Tag: solar system

  • جب عام شہری سولر سسٹم استعمال کرتا ہے تو حکمرانوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوجاتا ہے؟ مفتاح اسماعیل

    جب عام شہری سولر سسٹم استعمال کرتا ہے تو حکمرانوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوجاتا ہے؟ مفتاح اسماعیل

    اسلام آباد : سابق وفاقی وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ جب حکومت سولر والوں سے سستی بجلی خرید کر ان ہی کو مہنگی بیچے گی تو اس پر اعتراض تو ہوگا۔

    یہ بات انہوں نے بحیثیت مہمان اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے گفتگو کرتے ہوئے کہی اس موقع پر وزیر اعظم کے کوآرڈینٹر رانا احسان افضل بھی موجود تھے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب سولر سسٹم سب سے مہنگا تھا تو اس وقت کی ن لیگ کی حکومت نے اس کی حوصلہ افزائی کی حالانکہ اس وقت اس کی قیمتیں گر رہی تھیں، لیکن جب آپ کو آئی پی پیز مالکان اور بڑے لوگوں کی مدد کرنی تھی تو آپ نے ان سے مہنگے داموں بجلی خریدنے کے معاہدے بھی کیے۔

    مفتاح اسماعیل نے کہا کہ دوسری جانب جب کوئی مڈل کلاس عام شہری ملک کے کسی بھی حصے میں اپنی جیب سے سولر سسٹم لگا کر بجلی حاصل کررہا ہے تو آپ کے پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے کہ اس کو ہم کیوں پیسے دے رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو حکومت کا کہنا ہے کہ ہم سولر سسٹم کی بجلی 27 روپے فی یونٹ کے حساب سے لے رہے ہیں اور اس کو بوجھ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف .64 56 پیسے کی بجلی اسی کو فراہم کررہے ہیں۔

    اس کے علاوہ صارف سے نیٹ میٹرنگ اور گروس میٹرنگ دونوں پر ٹیکس لیا جائے گا تو سوال پھر بھی اٹھے گا کیونکہ اس کا براہ راست اثر عام شہری پر پڑ رہا پے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ عوام کی کسی طرح بچت ہو نہ کہ اس پر ٹیکس پر ٹیکس لگاتے جاؤ۔

    مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ قیمت پر بجلی اور گیس فراہم کی جارہی ہے ایسا کیا ہے اس بجلی اور گیس میں؟ یہی اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

  • نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر سسٹم صارفین کیا کریں؟ ماہر توانائی کا اہم مشورہ

    نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر سسٹم صارفین کیا کریں؟ ماہر توانائی کا اہم مشورہ

    ملک بھر میں عوام کی بڑی تعداد نے بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے اپنی جیب سے بھاری رقوم خرچ کرکے گھروں اور دفاتر پر سولر پینل لگا رکھے ہیں، لیکن اب حکومت نے نیٹ میٹرنگ سے متعلق نئی پالیسی کی منظوری دی ہے۔

    نیٹ میٹرنگ پالیسی سے مراد ہے کہ صارفین سولر پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی کو اپنے گھر میں استعمال کریں گے اور ساتھ ہی حکومت کو مخصوص رقم کے بدلے وہ اضافی بجلی بھی دیں جو آپ کے سولر سسٹم نے بنائی ہے۔

    اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے نیٹ میٹرنگ صارفین سے بجلی کی خریداری سے متعلق ایسی پالیسی کی منظوری دی ہے جس کے تحت صارفین سے بجلی کا ایک یونٹ 27 روپے کے بجائے صرف 10 روپے میں خریدا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام رپورٹرز میں ماہر توانائی و ماحولیات ڈاکٹر بشارت حسن نے حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی پر تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے بجلی کی عدم دستیابی، لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پپیش نظر لاکھوں روپے خرچ کرکے سولر سسٹم لگوائے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے اتنے پاور پلانٹس کیوں لگنے دیے اور ان سے کئی سالوں کے معاہدے کیے گئے اور ان پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس بھی دی جارہی ہے یہ قومی خزانے کا بہت بڑا نقصان ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ کہنا کہ سولر سسٹم لگانے والوں کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہوا یہ غلط ہے کیونکہ حکومت نہ بجلی کی چوری روکتی ہے بلکہ واپڈا ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے یہ نقصان انہیں کیوں نظر نہیں آتا؟۔

    ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بشارت نے بتایا کہ اب تک دو لاکھ 83 ہزار صارفین ایسے ہیں جو 4ہزار 300 میگا واٹ بجلی سولر سے پیدا کررہے ہیں اور اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ لوگ بیٹریز کا استعمال شروع کردیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات طے ہے کہ سولر سسٹم اب اس ملک سے نہیں جائے گا اور یہی اس ملک کا مستقبل ہے کیونکہ اس میں فیول فری ہے۔

    واضح رہے کہ وفاقی حکومت کے اعلامیے کے مطابق بجلی کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کو کہا گیا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً نیٹ میٹرنگ صارفین کے ٹیرف کا جائزہ بھی لیتی رہے تاکہ اسے مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

    اعلامیے کے مطابق نئی پالیسی کا نفاذ پرانے نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا اور نیٹ میٹرنگ میں منسلک ہونے والے نئے صارفین پر اس پالیسی کا اطلاق ہوگا۔

    حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے بجلی کے دوسرے عام صارفین پر اضافی بوجھ پڑ رہا تھا۔

  • جرمنی بجلی کی ملکی ضروریات کیسے پوری کررہا ہے؟ اہم رپورٹ‌

    جرمنی بجلی کی ملکی ضروریات کیسے پوری کررہا ہے؟ اہم رپورٹ‌

    دنیا کے متعدد ممالک اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے استفادہ کررہے ہیں، جرمنی نے بھی گذشتہ سال بجلی کی بڑی ضرورت شمسی توانائی سے حاصل کی۔

    پی وی میگزین کی رپورٹ کے مطابق پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی کی تمام تر ضروریات پوری کرنے والے سات ممالک میں البانیہ، بھوٹان، نیپال، پیراگوئے، آئس لینڈ، ایتھوپیا اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگون شامل ہیں۔

    یہ ممالک اپنے شہریوں کے استعمال کے لئے بجلی کا 99.7 فیصد سے زیادہ حصہ جیوتھرمل، ہائیڈرو اور شمسی یا ہوا سے پیدا کرنے لگے ہیں۔

    germany

    اگر جرمنی کی بات کی جائے تو یورپی ممالک میں بجلی کا سب سے بڑا صارف ملک جرمنی ہے جس نے گذشتہ سال2024 میں بجلی کی ضرورت کا 14 فیصد شمسی توانائی سے پورا کیا۔

    اس حوالے سے جرمنی کی شمسی توانائی یونین نے ملک کے شمسی توانائی سیکٹر کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں جرمنی میں شمسی توانائی کی تنصیب میں 2023 کے مقابلے میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال سے ملک کے بجلی نیٹ ورک میں، 17 گیگا واٹ سے زیادہ پاور کے اہل ایک ملین مالیت سے زائد سولر انرجی سسٹم نے بجلی کی فراہمی شروع کردی ہے۔

    Solar system

    ملک میں شمسی توانائی پر منحصر کُل نصب شدہ بجلی پہلی دفعہ 100 گیگاواٹ کی تاریخی حد کو عبور کر گئی ہے اور گذشتہ سال جرمنی کی بجلی کی ضرورت کا تقریباً 14 فیصد شمسی توانائی سے پورا کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ جرمنی، 2030 تک، 215 گیگاواٹ شمسی بجلی گھر نظام تک پہنچنے کا ہدف رکھتا ہے۔

  • سولر سسٹم کے حوالے سے حکومت کوئی نیا منصوبہ لارہی ہے؟

    سولر سسٹم کے حوالے سے حکومت کوئی نیا منصوبہ لارہی ہے؟

    اسلام آباد : پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں لوگوں نے بجلی کی بڑھتی ہوئی اور بے لگام قیمتوں سے تنگ آکر گھروں کی چھتوں پر سولر سسٹم نصب کروایا۔

