Tag: Sipahi maqbool Hussain

  • سپاہی مقبول حسین کا پانچواں یوم وفات آج منایا جا رہا ہے

    سپاہی مقبول حسین کا پانچواں یوم وفات آج منایا جا رہا ہے

    راولپنڈی : سال 1965کی جنگ کے موقع پر بھارت میں چار دہائیوں تک قیدی بنائے گئے پاک فوج کے بہادر سپاہی مقبول حسین کا آج 5واں یوم وفات منایا جا رہا ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ وطن سے محبت اورعقیدت میں ہمارے فوجی جوانوں کا کوئی ثانی نہیں، ایسی ہی بےمثال جرات اور بہادری کی لازوال داستان سپاہی مقبول حسین کی ہے، سپاہی مقبول حسین کا تعلق آزاد کشمیر کےعلاقےتراڑکھل سے تھا اور وہ چارآزاد کشمیر رجمنٹ میں شامل تھے۔

    سال 1965کی جنگ میں زخمی حالت میں سپاہی مقبول حسین کو بھارتی فوج نے گرفتارکرلیا تھا۔ دوران قید بھارتی فوج نے اپنا بغض نکالتے ہوئے سپاہی مقبول حسین پر بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کیا اورپاکستان مردہ باد کہلوانے پرمجبورکرتی رہی۔

    سپاہی مقبول حسین کے مسلسل انکار پربھارتی فوج نے ان کی زبان کاٹ ڈالی جس کے بعد وہ بولنے کی صلاحیت سےمحروم ہوگئے اور ذہنی طور پر بھی معذور ہوگئے۔ چار دہائیوں تک سپاہی مقبول حسین بھارتی قید میں رہنے کے بعد سترہ ستمبر دوہزار پانچ کو واہگہ بارڈر پرقیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئے۔

    سپاہی مقبول حسین کو 2008کو حکومت پاکستان نے ستارہ جرات سے نوازا، 28اگست 2018 کو اٹک کے مقام پر سپاہی مقبول حسین کی وفات ہوئی، ان کو 29 اگست کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔

  • بھارت نے پاکستانی سپاہی مقبول حسین پر40 سال تک ظلم کے پہاڑ توڑے

    بھارت نے پاکستانی سپاہی مقبول حسین پر40 سال تک ظلم کے پہاڑ توڑے

    اسلام آباد : دراندازی کرنے والے پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری پربھارت کو جنیوا کنونشن یاد آگیا لیکن بھارت پاکستانی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوزسلوک کرتارہا ہے،اس کی ایک مثال غازی سپاہی مقبول حسین ہیں۔

    سپاہی مقبول حسین سال پینسٹھ کی جنگ میں گرفتارہوئے، ان پر جیل میں بدترین تشدد کیا گیا، چالیس سال بعد دوہزار پانچ میں رہا ہوئے تو مقبول حسین کو اپنے فوجی نمبر کے علاوہ کچھ یاد نہ تھا۔

    آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی کے گاؤں ناڑیاں تراڑ کھل کا یہ نوجوان1960میں پاک فوج میں شامل ہوا،1965 کی جنگ کے دوران کیپٹن شیر کی کمان میں سپاہی مقبول وائرلیس سیٹ پر فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھے کہ دشمن کے حملے میں شدید زخمی ہوئے اور  انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

    اپنے پائلٹ کی گرفتاری پر جنیوا کنونشن کی دہائیاں دینے والے بھارت کوسپاہی مقبول حسین کے معاملے پرکوئی معاہدہ یاد آیا نہ انسانی حقوق کی کوئی شق یاد رہی،40 سال تک ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے، سپاہی مقبول حسین کی زبان تک کاٹ دی گئی۔

    لاتعداد صعوبتیں برداشت کرنے والے اس جواں ہمت پاکستانی کو2005 میں ماہی گیروں کے ساتھ رہائی ملی تو اس نیم پاگل سپاہی مقبول کو آزاد کشمیر رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے فوجی نمبر335139 کے سوا کچھ یاد نہ تھا۔

