Tag: South Korea

  • جنوبی کوریا : مضبوط جمہوریت آمریت کا راستہ کیسے روکتی ہے؟

    جنوبی کوریا : مضبوط جمہوریت آمریت کا راستہ کیسے روکتی ہے؟

    جنوبی کوریا میں مارشل لاء کے اعلان اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہی شدید عوامی ردعمل کے بعد اس فیصلے کا واپس ہوجانا زندہ قوم اور جمہوریت کی بہتری مثال ہے۔

    ملک میں مارشل لاء کے نفاذ اور بعد میں اس فیصلے کی واپسی کیسے ہوئی اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے تما م صورتحال بیان کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی واقعے کا آغاز 3 دسمبر کو ہوا جب جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ملک میں جمہوریت کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے ماشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے شدید عوامی ردعمل اور پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کیا اور اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے مارشل لا کے خاتمے کا حکم جاری کر دیا۔

    ماشل لاء کے نفاذ سے قبل قوم سے خطاب میں انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف رویے کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ وہ مارشل لا نافذ کر رہے ہیں تاکہ تباہی پھیلانے والے ریاست مخالف عناصر کو کچلا جا سکے، جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

    اور آج آخر کار سابق صدر کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ ان کیخلاف مواخذے کی تحریک بھی کامیاب ہوئی اور انہیں اس عہدے سے علیحدہ کردیا گیا۔

    اس واقعے کے دو محرکات تھے پہلا یہ کہ فیصلے کیخلاف عوام بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئے، اور سڑکوں پر آکر یہ حکومت کو پیغام دیا کہ کسی بھی قاسم کی آمریت کو قبول نہیں کریں گے۔

    دوسری جانب سیاستدانوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا صدارتی تقریر سننے کے بعد وہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے فوری طور پر پارلیمنٹ پہنچے اور ووٹ کا حق استعمال کرکے اس اقدام کا رستہ روکا۔

    اس بعد دنیا نے دیکھا کہ کس طرح فوج پیچھے ہٹی اور صدر کو مارشل لاء کا فیصلہ واپس لینا پڑا، یہی نہیں 7 دسمبر کو صدر نے قوم سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ لیکن ان کا معافی مانگنا کافی نہیں تھا جس کے بعد ان کا مواخذہ کرنے کی تحریک شروع کی گئی۔

    پہلی بار یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی جس کے بعد صدر یون سک یول نے 12 دسمبر کو ایک بار پھر مارشل لاء کے نفاذ کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔ لیکن آج ان ہی کی جماعت کے ووٹ سے ان کا مواخذہ ہوگیا۔اس تمام صورت حال میں دس دن لگے۔

    مواخذے کی تحریک

    جموبی کوریا کی پارلیمنٹ نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی ناکام کوشش کرنے والے صدر کیخلاف مواخذے کے حق میں فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے 300قانون سازوں میں سے 204 اراکین نے مواخذے کے حق میں جبکہ 85 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق ووٹنگ کے بعد صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اور اب آئینی عدالت اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے جبکہ جنوبی کوریا کے وزیر اعظم کو قائم مقام صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔

    اگر آئینی عدالت ان کی برطرفی کی حمایت کرتی ہے تو سابق صدر یون سک یول جنوبی کوریا کی تاریخ کے دوسرے صدر بن جائیں گے جو مواخذے کا شکار ہوں گے۔

    اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رائے دہی کے وقت پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر تقریباً دو لاکھ شہری جمع ہوگئے اور وہ بھی سابق صدر کے مواخذے کی حق میں شدید نعرے بازی کررہے تھے۔

    اس کے برعکس اسی مقام پر سابق صدر کے حق میں نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء کی تعداد 30ہزار کے لگ بھگ بتائی جارہی ہے۔

    جمعے کے روز جاری ہونے والے گیلپ کوریا کے سروے کے مطابق سابق صدر کی پسندیدگی کی ریٹنگ 11فیصد تک گرگئی تھی۔ سروے کے نتائج کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے 75فیصد عوام ان کے مواخذے کی حمایت کرتے ہیں۔

    جنوبی کوریا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سئول کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جشن منا رہے ہیں۔ آئینی عدالت کے پاس مواخذے پر فیصلہ دینے کے لیے اب 6 ماہ کا وقت ہے۔

  • جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی

    جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی

    سئول: جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مارشل لا میں ملوث جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک پر ووٹنگ کامیاب ہو گئی، صدر کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا۔

    اب عدالت فیصلہ کرے گی کہ صدر کو عہدے سے ہٹایا جائے یا نہیں، صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کے حق میں 300 اراکین میں سے 204 ارکان نے ووٹ دیے۔

    جنوبی کوریا کی حکمران جماعت کے پارلیمنٹیرینز نے صدر کے خلاف مواخذے پر ووٹ دینے کے لیے اتفاق کر لیا تھا، مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے والے جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف تقریباً 2 لاکھ سے زائد مظاہرین دارالحکومت سئول میں پارلیمنٹ بلڈنگ کے باہر مظاہرے میں شریک ہوئے۔

    جنوبی کوریا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سئول کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جشن منا رہے ہیں۔ وزیر اعظم قائم مقام صدر کے طور پر کام کریں گے، جب کہ آئینی عدالت کے پاس مواخذے پر فیصلہ دینے کے لیے اب 6 ماہ کا وقت ہے۔

    روس نے فرار کے وقت بشار الاسد کے طیارے کو حملے سے بچانے کے لیے کیا کیا؟

    یون سک یول نے مختصر مدت کے مارشل لا کے اعلان کے ساتھ ملک کو سیاسی بحران میں ڈال دیا تھا، گزشتہ ہفتے کے آخر میں مواخذے کی ووٹنگ سے وہ بچ گئے تھے، ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن وہ اقتدار سے چمٹے رہے، یون اور ان کے اتحادی اس وقت بغاوت کے الزامات کے تحت زیر تفتیش ہیں، اور ان میں سے کئی پر سفری پابندی عائد کی گئی ہے۔

  • جنوبی کوریا کے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ گئی

    جنوبی کوریا کے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ گئی

    سئول: جنوبی کوریا نے اپنے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول پر مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش پر ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جنوبی کوریا میں قیادت کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور صدر سے استعفے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    وزارت انصاف کے حکام نے بتایا کہ مارشل لانافذ کرنے پر صدر یون سک یول پر غیر ملکی سفر پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا، جس پر فوری عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔

    حکمران پارٹی پی پی پی نے صدر یون سک یول سے خارجہ اور دیگر ریاستی امور کے اختیارات چھین کر وزیر اعظم کو تفویض کر دیے ہیں، کورین صدر کے خلاف غیر آئینی اقدام پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

    جنوبی کوریا کے وزیر دفاع گرفتار

    ہفتے کے روز صدر کے مواخذے کے لیے ووٹنگ ہو رہی تھی تاہم یون کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) نے ووٹنگ سے قبل چیمبر سے واک آؤٹ کر لیا، تحریک ناکام ہونے کے بعد ان پر بغاوت کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا گیا۔

    پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے کہا کہ یون کو خارجہ اور دیگر ریاستی امور سے باہر رکھا جائے گا، اور وزیر اعظم ہان ڈک سو اس وقت تک حکومتی امور کو دیکھیں گے جب تک یون آخر کار ایک طرف نہیں ہٹ جاتے۔ صدارتی اختیار وزیر اعظم کو سونپنے کے فیصلے نے ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔

  • جنوبی کوریا کی خوبصورت خاتون اوّل کے بارے میں‌ انکشاف

    جنوبی کوریا کی خوبصورت خاتون اوّل کے بارے میں‌ انکشاف

    سئول: آخر کار جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے، ایسے میں خاتونِ اوّل کا تذکرہ بھی میڈیا رپورٹس کی زینت بننے لگا ہے، اور صدر مملکت کی اہلیہ ’کِم کیون ہی‘ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہی مارشل لا کا اعلان کے پیچھے اصل محرک ہے۔

    کم کیون ہی اپنے پُر تعیش طرز زندگی کے لیے جانی جاتی ہیں، وہ یانگ پیونگ شہر میں پیدا ہوئیں، اور ان کا ابتدائی نام ’کم میونگ سی‘ تھا، لیکن بعد میں انھوں نے 2008 میں اپنا نام بدل کر کم کیون ہی رکھ لیا۔

