Tag: سندھ

  • جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    کنری، سندھ: 28 سالہ شاد بی بی فصل سے مرچیں توڑنے میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ ایک کمسن بچی، ایک شیر خوار بچے کو گود میں لیے موجود ہے۔ شیر خوار بچے نے رونا شروع کیا تو کچھ دیر بعد شاد بی بی نے مرچوں والے ہاتھوں سے ہی بچے کو اٹھایا اور اسے دودھ پلانے لگیں۔

    ماں کے مرچ والے ہاتھ بچے کے چہرے پر لگے تو اس کے رونے میں اضافہ ہوگیا، تاہم تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پیتے ہوئے چپ ہوچکا تھا، اس کی سرخ جلد جلن اور سوزش کا پتہ دے رہی تھی۔

    یہ ایک معمول کا منظر ہے جو کنری کی مرچوں کی فصلوں میں نظر آتا ہے، یہاں مرچ توڑنے والی خواتین کی جلد اور آنکھوں کی جلن اور دیگر مسائل عام ہیں۔

    بچے بھی اس سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں، پورے شہر کی فضا میں مرچوں کی دھانس ہے جو یہاں رہنے والوں کا سانس لینا دو بھر کیے ہوئے ہے۔


    صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے اور یہاں لگنے والی منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے، تاہم مرچ کے کھیتوں اور منڈی میں کام کرنے والے کاشت کاروں اور تاجروں کی زندگی اتنی آسان نہیں۔

    سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور کنری، ضلع عمر کوٹ میں ہے جو ملک بھر میں فراہم کی جانے والی مرچ کا 85 فیصد پیدا کرتا ہے، یہ منافع بخش فصل سندھ کے دیگر مختلف علاقوں اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی اگائی جاتی ہے تاہم کنری کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق کنری میں 80 سے 90 ہزار ایکڑ رقبے پر مرچ کاشت کی جاتی ہے

    ایک زمانے میں کنری میں لگنے والی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہاں لگنے والی فصل ملک کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی حصے دار ہے۔

    سرخ مرچ کی فصل اگست سے تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور اکتوبر تک یہ سرخ ہو کر مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ کھیتوں سے چنائی کے بعد اسے منڈی لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی نیلامی اور فروخت ہوتی ہے، یہ سلسلہ جنوری یا فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں کنری کی مرچ کی طلب زیادہ ہے

    کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور اسی تیکھے پن کی وجہ سے اس کی طلب اور قیمت دیگر علاقوں میں اگنے والی مرچ سے زیادہ ہے، تاہم اس کی وہ قیمت نگاہوں سے اوجھل ہے جو اس فصل کے کاشت کاروں اور محنت کشوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

    میرپور خاص اور کنری میں سرگرم عمل سماجی کارکن واجد لغاری بتاتے ہیں کہ مرچوں کی چنائی اور اس کی تجارت محنت کشوں کی صحت پر نہایت سخت اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ان کے مطابق کھیتوں سے مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، یہ محنت کش خواتین کھیتوں میں آتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں جن میں شیر خوار اور بڑی عمر کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔

    فصلوں سے اتارنے کے بعد مرچوں کو سکھایا جاتا ہے

    بچوں کی نازک جلد مرچوں کا تیکھا پن برداشت نہیں کر پاتی لہٰذا بچے مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، عموماً ان کی جلد پر زخم بن جاتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

    مرچیں توڑنے والی خواتین بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جن میں ہاتھوں اور چہرے پر جلن، خراشیں اور پھر ان کا زخم بن جانا، کھانسی اور گلے کی خراش عام مسائل ہیں۔

    شہر کے وسط میں واقع مرچ منڈی

    چنائی کے بعد مرچیں نیلامی اور فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نہال دیپ کا کہنا ہے کہ آج سے 4 دہائیاں قبل جب یہ منڈی قائم کی گئی اس وقت کنری شہر میں اتنی آبادی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی جس کے بعد اب یہ منڈی شہر اور آبادی کے وسط میں آچکی ہے۔

    واجد لغاری بتاتے ہیں کہ منڈی میں لائے جانے کے بعد جیسے جیسے مرچیں سوکھتی جاتی ہیں ویسے ویسے ان کا تیکھا پن شدید اور نقصانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، پورے شہر کی فضا میں تیکھا پن اور دھانس موجود ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔

    کنری کی مرچ منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے

    ان کے مطابق جن دنوں مرچ کی فصل عروج پر ہو ان دنوں اس کی دھانس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ آس پاس کے دکاندار اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں جبکہ شہریوں کا سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ نہ صرف منڈی کے آس پاس کی آبادیاں بلکہ پورا شہر ہی مجموعی طور پر مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    واجد لغاری کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے منسلک محنت کشوں کو مختلف سانس کے اور جلدی مسائل عام ہیں، سانس کی نالیوں میں زخم ہو جانا، کھانسی، پھیپھڑوں کی خرابی، دمہ، جلد پر جلن، خراشیں اور زخموں کا بن جانا عام امراض ہیں۔

    تمام امراض کے علاج کے لیے ایک اسپیشلسٹ

    کنری تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر مبارک علی درس کہتے ہیں کہ مرچ کی چنائی کے سیزن میں شہر بھر میں مختلف امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں پورے شہر کی فضا میں مرچ کی دھانس ہوتی ہے اور خصوصاً منڈی کے قریب رہنے والے افراد نہایت تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق ان دنوں بزرگ، بچے اور ایسے افراد جو پہلے ہی سانس کے مسائل کا شکار ہوں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں سانس کے مسائل، کھانسی اور آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایات ہوں۔ اسی طرح مرچ کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی جسم پر زخموں کی تکلیف کے ساتھ کنری کے واحد سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی تمام طبی مسائل چھوٹے بچوں کو بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے ان کا شکار ہوتے ہیں۔

    مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق کنری میں صرف ایک ہی چیسٹ اسپیشلسٹ موجود ہے جو ضلعے کی تمام آبادی کے لیے ناکافی ہے، ان کے علاوہ علاقے میں آنکھوں یا جلد کا کوئی اسپیشلسٹ موجود نہیں۔

    ایم ایس کا کہنا تھا کہ مرچوں کی دھانس سے متاثرہ مریض جب اسپتال آتے ہیں تو انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ خرابی طبیعت کی شدت سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور مرچوں کا کام کرنے والے دستانے ضرور پہنیں، ’لوگ سن کر اس پر ایک دو دن عمل کرتے ہیں، اس کے بعد تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں‘۔

    نئی منڈی جو 14 سال سے زیر تعمیر ہے

    کنری کے رہائشی اور مرچ کے کاروبار سے منسلک عظیم میمن بتاتے ہیں کہ سنہ 2007 میں کنری شہر سے باہر نئی مرچ منڈی کی تعمیر کی منظوری دی گئی جس کے لیے فنڈ بھی جاری کیے گئے اور فوری طور پر تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔

    لیکن 14 برس گزر چکے ہیں اس منڈی کی تعمیر کا کام تاحال ادھورا ہے، یہ منصوبہ میگا کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔

    اس منڈی کی تعمیر کا ابتدائی مجموعی تخمینہ 16 کروڑ روپے تھا جو فوراً جاری کردیے گئے تھے، تاہم اس وقت منڈی کی تعمیر میں نہایت ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ہر کچھ عرصے بعد منڈی کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کے فنڈز جاری کیے جاتے رہے۔

    سنہ 2017 میں نیب کراچی کے حکام نے منڈی کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور متعلقہ افسران سے پوچھ گچھ شروع کردی۔

    عظیم میمن کا کہنا ہے کہ ان 14 سالوں میں منڈی کی تعمیر کے لیے 60 سے 70 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور تاحال اس کی تعمیر مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس دوران بنائی گئی چند دکانیں ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔

    ان کے مطابق مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی سے شہریوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے گی اور شہر میں پھیلے مختلف امراض میں بھی کمی آئے گی۔ لیکن اس کا انحصار نئی منڈی کی تعمیر پر ہے، ’ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ جلد سے جلد اس منڈی کی تعمیر مکمل ہو اور ہم سکون کا سانس لے سکیں‘۔

  • سندھ میں دو خطرناک وائرسز کے خلاف ویکسینیشن مہم

    سندھ میں دو خطرناک وائرسز کے خلاف ویکسینیشن مہم

    کراچی: سندھ میں دو خطرناک وائرسز خسرہ اور روبیلا کے خلاف ویکسینیشن مہم شروع ہونے جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایکسپینڈڈ پروگرام آن امونائزیشن آفس میں انسداد خسرہ اور روبیلا مہم کے حوالے سے پریس کانفرنس میں حکام نے بتایا کہ صوبے میں خسرہ اور روبیلا کی ویکسینز لگانے جا رہے ہیں، یہ مہم 15 نومبر سے 27 نومبر تک جاری رہے گی۔

    پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر ارشاد میمن نے کہا خسرہ بہت ہی زیادہ خطرناک مرض ہے، جو وائرس سے پھیلتا ہے، روبیلا بھی خسرہ کی طرح وائرس سے پھیلنے والا ایک خطرناک مرض ہے۔

    اس مہم کے دوران 9 مہینے سے 15 سال تک کے بچوں کو ایک بار ڈوز دی جائے گی، اور مہم کے دوران 19 ملین یعنی ایک کروڑ 90 لاکھ بچوں کو ٹیکے لگائے جائیں گے، جب کہ 15 ہزار 200 سے زائد ٹیمیں محلوں میں جا کر ویکسینیشن کریں گی۔

    ڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ ایم آر (میزلز اور روبیلا) ویکسین مہم بچوں کے لیے بہت ضروری اور محفوظ ہے، اس کے ساتھ 8 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے بھی پلائے جائیں گے۔

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے نے کہا کہ اس مہم کے لیے 12 اجزا کو شامل کیا گیا ہے، 15 ہزار ورکرز ٹریننگ دی جا رہی ہے، ایریا کے فوکل پرسن کو بھی تربیت دی جا رہی ہے، ڈیٹا کو بھی مینیج کرنے میں ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔

    ڈی جی ہیلتھ سروسز سندھ ڈاکٹر جمن باہوٹو کا کہنا تھا کہ اگر کسی بچے کو میزلز ہو جائے یا کوئی بچہ نابینا یا بہرہ پیدا ہو اور تمام زندگی معذوری کے ساتھ گزارے (روبیلا میں)، تو اس کی تکلیف صرف ماں محسوس کر سکتی ہے، لیکن حفاظتی ٹیکوں کی مہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ اموات اور بیماریوں کو روکنے میں بہت مؤثر ہے۔

    انھوں نے کہا اس مہم میں ویکسین اپنا پورا اثر دکھائے اس کے لیے سندھ حکومت نے ویکسین کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک مضبوط کولڈ چین سسٹم بنایا ہوا ہے۔

    ڈاکٹر در ناز جمال نے بتایا کہ 19 ملین میں سے ایک بڑی تعداد اسکول جانے والے بچوں کی ہے، ہمارا اسکول میں ویکسینیشن پر فوکس ہے، سرکاری اسکولوں میں ہم آرام سے ویکسینیشن کر لیتے ہیں، جب کہ نجی اسکولز میں ہمیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، لیکن جب سے محکمہ تعلیم ہمارے ساتھ رابطے میں آیا ہے اس کی وجہ سے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ میں ٹائفائیڈ اور خسرے کی مہم ایک ساتھ چلائی گئی تھی، اور اس بار خسرہ اور روبیلا کی مشترکہ مہم چلائی جا رہی ہے۔

    ڈاکٹر خالد شفیع نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ویکسینیشن کے بعد مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں، ویکسین کے چار طرح کے ری ایکشن ہوتے ہیں، کچھ ویکسین سے بچوں کو بخار کچھ سے سوجن ہو جاتی ہے جو کہ عام بات ہے۔

    انھوں نے کہا ری ایکشن اینگزائٹی (ڈر) سے بھی ہوتا ہے، انسی ڈینٹل ری ایکشن بھی ہوتا ہے، میزلز کے سائڈ ایفکٹ بہت خطرناک ہوتے ہیں جس سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے، لیکن ویکسین کے سائڈ ایفکٹس کو قابو کیا جا سکتا ہے۔

  • سندھ کے 3 اداروں کی آڈٹ رپورٹ میں ہوش رُبا انکشافات

    سندھ کے 3 اداروں کی آڈٹ رپورٹ میں ہوش رُبا انکشافات

    کراچی: صوبہ سندھ کے 3 اداروں کی آڈٹ رپورٹ میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کے زیر انتظام موسمیاتی تبدیلی، ماحول اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی آڈٹ رپورٹ جاری ہو گئی، آڈیٹر جنرل پاکستان کی تیار کردہ رپورٹ میں متعدد اعتراضات کی نشان دہی ہوئی ہے۔

    کے ایم سی پر 2019-20 کے دوران 86.340 ملین کے آڈٹ اعتراضات سامنے آئے ہیں، کے ایم سی کے آڈٹ میں 8.200 ملین روپے کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا جا سکا، کے ایم سی کو یہ رقم اسنارکل کی مرمت کے لیے جاری کی گئی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے آڈیٹر جنرل ڈپارٹمنٹ کو اس کی کوئی رسیدیں فراہم نہیں کی گئیں، مجموعی طور پر آڈٹ میں 77.190 ملین روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔

    محکمے کے لیے خریدے گئے سامان کی خریداری میں بھی 37.451 ملین روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئیں، محکمے کے اندرونی کنٹرول کمزور ہونے کی صورت میں بھی 37.451 ملین روپے کی بے قاعدگیاں ہوئیں۔

    سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) میں بھی خریداری کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا، ریکارڈ میں ڈلیوری چالان، انسپیکشن رپورٹ، اور دیگر انٹریز موجود نہیں تھیں، کمزور مالی ڈسپلن کی وجہ سے انوائرنمنٹ پروٹیکشن ٹریبیونل کے لیے مختص 9.678 ملین روپے کا فنڈ استعمال ہی نہیں ہوا۔

    آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای پی اے کے کنٹریکٹرز کو 11.66 ملین روپے کی زیادہ ریٹس پر ادائیگیاں کی گئیں، 61.741 ملین روپے کے سسٹین ایبل فنڈز کا کوئی ریکارڈ بنایا ہی نہیں گیا۔

    سندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ میں بھی آڈیٹرز نے 1096 ملین روپے کی ادائیگیوں پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔

  • نیب آرڈیننس ذاتی مفاد پر مبنی ہے: وزیر اعلیٰ سندھ

    نیب آرڈیننس ذاتی مفاد پر مبنی ہے: وزیر اعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس ذاتی مفاد کے لیے جاری کیا گیا ہے، غریب آدمی کے لیے کوئی آرڈیننس لائیں تو مان لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق کابینہ اراکین کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آج وزیر اعلیٰ سندھ نے نیب ترمیمی آرڈیننس پر تنقید کی، انھوں نے کہا یہ ذاتی مفاد پر مبنی ہے، کیا اس آرڈیننس کا مسودہ کسی نے دیکھا ہے؟

    مراد علی شاہ نے کہا بلاول نے کہا ہے کہ ایسے قوانین جس میں عوام کا نقصان ہو، ہم انھیں سپورٹ نہیں کریں گے، عوامی مفاد کے خلاف قوانین کو سپورٹ نہیں کیا جائے گا، موجودہ حکومت ایڈہاک ازم پر چل رہی ہے، جو ہر چیز پر کنٹرول چاہتی ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے الیکشن کمیشن والے معاملے پر کہا کہ موجودہ حکومت اقتدار کو طول دینے کے لیے ذاتی مفاد کے فیصلے کر رہی ہے، لیکن نئے الیکشن میں موجودہ پی ٹی آئی کہیں نظر نہیں آ رہی۔

    انھوں نے کہا تمام صوبوں کے لوگوں پر موجودہ حکومت نے ظلم کیا ہے، ہم نے مردم شماری سے متعلق اجلاس میں بھی اعتراض اٹھایا تھا، اور پارلیمنٹ کو بھی رپورٹ دی گئی جو اسپیکر کو مل چکی ہے، مگر 6 ماہ سے کچھ نہیں ہوا۔

    مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت صرف اپنے مفاد کے قوانین بنانے میں تیز ہے، جب کہ یہ ہر چیز میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔

  • پروموشنز کا جھگڑا، آئی جی سندھ کے قریبی افسران کے تبادلوں‌ کا امکان

    پروموشنز کا جھگڑا، آئی جی سندھ کے قریبی افسران کے تبادلوں‌ کا امکان

    کراچی: اگلے عہدوں پر ترقی نہ ملنے کے جھگڑے پر آئی جی سندھ کے قریبی افسران کے تبادلوں‌ کا امکان ہے۔

    ذرائع کے مطابق سندھ حکومت اور آئی جی سندھ مشتاق مہر کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا ہے، یہ تنازع وزیر اعلیٰ کے پی ایس او فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے پر پیدا ہوا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فرخ بشیر سمیت کئی سینئر افسران کی اگلے عہدے پر ترقی نہیں ہو سکی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بتایا گیا کہ فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے کے ذمہ دار آئی جی سندھ ہیں۔

    اس پر وزیر اعلیٰ نے چیف سیکریٹری کو آئی جی کو اظہار ناپسندیدگی کا خط لکھنے کا کہہ دیا تھا، تاہم چیف سیکریٹری کی جانب سے تاحال خط نہیں لکھا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے صرف 3 افسران کی ترقی کی منظوری دی ہے، جن میں مقدس حیدر، عبدالسلام شیخ اور حمید کھوسو شامل ہیں، جب کہ فرخ بشیر، فیصل بشیر، رائے اعجاز، اور فاروق احمدکی ترقی نہ ہو سکی۔