    مزید پڑھیں: جنگی ہیرو سپاہی مقبول حسین اٹک میں انتقال کر گئے

    رہائی کے بعد سپاہی مقبول حسین اپنے اے کے رجمنٹل سینٹر منسر پہنچے، جہاں منسر بیس کمانڈنٹ بریگیڈیر ظفر واہلہ کو کاغذ پر اپنا فوجی نمبر335139 اور نام لکھ کر بتایا، جس کے بعد ریکارڈ تلاش کیا گیا اور اس ہیرو کو شناخت ملی لیکن کوئی قریب دور کا رشتے دار نہیں مل سکا۔

    حکومت نے رہائش گاہ دی جہاں وہ کچھ عرصہ بیمار رہ کر گزشتہ برس انتیس اگست کو خالق حقیقی سے جاملے، انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ آزاد کشمیرکے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • سنہ 1965 کے ہیرو’سپاہی مقبول حسین‘ کون تھے

    سنہ 1965 کے ہیرو’سپاہی مقبول حسین‘ کون تھے

    چکلالہ : سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو سپاہی مقبول حسین ستارہ جرات کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، وہ گزشتہ شام اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے، انہوں نے زندگی کے چالیس سال بھارت کی قید میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے گزارے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے سپاہی مقبول حسین گزشتہ رارت سی ایم ایچ اٹک میں انتقال کرگئے ، انہوں نے 40 سال سے زائد عرصہ بھارت کی قید میں گزارا، دشمن نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کے جرم میں ان کی زبان کاٹ دی تھی۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ان کی نمازِ جنازہ میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سمیت دیگر افسران اور جوانوں نے شرکت کی اور قومی ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کیا، انہیں تغار کھنڈ کھاریاں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا۔

    سپاہی مقبول حسین کون ہیں؟


    ستمبر 2005 میں بھارتی حکومت کی جانب سے کچھ سویلین قیدیوں کا گروپ پاکستان کے حوالے کیا گیا، ان میں سے ایک قیدی ایسا تھا جس کی زباں کٹی ہوئی تھی لیکن آنکھوں میں چیتے سی چمک تھی۔ یہ شخص سپاہی مقبول حسین تھا ، جو کہ اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا لہذ ا انہیں بلقیس ایدھی سنٹر بھجوادیا گیا اور ان کے بارے میں اخباروں میں اشتہار دیے گئے۔

    مقبول حسین کی ایک بہن حیات تھیں اوران کا ایک بیٹا آرمی سے ریٹائرڈ تھا۔ اسے خبر ملی کہ بھارت کی طرف سے آنے والے قیدیوں میں اپنے ماموں کو تلاش کر سکتے ہو، بشارت حسین نے تمام عمر اپنی ماں سے مقبول حسین کے بارے ہی سنا تھا اور وہ انکے سچے ہیرو تھے۔بشارت ایدھی سنٹر پہنچا اور اس نے مقبول حسین کو دیکھا،اس کی تصویر اپنی والدہ کو دکھائی اور اسے مختلف علامات اور نشانات سے پہچان لیا گیا۔

    سپاہی مقبول کے عزیز محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں بلقیس ایدھی ہوم سے ان کے آبائی گاؤں ناریاں‘ تراڑ کھل‘ ضلع سندھنوتی آزادکشمیر لے گئے۔ پھر ایک انکشاف تمام پاکستان کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا کہ یہ نیم پاگل نظر آنے والا شخص سپاہی مقبول حسین تھا۔ کشمیر میں ہونے والے آپریشن کاسپاہی جو دشمن کی قید میں زندگی ہے چالیس برس گزار کر اپنی دھرتی ماں پر واپس پہنچا تھا۔

     مقبول حسین کو کشمیر رجمنٹل سنٹر لایا گیا. کمانڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

    اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا۔ اور ایک کاغذ پر یہ نمبر لکھا
    ‘‘330139 ’’

    کمانڈنٹ کو کٹی زباں والے شخص کے بارےاتنا ہی تجسس تھا جس کا اظہار دوسرے لوگ کر رہے تھے. کمانڈنٹ کے حکم پر قیدی کے لکھے نمبر کی مدد سے جب ایک پرانی فائل کھولی گئ تو یہ واقعی سپاہی مقبول حسین تھا. وہ مقبول جس کو جنگ کے دوران نہ ملنے کے سبب ایک مخصوص وقت کے بعد شہید قرار دے دیا گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کر کے واپس آ رہا تھا کہ اسی دوران اس کی دشمن سے جھڑپ ہو گئی۔ سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے ہوئے تھا۔

