسکوائر کلو میٹر طویل ہیں اور سندھ کی طرف اس کا سب سے بڑا علاقہ کاچھو کہلاتا ہے جو سندھ کے 2 اضلاع دادو اور قمبر شہداد کوٹ پر محیط ہے۔

    انتظامی طور پر یہ علاقہ 9 یونین کاؤنسلز میں تقسیم ہے جس میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں اور اندازاً یہاں کی آبادی 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے اور یہاں کے رہائشی فصل کی افزائش اور پینے کے لیے بارش کے پانی کے محتاج ہیں۔

    ہر سال بارشوں کے دوران کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی مختلف چھوٹی بڑی ندیوں کی صورت میں بہہ کر آتا ہے، یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے نام سے ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران پہاڑوں سے پانی کا بہہ کر آنا، اور پھر وہاں سے سندھ کی منچھر جھیل میں چلے جانا، معمول کا قدرتی عمل ہے لیکن گزشتہ 2 سال سے، اور اب یہ تیسرا سال ہے جس میں پانی کی مقدار اس قدر ہے کہ پورا علاقے میں سیلاب آچکا ہے۔

    تمام زمینی راستے منقطع

    ضلع دادو میں سرگرم عمل صحافی اور سماجی کارکن رشید جمالی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 1 ماہ سے بلوچستان میں ہونے والی بارشوں سے مستقل پانی یہاں آرہا ہے، کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والے پانی اور یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے اوور فلو سے علاقہ زیر آب آچکا تھا، اور اب ہونے والی بارشوں کے بعد بے شمار گاؤں سیلاب کے پانی میں گھر چکے ہیں اور آس پاس کے علاقوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق بارش کے کچھ روز گزرنے کے بعد کچھ دیہات ایسے بھی ہیں جہاں پانی تو اتر گیا، لیکن اب وہاں دلدل اور کیچڑ ہوچکی ہے اور اب وہاں نہ تو کوئی کشتی جا سکتی ہے نہ ہی کوئی گاڑی۔

    رشید پچھلے کچھ روز سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں ایک قریبی گاؤں میں کھانا پہنچا رہے ہیں، کیچی شاہانی نامی یہ گاؤں بھان سعید آباد سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں کیچی شاہانی

    رشید نے بتایا کہ صرف کیچی شاہانی میں اس وقت 600 کے قریب افراد موجود ہیں جن میں 200 بچے بھی ہیں، فی الوقت یہ تمام لوگ کھانے سے بھی محروم ہیں جبکہ اب بارش کے بعد وبائی امراض بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں جن کے سدباب کے لیے کوئی طبی سہولیات موجود نہیں۔

    کیچی شاہانی کے رہائشی حاجی محمد خان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں گزشتہ 1 ماہ سے سیلابی پانی کھڑا ہے، تاحال کسی حکومتی نمائندے نے جھانک کر نہیں دیکھا، گاؤں والوں کے پاس نہ کھانا ہے، نہ راشن نہ کوئی طبی سہولت۔ یہاں سے نقل و حرکت کے لیے واحد ذریعہ کشتی ہی ہے جس کے ذریعے وہ طویل راستہ طے کر کے قریبی شہر تک جا سکتے ہیں اور راشن یا ادویات لا سکتے ہیں۔

    گاؤں کی رہائشی ایک خاتون نوراں بی بی نے بتایا کہ ان کا گزر بسر کھیتی باڑی پر ہے جس کے لیے بارش درکار ہے، بارش نہ ہو تو بھی وہ فاقے کرتے ہیں، ہوجائے تو سیلاب کی صورت میں دہرا عذاب ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ علاقے میں عام حالت میں بھی اسپتال، ڈاکٹر یا طبی سہولیات کا نام و نشان نہیں۔ کوئی شدید بیمار ہو یا کسی خاتون کی ڈلیوری ہو تو کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے جوہی شہر تک جانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اکثر یا تو مریض راستے میں دم توڑ جاتا ہے یا پھر سواری میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    امدادی کارروائیوں کے حکومتی دعوے

