Tag: Social Media Influencer

  • مہک بخاری : برطانوی انفلوئنسر اور اس کی والدہ کو کیا سزا سنائی گئی ؟؟

    مہک بخاری : برطانوی انفلوئنسر اور اس کی والدہ کو کیا سزا سنائی گئی ؟؟

    لندن : برطانوی عدالت نے دو نوجوانوں کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر سوشل میڈیا انفلوئنسر مہک بخاری اور اس کی والدہ عنصرین بخاری سمیت چار مجرمان کو عمر قید کی سزا سنادی۔

    لیسٹر کی عدالت نے مہک بخاری کو کم از کم 31 سال 8 ماہ کی عمر قید اور اس کی ماں انصارین کو کم از کم 26 سال اور نو ماہ کی عمر قید کی سزا سنائی۔ ان کے علاوہ جن دو مجرمان کو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ان میں ریحان کاروان اور رئیس جمال بھی شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ ملزمہ نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ عنصرین اور مقتول حسین کے درمیان گزشتہ تین سال سے ناجائز تعلقات تھے، جب عنصرین بخاری نے تعلقات ختم کرنے کی کوشش کی تو حسین نے دھمکی دی کہ وہ اس کے شوہر کو ویڈیوز سمیت تمام حقیقت بیان کردے گا، عنصرین نے حسین کے رشتے کے دوران خرچ کی گئی رقم واپس کرنے کی پیشکش کی اور اسے ملاقات کیلئے بلایا۔

    مہک بخاری

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ عنصرین اور مہک بخاری چھ دیگر افراد کے ساتھ ہیملٹن، لیسٹر میں ٹیسکو کار پارک میں ہونے والی میٹنگ میں پہنچے جس کے بعد حسین اپنی کار میں کار پارک میں پہنچا جسے اس کا دوست اعجاز الدین چلا رہا تھا۔

    ٹکر اتنی شدید تھی کہ حسین کی گاڑی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور ان کا انجن گاڑی سے الگ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ آگ لگنے سے پہلے دونوں متاثرین متعدد زخمیوں کی وجہ سے دم توڑ گئے۔

    انسپکٹر مارک پیرش نے کہا کہ یہ ایک وحشیانہ اور بے رحمانہ واردات تھی جس نے دو افراد کی جان لے لی۔ جج کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے کیس کو ’سفاکانہ قتل‘ قرار دیا ہے جو کہ درست ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال ثاقب حسین اور ہاشم اعجاز الدین (دونوں کی عمر 21 سال) کی ایک ٹریفک حادثے میں موت واقع ہوگئی تھی۔

    اگست 2023 کے آغاز میں مہک بخاری اور اس کی والدہ عنصرین بخاری سمیت سات افراد کو عدالت نے 21 سالہ ثاقب اور ہاشم کو فروری 2022 میں منصوبہ بندی کے تحت سڑک کے حادثے میں ہلاک کروانے کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔

    ان ملزمان کے علاوہ جیوری نے ریحان کاروان اور رئیس جمال نامی ملزمان کو بھی قتل میں ملوث قرار دیا تھا جبکہ برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نتاشا اختر، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ امیر جمال اور 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ کو قتل کے الزام سے تو بری کر دیا تاہم انہیں غیر ارادی قتل میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔

    اس کے علاوہ ملزمہ نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

  • ایک فٹ کی سوشل میڈیا انفلوئنسر زھرہ یعقوب کی کہانی ان کی زبانی

    ایک فٹ کی سوشل میڈیا انفلوئنسر زھرہ یعقوب کی کہانی ان کی زبانی

    کراچی : سوشل میڈیا انفلوئنسر زھرہ یعقوب جنہوں نے اپنے چھوٹے قد اور بیماری کو مجبوری نہیں بننے دیا اور معاشرے میں اہم مقام حاصل کرکے ناقدین کے منہ بند کردیے۔

    کسی بھی قسم کی معذوری یا محتاجی قیامت سے کم نہیں مگر وہ لوگ جو وقت کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں اور معاشرے کی اونچ نیچ کا سامنا کرتے ہوئے اپنے عزم اور حوصلے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو جن ایک ایسی خاتون کی کہانی سنا رہے ہیں وہ برٹل بون نامی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں مریض کے جسم کی ہڈیاں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں کہ ان کی نشوونما نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اوروہ ہلکے سے دباؤ سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایک فٹ قامت کی سوشل میڈیا انفلوئنسر زھرہ یعقوب نے ناظرین کو اپنی جدوجہد سے آگاہ کیا اور اپنی داستان سنائی۔

