کوئٹہ: پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے سینکڑوں گانے ریکارڈ کرانے والا صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک فنکار محمد بشیر بلوچ آج کسمپرسی کے باعث اپنے اعزازات بیچنے پر مجبور ہے۔
تفصیلات کے مطابق چالیس سال تک اپنی آواز کا جادو جگانے والا لوک فنکار محمد بشیر بلوچ جس نے لوک گلوکاری کے میدان میں صوبے اور ملک کی خدمت کی لیکن اب وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے، جس کے باعث اس کے گھر میں شدید تنگ دستی ہے اسی لیے وہ اپنے اعزازت فروخت کرنے پر تیار ہے۔
محمد بشیر نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری مالی مدد کی جائے، میرے دو بیٹے ہیں جنہیں میں پڑھانے کی سکت نہیں رکھتا، کوئی میرے یہ ایوارڈ لے کر میرے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کردے، اس عمر میں بھیک مانگ کر دیگر فنکاروں کو بدنام نہیں کرنا چاہتا۔
لوک فنکار نے اپنے کیریئر میں صدارتی ایوارڈ کے علاوہ ایک سو بتیس اعزازات حاصل کئے مگر حالات کا جبر دیکھیں کہ یہ تمام ایوارڈز آج اس کے کسی کام کے نہیں، وہ تنگدستی کے باعث اپنے اعزازات تک فروخت کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔
بشیر بلوچ نے براہوی، بلوچی، پشتو کے علاوہ اردو سمیت آٹھ زبانوں میں اپنے فن کا جادو جگایا علاوہ ازیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک اور بلوچستان کی ثقافت کو اجاگر کیا، ان کا شمار صوبے اور ملک کا نام روشن کرنے والے چند فنکاروں میں شمار ہوتا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
کراچی: وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں گلوکارہ کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ گلوکارہ ثمینہ سندھو گزشتہ روز گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے بتایا کہ لاڑکانہ میں گلوکارہ کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے میں کسی کی سپورٹ نہیں کی جارہی، انصاف کیا جائے گا۔ کوشش ہے کہ ایف آئی آر میں اے ٹی اے کی دفعات شامل کریں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جہاں قتل ہوا اس علاقے کے ایس ایچ او کو ہٹا دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ مذکورہ واقعہ دو روز قبل لاڑکانہ کے گاؤں کنگا میں شادی کی تقریب کے دوران پیش آیا جہاں گلوکارہ ثمینہ سندھو اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
ابتدائی طور پر کہا گیا کہ گلوکارہ ہوائی فائرنگ سے زخمی ہوئی ہیں تاہم بعد میں سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقتولہ کو سامنے سے گولی ماری گئی۔ فائرنگ کے بعد ملزمان جائے وقوع سے فرار ہوگئے۔
مقتولہ ثمینہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھی۔
گزشتہ روز مقتولہ کے لواحقین نے ثمینہ کی لاش پریس کلب کے سامنے رکھ کر شدید احتجاج کیا تھا اور انصاف کی فراہمی کے لیے نعرے بازی کی تھی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کراچی: کلاسیکی راگوں کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔
اسد امانت علی 8 اپریل 2007 کو لندن میں دار فانی سے کوچ کرگئے تھے، اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے، اسد امانت علی استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔
دس برس کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والی اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر رج کیا، انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے مشہور گیت اور غزلیں گاکر مشہور ہوگئے، اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔
انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار‘ سے ملی، اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے ان کی شاہکار غزلیں ہیں، انہوں نے بے شمار پاکستانی فلموں کے لیے گیت گائے، ان کے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، ایوارڈ کے فوری کے بعد ہی ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور وہ علاج کے لیے لندن چلے گئے، 8 اپریل 2007 کو دل کے دورے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔
اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں لیکن ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھولتی ہیں، ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
نئی دہلی: بھارت کے معروف گلوکار دلیر مہندی اوران کے بھائی ششمیر سنگھ کو انسانی اسمگلنگ کا الزام ثابت ہونے پر پٹیالہ کورٹ نے 2سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرلی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی صوبے پنجاب کے شہر پٹیالہ کی عدالت نے جمعے کے روز گلوکار دلیر مہندی کو سن2003 میں درج کیے گئے انسانی اسمگلنگ کے مقدمے میں سزا دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق دلیر اوران کے بھائی شمشیر سنگھ پر یہ الزام عائد تھا کہ وہ لوگوں کو بھاری رقم کے عوض اپنے گروپ کا حصّہ بناکر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں۔ْ
دلیر مہندی اور ششمیر سنگھ سن1998 اور سن1999 میں امریکا کے دورے پر گئے تھے اس دوران انہوں نے ان کے گروپ میں شامل10 افراد کو غیر قانونی طور پر امریکا میں چھوڑ دیا۔