    ذرائع کے مطابق سندھ سے گریڈ 21 کے بھی کسی پولیس افسر کو ترقی نہیں دی گئی ہے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب آئی جی سندھ کے قریب سمجھے جانے والے افسران کے تبادلوں کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ سندھ حکومت نےافسران کےبڑےپیمانےپر تقرریاں و تبادلے کر دیے ہیں، کمشنر کراچی نوید شیخ کا تبادلہ کر کے انھیں چیئرمین سی ایم آئی ٹی مقرر کر دیا گیا ہے، جب کہ گریڈ 21کے افسر  اقبال میمن کراچی کے نئے کمشنر مقرر کر دیے گئے ہیں۔

    جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اعجاز حسین بلوچ ممبر بورڈ آف ریونیو جوڈیشل مقرر کیے گئے ہیں، گریڈ 20کے افسر آصف جہانگیر سیکریٹری خزانہ، عبدالرشید سولنگی سیکریٹری اطلاعات، لئیق احمد سیکریٹری محنت، سیکریٹری خزانہ حسن نقوی کا تبادلہ کر کے انھیں چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ، اور گریڈ  20 کے  افسر بلال احمد سیکریٹری محکمہ سرمایہ کاری مقرر کر دیے گئے ہیں۔

  • سندھ بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے 28 کیسز رپورٹ

    سندھ بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے 28 کیسز رپورٹ

    کراچی: سندھ میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 28 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت نے یکم سے 30 ستمبر تک ڈینگی کے کیسز کے اعداد و شمار جاری کر دیے، ایک ماہ کے دوران صوبے میں مجموعی طور پر 536 ڈینگی کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

    محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں مزید اٹھائیس کیس رپورٹ ہوئے، کراچی کے مختلف علاقوں سے 11 ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    مٹیاری میں 4 کیسز، حیدر آباد میں 1 کیس، بدین میں 1 کیس، تھرپارکر میں 1 کیس سامنے آیا، جب کہ کشمور، گھوٹکی، سکھر، اور خیرپور میں ڈینگی کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

    خیال رہے کہ پنجاب میں بھی ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، سیکریٹری صحت عمران سکندر بلوچ نے تین دن قبل بتایا تھا کہ پنجاب کے اسپتالوں میں ڈینگی کے 88 مریض جب کہ لاہور کے اسپتالوں میں ڈینگی کے 51 مریض داخل ہوئے۔

    اسلام آباد میں بھی ڈینگی کیسز میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، رواں سیزن اسلام آباد میں 177 ڈینگی کیسز سامنے آ چکے ہیں، جب کہ ڈینگی وائرس سے 2 اموات بھی ہو چکی ہیں۔

  • موٹر وے سفر کے لیے کرونا ویکسنیشن لازمی قرار

    موٹر وے سفر کے لیے کرونا ویکسنیشن لازمی قرار

    کراچی: صوبہ سندھ میں موٹر وے کے ذریعے سفر کرنے کے لیے کرونا ویکسنیشن لازمی قرار دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے ٹرانسپورٹ سیکٹر سے متعلق کرونا ایس او پیز کا نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔

    حکم نامے کے مطابق بسوں، ریل گاڑیوں، ٹیکسی ڈرائیورز، اور ہوم ڈیلیوری سروس والے اسٹاف کے لیے کرونا ویکسینیشن لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

    محکمہ داخلہ سندھ نے اس سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ کو سخت ایکشن لینے کا حکم بھی دے دیا ہے، اور ہدایت کی ہے کہ 26 اور 27 ستمبر کو خصوصی طور پر کرونا ویکسینیشن کارڈ لازمی چیک کریں۔

    کورونا ویکسینیشن کارڈ کی چیکنگ : کراچی کے شہری ہوشیار ہوجائیں

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عملے کی ویکسینیشن نہ کرانے والے بس اسٹینڈز اور بسوں کو سیل کر دیا جائے گا، جب کہ ویکسینیشن کارڈ نہ رکھنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

    محکمہ داخلہ سندھ نے احکامات پر عمل درآمد کے لیے صوبے کے تمام کمشنرز کو بھی ہدایت جاری کر دی ہے۔

  • جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

    جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

    کراچی : محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و انسداد سندھ نے جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا ، 30 ستمبر تک جائیداد ٹیکس جمع کروانے والوں کو 5 فیصد ریلیف ملے گا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و انسداد منشیات مکیش کمار چاؤلہ کی صدارت میں ہوا ، اجلاس میں سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و انسداد منشیات راجہ خرم شہزاد عمر، ڈائریکٹر جنرلز منیر احمد زرداری، حاجی سلیم بھٹو، ڈائریکٹر پراپرٹی ثمینہ بھٹو اور دیگر افسران شریک ہوئے۔

