Tag: solar system

  • خلا میں پہلے انسان کے قدم رکھنے کا عالمی دن

    خلا میں پہلے انسان کے قدم رکھنے کا عالمی دن

    ایک دور تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا میں سفر کسی صورت بھی ممکن نہیں ، 1921 میں نیویارک ٹائمز کے ادارئیے میں عظیم سائنسدان رابرٹ ایچ گوڈارڈکا باقاعدہ تمسخر اڑایا گیا ‘ کہ ان کی سائنسی معلومات ہائی سکول کے شاگردوں سے بھی کم ہیں ، چونکہ خلا میں ہوا موجود نہیں ہے جس سے راکٹ کو اوپر اٹھانے کے لیے ردِعمل کی قوت (تھرسٹ) یا ’دھکا‘ فراہم کیا جاسکے۔اس لیے گوڈارڈ ‘ راکٹ کو خلا میں بھیجنے کی جن کوششوں میں مصروف ہیں وہ سعیِ لا حاصل کے سوا اور کچھ نہیں مگر وقت نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ ’کبھی ایک نسل کا فلسفہ دوسری نسل کے لیے خرافات بن جاتا ہے تو کبھی گزرے ہوئے کل کی بے وقوفی آنے والے کل کی دانائی ثابت ہوتی ہے۔

    4 اکتوبر 1957 کو پہلا مصنوعی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا گیا جس سے کامیابی کے ساتھ سگنل زمین پر موصول ہوئے۔

    اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 3 نومبر 1957 کو سوویت یونین نے "لائیکا” نامی ایک کتیہ کو خلا میں بھیجا، اس تجربے سے خلا میں انسان کے سفر کی راہ مزید ہموار ہوئی اور بلاآخر 12 اپریل 1961 کو ایک نئے دور کا آغاز ہوا کہ جب روسی کاسموناٹ "یوری گاگرین” نے اسپیس کرافٹ "واسٹاک تھری کے اے” میں سفر کرتے ہوئے خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی مناسبت سے آج  کی تاریخ کو خلا میں انسان کے پہلے قدم کی یادگار کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔

    عظیم سائنسدان رابرٹ ایچ گوڈارڈ

    لگ بھگ بیس برس بعد جب ’نیل آرم سٹرانگ چاند پر پہلا قدم رکھ کر انسان کے ایک دیرینہ خواب کو حقیقت میں ڈھال چکا تھا تو نیویارک ٹائمز نے اپنی اس تاریخی غلطی پر باقاعدہ معذرت کی مگر اس معذرت کو قبول کرنے والا ’جدید راکٹری کا بانی‘ گوڈارڈ تب دنیا میں موجود نہیں تھا۔ اگرچہ سائنسدان اس خواب کے حقیقت میں ڈھلنے سے بہت پہلے مستقبل کی کچھ اور منصوبہ بندیاں کرچکے تھے جس میں سرِ فہرست نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں تک رسائی کا منصوبہ تھا ۔

    سنہ1960کے اواخر میں ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری میں کام کرنے والے ایرو سپیس انجینئر ’گیری فلینڈرو‘ نے اس حوالے سے ایک اہم دریافت کی کہ ہر ایک سو پچھتر 175 سال بعد یہ سیارے ایک مخصوص ترتیب میں آتے ہیں ، اس خاص ٹراجیکٹری یا راستے سے ایک سے دوسرے سیارے تک خلائی جہاز کی رسائی نسبتاََ آسان تھی ۔یہ مخصوص ترتیب تحقیق کے مطابق ایک دفعہ پھر 1970 کے اواخر میں متوقع تھی۔

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ*

    لہذاٰ سائنسدانوں نے’گریویٹی اسسٹ ‘ یا قوتِ کشش کی معاونت والی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایک مشن تشکیل دیا جس میں دو گروپس کی صورت چار خلائی جہازوں کو ان سیاروں کی طرف بھیجا جانا تھا۔یہ فلکیاتی طبیعات کی ایک مؤثرتکنیک ہے جسے سرمایہ، وقت اور ایندھن بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہےکیونکہ سیاروں کی کشش ثقل خلائی جہاز کی رفتار ، سمت اور راستے پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہےاور اسے از خود آگے کی طرف دھکیلتی ہے جس طرح اجسام ،زمین کی کشش کے باعث از خود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔

    اس پروگرام کو ابتدا میں’مرینر‘ کا نام دیا گیا تھا جسےبعد میں تبدیل کرکے’وائجر انٹرسٹیلر مشن‘ کر دیا گیا کیونکہ مسلسل توسیع کے باعث ان خلائی ‘جہازوں میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ یہ مرینر فیملی کی دیگرسپیس شپ سے بہت مختلف تھے۔اس پروگرام کے تحت بیس اگست 1977 کو’وائجر ٹو اس ٹراجیکٹری( مخصوص راستہ) پر روانہ کیا گیا جس سے اسے مشتری، زحل ، اس کے چاند’ٹائٹن‘ ، یورینس اور نیپچون تک رسائی حاصل کرنا تھی۔

    اس کے سترہ دن بعد پانچ ستمبر 1977 کو’وائجر ون‘ کو خلا میں بھیجا گیا ‘ جس کی مخصوص ٹراجیکٹری ابتدا میں مشتری اور زحل تک محدود تھی،اور اس کا مشن 8919 تک مکمل ہوچکا تھا مگر بعد میں تین دفعہ توسیع کی گئی اور مشن کو تین ادوار یا فیززمیں تقسیم کر دیا گیا۔

