Tag: somoto notice

  • آڈیو لیک پر سوموٹو نوٹس لیا جائے، رانا ثناءاللہ

    آڈیو لیک پر سوموٹو نوٹس لیا جائے، رانا ثناءاللہ

    فیصل آباد : وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ آڈیو لیک میں ہونے والی گفتگو سے ہرپاکستانی تشویش ہے، سوموٹو لے کر اس کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے۔

    فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ گھریلو خواتین پارٹی کے لوگوں کو غداری پراکسائیں گی تو بات تو ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی اس گفتگو سے ہرپاکستانی تشویش میں مبتلاہے، یہ کہنا کہ فلاں یہ کی گفتگو کیوں ٹیپ کی گئی ہےاس کے اثرات ہونگے اگر ایسی گفتگو ہوئی ہے تو اس کے اثرات تو لازمی ہوں گے۔

    وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ گفتگو کے نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے، مطالبہ کرتے ہیں اس کے حقائق جلد سامنے لائے جائیں، ملک میں گروپ بندی اور تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔

    اس گفتگو میں ایک جج سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ آپ یہ فیصلہ کریں میرا مطالبہ ہے کہ اس آڈیو کا سوموٹو نوٹس لے کر اس کا فوری فرانزک آڈٹ کروایا جائے تاکہ قوم کو حقیقت کا علم ہوسکے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ مہنگائی میں سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔

    الیکشن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا ہم الیکشن سے فرار نہیں چاہتے، چاہتے ہیں الیکشن اپنے وقت پر ہوں، جب الیکشن ہوں گے تو ن لیگ کی انتخابی مہم کی قیادت نوازشریف کریں گے۔

  • دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    رواں سال 14 اور 18جنوری کو بالترتیب صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔

    دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے تقریباً ایک ماہ بعد تک دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاریخ نہ دیئے جانے پر 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایک اور بحث نے جنم لیا کہ صدر کو یہ اختیار ہے بھی یا نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، اسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ نے الیکشن کے التواء پر ازخود نوٹس لیا۔

    چیف جسٹس کا از خود نوٹس

    22فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ

    پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جے یو آئی ایف نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ میں شامل دو ججوں، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ججوں کو بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے، جنہوں نے بعد ازاں بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    اس کے بعد سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے مزید دو ججز علیحدہ ہوگئے، 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

    ازخود نوٹس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو پنجاب میں الیکشن انتخابات کیلئے30 اپریل سے7 مئی تک کی تاریخیں تجویز کی تھیں۔

    الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کردیے

    سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر کی جانب سے تاریخیں تجویز کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری کیا اور اس کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم پھر اچانک بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امن و امان کی صورتحال سازگار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے آڈر میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کرسکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست

    الیکشن کمیشن کے اس اقدام کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی، 27مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔

    28مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم - Pakistan - Dawn News

    29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

    30مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بنچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔

    31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تین رکنی ججز کی سماعت کا فیصلہ محفوظ

    اس تین رکنی بینچ نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد 3 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 4 اپریل کو سنایا اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں معمولی ردوبدل کیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت ای سی پی کے وکیل کا ججز سے مکالمہ</h3

    قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عرفان قادر نے کہا کہ پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔

    بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی، عرفان قادر

    اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں؟

    ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2ججز کے نوٹ کیخلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، جواباً چیف جسٹس نے فوری کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

    ون مین شو کس کو کہا گیا ہے؟

    وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا؟ تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا

    ایک موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو نہیں مانا تھا، راجہ پرویز والے معاملے میں خط لکھ کر سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی گئی، نظریہ ضرورت بہت اچھی چیز تھی، ہم تواس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔

    اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل

    کیس کی سماعت کے آغاز میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پر آٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، تاہم بینچ سے متعلق ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔

    اٹارنی جنرل صاحب!! بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہوجائیں گی۔

    پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    نیوی اور ایئر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔

    ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ کا بیان

    مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیانات دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر اعتبار ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض اور دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا بیان

    عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا۔ چیف جسٹس نے ان دریافت کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملیں گے تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔

     سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟چیف جسٹس

    چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔

  • ریسٹورنٹ کے مبینہ زہریلے کھانے سے دو بچوں کی ہلاکت، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

    ریسٹورنٹ کے مبینہ زہریلے کھانے سے دو بچوں کی ہلاکت، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی کے ہوٹل میں مضر صحت کھانا کھانے سے دو بچوں کی اموات کا نوٹس لے لیا، مکمل رپورٹ دس روز میں طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں کھانا کھانے سے دو کمسن بچوں کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

    چیف جسٹس نے حکم جاری کیا ہے کہ بچوں کی ہلاکت پر دس دن میں مکمل رپورٹ پیش کی جائے، انہوں نے اس حوالے سے سندھ فوڈ اتھارٹی اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سے بھی جواب طلب کرلیا ہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔

    واضح رہے کہ کچھ روز قبل کراچی میں واقع ایریزونا گرل ریسٹورنٹ کا کھانا کھانے کے بعد دو بچوں اور ان کی والدہ کی حالت رشویشناک ہوگئی تھی، لیکن اسپتال جا کر دو بچے ڈیڑھ سالہ احمد اور 5 سالہ محمد دوران علاج جاں بحق ہوگئے تھے۔

    مزید پڑھیں : مبینہ طور پر مضرِ صحت کھانا کھانے سے جاں بحق ہونے والے بچے سپردِ خاک