    اجلاس میں مکیش کمار چاؤلہ نے کہا کہ جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے ، جائیداد ٹیکس کے بڑے نادہندہ گان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

    مکیش کمار کا کہنا تھا کہ جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کو کمپیوٹرائزڈ چالان جاری کیے گئے، جائیداد ٹیکس نادہندہ گان کو ترغیب دینے کے لئے تشہیری مہم بھی چلائی جائے گی۔

    صوبائی وزیر نے کہا کہ 30 ستمبر تک جائیداد ٹیکس جمع کروانے والوں کو5 فیصد ریلیف ملے گا، جلد ہی جائیداد ٹیکس کے بڑے نادہندہ گان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی، کارروائی میں دکان مکان اور دیگر املاک سربمہر کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کارروائی میں جائیداد کی قرقی بھی شامل ہے، کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لئے ٹیکس نادہندہ گان جلد ٹیکس جمع کروائیں، چالان نہ ملنے کی صورت میں متعلقہ ایکسائز دفتر سے رابط کریں۔

    مکیش کمار نے کہا کہ جائیداد ٹیکس کی وصولی کے لئے اسپیشل ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، افسران قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹیکس نادہندہ گان کے خلاف کارروائی کریں۔

  • کلائمٹ چینج اور کرونا کی وبا نے گلاب کے پھولوں کو مرجھا دیا

    کلائمٹ چینج اور کرونا کی وبا نے گلاب کے پھولوں کو مرجھا دیا

    سندھی اور اردو زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے اپنی وائی میں لکھا ہے، جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے، ہم تب ملیں گے۔ رواں سال وبا کے بیچ جب سرخ گلاب کھلے، تو عاشقوں کو محبوب سے ملن کا موقع تو مل گیا، لیکن فکر معاش نے انہیں کھل کر خوش ہونے نہ دیا۔

    میلوں تک پھیلا کھیت اور اس پر جا بجا لگے سرخ گلاب، دیکھنے میں تو سحر انگیز منظر ہے، لیکن اپنے نگہبانوں کے لیے ایک پریشان کن نظارہ، جو جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا نے اس سال ان پھولوں کے نصیب میں خاک میں مل جانا لکھا ہے۔

    کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو معطل کیا اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، وہیں سرخ گلابوں کا کاروبار بھی ایسا ٹھپ ہوا کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے چولہے سرد ہوگئے۔


    گلشن کا مہکتا ہوا کاروبار

    صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، مٹیاری اور ٹنڈو الہٰ یار گلاب کی کاشت کے مرکز ہیں۔ یہاں لگے گلاب کے کھیت نہ صرف مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ انہیں باہر بھی بھیجا جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ مقامی استعمال سے زیادہ فائدہ مند بیرون ملک ایکسپورٹ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ایکسپورٹ بلکہ مقامی کھپت بھی بے حد متاثر ہوئی اور گلاب کے کاروبار سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی بدحالی در آئی۔

    کبیر حسین منگوانو مٹیاری میں 40 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر گلاب کاشت کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران گلاب کی مقامی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ بیرون ملک ایکسپورٹ مکمل طور پر رک گئی، اور گلاب کی پتیوں سے بھرے بورے یونہی گوداموں میں پڑے رہ گئے۔

    کبیر حسین کے مطابق گلاب کا موسم سارا سال رہتا ہے لیکن کچھ ماہ ایسے ہیں جنہیں اس کا سیزن کہا جاتا ہے، یہ سیزن پیداوار کا بھی ہوتا ہے اور استعمال کا بھی۔ سیزن کے دوران ان کے 40 ایکڑ کے فارم سے روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار کلو گلاب پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ یہ تعداد گھٹ کر 5 سو سے 6 سو کلو یومیہ چلی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ گلابوں کا زیادہ استعمال درگاہوں میں کیا جاتا ہے، کرونا کی وبا سے پہلے کراچی کی صرف ایک عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر یومیہ 15 سو سے 2 ہزار کلو پھولوں کی پتیاں فروخت کی جاتی تھیں، درگاہوں پر پھولوں کی کئی مختلف دکانیں ہوتی ہیں اور یہ ان کی روزانہ مجموعی کھپت تھی، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس کھپت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔ کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سال کا زیادہ تر حصہ درگاہیں اور مزارات ویسے بھی بند رہے، اور جب کھلے تب بھی لوگوں کی آمد و رفت پہلے جیسی نہیں تھی۔