    ڈپٹی کمشنر دادو سید مرتضیٰ شاہ کا دعویٰ ہے کہ سیلاب کے بعد انتظامیہ کی ٹیمیں پورے علاقے میں متحرک ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کاچھو کی 9 یونین کاؤنسلز میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں، سینکڑوں گھروں پر موجود گاؤں بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی سیٹلمنٹس بھی جن میں 10، 12 یا 20 گھر ہیں، یہ سب ملا کر اس علاقے میں 900 سے 1 ہزار کے قریب گاؤں ہیں جن میں 30 ہزار گھرانے اور 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب افراد ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اب تک کیے گئے سروے کے مطابق حالیہ سیلاب سے کاچھو کے 251 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، پورے ضلع دادو میں 500 کے قریب مکانات منہدم ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کاچھو میں ہیں، جبکہ پورے ضلعے میں مختلف حادثات سے 6 اموات ہوچکی ہیں۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہر دفعہ بارشوں میں کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی آتا ہے، چند گھنٹے وہاں رہتا ہے اس کے بعد منچھر جھیل میں چلا جاتا ہے، تو گاؤں والوں کے لیے یہ عام سی بات ہے، لیکن گزشتہ کچھ سال سے بارشوں کا پانی باقاعدہ سیلاب میں تبدیل ہورہا ہے اور پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران کاچھو میں 16 مقامات پر، جو بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور وہاں سے انخلا کیا جانا ضروری تھا، مقامی افراد کو سرکاری کشتیاں مہیا کی گئی تھیں، لیکن وہ کشتیاں گاؤں والوں کی طرف سے انخلا کے بجائے نقل و حرکت کے لیے استعمال کی گئیں۔ ضلع بھر میں جہاں جہاں ریلیف کیمپس لگائے گئے تھے ان مقامات کے بارے میں بھی نوٹیفائی کردیا گیا تھا تاہم کاچھو کے لوگوں نے اپنے گھر چھوڑنے سے گریز کیا۔

    ڈی سی کے مطابق علاقے میں میڈیکل ٹیمز کو بھی متحرک کردیا گیا ہے جو بارشوں کے بعد پھیلنے والے وبائی امراض کی دوائیں، دیگر طبی امداد اور مویشیوں کی ویکسینز فراہم کر رہی ہیں، متعدد ایسے خاندان جن کے گھر گر گئے تھے انہیں خیمے فراہم کیے گئے ہیں، جبکہ اب تک 15 سو خاندانوں کو راشن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے مطابق 20 جون سے 31 جولائی 2022 تک ہونے والی بارشوں کے دوران صوبے میں 105 افراد جاں بحق اور 74 زخمی ہوچکے ہیں، 408.6 کلومیٹر کی سڑکیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ 3 لاکھ 70 ہزار 143 ایکڑز پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

    مستقبل میں کاچھو کو سیلاب سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والا پانی اب عام حالات کے برعکس سیلاب کا سبب بن رہا ہے، اور گزشتہ 3 سال سے یہی صورتحال ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، کیا صوبائی حکومت کے پاس اس کا کوئی مستقل حل ہے؟

    اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ کاچھو سے 6 سڑکیں ہیں جو اسے دیگر علاقوں سے جوڑتی ہیں جن میں واہی پاندھی، جوہی، چھنی، حاجی خان، ڈرگھ بالا اور شاہ حسن شامل ہیں، یہ چھ کے چھ راستے بارشوں میں زیر آب آجاتے ہیں اور کاچھو کا رابطہ دیگر صوبے سے کٹ جاتا ہے۔

    ان کے مطابق کم از کم 3 راستوں پر پل بنانے کے منصوبے زیر غور ہیں جس میں سے ایک ڈرگھ بالا میں بنایا جانے والا پل منظور کیا جاچکا ہے، 10 کروڑ روپے کی لاگت سے اس پل پر رواں برس تعمیراتی کام شروع کردیا جائے گا جس کے بعد سیلاب کے دوران بھی کاچھو تک جانے والے راستے مکمل طور پر بند نہیں ہوں گے۔

  • بلوچستان میں تباہی کی داستان رقم، 127 جاں بحق، 7 ڈیم ٹوٹ گئے، بیراجوں میں سیلاب، سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد

    بلوچستان میں تباہی کی داستان رقم، 127 جاں بحق، 7 ڈیم ٹوٹ گئے، بیراجوں میں سیلاب، سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد

    کوئٹہ: بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی کی داستان رقم کر دی ہے، 127 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، صوبے میں 7 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں، دوسری طرف ملک کے متعدد بیراج سیلاب کی زد میں ہیں، اور سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد ہو گئی ہیں، جس کے بعد رواں ماہ برآمد لاشوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے صوبے بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے سب کچھ اجڑ گیا ہے، اور متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، 10 سے زائد اضلاع میں نظام زندگی معطل ہو گیا ہے، کوئٹہ، جھل مگسی، مستونگ اور چمن میں تباہی کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں، سیکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں، توبہ اچکزئی میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، سیلابی ریلا مال مویشی، کھڑی فصلیں، سیب کے باغات بہا کر لے گیا۔

    پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بارشوں سے 7 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں، جب کہ متعدد ڈیم پانی سے بھر گئے ہیں، مون سون کی بارشوں سے دریائے سندھ میں بھی پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے کچے کے علاقے زیر آب آ گئے ہیں اور کئی شہروں سے رابطہ منقطع ہو گیا، جھل مگسی سے بھی سیلابی ریلا سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق تربت میں میرانی ڈیم بھر گیا ہے، جس کی وجہ سے اسپل وے کھول دیے گئے ہیں اور پانی کا اخراج جاری ہے،  میرانی ڈیم کی بلند ترین سطح 244 فٹ، اور پانی کی موجودہ سطح 246 فٹ ہے۔ حب ڈیم میں پانی کی سطح 339 فٹ ہے جب کہ اسپل وے کی حد 350 فٹ ہے، شادی کور ڈیم گوادر میں پانی کی بلند ترین سطح 54 میٹر جب کہ پانی کی موجودہ سطح 51.34 میٹر ہے۔

    میانوالی میں جناح بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب آ گیا ہے، بیراج کی سالانہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے متعددگیٹ جام ہو گئے اور مشینری زنگ آلود ہو گئی ہے، جن کی بحالی کا کام جاری ہے۔ جناح بیراج میں پانی کی سطح بلند ہونے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے، بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 78 ہزار 666 اور اخراج 2 لاکھ 75 ہزار 166 کیوسک ہے۔

    ادھر گڈو بیراج پر پانی میں 24 گھنٹے کے دوران 20 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا ہے، تربیلا، چشمہ، تونسہ، گڈو اور سکھر بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

    کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹے کے دوران گڈو بیراج میں پانی کی سطح میں مزید اضافے کا امکان ہے، بیراج میں اس وقت نچلے درجے کا سیلاب برقرار ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچے کے رہائش پذیر افراد کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔

    تربیلا میں پانی کی آمد 3 لاکھ 10 ہزار 600، اور اخراج 2 لاکھ 57 ہزار 900 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، کالا باغ میں پانی کی آمد 2 لاکھ 71 ہزار 579، اور اخراج 2 لاکھ 68 ہزار 79 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے تباہی، جڑہ اور تبینہ ڈیم ٹوٹ گئے

    چشمہ میں پانی کی آمد 3 لاکھ 41 ہزار 418، اور اخراج 3 لاکھ 33 ہزار 418 کیوسک، تونسہ میں پانی کی آمد 2 لاکھ 98 ہزار 900، اور اخراج 2 لاکھ 92 ہزار 900 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    گڈو بیراج میں پانی کی آمد 3 لاکھ 11 ہزار 615، اور اخراج 2 لاکھ 86 ہزار کیوسک، سکھر بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 61 ہزار 584، اور اخراج 2 لاکھ 22 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    کوٹری بیراج میں پانی کی آمد ایک لاکھ 40 ہزار 985، اور اخراج ایک لاکھ 14 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    گزشتہ روز بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے جڑہ اور تبینہ ڈیم بھی ٹوٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب کے شہر روجھان میں سیلابی ریلے سے موضع، صفدر آباد، شاہوالی کی درجنوں بستیاں زیر آب آ گئی ہیں، پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے، سیلابی ریلے سے ہزاروں ایکڑ زیر کاشت فصل تباہ ہو گئی۔ا

  • بلوچستان سےدوسرے  بڑے سیلابی ریلے نے سندھ میں تباہی مچادی

    بلوچستان سےدوسرے بڑے سیلابی ریلے نے سندھ میں تباہی مچادی

    لاڑکانہ: بلوچستان سے تین روز کے اندر دوسرے بڑے سیلابی ریلے  نے سندھ  میں  تباہی مچادی ، مزید 30 دیہات زیرآب آگئے اور رابطہ سڑکیں مکمل طور پر ڈوب گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان سے دوسرا بڑا سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہوگیا ، تین روز کے اندر داخل ہونے والے دوسرے ریلے سے تباہی میں اضافہ ہوا۔

