Tag: sleeping

  • کدو کے بیج : ڈپریشن میں کمی اور پرسکون نیند کیلئے انتہائی مفید

    کدو کے بیج : ڈپریشن میں کمی اور پرسکون نیند کیلئے انتہائی مفید

    کدو کے بیج اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کی وجہ سے دل کی صحت کے لیے مفید ہیں، یہ ڈپریشن کو کم کرنے اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں بہترین معاون ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق کدو کے بیج چپٹے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ یہ طاقتور غذائی اجزاء اور صحت کے فوائد سے بھرپور ہیں۔ یہ میگنیشیم، زنک، آئرن، پروٹین اور صحت مند چربی کا ایک بھرپور ذریعہ ہیں جو انہیں واقعی ان کے چھوٹے سائز میں ایک سپر فوڈ بنا دیتا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ میں امریکی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے پبلیکیشنز کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کدو کے بیج ٹریپٹوفن سے بھرپور ہوتے ہیں جو ایک امینو ایسڈ ہے جسے جسم سیرٹونن اور میلاٹونن میں تبدیل کرتا ہے۔

    یہ دو ہارمون ہیں جو مزاج اور نیند کو منظم کرتے ہیں۔ کدو جیسی ٹریپٹوفن سے بھرپور غذاؤں کا استعمال ڈپریشن کو کم کرنے اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔

    اینٹی آکسیڈینٹ اور اینٹی سوزش

    یہ مطالعہ کدو کے بیجوں کے دیگر فوائد پر بھی روشنی ڈالتا ہے جیسے سپرم کی تشکیل کو بہتر بنانا اور زخم بھرنا ہے۔

    ان کی اینٹی مائیکروبیل، اینٹی سوزش، اینٹی آکسیڈینٹ، اور اینٹی السر خصوصیات اس کے علاوہ ہے۔ یہ پروسٹیٹ کی سومی ہائپرپلاسیا کے علاج میں بھی مدد کرتے ہیں۔

    مدافعتی نظام کو بڑھاتا ہے۔

    زنک اور اینٹی آکسیڈینٹ سے بھرپور، کدو کے بیج مدد کرتے ہیں۔ اپنے دفاعی نظام کو فروغ دیں۔ اور انفیکشن سے لڑتے ہیں۔ کدو کے بیج کیا مدد کرتے ہیں؟ وہ آپ کے جسم کے دفاع کو مضبوط بنانے اور مجموعی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

    نیند کے معیار کو بڑھاتا ہے۔

    کدو کے بیجوں میں ٹرپٹوفن، ایک امینو ایسڈ ہوتا ہے جو سیروٹونن اور میلاٹونن پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، جو نیند کو بہتر بناتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو نیند میں خلل کا سامنا کرتے ہیں۔

    سوزش کا علاج

    کدو کے بیجوں میں سوزش کی خصوصیات ہوتی ہیں جو سوزش کو کم کرنے اور دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ کدو کے بیجوں کی یہ طاقتور خصوصیات انہیں سوزش والی خوراک کا قیمتی حصہ بناتی ہیں۔

  • نیند سے جاگنے کے بعد انسان سُستی کا مظاہرہ کیوں کرتا ہے؟

    نیند سے جاگنے کے بعد انسان سُستی کا مظاہرہ کیوں کرتا ہے؟

    دنیا بھر کے سائنسی اور تحقیقی ماہرین ابھی تک انسان کی اہم چیزوں میں سے ایک نیند کے بارے میں یہ بات دریافت نہیں کرسکے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارا جسم سونے پر مجبور ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کی عمومی رائے یہ بھی ہے کہ بالغ افراد کو روزانہ سات سے نو گھنٹے سونا چاہیے لیکن ایک تہائی بالغ افراد کو باقاعدگی سے مناسب نیند نہیں آتی ہے جس کے نقصانات مختلف بیماریوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

    اس کے برعکس آپ نے بیشتر اوقات یہ بھی دیکھا اور سُنا ہوگا کہ اکثر لوگ صبح سو کر اٹھنے کے بعد جسم میں سستی ،کاہلی یا تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کے لیے بستر سے اٹھ کر بیت الخلاء تک جانے کا فاصلہ طے کرنا بھی طبیعت پر گزراں گرتا ہے۔

    آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ نیند سے اٹھنے کے بعد موڈ میں کچھ تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں، جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، انتہائی کاہلی وغیرہ، اس حالت کو “صبح کی افسردگی” کہا جاتا ہے لیکن کیا یہ معاملہ صرف سستی اور چڑچڑے پن کی حد تک محدود ہے یا پھر کوئی عارضہ ہے اور کیا اس کی وجوہات یا علاج بھی ہیں۔؟

    دی سن کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے اب مجموعی نیند کے باوجود صبح اٹھ کر تھکنے یا سست ہونے کی وجوہات تلاش کیں، جن میں سے ایک اہم وجہ تلاش کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین اس بات پر پہنچے کہ رات کو سونے کے بعد نیند کا معیار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے صبح بیدار ہونے کے بعد بھی تھکاوٹ ، غنودگی اور سستی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق نیند کے کئی چکر ہوتے ہیں، جن کا آغاز ہلکی نیند، گہری نیند اور پھر ہلکی نیند کی طرف آتا ہے، دو چکر مکمل ہونے کے بعد جب تیسرا چکر شروع ہو تو اس کا مکمل ہونا ضروری ہے، ورنہ دن بھر تھکاوٹ، سستی اور کاہلی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر نیند اپنے چکر مکمل کرتی ہے، بہت سارے لوگ آخری چکر جو گہری نیند کا وقت ہوتا ہے اُس کے درمیانی وقت میں اٹھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بیدار ہونے کے بعد سستی اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔

  • کس عمر میں کتنے گھنٹے سونا ضروری ہے؟

    کس عمر میں کتنے گھنٹے سونا ضروری ہے؟

    اچھی صحت کے لیے 24 گھنٹوں میں سے کتنی دیر سونا چاہیے؟ اس کا تعلق آپ کی عمر سے بھی ہے، کیونکہ اگر آپ اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق نیند پوری نہیں کریں گے تو لازمی طور پر مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    انسان اپنی جسمانی ضروریات کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کرسکتا، اس لیے نیند کا پورا کرنا بھی ایک بنیادی ضرورت ہے اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ مختلف امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق ہر انسان کو روزانہ کی بنیاد پر مناسب نیند لینی چاہیے۔ جس سے آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو فائدہ ہو لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس عمر کے انسان کو کتنی نیند لینا چاہیے؟

    اگر آپ اپنی جسمانی ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں یا اس سے زیادہ سو رہے ہیں تو خود کو امراض میں مبتلا کرنے کیلئے تیار رہیں۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص پوری نیند نہ لے تو وہ ذیابیطس کا شکار ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ خواتین میں کم نیند کی وجہ سے بریسٹ کینسر جیسی خطرناک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

    اچھی صحت

    نیند پوری نہ کرنے کا نقصان

    نیند پوری نہ کرنے سے جسم کے دیگر خلیوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ جسم میں معدنیات کا توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہڈیاں بھی کمزور ہونے لگتی ہیں اور ایسے ہارمونز جو بھوک کو کنٹرول کرنے والے ہیں ان کی سطح خراب ہونے لگتی ہے۔

    پوری نیند اس لیے بھی ضروری ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم زہریلے مادوں کو خارج کرتا ہے لیکن جب ہم کافی نیند نہیں لیتے ہیں تو یہ مادے خارج نہیں ہوپاتے اور امراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جو لوگ افراد سات گھنٹے سے کم کی نیند لیتے ہیں ان میں موٹاپے کے اثرات زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیند کی کمی کی وجہ سے ہونے والی ہارمونل اور جسمانی تبدیلیاں بھی ہائی بلڈ شوگر، بلڈ پریشر اور خون میں سوزش کی سطح میں اضافہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے دل کی بیماری کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

