کراچی: چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) پاکستان کی معیشت کے سب سے بڑے اور اہم ترین شعبے میں سے ایک ہیں، لیکن ملک کی خراب معاشی اور سیاسی صورت حال کی وجہ سے یہ شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا، یہاں تک کہ بینکوں کی جانب سے اسے قرضے بھی ضرورت کے مطابق نہیں ملتے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے آج پیر کو ڈیجیٹل سپلائی چین فنانسنگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایم ای شعبے کو صرف 4 فی صد قرض ملتا ہے، نجی شعبے کے بینکس ایس ایم ایز کو فنانسنگ نہیں دے رہے، ایس ایم ای فنانس میں ترقی نہ ہونا اسٹیٹ بینک کی بھی ناکامی ہے۔
ایک طرف ایس ایم ایز معاشرے کے کمزور طبقات کے معیار زندگی کو بہتر بنا کر قومی ترقی کی حکمت عملیوں، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور سماجی ہم آہنگی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، دوسری طرف خود ان کی ترقی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی سنجیدہ اور عملی کوشش نہیں کی گئی۔
شاید قوانین بھی ایس ایم ایز کو قرضوں کی فراہمی کے سلسلے میں ایک رکاوٹ ہے، چناں چہ ڈپٹی گورنر کا کہنا ہے کہ ایس ایم ایز کو فنانسنگ کریڈ کوریج کے لیے قوانین میں تبدیلی کا کہا گیا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ بینکوں کو منافع اور کاروبار کے فروغ کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
سلیم اللہ نے سبسڈی کلچر کو ایک خامی کے طور پر بیان کیا، اور کہا کہ ہمیں سبسڈی کلچر سے نکل کر حقیقی تجارتی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، انھوں نے کہا کہ ہم ڈیجیٹل بینکوں سے 5 سال میں 2 ہزار ارب لیکوڈٹی کو بینکاری نظام میں لائیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ایس ایم ایز مجموعی طور پر جی ڈی پی میں 40 فی صد اور برآمدات میں بھی 40 فی صد سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