    بعد ازاں بچوں کی نمازِ جنازہ میں ان کے والد احسن اسلم کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا، پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے، اسپتال میں زیرِ علاج والدہ کو بچوں کا آخری دیدار کرایا گیا، متاثرہ خاندان کا دکھ بانٹنے کے لیے سندھ حکومت کا کوئی وزیر یا مشیر جنازے میں شریک نہیں ہوا۔

  • سپریم کورٹ نے دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا، اداروں سے جواب طلب

    سپریم کورٹ نے دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا، اداروں سے جواب طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزارت دفاع، وزارت داخلہ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کو جواب داخل کرانے کا حکم دے دیا، مذہبی جماعت کے دھرنے کے حوالے سے تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔

    تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنے کو ختم نہ کرانے پر سیکرٹری دفاع و داخلہ سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ عوام کے بنیادی حقوق کےلئے کیا اقدامات کئے گئے؟

    سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی چند شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، ریاستی ادارے مفلوج ہوچکےہیں، عوام کو دفاتر، اسکول اورعدالتوں میں جانے میں شدید مشکلات کا سامناہے۔

    ایمبولینس اور مریضوں کو اسپتال جانے کی بھی اجازت نہیں، دھرنے کے باعث آرٹیکل14،15 اور19کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔


    مزید پڑھیں: ختم نبوت سے متعلق تحفظات پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، پیر نظام الدین جامی


    حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دھرنے کے شرکاء گالم گلوچ اورگندی زبان استعمال کر رہےہیں، دھرنے میں استعمال کی گئی زبان کی کون سی شریعت اجازت دیتی ہے، موجودہ صورتحال عوامی اہمیت اورانسانی حقوق کا معاملہ ہے، آرٹیکل15،9اور25اے کے تحت دیئے گئےحقوق سلب کیے جارہے ہیں۔

    عدالت موجودہ صورتحال کے پیش نظر آرٹیکل184(3)کے تحت از خود نوٹس لے رہی ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع، وزارت داخلہ انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی کو بھی جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

  • عوام  کےمفاد اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں ‘ جسٹس امیر ہانی مسلم

    عوام کےمفاد اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں ‘ جسٹس امیر ہانی مسلم

    اسلام آباد: جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی کچھ کالعدم تنظیمیں موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کواس حوالے سے دیکھنا ہوگا.

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں بلوچستان سول اسپتال خودکش حملہ ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، وزارت داخلہ کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ پرجواب جمع کرا دیا گیا، وزارت داخلہ کی کمیشن کی جانب سےجمع شواہد پیش کرنے کی درخواست کی گئی.

    جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوکام تحقیقاتی ادارےکرتےہیں وہ کمیشن نے کیا ہے ، کیونکہ تفتیشی افسرکی تربیت ہوتی ہے وہ ایمانداری سےکام کرتے ہیں.

    ہم عوام کے وسیع تر مفاد میں اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کررہے ہیں، ہمارے علم میں ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی کچھ کالعدم تنظیمیں موجود ہیں انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کواس حوالے سے دیکھنا ہوگا.

    وکیل وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کومن و عن قبول کرتے ہیں تاہم گذارش ہے کہ کمیشن رپورٹ میں وزیرکی جگہ وزارت کا لفظ استعمال کیا جائے.

    جسٹس امیر ہانی مسلم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ شواہد کو دیکھتے ہوئےفیصلہ دیا تو زیادہ سخت ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت ایک شخص کے مفادات کو دیکھے یا قومی مفاد کو؟انہوں نے مزید کہا کہ کوئی حکومت نہیں چاہتی ہے کہ ایسے واقعات ہوں، ہم سمجھتےہیں کہ انسانی غلطی ہوسکتی ہے، ایک شخص تباہی مچاتا ہےاسے پکڑنا آسان کام نہیں ہے.

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت 2ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • قومی اسمبلی : سوموٹومقدمات کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے بل پیش

    قومی اسمبلی : سوموٹومقدمات کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے بل پیش

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے حکومت نے آئین میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہوا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر، نوید قمر کے والد عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی عدیل کی وفات سمیت گڈانی واقعہ میں جاں بحق افراد اور پاک فوج کے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

    اجلاس میں سوموٹو کیسز میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کیلئے حکومت آئینی ترمیم ایوان میں لے آئی ، مذکورہ بل میں عدالت عظمیٰ کےازخود نوٹس پر فیصلہ کے خلاف اپیل کےحق کی تجویز دی گئی ہے۔

    چوبیسویں آئینی ترمیم کا بل وزیرمملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے پیش کیا۔ بل میں ازخود نوٹس کے فیصلے کو لارجر بینچ میں چیلنج کرنےکی تجویز دی گئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق چوبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی کی شق تین میں ترمیم کی جائے گی اور سوموٹو نوٹس کے کیسز کے فیصلے کےخلاف اپیل کا حق حاصل ہوگا اورفیصلے کیخلاف اپیل اپیل لارجر بینچ میں کی جاسکے گی۔

    علاوہ ازیں اجلاس میں وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور بھمبر میں بھارتی فائرنگ کے خلاف خلاف قرارداد پیش کی جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پرمنظور کرلیا۔ قرارداد میں بھمبر میں بھارتی فائرنگ سے شہید ہونے والے 7 جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کی بھی شدید مذمت کی گئی۔