    گلاب کا دوسرا استعمال دواؤں اور کاسمیٹکس میں کیا جاتا ہے جبکہ گلقند بھی بنایا جاتا ہے، اور پھر اس کا سب سے بڑا حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد کیا جانے والے حصہ گلاب کی خشک پتیاں ہوتی ہیں جنہیں سکھایا جاتا ہے اور پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ خشک پتیاں یورپ اور عرب ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں اور وہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس کے علاوہ چائے کی پتی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    گلاب کی کاشت کے حوالے سے کبیر حسین منگوانو نے بتایا کہ گلاب کو قدرتی اور آرگینک طریقے سے اگایا جاتا ہے اور مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک درآمد کرنے کے بعد ان پتیوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر اس پر کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے جائیں تو ایسی چیز کو دوا یا کاسمیٹکس میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقامی بیوپاری اور پھر کاشت کار کے منافع پر فرق پڑتا ہے۔

    گلاب کا پودا لگائے جانے کے بعد بڑھتا رہتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑھنے کے بعد اسے تراش دیا جاتا ہے جس کے صرف 40 دن کے اندر وہ پھر سے گلاب کی پیداوار شروع کردیتا ہے۔ ایک پودے کی اوسط عمر 2 سال ہوتی ہے۔

    گلاب کی چنائی کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے جو ان کا ذریعہ روزگار بن جاتا ہے۔ کبیر حسین منگوانو کے فارم پر کام کرنے والی روپی بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    روپی قریبی گاؤں دودو منگوانو کی رہائشی ہے اور وہ خود، اس کا شوہر اور بڑی عمر کے بچے سب ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ ان کی ایک طے کردہ مزدوری ہوتی ہے جو کلو کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ یعنی جتنے کلو وہ پھول توڑتے ہیں اس حساب سے انہیں مزدوری ملتی ہے۔

    روزانہ صبح 5 بجے فارم پر آجانے والی روپی خاصی بے دردی سے پھول توڑتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اسے کم وقت میں زیادہ پھول توڑنے ہیں، اگر وہ نرمی و نزاکت سے پھول توڑنے لگے تو اس کے روز کے کوٹے میں فرق پڑے گا اور اجرت میں کمی آئے گی جو پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے خاصی کم ہوچکی ہے۔

    فارم پر کام کرنے والا ہر شخص روزانہ اوسطاً 12 سے 15 کلو پھول توڑتا ہے۔ روپی اور اس جیسے سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے صبح ہی پھول توڑ کر انہیں بوریوں میں جمع کرتے جاتے ہیں، ان بوریوں کا وزن کیا جاتا ہے، اور پھر شہر سے آنے والی گاڑیاں انہیں لے کر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں برف کی سلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان پھولوں کو تازہ رکھتی ہیں۔

    چنے گئے پھول مارکیٹ بھجوائے جارہے ہیں

    کبیر حسین منگوانو اور ان جیسے دیگر کئی کھیت مالکان کے فارم سے چلنے والی گاڑیاں کراچی کے علاقے تین ہٹی آ پہنچتی ہیں۔ یہ گلابوں کی منڈی کہلاتی ہے اور یہاں سے پورے شہر میں گلاب سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی نیلامی اور خرید و فروخت کا عمل انجام پاتا ہے۔

    شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے دکاندار یہاں سے مختلف قیمتوں میں پھول اور پتیاں خریدتے ہیں، بعض اوقات وہ گلابوں کی چھانٹی بھی کرتے ہیں، اچھے اور بڑے گلابوں کی زیادہ قیمت بھی دے دیتے ہیں جبکہ چھوٹے گلاب کم قیمت میں بکتے ہیں۔

    دلدار احمد کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے پھولوں کی فروخت 50 روپے سے لے کر، 60، 70 یا 100 سو روپے فی کلو بھی ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں سے مختلف داموں پر خریداری ہوتی ہے، لہٰذا دکاندار آگے جا کر اپنی دکان پر بھی مختلف قیمت پر پھول فروخت کرتے ہیں۔

    دلدار احمد کی دکان سے زیادہ تر شادی ہالز یا شادی کے گھروں میں پھول جاتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کے دوران شادیوں میں سادگی کا رجحان بڑھ گیا جس سے ان کے کاروبار پر بھی فرق پڑا۔