    ؟ کس عمر کے لوگوں کیلئے کتنی نیند 

    نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو تقریباً 7 سے 8 گھنٹے سونا چاہیے، تاہم وہ اس سے تھوڑی کم یعنی 5 سے 6 گھنٹے تک بھی سو سکتے ہیں اور اس طرح اپنی نیند کو ایک گھنٹہ کم سوئے بغیر بھی پورا کر سکتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 18 سے 65 سال کی عمر کے بالغ افراد کو تقریباً 7 سے 8 گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے، اگر بچوں کی بات کی جائے تو انہیں بڑوں سے زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ آپ اپنی نیند کا دورانیہ دو مرحلوں میں بھی مکمل کرسکتے ہیں اس کے لیے وہ نیند کو دن اور رات کی بنیاد پر تقسیم کرسکتے ہیں۔

  • بڑی اور خوبصورت آنکھیں آپ کی بھی ہوسکتی ہیں؟ جانیے کیسے

    بڑی اور خوبصورت آنکھیں آپ کی بھی ہوسکتی ہیں؟ جانیے کیسے

    اگر کسی کی آنکھیں بڑی ہوں تو یہ خوبصورت کی علامت ہوتی ہے چہرے کی خوبصورتی میں آنکھوں کا بہت اہم کردار ہے، ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت نظر آئے جو اس کا حق بھی ہے۔

    آج ہم آپ کو کچھ ایسے طریقے بتائیں گے کہ جس پر عمل کرنے سے آپ کی آنکھیں قدرے بڑی نظر آئیں گی، اس کے لیے مندرجہ ذیل سطور میں دی گئی ہدایات کو غور سے پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔

    بھرپور نیند لیں

    اگر آپ کو رات دیر تک جاگنے کی عادت ہے تو نیند کی کمی سے آپ کی آنکھیں سرخ اور خشک ہو جاتی ہیں، آنکھوں کی صحت کے لئے کم سے کم 5 گھنٹے کی نیند لینا بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم کی صحت کے لئے 7 گھنٹے کی نیند ضروری ہے اگر آپ وقت پر نیند پوری کریں گے تو اس سے آپ کی صحت کے ساتھ آنکھوں پر بھی اثر ہوگا اور آپ کی آنکھیں بڑی اور نمایاں ہو جائیں گی۔

    دن بھر میں کتنا پانی پینا ہے؟

    بے رونق بے نور اور بے جان آنکھوں کا بنیادی سبب جسم میں پانی کی کمی بیان کی جاتی ہے،
    ماہرین کے مطابق جسم کو تندرست رکھنے کے لئے جسم کو دن میں کم سے کم 8 گلاس پانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر 8 گلاس پانی کا استعمال کریں گے تو آپ کا جسم تندرست رہے گا اور آپ کا چہرہ کھلا ہوا دکھے گا۔

    آنکھوں کے مساج کی اہمیت

    آنکھوں کو آرام دینے کیلئے ان کے ارد گرد انگلیوں کے پوررؤں سے آرام آرام سے مساج کریں ایسا کرنے سے خون کی روانی میں بہتری آتی ہے اور آنکھوں کے ارد گرد داغ دھبے اور جھریوں کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے اس عمل کو اپنی عادت بنا لیں کیونکہ یہ آنکھوں کی صحت کے لئے بہترین اور آسان طریقہ ہے۔

    آئی ماسک لازمی استعمال کریں

    آنکھوں کی سوزش کو ختم کرنے کے لئے 10 منٹ کے لئے آنکھوں کا ماسک استعمال کریں اس عمل کو کرنے سے آپ کی آنکھیں ملائم ہو جاتی ہیں اور اگر آپ کے پاس ماسک موجود نہیں ہے تو برف کی ٹکیا سے آنکھوں کا مساج کرلیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • 2 دن سے ماں ناراض ہے: بچہ مردہ ماں کو سویا ہوا سمجھتا رہا

    2 دن سے ماں ناراض ہے: بچہ مردہ ماں کو سویا ہوا سمجھتا رہا

    نئی دہلی: بھارتی ریاست کرناٹک میں ایک خاتون کی موت پر اس کا 11 سالہ بچہ دو روز تک اسے سویا ہوا سمجھتا رہا، ماں سوتے میں چل بسی تھی جسے بچہ اس کی ناراضگی سمجھا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلورو کے علاقے آر ٹی نگر میں 45 سالہ انما اپنے 11 سال کے بچے کے ساتھ رہتی تھی، خاتون کا شوہر ایک سال پہلے انتقال کر چکا تھا، جس کے بعد انما گھروں میں کام کر کے زندگی کی گاڑی چلا رہی تھی۔