    ابتدائی فیز میں دونوں سپیس شپس کو اپنی طے شدہ ٹراجیکٹری سے گزرتے ہوئے متعلقہ سیاروں کی تصاویر اور ڈیٹا فراہم کرنا تھا ۔ جس کی تکمیل کے بعد دوسرا فیز شروع ہوا اور اسے ’ہیلیو سفیئر‘ کا نام دیا گیا ، یہ سورج کے گرد غبارے یا بلبلے نما خلائی علاقے کو کہا جاتا ہے جو آگےپلوٹو تک پھیلا ہوا ہے۔ سورج کی شدید حدت کے باعث جو ’سولر وائنڈز‘ یا پلازمہ پیدا ہوتا ہے‘ وہی اس بلبلے کی تشکیل کا سبب بھی بنتا ہے اور اسے خلا کی بے کراں وسعتوں میں تھامے رکھتا ہے ۔ورنہ شدید بیرونی دباؤ کے باعث یہ پھٹ جائے۔ وائجر ون نے یہ فیز دسمبر 2004 میں 94 ایسٹرانامیکل یونٹ کے فاصلے پر جبکہ وائجر ٹو نے اگست 2007 میں 84 ایسٹرانامیکل یونٹ کے فاصلے پر مکمل کیا۔

    واضح رہے کہ ایک ایسٹرانامیکل یونٹ ایک اعشاریہ پانچ ضرب دس کی وقت آٹھ کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس مشن کے تیسرےفیز کا آغاز ہوا جس کا تعلق نظام ِ شمسی کی حدود سے باہر بے کراں خلا یا ’انٹرسٹیلر سپیس ‘کی تسخیر سے ہے۔

     

    وائجر-1

    چونکہ ان خود کار ( روبوٹک )خلائی جہازوں کو بھیجنے کا اولین مقصد یہ تھا انھیں خلا میں ممکنہ حد تک جتنی دور ہوسکے بھیجا جا ئے تاکہ نظامِ شمسی کے کسی اور سیارے پر اگر انسان نما مخلوق بستے ہیں تو ان تک زمین کے باسیوں کا پیغام پہنچایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے بارہ انچ کے’ گولڈن فینو گرام ‘ ان دونوں خلائی جہازوں میں رکھے گئے ، یہ دراصل ’ٹائم کیپسول‘ تھے جن میں زمین کی تصاویر اور آوازوں کا ڈیٹا محفوظ کر دیا گیا تھا ۔

    مشن کی ابتدا میں سائنسدانوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان جہازوں سے اتنے لمبے عرصے تک رابطے میں رہنا ممکن ہوگا مگر توقعات کے برخلاف یہ گزشتہ چالیس برس سے نا صرف زمین سے رابطے میں ہیں بلکہ باقی سیاروں کی نادر تصاویر اور ڈیٹا بھی بھیجتے رہے ہیں۔ وائجر ون کو اب تک خلا میں سب سے زیادہ فاصلے پر جانے والی سپیس پروب کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    اب بہت سے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ آخر ان خلائی جہازوں میں ایسا کون سا ایندھن استعمال کیا گیا تھا جو چالیس سال سے حرکت میں ہونے کے با وجود ختم ہونے میں نہیں آرہا ؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان جہازوں کی ابتدائی ولاسٹی ( سمت اور رفتار) طے کر کے ان کا آپریشنل سسٹم کچھ ایسا رکھا گیا تھا کہ جہاز جب تک سیدھی سمت میں حرکت کرتا ہے تو بالکل ایندھن استعمال نہیں کرتا بلکہ ستاروں کی کشش ِ ثقل اسے از خود آگے کی جانب دھکیلتی ہے ۔ایندھن کی ضرورت صرف ان کی سمت تبدیل کرتے وقت پڑتی ہے جس کے لیے ہائیڈرازائن اور پلوٹونیم 238 بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں ۔

    خلائی جہاز کیسینی کو زحل سے ٹکرا کر تباہ کردیا گیا*

    اس کے علاوہ ان خلائی جہازوں پر خود کار پلانٹس بھی موجود ہیں جو پلوٹونیم کے ذریعے بجلی تیار کرتے رہتے ہیں جس سے ان کےکیمروں ، سکینرز ، میگنیٹو میٹر اور دوسرے حساس آلات کو مسلسل توانائی فراہم ہوتی ہے۔ اس مشن سے جائنٹ پلینٹس جنھیں گیس جائنٹس بھی کہا جاتا ہے کے بارے میں گراں قدر معلومات حاصل ہوئیں ‘ جن میں سب سے اہم مشتری کے ماحول میں پیدا ہونے والے پیچیدہ بادلوں ، ہواؤں اور طوفانوں کے ساتھ اس کے چاند ” ’لو‘ میں برپا ہونے والی آتش فشانی کی معلومات ہیں ۔

    اس کے علاوہ زحل کا رِنگ نما سسٹم جو ہمارے نظام ِ شمسی میں اپنی نوعیت کا واحد مظہر ہے ‘ کی بہت واضح تصاویر بھی حاصل ہوئیں ، یہ دراصل ان گنت چھوٹےچھوٹے ذرات پر مشتمل دائرے ہیں جنھوں نے زحل کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ وائجر ٹو سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر ناسا نے ’کیسینی‘ خلائی گاڑی کو زحل کی جانب روانہ کیا جو بیس برس تک گراں بہا معلومات فراہم کرنے کے بعد اب اس سیارے کی مٹی میں فنا ہو چکی ہے۔