    زہرہ یعقوب نے بتایا کہ میں اپنی زندگی کے انتہائی مشکل دنوں سے گزری ہوں میری والدہ میرے علاج کیلئے ہر جگہ ماری ماری پھرتی تھیں، کوئی کہتا تھا کہ اس کو ہاتھی کے انڈے کھلاؤ تو کوئی کہتا کہ بی بی کیا تم روز اس لوتھڑے کواٹھا کر لے آتی ہواس نے زیادہ دن زندہ نہیں رہنا کیوں اس پر پیسے ضائع کررہی ہو۔

    انہوں نے کہا کہ مکمل طور پر جسم نشونما نہ پانے کے باعث ان کا قد بھی نہیں بڑھ سکا، ان کا قد نو دس برس کی عمر تک بھی بمشکل ایک فٹ کے قریب تھا، کئی دفعہ ہڈی ٹوٹنے اور جڑنے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں نہ تو سیدھی ہو سکتی تھیں اور نہ ہی حرکت کر سکتی تھیں۔

    زھرہ نے بتایا کہ وہ اپنے پلنگ پر بیٹھی اپنا میک اپ کرتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں میک آپ کا بہت شوق ہے، وہ اپنی تصویر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پرشیئر کردیتی ہیں اور ان کے مطابق ان کی ہر تصویر وائرل ہوجاتی ہے اور ہزاروں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔

    زہرہ

    باہمت خاتون زہرہ اپنے پلنگ پر بیٹھی اپنا میک اپ کرتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں میک آپ کا بہت شوق ہے۔ وہ اپنی تصویر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پرشیئر کردیتی ہیں اور ان کے مطابق ان کی ہر تصویر وائرل ہوجاتی ہے اور ہزاروں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ان کی لوگوں تک اسی پہنچ کی وجہ سے ان کا شمار سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔

    زہرہ

    زہرہ نے بتایا کہ انہوں نے انسٹاگرام اکاؤنٹ بھی بنایا ہوا ہے جس میں وہ اپنی "انسٹا فیملی کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اپنے اکاؤنٹ پر تصاویر اپ لوڈ کرتی ہیں اور ویڈیوز بھی اپ لوڈ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ مجھ کو معلوم ہے میں کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکوں گی لیکن ایسا نہیں کہ میرا دل ہی نہیں چاہتا۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کسے کیا دیتا ہے اور کیا نہیں، لہٰذا جس حال میں رہیں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔

  • مفت کھانا مانگنے پر سوشل میڈیا اسٹار کی بے عزتی

    مفت کھانا مانگنے پر سوشل میڈیا اسٹار کی بے عزتی

    ایک برطانوی سوشل میڈیا انفلوئنسر کو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب مفت کھانے کے بدلے ریستوران کی تشہیر کی پیشکش کرنے پر ریستوران انتظامیہ نے انہیں پولیس اسٹیشن کا راستہ دکھا دیا۔

    لندن سے تعلق رکھنے والے انفلوئنسر کرسٹوفر جیسی اپنے انسٹاگرام پر 50 ہزار فالوورز رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر مختلف کمپنیوں کی تشہیر کرتے رہتے ہیں۔

    کچھ دن قبل انہوں نے فور لیگز نامی ایک ریستوران کو اپنے مطلوبہ کھانے کے بارے میں بتاتے ہوئے پیشکش کی کہ وہ ان کی تشہیر اپنے سوشل میڈیا پر کریں گے۔

    ریستوران کی جانب سے ان کی پیشکش پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایڈریس بتایا گیا کہ وہ وہاں سے اپنے پارسل پک کرلیں۔

    کرسٹوفر جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو ریستوران کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ سامنے موجود پولیس اسٹیشن میں چلے جائیں اور خود کو ہاسپٹیلٹی انڈسٹری کے خلاف جرم کا مرتکب قرار دے کر رپورٹ کریں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Four Legs (@fourlegs_ldn)

    بعد ازاں اس ریستوران نے کرسٹوفر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے اسکرین شاٹس بھی اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کردیے۔

    انفلوئنسر نے ریستوران انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں یہ پیشکش پسند نہیں آئی تھی تو وہ اس سے انکار کرسکتے تھے۔