Tag: Skin rash

  • جلد پر پڑنے والے دھبے دور کرنا نہایت آسان

    جلد پر پڑنے والے دھبے دور کرنا نہایت آسان

    بڑھتی عمر کے ساتھ جلد پر دھبوں کا آجانا عام سی بات ہے لیکن ان دھبوں سے چھٹکارا پانا کوئی مشکل کام نہیں، صرف دو چیزیں ایسی ہیں جو اس مسئلے سے نجات کیلئے کافی ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق جلد پر پڑنے والے سیاہ دھبوں کو باقاعدہ علاج کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن لوگ کاسمیٹک وجوہات کی بنا پر انہیں ہٹانے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

    بڑھتی عمر کے ساتھ یہ دھبے، چہرے، بازوؤں، ٹانگوں، کندھوں اور ہاتھوں پر ظاہر ہوسکتے ہیں دراصل جسم میں میلانن کی زیادہ مقدار ان سیاہ دھبوں اور ناہموار رنگت کا سبب بنتی ہے۔

    جلد پر سیاہ دھبے ہلکے بھورے سے گہرے بھورے تک ہوسکتے ہیں۔ سیاہ دھبوں کا رنگ کسی شخص کی جلد کے ٹون پر بھی منحصر ہو سکتا ہے۔ دھبوں کی ساخت جلد جیسی ہوتی ہے اور تکلیف دہ نہیں ہوتے ہیں۔

    سیاہ دھبے سائز میں بھی مختلف ہوسکتے ہیں اور جسم کے کسی بھی حصے پر نشوونما پا سکتے ہیں لیکن ان حصوں میں زیادہ عام ہوسکتے ہیں جہاں اکثر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔درج ذیل جسمانی حصوں میں سیاہ دھبے عام ہوتے ہیں۔ ہاتھ، پیر  اور چہرہ شامل ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان دھبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سادہ گھریلو اشیاء کا استعمال کیا جا سکتا ہے ایک پیاز اور دوسرا سیب کاسرکہ۔

    پیاز کا رس ،زخموں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے جبکہ سیب کا سرکہ جلد کی مردہ پرتوں کو ہٹانے میں مدد دیتا ہے، یہ دو شفا بخش اجزاء ایک ساتھ مل کر جلد کو تازہ رکھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

    پیاز کے گودے کو سوتی کپڑے یا چھلنی میں چھان لیں۔ اس میں سے رس نکالنے کے بعد اس رس کو سیب کے سرکے کے ساتھ مکس کر لیں اور ان سیاہ دھبوں پر لگا لیں۔

    یہ عمل دو ہفتے تک مسلسل کرتے رہیں، آپ کو احساس ہوگا کہ آہستہ آہستہ یہ دھبے ہلکے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

  • جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    خارش ایک نہایت تکلیف دہ بیماری ہے، یہ دیگر کئی امراض کی وجہ سے لگتی ہے ان میں کچھ جلد کی بیماریاں اور کچھ اندرونی بیماریاں ہوتی ہیں۔

    خارش اکثر خشک جلد کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بوڑھے لوگوں میں عام ہے کیونکہ عمر کے ساتھ جلد خشک ہونے لگتی ہے، خارش کم ہو تو اس کا علاج ممکن اور آسان ہوتا ہے، اگر یہ شدت اختیار کرجائے تو اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اب سائنسدانوں نے پہلی بار اس خارش کے پیچھے وجوہات کو دریافت کرلیا ہے۔

    سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    جرنل سیل نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں دریافت ہوا کہ ’اسٹیفولوکوکس اورئیس‘ نامی ایک عام بیکٹیریا خارش کا باعث بنتا ہے، یہ جراثیم دماغ کو مسلسل خارش کے سگنل بھیجتے ہیں۔

    خارش

    یہ پہلی بار ہے کہ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    تاہم اب نئی تحقیق میں کیے گئے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیکٹیریا اینزائم جاری کرتا ہے جو جلد میں ایک پروٹین کو ایکٹی ویٹ یا فعال کرتا ہے جس کے نتیجے میں جلد سے دماغ کو خارش کے سگنل بھیجے جاتے ہیں۔ اسٹیفولوکوکس اورئیس نامی بیکٹیریا کی موجودگی اور اس کے نتیجے میں اینزائمز کا اخراج جلد پر جرثوموں کے قدرتی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔

    اس توازن کو بحال کرنے کے لیے خارش کا احساس اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک جلد کے مائیکروبیل میں توازن بحال نہ ہو جائے اور مریض آرام پانے کے لیے اپنی جلد کو مسلسل کھرچتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں جلد پھٹ جاتی ہے اور نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول میں امیونولوجی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر آئزک چیو کا کہنا ہے کہ ہمیں نئی وجہ مل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ کھجلی یا خارش محسوس کرتے ہیں، اس جراثیم کا نام اسٹیف اورئیس ہے جو ایٹوپک ڈرمیٹائٹس والے مریضوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دریافت سے معلوم ہوا کہ جلد کے بیکٹیریا اور طبی صورتحال سے ہونے والی سوزش ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر لیوین ڈینگ نے کہا کہ جب ہم نے مطالعہ شروع کیا تو یہ واضح نہیں تھا کہ خارش سوزش کے نتیجے میں ہوتی یا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ خارش اور سوزش دو الگ الگ حالت ہیں، خارش پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ سوزش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خارش کی وجہ سے سوزش مزید خراب ہوسکتی ہے۔