    خلائی گاڑی – کیسینی

    سائنسدانوں نے انٹرسٹیلر سپیس میں ان خلائی جہازوں کے داخلے کے بعد نئے اندازے اور تخمینے لگانا شروع کر دیئے ہیں اور ان کوقوی امکان ہے کہ وائجر ون تقریباً تین سو سال میں ’ اورٹ کلاؤڈ‘ تک پہنچ سکے گی، یہ ایک نظریاتی بادل نما ساخت ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس بادل نے ہمارے سورج کو ہر جانب سے گھیرا ہوا ہے۔ اگرچہ اب ’نیو ہوریزون ‘ سپیس شپ وائجر کی نسبت بہتر ٹیکنالوجی اور تیز تر رفتار سے خلا میں روانہ کی جا چکی ہے اور اس وقت وائجر ون زمین سے جس فاصلے پر ہے ، ہوریزون پروب کی اس مقام پر رفتار تیرہ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوگی پھر بھی یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ ہوریزون ، وائجر ون کو کراس کرتے ہوئے اس سے آگے نکل جائے۔ لہذاٰ انسانی تاریخ میں جو مقام ’وائجر انٹرسٹیلر مشن ‘اور’وائجر ون ‘خلائی جہاز کو حاصل ہوا ‘ وہ امر رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ جانتے ہیں‘ ہماری زمیں کیسے پیدا ہوئی؟

    کیا آپ جانتے ہیں‘ ہماری زمیں کیسے پیدا ہوئی؟

    زمین سورج سے دور جاتے ہوئےتیسرے نمبر کا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہمارا تمام علم، ہماری تہذیب، تمدن، مذہب، سائنس اور رہن سہن سبھی اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی وجہ سے ہے، اگر زمین نہ ہوتی تو ہم نہ ہوتے، ہم نہ ہوتےتو نہ ہمارے ہونے کا سوال پوچھا جاتا نا ہی ہم خود کو اہم اور اشرف المخلوقات سمجھتے، زمین کی پیدائش کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق بہت سے اساطیری قصے و کہانیاں زمانہ قدیم ہی سے موجود ہیں، ہر زمانے کے انسان نے اپنے زمانے اور سوچ کے مطابق مختلف کہانیاں گھڑیں جن میں اس نے زمین و آسمان کی پیدائش کیسے ہوئی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ مگر آج ہم سائنس کے ذریعے سے حاصل کیے گئے علم کے ذریعے زمین کے وجود میں آنے کے سوال کا جواب انتہائی احسن طریقے سے دے سکتے ہیں۔

    جب زمین کے وجود کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض سیارہ کیسے وجود میں آیا کیسے بنا ؟ اس سوال کا جواب وقت کے لحاظ سے انتہائی طویل ہے، کیونکہ زمین کی پیدائش کے لئے بنیادی محرکات زمین کی پیدائش سے کہیں پہلے وجود میں آ چکے تھے، بلکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وجود کے لئے محرک اول خود بگ بینگ تھا۔ بگ بینگ کے بعد جب کائنات پیدا ہوئی تو اس وقت 99 فیصد سے بھی زیادہ مقدار ہائڈروجن گیس کی تھی، باقی 1 فیصد سے بھی کم مقدار میں ابتدائی طور پر ہیلئیم اور لیتھئیم بھی وجود میں آئی تھیں۔ ہماری زمین غالب طور پر لوہے، آکسیجن، فاسفورس، کاربن، سلیکان سے مل کر بنی ہے۔ بگ بینگ کے وقت لوہا اور آکیسجن توموجود ہی نہیں تھے، پھر یہ عناصر زمین میں کیسے موجود ہیں؟ اس کا جواب ہمیں ستاروں کے اندر ہونے والے نیوکلیائی فیوژن کے عمل اور ان کی موت میں ملتا ہے، بہت سے ستارے جو سورج سے تقریباً تین گنا بڑے ہوتے ہیں وہ اپنا ہائڈروجن ایندھن انتہائی تیزی سے استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بناتے ہیں اور آخر میں ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، اور جتنے بھی بھاری عناصر وہ اپنی موت کے دوران بناتے ہیں ان کو کہکشاں میں گیسوں کی صورت میں پھیلا دیتے ہیں۔ ہائڈروجن، ہیلئیم اور لیتھئیم کے علاوہ تمام ہی عناصر اس عمل کے دوران بنتے ہیں۔

    اس عمل کے ہی مطابق زمین کے وجود سے کہیں پہلے کچھ ستارے تھے، جو اپنا نیوکلائی فیوژن کا تابکار عمل کرتے رہے اور آخرکار اپنی موت کے وقت لوہا، آکسیجن اور دوسرے عناصر ملکی وے کہکشاں میں پھیلا گئے، جو عناصر ان قدیم ستاروں کی موت پر بنے وہ گیس کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش تھے، ہم نہیں جانتے کہ یہ گیسوں کا بادل کتنا عرصہ کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش رہا، مگر آج سے تقریبا 4.7 ارب سال پہلے اس گیسوں کے بادل کے قریب ہی میں کسی سوپر نووا ستارے کے پھٹنے سے ایک ایسا دھماکا پیدا ہوا جس سے اس گیسوں کے بادل میں ازتزلال کی لہریں دوڑ گئیں اور انہی لہروں کے باعث یہ گیسوں کا بادل اپنی ہی ثقالت کے باعث سمٹنے لگا، اس وقت اس گیسوں کے بادل میں گیس نے آپس میں مل کر کھربوں کی تعداد میں شہابیوں کو جنم دیا۔ یہ شہابیے اس گیسوں کے بادل میں ہائڈروجن اور دوسری ہلکی گیسوں کے علاوہ پائے جانے والے عناصر کے ملنے سے بنے، مگر اس گیسوں کے بادل کے مرکز پر موجود گیس اندر کی جانب گرنے سے سورج کی پیدائش ہوئی، مگر دوسرے ایسے مراکز جہاں پر گیس گری وہاں ہمارے بڑے گیسی سیاروں یعنی، مشتری، زحل اور نیپچون کا جنم ہوا، یہ ہمارے نظام شمسی کا بیرونی حصہ ہے۔