دلیر مہندی ایک خاتون اداکار کی کمپنی کے تحت گروپ لے کر امریکا کے دورے پر گئے تھے اور اس دوران بھی ان کے گروپ میں شامل بھارت سے امریکا جانے والی تین کم عمر لڑکیوں کو غیر قانونی طریقے سے امریکی شہر سان فرانسسکو منتقل کردیا۔
دونوں بھائی 1999 میں بھی کچھ دیگر اداکاروں کی کمپنی کے تحت دوبارہ امریکا کے دورے پر گئے اور اس بار تین نوجوان لڑکوں اپنے گروپ اپنے گروپ کا حصّہ بتا کر غیر قانونی طورپرامریکی شہر نیو جرسی میں چھوڑ آئے تھے۔
یاد رہے کہ دلیر مہندی کے خلاف سن2003 میں پٹیالہ پولیس نے متعدد 35 شکایتں موصول ہونے بعد انسانی اسمگلنگ کا کیس رجسٹرڈ کیا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
کراچی: پاکستان کے ممتاز پاپ گلوکار عالمگیر نے کہا ہے کہ بچپن سے ہی گٹار بجانے اور گنگنانے کا شوق تھا اور یہ بات حقیقت ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، عالمگیر نے کہا کہ طبیعت کی ناسازی کے باعث ماضی میں تسلسل کے ساتھ پرفارمنس نہیں دے سکا، لیکن اب بہتر ہوں اور تین چار گھنٹے مسلسل کھڑے ہوکر پرفارم کرسکتا ہوں۔
انہوں نے اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا جانا چاہتا تھا لیکن بنیادی تعلیم مجھے کراچی میں حاصل کرنی تھی، اسی دوران شہر ہی میں میں نے بچوں کے شو میں پرفارم کرنا شروع کیا لیکن میری یہ قطعی سوچ نہیں تھی کہ میں آگے جاکر معروف گلوکار بن جاؤں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے بچپن سے ہی گٹار بجانے اور گنگنانے کا شوق تھا لیکن میں کبھی گائیکی کو اپنا پیشہ نہیں بنانا چاہتا تھا لیکن پھر زندگی میں ایسا موڑ آیا کہ اسے اپنا پیشہ بنانا پڑا، اب تو مجھ پر فلم بھی تیار کی جارہی ہے جو جلد منظر عام پر آئے گی۔
عالمگیر نے کہا کہ مجھے اس مقام تک پہنچانے میں میرے پرستاروں اور مداحوں کا بڑا عمل دخل ہے، گانے کا جب باقائدہ آغاز کیا تو انہوں نے میری آواز کو بے حد پسند کیا، ان کی سپورٹ نے مجھ میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا اور آج میرے لاکھوں چاہنے والے موجود ہیں۔
معروف گلوکار کا کہنا تھا کہ ماضے کے لیجنڈ گلوگاروں کی آواز کو پسند کرتا ہوں، نوجوان سنگرز جو آج کل اپنی آواز کا جادو دکھارہے ہیں ان میں عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان ہیں، پاکستان میں باصلاحیت فنکاروں کی کمی نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشہ برسوں میں اپنے پیشے کو خیر باد کہہ کر امریکا میں گوشہ نشین ہوگیا، فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں منظر عام پر نہیں آؤں گا، لیکن اے آر وائی کی بدولت میں نے اپنے پرانے سفر کا آغاز کیا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کراچی : برصغیرکے معروف فلمی گلوکار کشور کمار کو دنیا سے گزرے تیس برس بیت گئے لیکن ان کے گانے آج بھی مقبول عام ہیں۔
چھ سو سے زائد گانے اور آٹھ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کرنے والے بالی ووڈ کے لیجنڈری گلوکار کشورکمار کو دنیا سے رخصت ہوئے تین عشرے گزر گئے لیکن وہ اپنی گائیکی کی بدولت آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
کشور کمار4 اگست 1929 کو پیدا ہوئے ان کا اصل نام ابھاس کمارتھا، وہ ایک بہترین اداکار بھی تھے انہوں نے مختلف فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا کر خود کو اس میدان میں بھی منوایا۔
فلم پڑوسن میں نبھائے گئے ان کے کردار کو سب سے زیادہ شہرت ملی، کوئی انہیں سنگیت کا ساگر تو کوئی انہیں کِشور دا کہتا تھا، اداکاری ہو یا گلوکاری دونوں فنون پر ہی انہیں مکمل عبورحاصل تھا۔
ویڈیو دیکھیں: ان کا گایا ہو ایک بےمثال گیت ’’ پیار دیوانہ ہوتا ہے، مستانہ ہوتا ہے‘‘ قارئین کی نذر
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز1946 میں فلم ’شکاری‘ میں اداکاری سے کیا اور پہلا گانا 1948ء میں فلم ضدی کے لیے گایا، چالیس سال کے کیریئر میں کشور کمار نے پانچ سو سے زائد فلموں میں چھ سو سے زائد گانے گائے۔ انہیں بہترین گانوں پرآٹھ بارفلم فیئرایوارڈسے بھی نوازا گیا۔
وہ مقبول پلے بیک سنگرکے علاوہ نغمہ نگار، موسیقار، اداکار ،ہدایت کاراورفلم سازبھی تھے، انہوں نے اپنے دور کے تمام سپراسٹارز کو اپنی آواز عطا کی۔ ان کے گانے آج بھی سننے والوں کو سحرمیں جکڑ لیتےہیں۔
بالی ووڈ کو اپنی آواز سے امر گیت دینے والے کشور کمار نے مرنے کے بعد بھی مداحوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ کشور کمارنے اداکارہ مدھو بالا اور لینا چندر وارکر سے شادیاں کیں۔ وہ 13اکتوبر1987کو 58سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
لاہور: گلوکارجواداحمد نے پاکستان کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے درخواست جمع کرادی۔
عالمی شہرت یافتہ گلوکار جواد احمد کے مطابق ان کی سیاسی جماعت کا نام پالیٹکل فرنٹ‘ ہوگا اور وہ عوام کو ان کے حقوق دلانے کی کوشش کرے گی۔
انھوں نے لاہور میں واقع الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر میں اپنی پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے باقاعدہ درخواست پیر کے روز جمع کرادی۔