    ایک بڑی رقم کی لاگت سے لگائے جانے والے سولر سسٹم سے شہریوں پر بجلی کے بلوں کا بوجھ کچھ کم تو ہوا لیکن شاید یہ خوشی یا سہولت بھی زیادہ دن نہ رہ سکے۔

    اس حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے سولر نیٹ میٹرنگ ختم کرکے گراس میٹرنگ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے گراس میٹرنگ کی پالیسی پر کام جاری ہے، گراس میٹرنگ میں یونٹ کے بدلے یونٹ کا فارمولا ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس اقدام سے نیٹ میٹرنگ کا فائدہ اٹھانے والے صارفین کو بھی مہنگی بجلی فراہم کی جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق گراس میٹرنگ کے تحت 2میٹرز لگائے جائیں گے اور سولر پینل سے پیدا شدہ بجلی نیشنل گرڈ کو بھیجی جائے گی اور پھر واپس صارف کو فراہم کی جائے گی۔

    ذرائع نے واضح کیا ہے کہ سولر پینل کے حامل صارفین کو قومی گرڈ سے بجلی اسی ریٹ پر مہیا کی جائے گی جس ریٹ پر دیگر لوگوں کو فراہم کی جاتی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گراس میٹرنگ میں نیشنل گرڈ کو دی جانے والی بجلی کی قیمت تقریباً نصف ہوسکتی ہے، گراس میٹرنگ میں صارفین سے بجلی سی پی پی اے کے ریٹ پر خریدنے کی تجویز ہے، بجلی تقسیم کار کمپنیاں گراس میٹرنگ پالیسی کے تحت صارفین کو بجلی حکومتی ریٹ پر بیچیں گی۔

    وفاقی وزیر کی تصدیق

    اس حوالے سے وزیر توانائی اویس لغاری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ سولرنیٹ میٹرنگ پاور سیکٹر کے لئے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور ہماری حکومت اس نظام کو جاری رکھنے کے حق میں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے سولر سسٹم لگانے والے3سال کی مدت میں اپنی انویسٹمنٹ پوری کرلیا کرتے تھے اب سولر سسٹم لگانے والے ایک سے ڈیڑھ سال میں انویسٹمنٹ پوری کر رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال کے بعد اب اگر شہری یہ سمجھتے ہیں کہ سولر سسٹم لگانے کے بعد ان کا بجلی کا بل کم آئے گا تو اس خوش فہمی کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے۔

  • سولر سسٹم پر ٹیکس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا، ماہر توانائی

    سولر سسٹم پر ٹیکس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا، ماہر توانائی

    حکومت نے کمرشل سولر صارفین پر 2 ہزار روپے فی کلو واٹ ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر ماہر توانائی کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ٹیکس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں توانائی امور کے ماہر انیل ممتاز نے حکومت کے اس اقدام پر شدید نکتہ چینی کی۔

    انہوں نے کہا کہ بجلی کا بل یوٹیلیٹی کی مد میں لیا جاتا ہے، یوٹیلیٹی بنیادی ضرورت کو کہتے ہیں یہ اسراف نہیں ہے، لوگوں کو اس بات کا معلوم نہیں اس لیے حکومتیں اس بات کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔

    سولر پینلز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سولر پینل پر ٹیکس کے نفاذ کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، اوّل تو ٹیکس عائد کرنا وزارت توانائی کا نہیں بلکہ فنانس منسٹری کا کام ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی جو اصل لاگت ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا، ایک صارف جس کے پاس سولر پینل لگا ہے اس سے آف پیک آور میں 35 روپے 57 پیسے فی یونٹ اور پیک آورز میں 41 روپے 88 پیسے وصول کیے جارہے ہیں، یہ کس بات کے پیسے ہیں؟