    مگر سورج اپنی پیدائش کے دوران تابکاری خارج کر کے اپنے قریب میں مادے کی صفائی کرنے لگا، یعنی قریب میں پائی جانے والی ہائڈروجن گیس یا تو سورج نے خود جذب کر لی یا پھر اس کو اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی قوی تابکاری خارج کرنے کے دور پرے دھکیل دیا جس کے باعث یہ گیس جا کر مشتری کے مدار تک پہنچ گئی ۔ مگر دوسری جانب پتھریلے شہابیے جو نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران پیدا ہوئے تھے سورج سے خارج ہونے والی تابکاری کے باوجود سورج سے قریب یعنی اندرونی نظام شمسی میں موجود رہے، اس وقت اندرونی نظام شمسی یعنی ہمارے نظام شمسی کا وہ حصہ جو سورج سے سیارے مریخ تک ہے سورج کے گرد محو گردش کھربوں شہابیوں کی آماج گاہ تھی، یہ شہابیے اپنے اپنے مداروں میں سورج کے گرد گھوم رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے تھے، یہ نومولود نظام شمسی ہمارے نظام کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم تھا، کوئی بھی شہابیہ اپنی اصل حالت میں رہ پانا ممکن نہ تھا، اسی دوران کشش ثقل کے باعث مختلف حصوں میں بڑے شہابیوں نے چھوٹے شہابیوں کو کشش ثقل کے باعث کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسی باعث نظام شمسی میں چھوٹے چھوٹے سیاروں جن کو پروٹو پلینٹ کہا جاتا ہے کا جنم ہوا، اس دوران ہزاروں کی تعداد میں سیارے پیدا ہوئے مگر یہ ایک دوسرے کے مداروں میں مداخلت کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے، ساتھ ہی یہ شہابیوں کو بھی اپنی طرف کھینچتے رہتے تھے، اس وقت میں ہر سیکنڈ میں نظام شمسی میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، شہابیے شہابیوں سے ٹکراتے، سیارے سیاروں سے، شہابیے سیاروں سے، اور پھر چھوٹے سیارے بڑے سیاروں سے ٹکرا کر ان میں زم ہو جاتے، اس وقت نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام ہی سیارے جلتی ہوئی پتھر کی گیندوں کی طرح تھے، یہ اپنے اردگرد کے مادے کو کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کر رہے تھے، اور ہر بار جب یہ کسی شہابیے کو اپنے اندر شامل کرتے تو ٹکراؤ کے باعث درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ پورے کے پورے سیارے آگ کی لپیٹ میں آ جاتے۔ یہ عمل کروڑوں سال تک چلتا رہا۔

    حتی کے سورج سے باہر جاتے ہوئے دائروں میں چھوٹے سیاروں کے ملاپ سے چار بڑے سیارے یعنی، عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ بن گئے مگر ان کے علاوہ ابھی بھی اندرونی نظام شمسی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے سیارے اور شہابیے موجود تھے جو ان سیاروں سے مسلسل ٹکرا رہے تھے۔ ہمارے چار سیارے اپنے بڑے ہجم کے بجائے ان باقی چھوٹے سیاروں سے کہیں زیادہ کشش ثقل رکھتے تھے جس کے باعث جب چھوٹے سیارے ان سے ٹکراتے تو وہ ان سیاروں میں زم ہو کر بڑے سیاروں کے مادے اور ہجم میں اضافہ کرتے جاتے۔ آنے والے کروڑوں سالوں تک یہی عمل چلتا رہا حتیٰ کہ یہ چار سیارے اپنے اردگرد شہابیوں کو کشش ثقل سے کھینچ کھینچ کر اپنے اندر زم کرتے رہے ایسا ہونے سےاندرونی نظام شمسی کا مطلع صاف ہو گیا، یہی عمل بیرونی نظام شمسی میں بھی ہوا، گیسوں کو سورج سے ابتدائی دور میں خارج ہونے والی تابکاری نے پرے دھکیل دیا باقی کا مادہ اور گیسیں سیاروں نے اپنے اندر جذب کر لیں اس طرح سے نظام شمسی ایک شفاف جگہ بن گئی۔