جواد احمد گذشتہ چند برسوں سے پاکستان میں فلاحی کاموں میں متحرک ہیں بالخصوص تعلیم کے میدان میں ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ نئی سیاسی جماعت ‘عام آدمی اور غریبوں کے لیے’ بنائی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ نئی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے کاغذات کی جانچ پڑتال کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2013 کے انتخابات میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے والے گلوکار ابرارالحق اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جواد احمد گزشتہ کچھ برسوں سے سیاست میں داخلے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل انہوں نے برابری تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا تھا جس کا مقصد طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد اور معاشرے سے چھوٹے بڑےکا فرق ختم کرنے کے لیے کوشش کرنا تھا۔
لاہور سے شروع ہونے والی اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں نوجوانوں کی کثیر تعداد متاثر ہوکر جواد احمد کے ہمراہ دکھائی دی تھی۔
کراچی : ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی چونتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔
منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔
معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔
احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔
انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم "عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں "بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے.
احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی. رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔
چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے. ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔
احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے. پاکستان کے صدر پرویز مشرف کی حکومت نے ا ن کے انتقال کے بیس سال بعد رُشدی کو "ستاره ا متيا ز” کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں.
انہوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا. رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔.
احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔
روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے. آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔
گلوکاراحمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔
کراچی : کلاسیکل مو سیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے آج دس برس بیت گئے۔ وہ آٹھ اپریل دو ہزار سات کو لندن میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اسد امانت علی پچیس ستمبر انیس سو پچپن میں لاہور میں پیدا ہوئے۔
آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز
اسد امانت علی خان استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اوراستاد حامد علی خان کے بھتیجے اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ دس سال کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والے اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔
انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے شہرہ آفاق گیت اورغزلیں گا کر مشہور ہو گئے۔ اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔
‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ ان کی ایک خوبصورت غزل قارئین کی نذر
انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ سے ملی اور اس کے بعد وہ انتقال تک گائیکی کے ایک درخشاں ستارے رہے۔ اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤگے ان کی شاہکارغزلیں ہیں۔
انہوں نے بے شمار پاکستان فلموں کے لئے گیت گائے، اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ اسدامانت علی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔
آٹھ اپریل 2007کو دل کے دورے کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سما عت میں رس گھو لتی ہیں۔ ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔
لاہور : معروف گلوکارہ فریحہ پرویز بالاخر بو کاٹا ہوگئیں، مقبول گیت بوکاٹا سے شہرت پانے والی فریحہ پرویز نے شوبز کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ گلوکارہ نے گلوکاری کے ساتھ ہی پاکستان کو بھی چھوڑ نے کا بھی فیصلہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق مشہور گیت پتنگ باز سجنا سے شہرت حاصل کرنے والی گلوکارہ فریحہ پرویز نے شوبز کو خیر آباد کہہ دیا، گلوکارہ نے گلوکاری چھوڑ کر پراپرٹی کا کام شروع کردیا۔
گلوکارہ کا بطور پراپرٹی ڈویلپر پہلا پلازہ بحریہ ٹاؤن میں تعمیر ہورہا ہے گلوکارہ فریحہ پرویز سابق شوہر نعمان جاوید سے خلع لینے کے بعد امریکہ چلی گئی تھیں، فریحہ پرویز نے دلبرداشتہ ہوکر شوبز کو خیرآباد کہا۔
اے آر وائی نیوز کے نمائندے نعیم حنیف نے بتایا ہے کہ اپنی شادی ناکام ہونے کے بعد فریحہ پرویز کافی مایوسی کا شکار تھیں۔ تیس سال قبل فریحہ پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔
اس دوران انہوں نے اپنے سات البم ریلیز کئے ان کا ایک گیت بو کاٹا ہر سال بسنت کے موقع پر پوری دنیا میں سنا جاتا ہے۔
فریحہ اپنی نجی زندگی اورکچھ شوبز کے حوالے سے بھی کافی مایوسی کا شکار تھیں، جس کے باعث انہوں نے شوبز سے لاتعلقی کا فیصلہ کیا۔