    کِم کیون ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکی ہیں، 2019 میں ان پر ٹیکس ادا نہ کرنے کے الزامات لگے، وہ آرٹ کی نمائشوں کی میزبانی کے لیے رشوت وصول کرنے کے الزام میں بھی زیر تفتیش رہیں، 2021 میں معلوم ہوا کہ انھوں نے 2007 اور 2013 کے درمیان تدریسی ملازمتوں کے لیے درخواست دیتے ہوئے اپنے سی وی میں غلط معلومات درج کیں، جس پر بعد میں انھوں نے عوامی طور پر معافی مانگی۔

    خاتون اوّل اسٹاک ہیرا پھیری کے تنازع میں بھی الجھی رہیں، ان پر الزام لگا کہ وہ ڈوئچے موٹرز کے ساتھ 63.6 بلین وان اسٹاک ہیرا پھیری میں شریک تھیں، تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے خلاف ناکافی ثبوت تھے۔

    مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں اکثر ’کم کیون رِسک‘ بھی کہا جاتا ہے، یعنی یہ کہ ان تنازعات کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان کی والدہ چوئی یون سن کو رئیل اسٹیٹ فراڈ ثابت ہونے پر 2023 میں ایک سال کی سزا سنائی گئی، جب کہ 2013 سے 2015 تک میڈیکل لائسنس کے بغیر نرسنگ ہوم چلانے کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔

    2022 میں جب خاتون اوّل 30 لاکھ وان مالیت کے کرسچن ڈائر بیگ کا تحفہ قبول کر رہی تھیں، تو خفیہ طور پر ان کی تصویر کھینچی گئی، جس نے عوامی حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔

  • عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    سئول: جنوبی کوریا کے صدر یون سُک یول نے ملک میں مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگ لی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں صدر یون سُک یول نے مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا۔

    انھوں نے کہا مارشل لا مایوسی کے باعث لگایا، اس فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں، مجھے افسوس ہے کہ میرے اقدام سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہوا۔ صدر نے کہا ’’میں مارشل لا کے اعلان سے متعلق اقدامات کی سیاسی اور قانونی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہیں کروں گا۔‘‘

    یون نے کہا ’’میں اپنے عمل کے لیے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں، اور میں سیدھے الفاظ میں کہوں گا کہ دوسرے مارشل لا جیسی کوئی صورت حال نہیں ہوگی۔‘‘

    مارشل لا کیوں لگایا؟ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف پولیس نے بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی

    تاہم معافی مانگنے کے باوجود انھوں نے عہدے سے استعفی نہیں دیا، جس پر عوام نے صدر کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    دارالحکومت سئول میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صدر یون سے فوری استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں، دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے آج پارلیمنٹ میں جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ ہوگی۔

    یاد رہے کہ 3 دسمبر کو جنوبی کوریا کے صدر نے ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا، جس پر عوام کے احتجاج کے بعد 2 گھنٹے میں فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

  • مارشل لا کیوں لگایا؟ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف پولیس نے بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی

    مارشل لا کیوں لگایا؟ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف پولیس نے بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی

    سئول: جنوبی کوریا میں پولیس نے بغاوت کے جرم میں صدر یون سک یول کے خلاف تحقیقات شروع کر دی۔

    غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف پولیس تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے ہفتے کو صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

    مارشل لا کے اعلان پر شدید ناراضی کے باوجود حکمراں جماعت پیپلز پاور پارٹی نے مواخذے کی تحریک کی مخالفت میں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے، اس دوران صدر یون سک یول کو مارشل لگانے کی تجویز دینے والے وزیر دفاع کِم یونگ ہیئن کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔

    کم یونگ کی جگہ فوج کے ایک سابق جنرل کو ملک کا نیا وزیر دفاع نامزد کر دیا گیا ہے، جنوبی کوریا کے آرمی چیف نے بھی مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے۔

    جنوبی کوریا میں مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ واپس، عوام کا شدید احتجاج

    یاد رہے کہ صدر یون سک یول نے منگل کو ملک میں اچانک مارشل لا لگانے کا اعلان کر دیا تھا، تاہم انھوں نے فوج اور شہریوں کی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

  • جنوبی کوریا میں مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ واپس، عوام کا شدید احتجاج

    جنوبی کوریا میں مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ واپس، عوام کا شدید احتجاج