    انہوں نے بتایا کہ پھولوں کی فروخت کا ایک روز شب برات بھی ہوتا ہے۔ اس دن پھولوں اور پتیوں کی فروخت دگنی تگنی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ بعض فارم مالکان شب برات کے موقع پر خود ہی تین ہٹی آتے ہیں اور خرید و فروخت کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔


    کبیر حسین منگوانو کے فارم سے کچھ فاصلے پر گوادم ہے جہاں ایکسپورٹ ہونے والی پتیاں سکھائی جاتی ہیں، ان پتیوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے بعد ازاں بوروں میں بھر کر ایکسپورٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ رک گئی تو پتیوں کے بورے گوداموں میں ہی پڑے رہ گئے۔

    گلاب کی پتیاں سکھا کر انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے
    وبا کے دوران راستے بند ہونے سے پتیاں ایکسپورٹ نہ کی جاسکیں

    گلاب سکھانے کے لیے استعمال کیے جانے والے گودام اکثر فارم مالکان ہی کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ انہیں ایکسپورٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اور اس کے لیے انہیں درمیان میں بیوپاریوں اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی مدد لینی پڑتی ہے جس سے منافعے میں کمی آتی ہے۔

    کلائمٹ چینج سے پھولوں کی پیداوار متاثر

    دنیا بھر میں بدلتے ہوئے موسم نے فصلوں کی تمام اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پھول بھی انہی میں سے ایک ہیں۔

    ہارٹی کلچر سوسائٹی سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ پھولوں کی فصل کا دارومدار دن میں سورج کی روشنی کی مدت پر ہوتا ہے، سورج کی تمازت میں کمی یا زیادتی بھی پھولوں کے کھلنے اور ان کی افزائش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مون سون کا سیزن تبدیل ہورہا ہے یعنی جن مہینوں میں بارشیں ہونا تھیں ان میں نہیں ہو رہیں جبکہ جن مہینوں میں بارشوں کا امکان نہیں ہوتا ان دنوں بادل برس رہے ہیں۔ یہ تبدیلی سب ہی فصلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

    علاوہ ازیں پانی کی کمی بھی تمام پھولوں کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔

    رفیع الحق نے کہا کہ گلاب کے پھولوں کی چنائی، ان کی مقامی طور پر فروخت اور درآمد سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، پھولوں کی پیداوار میں کمی سے انفرادی اور مجموعی طور پر بھی منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔

  • امریکا کا سندھ کی عوام کیلئے  فائزر ویکسین کی 3لاکھ سے زائد خوراکوں کا عطیہ

    امریکا کا سندھ کی عوام کیلئے فائزر ویکسین کی 3لاکھ سے زائد خوراکوں کا عطیہ

    کراچی : امریکا نے سندھ کے لیے فائزر ویکسین کی 3لاکھ سے زائد خوراکیں عطیہ کردی، امریکی قونصل جنرل مارک آسٹرو کا کہنا ہے کہ کوویڈکےخلاف پاکستانی عوام کےساتھ مل کرکام کرنے پر فخر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے سندھ کے لیے فائزر ویکسین کی مزید 3لاکھ20ہزار سے زائد خوراکوں کا عطیہ دے دیا، امریکی قونصل جنرل مارک آسٹرو نے ویکسین وزیرصحت سندھ کےحوالے کیں۔

    خوراکیں امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے 66 لاکھ فائزر ویکسین کا حصہ ہیں ، کوویڈ ویکسین کی چوتھی قسط سے پاکستان کو ملی ویکسین کی تعداد ایک کروڑ 6 لاکھ ہوچکی ہے۔

    امریکی قونصل جنرل مارک آسٹرو نے کہا کہ کوویڈکےخلاف پاکستانی عوام کےساتھ مل کرکام کرنے پر فخر ہے، عطیہ پاکستانی عوام کی زندگیاں بچانے اور وبا کے خاتمے کے لیے ہے۔

    مار ک آسٹرو کا کہنا تھا کہ ایسی دنیا کی تعمیر جاری رکھیں گے جو متعدی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکے، کوویڈ سے متعلق پاکستان کی ساڑھے 5کروڑ ڈالرسےزائد کی اعانت کی ہے۔

    گذشتہ ماہ امریکا کی طرف سے عطیہ کی جانے والی فائزر ویکسین کی تیس لاکھ 70 ہزار سے زائد خوراکیں خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچائی گئی تھیں۔

    خیال رہے امریکا کی جانب سے پاکستان کو فائزر ویکسین کی خوراکیں کوویکس پروگرام کے تحت دی گئیں ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکا کی جانب سے موڈرنا ویکسین کی ساڑھے پچاس لاکھ خوراکیں بھی پاکستان کو دی گئیں ہیں۔