Tag: Space Junk

  • خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے میں خلا میں ہونے والی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے، تاہم اب خلا میں موجود کچرا زمین کے سمندروں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

    بین االاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور خلا میں کی جانے والی کمرشل سرگرمیوں نے دنیا بھر کے سمندروں کو زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ خلائی آلودگی کے خطرے سے بھی دو چار کردیا ہے۔

    انسانوں کی خلا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے وہاں خلائی کچرے کی مقدار میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، خلا میں ناکارہ ہونے والے بڑے جہاز، راکٹ اور دیگر ملبے کے لیے زمین پر پہلے ہی آلودگی کے شکار سمندروں کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

    روس گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پیدا ہونے والے ٹنوں وزنی ملبے کو بحرالکاہل میں ڈبو رہا ہے۔

    لیکن یہ معاملہ صرف روس یا بحر الکاہل تک ہی محدود نہیں ہے، ماضی میں روس کے خلائی اسٹیشن اور چین کے تیانگ گونگ ون کی زندگی کا اختتام بھی سمندر کے پانیوں میں کیا گیا۔

    اسی طرح 1979 میں امریکا کا تجرباتی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب بھی ٹکڑوں کی شکل میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر بکھر گیا تھا۔ آنے والے چند سالوں میں خلائی کچرے کا ایک اور بڑا ٹکڑا زمین پر واپس آنے والا ہے۔

    سائنس دان 2030 میں اپنی عمر تمام کرنے والے 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں اس جگہ گرانے کی تیاری کر رہے ہیں جسے پوائنٹ نیمو کے نام سے جاتا ہے۔

    یہ دنیا کا سب سے غیر آباد اور ناقابل رسائی علاقہ تصور کیا جاتاہے، اس جگہ سے قریب ترین سمندری حصہ بھی 1450 ناٹیکل میل (2 ہزار 685 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔

  • خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلا میں اس وقت تباہ شدہ راکٹس اور سیٹلائٹس کا ملبہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے ہی ایک راکٹ کا ٹکڑا چاند کی سطح سے جا ٹکرایا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناسا کا کہنا ہے کہ خلا میں گھومتے بے قابو راکٹ کا ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا ہے۔

    سائنس دانوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خلا میں کئی سالوں سے زیر گردش ناکارہ راکٹ کا تین ٹن وزنی ٹکڑا چاند کے اس حصے سے ٹکرا گیا ہے جو کہ خلائی دوربین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    اس حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس تصادم میں چاند پر بہت معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس سے چاند کی سطح پر چھوٹا گڑھا بننے سے گرد و غبار کے بادل پیدا ہوئے ہوں۔

    تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دنوں یا ہفتوں میں سامنے آجائیں گی۔

    سائنس داں اس راکٹ کے ٹکڑے کو کئی سالوں سے ٹریک کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس سے ہے لیکن بعد میں اس کا تعلق چین کے کسی راکٹ سے جوڑا گیا تھا جس پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بھی سامنے آئی۔

    ناسا کے مطابق راکٹ کے اس حصے کو مارچ 2015 میں ناسا کی جانب سے ریاست ایری زونا میں ہونے والے اس سروے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں سائنس دانوں کی اس میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیوں کہ وہ ابتدا میں اسے شہاب ثاقب سمجھ رہے تھے۔ اس وقت اسے خلائی کچرا تصور کیا گیا تھا۔

    خلائی کچرا اس وقت ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک محتاط اندازے کے مطابق خلا میں زیر گردش کچرے میں 36 ہزار 500 ٹکڑے جسامت میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی بڑے ہیں۔

    جبکہ اس کچرے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خلائی پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ یہ بہت مہنگا کام ہے۔