    چند روز سے انما کی طبیعت خراب تھی، 28 فروری کی صبح بچہ اٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس کی ماں سو رہی ہے، وہ اسکول چلا گیا۔ درحقیقت اس کی ماں رات کو سوتے میں ہی کسی وقت چل بسی تھی۔

    بچہ اپنی ماں کی موت کو نیند سمجھ کر اسکول سے گھر آیا تو دیکھا ماں بسدتور ویسے ہی سورہی ہے، اس نے اپنے دوست کے گھر کھانا کھایا اور شام کو کھیل کود کر گھر لوٹا۔ پھر وہ بستر پر چلا گیا اور اگلے دو دنوں تک یہ معمول جاری رکھا۔

    2 روز تک انما کو نہ دیکھ کر پڑوسیوں کو تشویش ہوئی، انہوں نے بچے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی ماں اس سے ناراض ہے، اس لیے اس نے اس سے دو دن بات ہی نہیں کی۔

    پڑوسیوں کی تشویش بڑھی تو وہ اس کے گھر میں گئے جہاں انہوں نے انما کو مردہ حالت میں پایا، انما کی لاش اسپتال پہنچائی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کی موت خون میں شوگر کی مقدار کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہوئی۔

  • میز پر سر رکھ کے سونے کا نقصان جانتے ہیں؟

    رات کی نیند پوری نہ ہو، یا تھکن زیادہ ہو تو اگلے دن دفتر یا یونیورسٹی میں بھی نیند آسکتی ہے، ایسے میں لوگ اپنے سامنے رکھی میز پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں۔

    ایسے لوگ اپنے کمپیوٹر یا ڈیسک ٹاپ پر کام کرتے ہوئے بھی نیند لینے لگتے ہیں، لیکن کیا آپ اس طرح سونے کے نقصانات سے واقف ہیں؟

    اس طرح سونے سے وقتی آرام ضرور ملتا ہے تاہم یہ کمر میں شدید درد، گردن اور کندھوں میں اکڑن کا باعث بن سکتا ہے، اس کی وجہ ہے کہ نیند کی حالت میں بہت دیر تک بیٹھ کر سونا جس میں کسی قسم کی حرکت نہ ہو، جسم اس طرح کے عمل کا عادی نہیں ہوتا اور اس کا نتیجہ جسم میں درد کے صورت میں سامنے آتا ہے۔

    یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ زیادہ دیر تک بیٹھنا صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تاہم بیٹھ کر میز پر سرجھکا کر سونے سے جوڑوں پر بہت زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔

    ایسے سونے سے یہ سخت ہوسکتے ہیں، جبکہ یہ مختلف بیماریوں جیسے ڈیپ وین تھرو مبوسس کے خطرے کو بھی بڑھا سکتا ہے، یہ خون کی گردش کو متاثر کر کے نقل و حرکت کو محدود کر سکتا ہے، جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

    بے حرکت اور ایک ہی پوزیشن میں رہنے سے ریڑھ کی ہڈی پر بھی بوجھ بڑھتا ہے، اس کے لیے اسٹریچنگ ایک بہترین ورزش ہے جو ہڈیوں کی لچک اور جوڑوں کی سختی کو روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    قلیل مدتی مسائل کے علاوہ، بیٹھ کر سونا آپ کو ڈیپ وین تھرومبوسس میں بھی مبتلا کر سکتا ہے، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب خون جسم کی ایک یا زیادہ رگوں، خاص طور پر ٹانگوں میں جمنا شروع ہوجاتا ہے۔

    یہ ایک ہی پوزیشن میں طویل دورانیے تک بیٹھنے یا بیٹھ کر سونے کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔

    اگر آپ بیٹھتے ہوئے سونا چاہتے ہیں تو ہمیشہ ریکلائنر کا سہارا لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اگرچہ اس پوزیشن میں بھی سونے سے گریز کرنا چاہیئے۔ لیکن یہ حاملہ خواتین کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، جن کے لیے لیٹ کر سونے میں دشواری ہوتی ہے۔