    اسی عمل کے دورن سورج سے تیسری دوری پر ہماری زمین کا جنم ہوا، اس وقت زمین پگھلے ہوئے پتھروں سے بنی ہوئی ایک گیند تھی، اس کی سطح پر ٹھوس پتھروں کے بجائے لاوے کا ایک سمندر موجزن تھا، کروڑوں سال تک یہ عمل چلا اور زمین کچھ ٹھنڈی ہوئی مگر پھر ہمارے ہی قرب و جوار میں موجود ایک چھوٹا سیارہ جس کو سائنسدان تھیا کے نام سے پکارتے ہیں محو گردش تھا، اس سیارے کا مدار زمین کے مدار سے میل کھاتا تھا جس کے باعث یہ سیارہ زمین سے ٹکرا گیا، اس سے زمین کی باہری سطح یعنی کرسٹ علیحدہ ہو کر خلاء میں چلی گئی اور زمین اور تھیا دونوں کے آہنی مراکز آپس میں مل گئے اس سے زمین کے ہجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور زمین اپنے موجودہ ہجم جتنی بڑی ہو گئی۔ مگر زمین کے کرسٹ کا وہ حصہ جو خلاء میں معلق ہوا ایک گیند کی شکل اختیار کر کے زمین گے گرد محو گردش ہو گیا، اس گیند کو ہم آج چاند کہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر چاند زمین کے انتہائی قریب تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زمین سے قدرے دور ہو گیا۔ جب زمین اور تھیا آپس میں ٹکرائے تو زمین ایک بار پھر پگھلی ہوئی حالت میں آگئی اور لاوے کا سمندر ٹھنڈا ہونے میں لاکھوں سال لگے، اس کے بعد ہی زمین کی سطح ٹھنڈی ہوئی اور مگر آج بھی زمین اندر سے گرم ہے کیونکہ اس کی پیدائش کے دوران ہونے والے ان گنت ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی حرارت آج بھی اس کے اندروں میں موجود تابکار مادوں کی حرارت کے ساتھ مل کر اس کو اندر سے گرم رکھتے ہیں اور یہی عمل پلیٹ ٹکٹانک کے عمل کو چلاتا ہے۔

    زمین کی پیدائش آج سے تقریباً 4.54 ارب سال پہلے ہوئی، زمین پر پائے جانے والے قدیم ترین پتھر ریڈیو میٹرک ڈیٹنگ کے مطابق تقریباً 4.5 ارب سال پرانے پائے گئے ہیں، ساتھ ہی مختلف شہابیوں کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ کے ذریعے ان کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال پائی گئی ہے، اب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہابیے نظام شمسی کی پیدائش کے وقت ہی وجود میں آئے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ سے ہمیں زمین اور نظام شمسی کی پیدائش کے وقت کا درست تعین ہوتا ہے۔


    یہ تحریر ’ماہرینِ فلکیات‘ نامی واٹس ایپ گروپ سے لی گئی ہے اور معلوماتِ عامہ کے فروغ کے جذبے کے تحت اسے یہاں شایع کیا جارہاہے۔

  • کائنات میں گھومتا دیوہیکل سیارہ

    کائنات میں گھومتا دیوہیکل سیارہ

    چلی کے سائنسدانوں نے کائنا میں ایک ایسا سیار ہ دریافت کرلیا ہے جہاں سال صرف ڈھائی دن کا ہے اور یہ سیارہ اپنے سورج کو کائنات کی نامعلوم سمت میں گھسیٹ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹیلی سکوپ کے ذریعے خلاء کی پرسراریت سے پردہ ہٹاتے ہوئے واروِک یونیورسٹی، چلّی کے خلائی محققین نے10 اگست سے 7 دسمبر2016ء تک ایک غیر معمولی ستارے کو اپنی نشانے پر رکھا۔

    لگ بھگ 4 ماہ کی انتھک محنت کے بعد ان عالمی محققین کو کائنات کے دُور دراز محلّے سے ایک ناقابل یقین ڈیٹا موصول ہوا ۔ جس کو دیکھ کر پہلے پہل انہیں خود بھی اپنی تحقیق پر شبہ ہونے لگا مگر بعد ازاں 11 مہینے کی کنفرمیشن کے بعد بالآخر اعلان کیا گیا کہ زمین سے 600 نوری سال کے فاصلےپر ایک سیارہ جو کہ مشتری کے سائز کا ہے وہ اپنے سے صرف پانچ گنابڑے ستارے’ این جی ٹی ایس -1‘ کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ اسی سے مطابقت رکھتے ہوئے اس کے سیارے کو ’ این جی ٹی ایس – 1بی‘ نام دیا گیا۔

    یہ ستارہ ایم ٹائپ کیٹاگری کا ہے ۔ اگر اس ستارے کا موازنہ ہمارے سورج سے کیا جائے تو یہ ستارہ ہمارے سورج سے بھی آدھے سائز کا ہے ۔ اس سارے کھیل میں اچنبھے کی بات یہ تھی کہ مشاہداتی کائنات میں اب تک کوئی ایسا سیارہ نہیں مل پایا جو کہ اپنے سورج سے محض پانچ گنا چھوٹا ہو ، اس تحقیق نے سیاروں کی تخلیق کے متعلق بیان کیے گئے مفروضوں کو رد کرتے ہوئے نئے مفروضے کو جنم دیا ہے کہ ایک چھوٹا ستارہ بھی بڑےسیارے کو جنم دے سکتا ہے۔

    سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان*

    سائنسدانوں کے مطابق اس سیارے کی کشش ثقل اس کے ستارے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا ستارہ اپنے محور سے ہٹتا جا رہا ہے ۔ اس کے ستارے کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدان اس سیارے کا ماس معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ سیارہ 986 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہے اور یہ اپنے ستارے کے اتنا قریب ہے کہ اس کا اپنے ستارےسے فاصلہ ،ہمارے سورج اور زمین کے درمیان کے فاصلے کا صرف 3 فیصد ہے (زمین اور سورج کے درمیان کا فاصلہ 15کروڑ کلومیٹر ہے جبکہ اس سیارے کا اپنے ستارے سے فاصلہ محض 45 لاکھ کلومیٹر ہے)یہ سیارہ اپنے سورج کے گرد صرف ڈھائی دن میں چکر مکمل کرلیتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کا ایک سال ڈھائی دنوں پر محیط ہوتا ہے ۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہ سیارہ ’ٹائڈل لاک‘ ہوسکتا ہے ۔ ٹائڈل لاک اس پوزیشن کو کہتے ہیں کہ جب ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے کسی سیارے کا ایک خاص حصہ ہمہ وقت اپنے ستارے کی جانب ہو‘ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے چاند کا ایک خاص حصہ ہمیشہ زمین کی جانب رہتا ہے ۔ اس دریافت کے متعلق سائنسدان پُرجوش ہیں کہ مزید ایسے بےپناہ سیارے ہماری کائنات میں موجود ہوسکتے ہیں جنہیں ہم ایک عرصے سے نظر انداز کرتے آئے ہیں۔

    اسے ایک حیران کُن موقع اس لئے بھی قرار دیا جارہا ہے کہ اس دریافت نے سائنسدانوں کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور اب سائنسدانوں کو سیاروں کی تخلیق کے متعلق مزید تحقیق درکار ہوگی اور ہوسکتا ہے مستقبل میں یہی کھوج ہمیں ٹیبی اسٹار کا معمہ حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین سے ستاروں کا فاصلہ کیسے ناپا جاتا ہے ؟

    زمین سے ستاروں کا فاصلہ کیسے ناپا جاتا ہے ؟

    اگر کبھی آپ کا شہر کی روشنیوں سے پاک کسی صحرائی یا پہاڑی علاقے میں جانا ہوا ہو تو رات کی تاریکی میں آپ نے آسمان کے ہر گوشے کو تاروں سے پٹا ہوا دیکھا ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ایک دوسرے سے بالکل ملے ہوئے ان تاروں کے درمیان کھربوں میل کا خلا پایا جاتا ہے ۔

    اس بات کو یوں سمجھیں کہ سورج کا زمین سے فاصلہ تقریبا نو کروڑ میل ہے ۔ جبکہ سورج کے بعد جو قریب ترین ستارہ پایا جاتا ہے وہ تقریباً 250 کھرب میل کے فاصلے پر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ستاروں کی حیثیت ذروں کی سی ہے اور ان کے درمیان موجود فاصلہ اور خلا ہمارے تصور اور گمان سے کتنا زیادہ ہے ۔


    کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق


     یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر زمین سے سورج اور دیگر ستاروں کے فاصلے کی پیمائش کس طرح کی گئی؟؟ کسی بھی ستار ے کی موجودگی کا پتہ ریڈیو ٹیلی سکوپ کی مدد سے لگایا جاتاہے۔

    پھر اس کے زمین سے فاصلے کو ناپنے کے لیے بہت سی تکینک استعمال ہوتی ہیں جن میں سے ایک "ٹریگنومیٹری پیرالکس” کا طریقہ ہے جو چار سو نوری سال تک کے فاصلے کو ماپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    فاصلہ ناپنے کا تکنیکی طریقہ


    عام فہم زبان میں اس کو سمجھانا چنداں مشکل کام ہے کیوں کے یہ ریاضاتی مس واتوں اور فارمولوں میں مشتمل ہوتا ہے۔ زمین کے سورج کے گرد گردش کا مدار186 ملین میل ہے۔تو جس ستارے کا فاصلہ معلوم کرنا ہو اس کوپہلےدوربین سے دیکھا جاتا پھر اسے دوبارہ چھ مہینے بعد دیکھا جاتا ہے۔

    فلکیات دان اس کے دیکھنے کے زاویہ میں جو تبدیلی ہوتی اس کو نوٹ کر لیتے اور پھر ٹریگنومیٹری کے کلیوں کو استعمال کرتے ہوئیے اس ستارے کا زمین سے فاصلہ نکال لیتے ہیں۔

    چار سو نوری سال سے زیادہ کے فاصلے کو ماپنے کے لیے ڈوپلر افیکٹ کی تکینیک استعمال کی جاتی ہے چھوٹی کلاسوں میں
    اپ پڑھ چکے ہیں کہ سورج کی روشنی جب منشور (تکون شیشہ) سے گزرتی تو سات رنگوں میں بٹ جاتی ان سات رنگوں کی پٹی کو لائٹ سپکیٹرم ہیں۔

    جس ستارے کا فاصلہ معلوم کرنا ہو اس کی روشنی کا سپیکٹرم لیا جاتا ہے‘ جس کے ریڈ شفٹ (ماہر فلکیات رنگوں میں آنے والی ظاہری تبدیلی کو ایک پیمانے پر جانچتے ہیں جسے ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے) اور بلیو شفٹ پہ مشتمل ہوتا جو اس کی آصل چمک کی شدت بیان کر دیتا ہے۔

    اس اصل شدت اور بظاہردوربین میں نظر آنے والی چمک کےمابین موازنہ کر کے ستارے کا زمین سے فاصلہ معلوم کر لیا جاتا ہے
    ڈوپلر ایفکیٹ کائنات کی چابی ہے اور جس شخص نے اسے دریافت کیا جس کا نام ملٹن ہیموسن تھا۔

    زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ کیسے ناپا گیا؟؟


    برطانوی ماہر فلکیات ایڈمنڈ ہیلی نے 1716ء میں خیال پیش کیا تھا کہ زہرہ کے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرنے کے فلکیاتی واقعے کو استعمال کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان بالکل درست فاصلہ ماپا جا سکتا ہے۔ لہٰذا 18 ویں صدی میں اس موقع پر پہلی مرتبہ سائنسدانوں کے درمیان پہلا اور تاریخی سائنسی تعاون دیکھنے میں آیا۔

    قبل ازیں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر 1619ء میں سورج اور زمین کے درمیان فاصلے کو ایک اکائی مقرر کرتے ہوئے نظام شمسی کے دیگر تمام سیاروں کا نسبتی فاصلہ معلوم کر چکے تھے۔ زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی اس اکائی کو ’ایسٹرونومیکل یونٹ‘ کا نام دیا گیا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ کسی کو اس اکائی یا یونٹ کی درست قدر معلوم نہیں تھی، یعنی زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ کیا ہے؟ یہ بات تب تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔

    ہیلی کا فارمولہ


    اس مقصد کے لیے ہیلی نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جس سے یہ فاصلہ معلوم کیا جا سکتا تھا، تاہم اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ زمین کے مختلف حصوں سے زہرہ کے سورج کے سامنے سے گزرنے کے وقت کا بالکل درست دورانیہ معلوم کیا جائے۔

    چونکہ ایسا موقع آنے سے قبل ہی ہیلی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، لہٰذا ماہرین فلکیات نے 1761ء اور 1769ء میں زہرہ کے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرنے کے موقع پر سینکڑوں لوگوں کو اس واقعے کا درست دورانیہ معلوم کرنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں روانہ کیا۔ ان سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بعد ازاں ریاضی کی شاخ ٹریگنومیٹری کے کلیوں کی مدد سے زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کو ماپنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

    یہ مہم دراصل پہلا موقع تھی کہ سائنسدانوں نے عالمی سطح پر مل کر کام کرتے ہوئے ایک مسئلے کا حل معلوم کیا۔ یہی چیز بعد ازاں ایسی سائنسی دریافتوں کے لیے ایک ماڈل بھی ثابت ہوئی۔


    نوٹ: یہ تحریر سائنس کی دنیا نامی فیس بک پیج پر شائع کی گئی تھی‘ یہاں اسے معلوماتِ عامہ کے  فروغ کے جذبے کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔

  • نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی سے خارج شدہ نویں سیارے پلوٹو کی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سیارے کے خوبصورت پہاڑ اور برفیلے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔

    اب سے 11 سال قبل بونے سیارے پلوٹو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ناسا کی جانب سے نیو ہورائزنز (نئے افق) نامی خلائی جہاز کو روانہ کیا گیا۔

    اسی سال پلوٹو سیارے کو اس کی مختصر جسامت کی وجہ سے بونا سیارہ قرار دیا گیا اور اسے باقاعدہ نظام شمسی سے خارج کردیا گیا جس کے بعد اب ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے موجود ہیں۔

    نیو ہورائزنز کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا۔ یاد رہے کہ پلوٹو اور ہماری زمین کے درمیان 4 ارب کلومیٹر سے بھی زائد فاصلہ ہے۔

    جولائی سنہ 2015 میں یہ خلائی جہاز پلوٹو پر پہنچ کر رکا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرتا ہوا مزید آگے چلا گیا۔ اس دوران اس نے پلوٹو کی واضح ترین تصاویر کھینچیں جو اس سے قبل کسی صورت نہ لی جاسکی تھیں۔

    نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کو ناسا نے اب مزید نئی تکنیکوں کے ساتھ جاری کیا ہے۔

    ناسا نے خلائی جہاز کے اس سفر کی باقاعدہ ویڈیو جاری کی ہے جس میں نیو ہورائزنز پلوٹو کے اوپر سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    اس مختصر سفر میں پلوٹو کے برفانی میدان جنہیں اسپٹنک پلینیشیا کہا جاتا ہے، اور کھائی زدہ پہاڑ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    ناسا نے نیو ہورائزنز سے موصول شدہ پلوٹو کے 5 چاندوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں سب سے بڑے چاند کا نام چیرون ہے۔ خلائی جہاز نے چیرون چاند کے اوپر سے بھی اڑان بھری۔

    خلائی ادارے کے مطابق یہ پلوٹو سیارے کی واضح ترین تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں اس سے قبل حاصل کرنا ناممکن تھا۔

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق جانیں

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین اب سندھ کے دیہاتوں کو بجلی فراہم کرے گا

    چین اب سندھ کے دیہاتوں کو بجلی فراہم کرے گا

    کراچی: سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چین کے اشتراک سے سندھ کے پسماندہ علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے سے بجلی کی پیداوار کا پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق چین کے تعاون سے صوبہ سندھ کے دوردراز دیہاتوں میں شمسی توانائی کے ذریعے سے بجلی کی پیداوار کا پروگرام کا آغازکیا جائے گا۔

    اس سلسلے میں وزیراعلی سیکریٹریٹ میں وزیراعلیٰ سندھ اور چینی قونصل جنرل کے درمیان ملاقات ہوئی، مراد علی شاہ اورمسٹر وانگ یو میں بجلی سے محروم سندھ کے پسماندہ علاقوں میں کو بجلی کی سہولت سے مزین کرنے کے لئے دوست ملک چین نے 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے توانائی کی پیداوار کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔

    چینی قونصل جنرل نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے ابتدائی طورپرسندھ کے دیہی علاقوں کے لئے سولر ؤپینل فراہم کرنے کے لئے 80،000 ڈالر کی رقم مختص کی ہے، انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی  ہے کہ ان کی حکومت تکنیکی امور میں بھی مکمل تعاون کرے گی، جبکہ مالی امداد بھی بڑھائی جائے گی۔

    وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس پالیسی سے وہ دیہات جو نیشنل گرڈ سے دور ہیں، انہیں سولر پینل فراہم کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ اس اسکیم میں کوہستان کے علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عرصہ دارز سے سہولیات سے محروم ہیں۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ سندھ کے وہ علاقے جہاں کا موسم گرم اور خشک ہے، شمسی توانائی کا یہ پروگرام وہاں خوشحالی لانے میں معاون ثابت ہوگا۔

  • تعلیم کا فروغ، جنوبی کوریا نے 10 سولر سسٹم اسکول انتظامیہ کے حوالے کردیے

    تعلیم کا فروغ، جنوبی کوریا نے 10 سولر سسٹم اسکول انتظامیہ کے حوالے کردیے

    کراچی: جنوبی  کوریا کی جانب سے پاکستان میں تعلیم عام کرنے کیلئے ایک مہم کے تحت تعلیم اداروں میں نصب کرنے کے لیے دس سولر انرجی سسٹم نجی ادارے کے حوالے کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق  پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کورین کمپنی کے نمائندوں اورکورین ٹریڈ کمیشن کے ڈائریکٹر نے نجی ادارے کو ایک تقریب میں تعلیمی اداروں کے لیے شمسی توانائی سے بجلی بنانے والا سسٹم انتظامیہ کے حوالے کیے۔

    اس موقع پر کوٹرا کے ڈا ئریکٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے لیے مستقبل میں بھی تعلیم کے فروغ کے لیے تعاون جاری رہے گا، ہم پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

    یاد رہے سولر سسٹم شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان جہاں سورج سارا سال اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے یہ سسٹم ملک کے لیے بہت ثود مند ہے۔

    پاکستان جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل عام ہے وہیں اس سسٹم کے نصب کیے جانے سےاس سنگین مسئلے پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

  • ناسا کی خلائی گاڑی جونو  کا مشتری کے مدار میں سفر شروع

    ناسا کی خلائی گاڑی جونو کا مشتری کے مدار میں سفر شروع

    واشنگٹن : ناسا کا نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے کے مشاہدے کے مشن کا آغاز ہوگیا، خلائی گاڑی جونو نے مشتری کے مدار میں سفر شروع کردیا ہے، جس کا مشن نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے کا مشاہدہ کرنا ہے ۔

    jono-1

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ناساکی خلائی گاڑی” جونو“ نے سیارہ مشتری کے گرد سفر شروع کردیا ہے ۔

    امریکی میڈیا کے مطابق خلائی گاڑی جونو کی رفتار 165ہزار میل فی گھنٹہ ہے، باسکٹ بال گراؤنڈ سائز کی یہ گاڑی شمسی توانائی سے چلتی ہے، جس پرا یک ارب دس کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے.

    jono2

    یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا، جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر غوطہ لگا کر ’خودکشی‘ کر لے گا۔

    jono-3

    سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جونو سے لی جانے والی معلومات سے نظام شمسی اورسیاروں کے بارے میں بہت سی نئی اور مفید معلومات سامنے آئیں گے، اگلے چالیس منٹ کے دوران جونو سورج کے گرد چکر لگائے گی، جس سے اسکی بیٹریاں چار ج ہونگی تاکہ اس کا مین انٹینا چلنے لگے جس کے بعد جونو کا رابطہ زمین سے قائم ہو گا۔

    joni-2

    واضح رہے کہ زمین سے 628,743,036 کلومیٹر دور مشتری ایک گیسی سیارہ ہے، جس پر ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی بہتات ہے اور اسے ناکام سورج بھی قراردیا جاتا ہے۔ اس پر تحقیق سے خود ہمارے نظامِ شمسی کو جاننے میں بھی مدد ملے گی۔

  • انسان زمین سے پچاس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پرپہنچ گیا

    انسان زمین سے پچاس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پرپہنچ گیا

    یورپی خلائی ادارے نے زمین سے پچاس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دمدار ستارے پر روبوٹ پہنچادیاہے۔

    سائنسدانوں نے مریخ کے بعد ستاروں پر بھی کھوج کا سلسلہ   شروع کردیا۔یورپی خلائی ادارے نے ’فیلے‘نامی روبوٹ کو دمدار ستارے پر پہچانے کا پہاڑ سرکرلیا۔

    زمین سے پچاس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دمدار ستارے پر روبوٹ دس سال کے عرصے میں پہنچا ہے۔خلائی مہم کا مقصد ساڑھے چار ارب سال قبل نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔

    روبوٹ پر ڈرلز مشینیں، کیمرے اور سینسرز نصب ہیں۔جن کی مدد سے وہ دم دار ستارے کے ماحول، زندگی کے آثار، مائع گیس، اور درجۂ حرارت سمیت مختلف عوامل کا جائزہ لے سکےگا۔سائنسدانوں کے مطابق دمدار ستارے پر روبوٹ کا اترنا انسانیت کے لیے ایک ’بڑا قدم‘ ہے۔