    اپنے افسران سے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی مشین گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اسی دوران وہ مقابلے میں زخمی ہو گیا ۔ سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے مگر ساتھیوں کی حفاظت اور مشکل کا سوچ کر مقبول حسین نے خود کو ایک کھائی میں گرا لیا۔ ساتھی اسے تلاش کرتے رہے جبکہ وہ آنے والے دشمن کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ساتھی جب اسے نہ ڈھونڈ سکے تو آگے بڑھ گئےاور پھر مقبول حسین نے اپنی مشین گن سے دشمن کو مسلسل الجھائے رکھا، اسی دوران اسے مزید گولیاں لگیں اور وہ دشمن کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گیا۔

    جب جنگ ختم ہی تو دونو ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا اس دوران بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا ۔ اس لیے پاک فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کر لیا ، یادگار شہداء پر بھی اس کا نام کندہ کر دیا گیا۔ بھارتی افواج نے مقبول حسین پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑےِ، اسے چار فٹ کی کوٹھری میں بند کرکے تشدد اور اذیت سے دوچار کیا گیا۔پاؤں سے ناخن اورمنہ سے دانت اکھاڑ دئیے گئے۔ اس کی زباں پر ایک ہی نعرہ ہوتا۔۔ پاکستان زندہ باد.. وہ اسے مجبور کرتے کہ پاکستان کو گالی دو.. مگر اس کی زباں پر صرف اپنے وطن عزیز کا نعرہ ہوتا، بھارتی فوجی اس پر ٹوٹ پڑتے اور تشدد کا نشانہ بناتے۔ یہ ان کے لئے برداشت اور حب الوطنی کا ٹسٹ کیس تھا، وہ اسے جنگی قیدی کا سٹیٹس بھی اس لئے نہ دے رہے تھے کہ مقبول حسین ان کے لئے ایک ضد تھا۔۔ چیلنج تھا جبکہ مقبول کے لہو میں تو صرف اس وطن کی محبت تھی ۔

    سپاہی مقبول حسین ڈٹا رہا، اس کی ہمت کے سامنے بھارتی سپاہ کچھ بھی نہ کر پا رہی تھی۔۔ وہ تو بس ایک نعرہ لگاتا اور جیل کے دیوار گونج اٹھتے..پاکستان زندہ باد ۔ آخر انھوں نے اس کی زبان سے بدلہ لینے کا سفاکانہ فیصلہ کر لیا. انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی. اب وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگا سکتا تھا.. ہاں مگر وہ لکھ سکتا تھا.. وہ جیل کی چار فٹ چوڑی دیوار پر لکھتا رہا.. پاکستان زندہ باد.. اور 355139.. وہ آرمی نمبر جسے وہ کبھی بھولنا نہیں چاہتا تھا.. وہ بھولنا تو اپنی اس منگیتر نصیراں کو بھی نہیں تھا جو مقبول حسین کی منتظر تھی.اپنی بہن سرور جان جو اس کی لاڈلی تھی. وہ اس ماں کو بھی نہیں بھولنا چاہتا تھا جس نے مقبول کی شہادت کا خط ملنے کے بعد کہا تھا کہ میرا مقبول زندہ ہے.. وہ ایک دن ضرور واپس آئے گا. اور پھر وہ تمام عمر اس کا گاؤں کے داخلی حصے میں رہتے ہوئے انتظار کرتی رہی…وہ کہتی تھی کہ مجھے گاؤں کے شروع میں دفن کیا جائے،میں اپنے مقبول کا استقبال کروں گی۔

    سپاہی مقبول حسین نے 1965 سے لے کر 2005 تک اپنی زندگی کے بہترین 40سال اس اندھیری کوٹھری میں گزار دئیے۔ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم سے بہتے خون کی مدد سے پاکستان زندہ باد لکھ دیا کرتا تھا، تنگ آکر بھارت نے انہیں سویلین قیدیوں کے درمیان پاکستان کے حوالے کردیا۔