    ایسے افراد جن میں لیٹ کر سونے سے سانس میں خلل پیدا ہوتا ہے یا نیند کی کمی کے شکار افراد کے لیے بھی یہ سونے کا ایک بہترین طریقہ ہے، یہ ایسڈ ریفلکس کو بھی کم کر سکتا ہے اور معدے کے مسائل سے نمٹنے والے لوگوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے سونے میں مدد کر سکتا ہے۔

  • دن میں زیادہ سونا کس بیماری کی ابتدائی نشانی ہے؟

    دن میں زیادہ سونا کس بیماری کی ابتدائی نشانی ہے؟

    دوپہر کی نیند یا قیلولہ صحت کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے مگر اب طبی ماہرین نے ایک اور راز افشاں کردیا ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں زیادہ سونا کا دورانیہ زیادہ ہونا دماغ کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے اور الزائمر امراض کا باعث بن سکتا ہے۔

    محققین کا خیال ہے کہ دوپہر کے اوقات میں زیادہ وقت تک سونا دماغی تنزلی کا باعث بننے کی بجائے اس کی ابتدائی انتباہی علامت ہوسکتی ہے، مذکورہ تحقیق میں قیلولے کے وقت میں بتدریج اضافہ ہونا اور دماغی تنزلی یا الزائمر کا شکار ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بڑھاپے کی جانب سے سفر کی رفتار تیز ہونے کا اشارہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ دوپہر کو سونے کے عادی نہیں مگر اچانک دن میں زیادہ غنودگی محسوس کرنے لگے ، تو یہ دماغی صحت کی تنزلی کی علامت ہوسکتا ہے۔

    تحقیقی نتائج

    تحقیق میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ کئی سال تک لیا گیا جن کی اوسط عمر 81 سال تھی، ہر سال ان افراد کو ایک ڈیوائس پہنا کر 14 دن تک ان کی نقل و حرکت کو جانچا گیا جبکہ صبح 9 سے شام 7 بجے تک کسی قسم کی سرگرمی نہ ہونے کو قیلولہ قرار دیا جاتا ہے۔ان افراد کی ذہنی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال بھی ہر سال کی جاتی تھی اور تحقیق کے آغاز میں 76 فیصد افراد ذہنی طور پر مکمل صحت مند تھے، 20 فیصد میں معمولی تنزلی جبکہ 4 فیصد الزائمر امراض کے شکار تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد مکمل طور پر صحت مند تھے ان میں ہر سال اوسطاً روزانہ قیلولے کا وقت 11 منٹ بڑھتا رہا، یہ شرح معمولی تنزلی کا سامنا کرنے والے افراد میں 24 منٹ جبکہ الزائمر کے مریضوں میں لگ بھگ 68 منٹ دریافت ہوئی۔

    مجموعی طور پر جو افراد دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت قیلولہ کرتے تھے ان میں الزائمر امراض کا خطرہ اس سے کم وقت تک سونے والوں میں 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔دماغی تنزلی یا ڈیمینشیا کا سامنا کرنے والے افراد میں نیند کی عادات غیرمعمولی ہوتی ہیں، بے خوابی، رات کے وقت ناقص نیند ان میں عام مسائل ہوتے ہیں، مگر اس نئی تحقیق میں دن کے وقت سونے اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق کو ثابت کیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: شوگر کے مریضوں کیلئے تربوز کھانا کیسا ہے؟ طبی ماہرین نے بتادیا

    محققین نے بتایا کہ دن کے وقت غنودگی کا احساس بڑھنا اس بات کی ابتدائی نشانی ہوسکتی ہے کہ دماغ میں تبدیلیاں آرہی ہیں جو ڈیمینشیا کی جانب لے جاسکتی ہیں۔

    مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا کوئی واضح حیاتیاتی میکنزم نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوپہر کی نیند الزائمر کا باعث بن سکتی ہے، بس یہ خیال رکھیں کہ اس کا وقت مختصر ہو، تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل الزائمر اینڈ ڈیمینشیا میں شائع ہوئے۔

  • اومیکرون کا نیند سے کیا تعلق ہے؟ اہم انکشاف

    اومیکرون کا نیند سے کیا تعلق ہے؟ اہم انکشاف

    کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے اور اس نئے ویریئنٹ کی علامات ڈیلٹا ویریئنٹ سے مختلف بھی ہیں۔