    سیئول : جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ واپس لے لیا، پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد جنوبی کوریا میں مارشل لا کالعدم ہوگیا تھا۔

    خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر صدر یون سوک یول نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے مارشل لا کا اعلان کیا تھا۔

    مارشل لا کے اعلان کے خلاف چند گھنٹوں بعد ہی ارکان پارلیمنٹ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ایوان میں پہنچے اور مارشل لا کے خلاف قرار داد منظور کی، قرارداد میں 190ارکان نے ووٹ دیا۔

    قبل ازیں جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کو مسترد کردیا گیا اور پارلیمنٹ کے باہر عوام کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صدر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

    جنوبی کوریا کے قانون کے مطابق اگر پارلیمنٹ اکثریت کے ساتھ ووٹ کے ذریعے مارشل کے اقدام کو مسترد کرے تو صدر کو فوری طور پر مارشل ختم کرنا ہوتا ہے۔

  • جنوبی کوریا، برف باری کا 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    جنوبی کوریا، برف باری کا 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    سیئول: جنوبی کوریا میں نظام زندگی منجمد ہو گیا ہے، ماہِ نومبر کے دوران برف باری کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا میں نومبر کے دوران برفباری کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، دارالحکومت سیئول ونٹر لینڈ میں تبدیل ہو گیا، اور مشرقی ہائی ویز پر ٹریفک حادثات میں 2 افراد ہلاک، جب کہ عمارتوں اور تعمیراتی سائٹس سے گرنے والے ملبے سے 10 راہ گیر زخمی ہو گئے۔

    رن وے برف میں چھپ گیا، دو سو زائد پروازیں منسوخ اور تاخیر کا شکار ہو گئیں، ٹرین کا پہیہ بھی جام ہو گیا، 90 فیری سروسز معطل ہو گئیں، اور بجلی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی۔

    محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں مزید برف باری کے خدشے کے پیشِ نظر الرٹ جاری کر دیا ہے، اب تک 6.5 انچ تک برف پڑ چکی ہے، سیئول میں 1972 کے بعد یہ سب سے زیادہ برف باری ہے، 4.9 انچ برف پڑی تھی۔

  • اسرائیلی سفارت خانے پر دھاوا، توڑ پھوڑ

    اسرائیلی سفارت خانے پر دھاوا، توڑ پھوڑ

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں اسرائیلی سفارت خانے پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا، عمارت کے اندر داخل ہوگئے۔

    عرب میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ نے نا معلوم افراد کی جانب سے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں اسرائیلی سفارت خانے پر دھاوا بولنے کی تصدیق کردی ہے۔

    اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق نامعلوم افراد سیؤل میں سفارتخانے کی چھٹی کے دن حملہ آور ہوئے، اس دوران انہوں نے سفارتخانے کی املاک کو نقصان پہنچایا۔

    رپورٹس کے مطابق واقعے میں کسی بھی سفارتی عملے کو نقصان نہیں پہنچا کیونکہ یہودیوں کے مذہبی تہوار کی مناسبت سے سفارت خانہ بند تھا۔

    دوسری جانب اسرائیلی فوج نے انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہوئے غزہ کے اسپتالوں پر وحشیانہ بمباری کر دی جب کہ علاج میں مصروف ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حراست میں لے لیا۔

    شمالی غزہ کے محاصرے کے دوران اسرائیلی فوج نے کمال عدوان پر براہ راست بمباری کی اور شہریوں کا قتل عام کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے اسپتال میں داخل ہو کر سرجنز اور ڈاکٹرز کو پکڑ لیا۔

    ڈائریکٹراسپتال کے مطابق اسپتال میں موجود زخمیوں کی سرجریز رک گئی کیونکہ ڈاکٹرز نہیں، 15 سے زائد ایسے کیسز ہیں جن کی فوری سرجری کی ضرورت ہے۔

    اسرائیلی فوج نے انتہائی نگہداشت یونٹ کو نقصان پہنچایا اور اسپتال کے اطراف میں 2 گھنٹے تک بمباری کی۔ اسرائیل فوج نے اسپتال کے اطراف بمباری کر کے عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔

    کمال عدوان اسپتال کے اطراف ملبے کے ڈھیر کی وجہ سے تمام راستے بند ہو گئے۔ ترجمان سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ کمال عدوان اسپتال کے اطراف لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اسرائیلی ڈرون نیپانی کی قلت کیلئیاسپتال اوراطراف میں واٹرٹینکس کو تباہ کر دیا۔

    شمالی غزہ میں گزشتہ 20 دن سیجاری محاصرے میں 820 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتیاسرائیل نیجبالیہ میں العودہ اسپتال پر بمباری کی جب کہ بیت لاہیہ میں انڈونیشی اسپتالوں پربھی گولہ باری کی گئی تھی۔

    ٹرمپ کا تارکین وطن کیخلاف خطرناک منصوبہ

    خبر ایجنسی کے مطابق غزہ النصیرات اسکول پر اسرائیلی حملے میں شہید افراد کی تعداد 17 ہو گئی اور درجنوں زخمی ہیں۔ حملے کے شہدا میں بچے بھی شامل ہیں۔

  • جنوبی کوریا : زیادہ بچوں کو جنم دینے والی 2 خواتین کیلئے حکومت کا اہم فیصلہ

    جنوبی کوریا : زیادہ بچوں کو جنم دینے والی 2 خواتین کیلئے حکومت کا اہم فیصلہ

    سیئول : جنوبی کوریا میں 13 بچوں کو جنم دینے والی دو خواتین کو بڑے اعزازات سے نوازا گیا ہے، ان میں سے ایک نام معروف اداکارہ ’بو را‘ کی والدہ کا بھی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شرح پیدائش میں تیزی سے کمی کا سامنا کرنے والے ملک جنوبی کوریا کی وزارت صحت اور فلاح و بہبود کی جانب سے دو خواتین کو 13، 13بچے جنم دینے پر اعلیٰ حکومتی ایوارڈز دیے گئے ہیں۔

    جنوبی کوریا حکومت کی جانب سے ’سویلین سروس میڈل‘ ان شہریوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم یا اکادمی میں بھرپور کردار ادا کیا ہو۔

     pregnant women

    پہلی ایوارڈ یافتہ خاتون 60 سالہ مسز اوم گیے-سُک کو "سونگنیُو میڈل” سے نوازا گیا جو کہ شہری خدمات کے شعبے میں پانچویں درجے کا اعزاز ہے اور یہ ملک کی مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات پر دیا جاتا ہے۔

    مسز اوم گیے-سُک نے 1986 سے 2007 کے درمیان پانچ بیٹوں اور آٹھ بیٹیوں کو جنم دیا۔ 10 اکتوبر کو سیئول کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایوارڈ تقریب میں جو کہ 19ویں سالانہ حاملہ خواتین کے دن کے موقع پر ہوئی، انہوں نے اپنی زندگی کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال سے زائد عرصے کے دوران حمل اور ولادت کی مشکلات کے باوجود، مجھے اپنے بچوں کی وجہ سے مشکلات نہیں بلکہ خوشیاں زیادہ ملی ہیں۔

    دوسری ایوارڈ یافتہ خاتون 59 سالہ مسز لی یئونگ-می کو بھی ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں اعزازی میڈل دیا گیا۔ انہوں نے 23 سے 44 سال کی عمر کے درمیان 13 بچوں کو جنم دیا اور ان کی بہترین تربیت کی اور آج وہ مختلف شعبہ جات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

    خاص طور پر ان کی بیٹی نام بو-را ایک مشہور فلمی اداکارہ ہیں جبکہ ان کے دیگر بچوں میں ایک آرٹسٹ، ایک بینک ملازم، ایک محقق اور ایک ڈینٹل ہائجینسٹ ہیں، جبکہ سب سے چھوٹا بچہ ابھی مڈل اسکول میں زیر تعلیم ہے۔

    South Korea

    یاد رہے کہ جنوبی کوریا دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں شرح پیدائش بہت کم ہے اور تیزی سے گرتی ہوئی شرح پیدائش سے نبرد آزما ملک اپنے عوام میں بچوں کی پیدائش سے متعلق حوصلہ افزائی کیلیے مختلف پروگرامز متعارف کرا رہا ہے۔ یہ ایوارڈ تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    گزشتہ سال 2022 میں جنوبی کوریا میں شرح پیدائش کم ترین سطح 0.78 تک پہنچ گئی تھی جو کہ عالمی سطح پر سب سے کم تھی۔