    دوسری جانب یہ صارف پہلے سے ٹیکس سے رہا ہے اور اس کے بل میں بھی تمام ٹیکسز اور سرچارج لگ کر آرہے ہیں، پروگرام کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ فی الحال تو ٹیکس عائدکرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن آنے والے وقت کیلئے عوام کو خبردار کردیا گیا ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار رہیں۔

    واضح رہے کہ حکومت نے گھریلو یا کمرشل سولر صارفین پر 2ہزار روپے فی کلو واٹ ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا ہے 12کلو واٹ کا سولر پینل لگانے والے صارفین سے 24ہزار روپے وصول کیےجائیں گے تاہم اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    ملک بھر میں نصب کیے گئے سولر پینلز کے نرخوں پر نظرثانی کی تجویز بھی زیرغور ہے، سمری منظور ہونے پر سولر پینل کے نرخ کم کرنے کی درخواست نیپرا میں دائر کی جائے گی۔

  • سائنسدانوں نے نظامِ شمسی میں 3 نئے چاند دریافت کرلیے

    سائنسدانوں نے نظامِ شمسی میں 3 نئے چاند دریافت کرلیے

    واشنگٹن : امریکی سائنسدانوں نے نظام شمسی میں تین نئے چاند دریافت کیے ہیں، جن میں نیپچون کے گرد دو اور20 سال سے زائد عرصے میں پایا جانے والا یورینس کا سب سے چھوٹا چاند بھی شامل ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے فوربز کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس کے ماہر فلکیات اسکاٹ ایس شیپرڈ نے چلی میں لاس کیمپناس آبزرویٹری میں نصب میگیلن دوربینوں کی مدد سے یہ تین چاند دریافت کیے۔

    اسکاٹ کا کہنا تھا کہ ان دو سیاروں کے گرد دریافت ہونے والے چاند زمینی دوربینوں کی مدد سے دریافت شدہ اب تک کہ دھندلے ترین چاند ہیں۔

    System

    انہوں نے بتایا کہ ایسی دھندلی چیزوں کو ظاہر کرنے کے لیے خصوصی امیج پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دریافت کے لیے کئی گھنٹوں کے دوران ہر پانچ منٹ تک درجنوں چاند کے ایکسپوژر درکار تھے۔

    واضح رہے کہ ماہرین فلکیات کے لیے نیپچون اور یورینس کے چاندوں کی کل تعداد کا تخمینہ لگانا ان دیگر سیاروں کی نسبت زیادہ مشکل ہے جو زمین کے قریب ہیں جیسے مشتری کے تمام چاند سائز میں تقریباً 2 کلومیٹر ہیں، جب کہ زحل کے 3 کلومیٹر ہیں۔

    تاہم یورینس اور نیپچون کے چاند اگرچہ باقیوں سے بڑے ہیں یعنی 8 سے 14 کلومیٹر لیکن اس کے باوجود ابھی تک ان سیاروں کے بارے میں بہت معلومات دستیاب ہیں کیونکہ مشتری اور زحل کا خلائی جہاز کے ذریعے متعدد بار دورہ کیا جاچکا ہے لیکن یورینس اور نیپچون کا دورہ بالترتیب 1986اور 1989 میں ناسا کے وائجر 2 پروب کے ذریعے صرف ایک بار کیا گیا ہے۔

  • سولر سسٹم سے بجلی کے بل میں نمایاں کمی کیسے ممکن ہے؟

    سولر سسٹم سے بجلی کے بل میں نمایاں کمی کیسے ممکن ہے؟

    سولر سسٹم موجودہ صدی کی ایک بہترین ایجاد ہے جو نہ صرف بجلی بچانے کا باعث بھی بنتے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں۔

    بجلی حاصل کرنے کا یہ جدید نظام کتنا کارآمد ہے یا اس کے صحیح استعمال سے ہم بجلی کے بل میں کتنی کمی لاسکتے ہیں یہ بتانے کیلئے آج ہم آپ کو اس سسٹم کی تنصیب سے متعلق کچھ اہم معلومات فراہم کریں گے۔

    سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنا نہ صرف توانائی پیدا کرنے کا انتہائی سستا ذریعہ ہے بلکہ یہ زندگی بھر کے لیے معاشی طور پر انتہائی سودمند ہے لہٰذا سولر پینلز توانائی کی کمی کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں گوکہ یہ بیش قیمت ہوتے ہیں لیکن یہ بجلی کے بل میں بچت کی مد میں انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گھروں میں سولر سسٹم کو لگانا مشکل نہیں ہوتا مگر اس سے ہونے والی بچت کا تعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ تمام عناصر کو مدنظر رکھیں۔

    پہلے تو سولر سسٹم کی تنصیب کے اخراجات کا تعین کریں اور پھر اس میں ٹیکسوں یا دیگر مالی مراعات (اگر مل رہی ہوں تو) کا تخمینہ لگائیں۔

    اس طرح آپ کو سسٹم کی مکمل لاگت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی، اس کے بعد یہ تخمینہ لگائیں کہ سولر سسٹم سے سالانہ بنیادوں پر بجلی کے بلوں میں کتنی بچت ہو رہی ہے۔

    سولر سسٹم سے ہونے والی بچت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ نے گھر میں کتنے سولر پینلز نصب کیے ہیں اور اوسط بجلی کا خرچ کتنا ہے۔

    تو بجلی کے بلوں میں سولر سسٹم سے ہونے والی بچت کا تخمینہ لگانے کے لیے سولر سسٹم لگانے سے قبل اور اس کے بعد کم از کم 6 ماہ کے بلوں کا جائزہ لیں، خاص طور پر موسم گرما کے بلوں کا۔

    اس کے بعد تخمینہ لگائیں کہ سولر سسٹم لگانے کے بعد ماہانہ بنیادوں پر کتنی بچت ہوئی۔

    ایک بار جب سالانہ بچت کا اندازہ ہو جائے گا تو اس کے بعد آپ تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ سولر سسٹم پر ہونے والا خرچہ کب تک پورا ہو سکتا ہے۔

    اگر آپ کے گھر میں سولر پینل سسٹم لگانے کی لاگت 3 لاکھ روپے ہے اور اس سے ہر سال بجلی کے بلوں میں 30 ہزار روپے بچت ہوتی ہے تو اسے 10 سے تقسیم کریں۔

    یعنی آپ کی سولر انرجی پر کی جانے والی سرمایہ کاری کی واپسی میں 10 سال کا عرصہ لگے گا۔ ایک بار جب سولر سسٹم کا خرچہ پورا ہو جائے گا تو اس کے بعد حقیقی معنوں میں بچت ہوتی ہے۔

    عموماً گھروں میں نصب سولر پینلز کی زندگی 25 سال تک ہوتی ہے مگر احتیاط کی جائے تو وہ زیادہ عرصے تک کام کرتے ہیں۔

    اگر 25 سال زندگی کو ہی حتمی تصور کر لیا جائے تو ہر سال 30 ہزار روپے کی بچت کو 15 سے ضرب دیں تو یہ ساڑھے 4 لاکھ روپے بن جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ یہ مثالی صورتحال کا تخمینہ ہے، کئی بار سولر پینل کم بجلی بناتے ہیں یا آپ کے علاقے میں بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں مسلسل اضافہ بھی اس تخمینے کے اعداد و شمار پر اثر انداز ہو سکتا ہے، یعنی بچت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ سولر سسٹم لگانے والوں کو اپنے علاقوں میں یوٹیلیٹی نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ گرڈ کی بجلی پیک آور میں تو استعمال نہیں کر رہے۔

    اس صورتحال میں سولر پینلز کے ساتھ ایک سولر بیٹری لگانے سے پیک آور میں بھی بچت کرنے میں مدد مل سکتی ہے مگر سولر سسٹم کی لاگت میں اس سے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

    تو یہ بات تو یقینی ہے کہ سولر سسٹم سے بجلی کے بلوں میں کمی آتی ہے مگر کتنی کمی آتی ہے اس کا انحصار مختلف عناصر اور آپ کے گھر میں بجلی کی ضروریات پر ہوتا ہے