    اس حوالے سے محققین نے اپنی ریسرچ میں ان علامات کا انکشاف کیا ہے جسے پڑھ کر آپ بھی حیرت اور خوف میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اومیکرون سے متاثرہ افراد رات کو سوتے وقت اچانک نیم فالج کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ایسے افراد نہ حرکت کر سکتے ہیں، اور جاگنے اور سونے سے قبل ان میں بولنے کی سکت بھی کم ہوجاتی ہے۔

    اس کے علاوہ مریضوں نے رات کو سوتے وقت پسینا آنے کی شکایات بھی کی ہیں۔

    دوسری جانب ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ نیند میں فالج کی کیفیت محسوس ہونا ایک نارمل عمل ہے، ایک عام انسان بھی زندگی میں کئی مرتبہ ایسے لمحات سے گزرتا ہے۔

    ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قرنطینہ کے دوران مسلسل اکیلے رہنے کی وجہ سے بھی ایسے افراد میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

  • رات کو 10سے 11کے درمیان سونا کیسا؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    رات کو 10سے 11کے درمیان سونا کیسا؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    ویسے تو ڈاکٹرز ہمیشہ لوگوں کو نیند پوری کرنے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ صرف سات یا آٹھ گھنٹے سونا ہی ضروری نہیں اگر ٹھیک وقت پر سونے کی تیاری کرلی جائے تو اس کے اور بھی زیادہ فوائد ہیں۔

    اس حوالے سے88ہزار رضاکاروں کے ساتھ اپنی تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق سونے کے لئے بہترین وقت رات 10 سے 11 بجے کے درمیان ہوتا ہے جو دل کی بہتر صحت سے منسلک ہے۔ رات10سے 11 بجےکے درمیان سونے سے دل کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    میڈیکل ڈیٹا بیس "بائیو بینک یوکے” کی تخلیقی ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ نیند کو انسانی جسم سے منسلک کرنے سے دل کے دورے اور فالج کے کم خطرے کے راز کی وضاحت ہو سکتی ہے۔24 گھنٹے میں انسانی جسم کے لئے آرام قدرتی طور پر صحت اور چوکنا رہنے کے لیے بہت اہم ہے اور یہ بلڈ پریشر جیسی دیگر چیزوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

    یورپی ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے پیچھے محققین نے سات دنوں کے دوران نیند اور جاگنےکے اوقات کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کیا۔ انہوں نے چھ سال کے عرصے میں دل کی دھڑکن اور خون کی گردش کے حوالے سے مختلف افراد کی پیشرفت کا بھی جائزہ لیا۔

    تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ مطالعے کے نمونے میں سے صرف 3000افراد کو دل کی بیماریاں تھیں اوراس تعداد میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سونے کے لیے موزوں وقت کے بعد یا اس سے پہلے سوتے ہیں جس کا مطالعہ کے ذریعے شام کے دس سے گیارہ بجے تک کا تعین کیا گیا تھا۔

    مطالعہ نے جوتعلق تجویز کیا ہے وہ اس مدت کے دوران نیند اور دل کی صحت کے درمیان ان حالات کو دوبارہ ترتیب دینے کے بعد مضبوط ہوا جس میں نمونے کے ارکان نیند کے دورانیے اور خلل کے مطابق رہتے تھے۔

    مطالعہ کئی دیگر عوامل کی نشاندہی کرنے میں بھی کامیاب رہا جو امراض قلب کے بڑھتے ہوئے خطرے میں کردار ادا کرتے ہیں جن میں عمر، وزن اور کولیسٹرول کی سطح شامل ہیں لیکن محققین نے زور دیا کہ وہ اسباب اور اثرات کو ثابت نہیں کر سکے۔

    اس تحقیق کے لیے تیار کی گئی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ بلینز نے کہا کہ اگرچہ ہم اس تحقیق سے اسباب کااندازہ نہیں لگا سکتے لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ جلدی یا دیر سے سونا انسانی جسم اور دل کی صحت پر منفی اثرات میں خلل پیدا کرنے کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ "سب سے خطرناک سونے کا وقت آدھی رات کے بعد ہوتا ہے کیونکہ یہ صبح کی روشنی کو دیکھنے کے امکانات کو کم کر سکتا ہے جو جسم کی اندرونی گھڑی کو دوبارہ ترتیب دیتا ہے۔

    ” برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی سینئر کارڈیو ویسکولر نرس، ریجینا گبلن نے کہا کہ "یہ بڑی تحقیق بتاتی ہے کہ رات10 سے 11 بجے کے درمیان سونا زیادہ تر لوگوں کے لیے بہترین وقت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں دل کی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

    تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ مطالعہ صرف دونوں کے درمیان تعلق پر روشنی ڈال سکتا ہے جبکہ ہم اس کے ساتھ وجہ اور اثر ثابت نہیں کر سکتے۔ دل کے لیے خطرے کے عنصر کے طور پر نیند کے وقت پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی صحت اور خون کی گردش کے لیے اس کی اہمیت کے علاوہ اچھی نیند ہماری صحت کے لیے بھی اہم ہے اور زیادہ تر بالغ افراد کو ہر رات سات سے نو گھنٹے کی نیند لینا چاہیے۔

    گبلن نے کہا کہ لیکن نیند واحد عنصر نہیں ہے جو دل کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے طرز زندگی کا خیال رکھیں۔ اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو جان کر اپنی صحت کی دیکھ بھال کریں۔

    اس کے علاوہ عمر اور قد کے لحاظ سے وزن کو برقرار رکھیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں، نمک اور الکوحل والے مشروبات کی مقدار کو کم کریں، متوازن غذا کے حصے کے طور پر کھانا اور دیگر عوامل جو  صحت مند دل کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں کو زندگی کا جزو بنا لیں۔

  • رات دیر سے سونے والوں کے لیے بری خبر

    رات دیر سے سونے والوں کے لیے بری خبر

    رات دیر سے سونا اور صبح دیر سے اٹھنا کوئی اچھی عادت نہیں تاہم حال ہی میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کے نقصانات توقع سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ رات دیر تک جاگنے کی عادت ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس نئی تحقیق میں جامع شواہد پیش کیے گئے ہیں جن کے مطابق رات کو جلد سونا اور جاگنا ڈپریشن سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تحقیق میں رات گئے یا علیٰ الصبح سونے یا جاگنے اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی گئی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جلد سونا یا رات گئے سونا موروثی عادات ہیں جو مادر رحم سے لوگوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

    درحقیقت لوگوں کی نیند سے متعلق جسمانی گھڑی سے جڑی 340 سے زیادہ جینز کی اقسام کو اب تک دریافت کیا جاچکا ہے، اس تحقیق کے لیے محققین نے 8 لاکھ سے زیادہ افراد کے 2 جینیاتی بیسز کو استعمال کیا تاکہ جسمانی گھڑی اور ڈپریشن کے خطرے پر کنٹرول ٹرائل کرسکیں۔

    ان کے پاس صرف جینیاتی ڈیٹا ہی نہیں تھا بلکہ شدید ڈپریشن کی تشخیص کا ڈیٹا اور لوگوں کے جاگنے اور سونے کے اوقات کی تفصیلات بھی موجود تھیں، جو لوگوں نے خود بتائیں اور سلیپ لیبارٹریز ریکارڈ سے بھی حاصل کی گئیں۔

    اس سے ماہرین کو کسی فرد کی نیند کے رجحانات کی جانچ پڑتال کرنے میں مدد ملی، مثال کے طور پر رات 10 بجے بستر پر جانے والا فرد صبح 6 بجے اٹھتا ہے، اس کی نیند کا درمیانی حصہ 2 بجے صبح ہوتا ہے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ علیٰ الصبح جاگنے والے رجحانات رکھنے والی جینیاتی اقسام سے لیس افراد میں ڈپریشن کی سنگین شدت کا خطرہ 23 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ معاشرے میں مخصوص رجحانات پائے جاتے ہیں جیسسے اسمارٹ فونز اور دیگر نیلی روشنی والی ڈیوائسز کا رات کو استعمال، جس سے لوگ تاخیر سے بستر پر جاتے ہیں اور ممکنہ طور پر اس سے ڈپریشن کی سطح پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