    ریلوں سے قمبر شہداد کوٹ ضلع کے کاچھو کے علاقے متاثر ہوئے ، کاچھو کے مزید 30 دیہات زیرآب آگئے اور رابطہ سڑکیں مکمل طور پر ڈوب گئیں۔

    زیرآب دیہاتوں کی مجموعی تعداد 50سے تجاوزکرگئی ، جس کے باعث متاثرہ افراد پہاڑوں اور بچاؤ بند کے اوپر بیٹھنے پر مجبور ہیں جبکہ متاثرہ گاؤں میں علاج کی سہولت نہ ملنے پر70سالہ خاتون جاں بحق ہوئی۔

    ضلع قمبر شہداد کوٹ میں سیلابی ریلوں اور بارشوں کے باعث رین ایمرجنسی نافذ کردی گئی ، آبپاشی، ہیلتھ اورریونیو سمیت تمام محکموں کے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں۔

    بچاؤ بند پر قائم کیمپوں میں متاثرین کے لئے عارضی اسپتال قائم کردیا ہے، ڈی سی کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین میں 200خیمےتقسیم کئےجاچکےہیں اور کشتیوں کےذریعے پانی میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کا کام جاری ہے۔

    پیپلزپارٹی کے ایم پی اے میر نادر مگسی نے متاثرہ علاقوں اور بچاؤ بند کا دورہ کیا ، اس موقع پر انھوں نے کہا کہ متاثرین کو کشتیوں کےذریعےباہرنکالنے کے کام کا آغاز کیا جارہا ہے۔

  • سندھ کے کئی شہروں میں مون سون کا دھواں دار اسپیل

    سندھ کے کئی شہروں میں مون سون کا دھواں دار اسپیل

    کراچی: سندھ کے کئی شہروں میں مون سون کا دھواں دار اسپیل جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت صوبہ سندھ کے شہروں حیدر آباد، مٹیاری، تھر، اسلام کوٹ، ٹنڈوالہ یار، اور ٹھٹھہ کی سڑکیں اور گلیاں پانی میں ڈوب گئیں۔

    رات سے شروع ہونے والی برسات کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے، انتظامیہ کی نا اہلی نے رحمت کو زحمت بنا دیا ہے، حیدر آباد میں لطیف آباد اور مہر علی کے علاقے تالاب میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

    مٹیاری کی سڑکیں بھی ندی نالوں میں بدل گئیں، پانی گھروں میں داخل ہو گیا، ٹنڈوالہ یار کے گلی محلے بھی زیر آب آ چکے ہیں، ٹھٹھہ کے نشیبی علاقے پانی پانی ہو چکے ہیں، عمر کوٹ میں فصلیں ڈوب گئیں۔

    خیبر پختون خوا اور سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی

    کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی ہے، بدین کے اولڈ سول اسپتال روڈ، کینٹ روڈ، پوسٹ آفس روڈ پر پانی جمع ہے، ٹنڈو محمد خان میں بھی جل تھل ایک ہو گیا، اور بھرانی محلے میں کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا ہے۔

    ادھر کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی موسلا دھار بارش سے سائٹ ایریا، ناظم آباد، گلبرگ، لیاقت آباد، ایم اے جناح روڈ، ملیر، سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ، لانڈھی سمیت کئی علاقوں میں وقفے وقفے سے برسات جاری ہے، شیر شاہ نالہ اوور فلو ہو گیا ہے۔ بارش کے بعد رین ایمرجنسی پانی میں ڈوب گئی، اور شہر کی کئی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔

    کراچی میں چند گھنٹوں کی بارش کے بعد خستہ حال سڑکوں پر برا حال ہے، ضلع وسطی بارش میں سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہا ہے، لیاقت آباد نمبر 10، سپر مارکیٹ، لیاقت آباد ڈاکخانہ کے مقام پر سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھوں میں پانی بھر گیا ہے، جنھیں بھرنے کے لیے مٹی ڈال دی گئی، لیکن مٹی کے ٹیلے جمع ہونے سے ٹریفک کی آمد و رفت متاثر ہو گئی ہے، محکمہ موسمیات نے اربن فلڈنگ کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون کی طاقت ور ہوائیں سندھ میں موجود ہیں، جو 26 سے 27 جولائی تک برقرار رہیں گی، اور تھرپارکر،عمر کوٹ، بدین، ٹھٹھہ، ٹنڈومحمدخان میں مزید بارش متوقع ہے، ٹنڈوالہ یار، حیدر آباد، نوابشاہ میں گرج چمک کے ساتھ مزید بارش ہوگی، قمبر شہداد کوٹ، گھوٹکی اور کشمور اضلاع میں 27 جولائی تک بارش ہوگی۔

  • سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے التواء کی وجوہات سامنے آگئیں

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے التواء کی وجوہات سامنے آگئیں

    کراچی : صوبائی الیکشن کمیشن نے سندھ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرنے کی سفارشات ارسال کیں، جس میں مون سون سے لے کر کورونا پھیلاؤ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے التوا ء کی وجوہات سامنے آگئیں، انتخابات ملتوی کرنے کی سفارشات صوبائی الیکشن کمیشن نے ارسال کردیں۔

    سفارشات کی نقول اے آروائی نیوز نے حاصل کرلیں ہیں ، جس میں بتایا گیا ہے کہ التوا کی سفارشات میں مون سون کے موسم سے لے کر کورونا کے پھیلاوٴ کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے۔

    چیف سیکرٹری سندھ نے ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کی بدترین صورتحال کی رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ دادو کے راستے بلوچستان کے پہاڑوں کا برساتی پانی سیلابی صورت میں ان علاقوں میں داخل ہوگا۔

    چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ مزید بارشیں ہونے کی صورت میں 10/12یونین کونسلوں سے رابطہ منعقد ہوسکتا ہے۔

    صوبائی الیکشن کمیشن نے کہا کہ کراچی و حیدرآباد میں بھی اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، محکمہ موسمیات نے 23 اور24جولائی کو شدید طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ بارش کے نتیجے میں پولنگ اسٹیشنز کی عمارتیں زیر آب آسکتی ہیں، پولنگ کے لیے متبادل عمارات نہ ہونے کے سبب الیکشن کا عمل مشکلات کا شکار ہوگا۔

    صوبائی الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں کے زیر آب آنے سے خواتین اسٹاف کا پولنگ اسٹیشنز تک پہنچنا مشکل ہوگا عملے کی کمی ہوسکتی ہے اور بارشوں کے دوران بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوسکتی ہے، بجلی کی عدم فراہمی سے متعدد بنیادی آفشل امور متاثر ہوسکتے ہیں۔

    الیکشن کمیشن نے کہا کہ متحدہ کی رہنما سینیٹر نسرین جلیل اور ڈاکٹر شہاب امام نے کورونا کے پھیلاوٴ پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، ، زیادہ بارشوں کی وجہ سے انتخابات کے عمل میں عوام کی شرکت متاثر ہوگی اور ٹرن آوٴٹ بھی کم ہوسکتا ہے۔

  • سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا التوا ، قومی خزانے کو کروڑوں کے نقصان کا خدشہ

    سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا التوا ، قومی خزانے کو کروڑوں کے نقصان کا خدشہ

    کراچی : سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے التوا کے باعث قومی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے التوا سے قومی خزانےکو کروڑوں کے نقصان کا خدشہ پیدا ہوگیا، بلدیاتی الیکشن ملتوی ہونے سے 20کروڑ روپے سے زائد کے انتظامی اانتظامی اخراجات دوبارہ کرنا پڑسکتے ہیں۔

    حلقہ بندیاں دوبارہ ہونے کی صورت بیلٹ پیپرز ضائع ہوسکتے ہیں، دوسرے مرحلے میں 16اضلاع کیلیے 2کروڑ سیزائد بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔

    الیکشن کمیشن متعلقہ محکموں نے عملے کی ٹریننگ اور دیگر مد میں خطیر رقم خرچ کی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات ممکنہ بارشوں کے باعث ملتوی کردیئے تھے، اب بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ 28 اگست کو ہو گی۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ محرم اور موسم کی صورتحال کے باعث این اے 245 کا الیکشن بھی ملتوی کیا گیا،این اے 245 کے ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ 21 اگست سے ہو گی۔