  • تھرکول کے بدلے تھر کے رہنے والوں کے لیے سولر سسٹم

    تھرکول کے بدلے تھر کے رہنے والوں کے لیے سولر سسٹم

    کراچی: تھر کے رہنے والوں کو تھرکول کے بدلے سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر توانائی امتیاز احمد شیخ نے کہا ہے کہ تھرکول بلا ک 2 سے حاصل ہونے والی رائلٹی کی رقم تھر کے رہنے والوں کے گھروں پر سولر سسٹم کی تنصیب پر خرچ کی جائے گی۔

    وزیر توانائی سندھ کی زیر صدارت پندرہویں تھر فاؤنڈیشن کی بورڈ میٹنگ کا انعقاد ہوا، جس میں تھر فاؤنڈیشن کے تحت قائم عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ہدایت پر تھرکول بلا ک 2 سے حاصل ہونے والی رائلٹی کی رقم تھر کے رہنے والوں کے گھروں پر سولر سسٹم کی تنصیب پر خرچ کی جائے گی تا کہ تھر میں عوام کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی سمیت پانی کی سپلائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

    میٹنگ میں بتایا گیا کہ ٹی سی ایف کے تحت 28 اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں سے 23 اسکول مکمل طور پر فعال ہیں، جب کہ اسکولوں کے اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے بھی پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔

    اسکولوں میں بچوں کو صحت مند ماحول کی فراہمی کے لیے کھیلوں کی سہولیات بالخصوص کرکٹ کے حوالے سے بھی انتظامات موجود ہیں، اسکل ڈویلپمنٹ کے حوالے سے پتھم کے تعاون سے ہوٹل مینجمنٹ کے کورسز، ٹورازم کے حوالے سے ٹریننگ پروگرام، خواتین کی ووکیشنل ٹریننگ اور آئی ٹی کے حوالے سے بھی ٹریننگ فراہم کی جا رہی ہے۔

    دماغی صحت کے حوالے سے ایک اسپتال کے قیام کا عمل بھی جاری ہے، میٹنگ میں بتایا گیا کہ تھرکول پلانٹ کے مقام سے رہائشیوں کی منتقلی کے حوالے سے فنانشل سپورٹ بھی فراہم کی گئی ہے۔

  • پاکستانی نوجوان کا بڑا کارنامہ : سیلابی پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    پاکستانی نوجوان کا بڑا کارنامہ : سیلابی پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    حالیہ سیلاب نے ملک بھر میں جہاں ایک طرف تباہی مچادی ہے تو دوسری جانب اس پانی کو استعمال کرنے کیلئے ایک اہم اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

    اس سلسلے میں ایک پاکستانی نوجوان نے اپنی مہارت اور قابلت سے سیلاب کے پانی کو پینے کے قابل بنادیا جو سیلاب متاثرین کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے نوجوان حمزہ فرخ نے اپنی تیارکردہ ڈیوائس کی مدد سے اس سیلابی پانی کو صاف پانی میں بدل دیا۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے حمزہ فرخ نے کہا کہ میں کوئی ایسا پروجیکٹ بنانا چاہتا تھا کہ جس کی مدد سے ہم اپنے لوگوں کے کام آئیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن ہو۔

    انہوں نے بتایا کہ شمسی توانائی کو استعمال میں لاکر ہم ملک کے دور دراز علاقوں میں پانی کو صاف اور پینے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔

    حمزہ فرخ کا کہنا تھا کہ روز شمس شروع پاکستان سے ہوا لیکن اب اس کو افغانستان ، یمن روہنگیا اور دیگر ممالک میں متعارف کرایا جاچکا ہے۔

    ہم نے پہلے سے ایسے سولر واٹر باکس تیار رکھے ہوئے تھے جو مختلف گاوں دیہات میں سیلاب متاثرین کے لیے لگا دیئے گئے ہیں۔ اور اس مہینے 50 باکس تیار کرکے ملک مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں دیئے جائیں گے۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