Tag: space

  • خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    سائنسدانوں کو موصول ہونے والے پراسرار سگنلز کے بارے میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ ہر 16 روز بعد باقاعدگی سے موصول ہو رہے ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق یہ پراسرار سگنلز کینیڈا میں نصب ٹیلی اسکوپ کو موصول ہو رہے ہیں اور ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں البتہ اب انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ سگنلز ہر 16 دن بعد موصول ہورہے ہیں۔

    ٹیلی اسکوپ پر موصول ہونے والی یہ لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ سگنل تواتر سے موصول ہوتے رہیں اور اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ یہ سگنلز کیا ہیں۔

  • کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    برلن: تاریخ میں پہلی بار خلا میں بچوں کی زچگی کے مشن پر کام شروع ہوگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ بارہ سال کے اندر اندر خلا میں بچے کی پیدائش کا عمل ممکن ہوسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں بچے پیدا کرنے کے مشن پر کام شروع کردیا گیا ہے، حاملہ خواتین کو 24 سے 36 گھنٹے کے مشن پر مدار میں قائم خلائی اسٹیشن پر روانہ کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی میں قائم ’اسپیس بورن‘ کے چیئرمین ڈاکٹر ایلبرٹ کا کہنا ہے کہ 2031 تک خواتین خلا میں بچے جن سکیں گی، جس کا مقصد خلا میں انسانی آبادی کے تصور پر تحقیق کرنا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ماہرین جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس مشن پر تحقیق کررہے ہیں، تجربے کے لیے ایک کے بجائے درجنوں حاملہ خواتین کو میڈکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کے ہمراہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    ڈاکٹر ایلبرٹ نے کہا کہ مشن کے پہلے مرحلے میں زمین کے سب سے نچلے مداد پر زچگی کا عمل یقینی بنایا جائے گا، اور یہ مشن کسی بھی قسم کے بڑے خطرے سے محفوظ ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ خلا میں صرف بچے کی زچگی پر کام کررہے ہیں، موسم کے حالات اور مداد کے گرد کشش ثقل کو مدنظر رکھتے ہوئے 2031 سے پہلے مشن کو تجربے کے لیے روانہ کیا جائے گا۔

  • بلیک ہول  کا پُراسرار  زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    بلیک ہول کا پُراسرار زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    لندن: برطانوی ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی تصویر پہلی بار حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے گرد پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی ایسی بے مثال مختصر ویڈیو حاصل کی ہے جسے انسانی آنکھ نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سولر سسٹم میں موجود بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کے ذریعے ماہرین فلکیات ایک اور اہم راز سے روشناس ہوئے۔

    برطانیہ میں واقع ’ساؤت امٹن‘ یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق میں خطریر رقم خرچ ہوئی ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے لیز کیمروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ شعاعوں کا یہ عمل بیلک ہول میں موجود گریوٹی اور میگنٹک فیلڈ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے کیناری جزیرے سے اپنا تحقیقی ٹیلی اسکوپ استعمال کیا تاہم تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے انہوں نے عالمی ادارے ناسا سے مدد حاصل کی۔

    بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جس بلیک ہول پر شعاعیں نکل رہی ہیں اس کا وزن تقریباً سورج سے زیادہ 7 گنا زیادہ ہے، لیکن حجم کے لحاظ سے برطانوی شہر لندن سے بھی چھوٹا ہے۔

    خیال رہے کہ 10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

  • بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کا چاند پر اترنے کا خلائی مشن چندریان 2 بھی ناکام ہوگیا، خلائی جہاز کا رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا جب وہ چند ہی لمحے بعد چاند کی سطح پر لینڈ کرنے والا تھا۔

    بھارتی خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا کہنا ہے کہ چندریان 2 چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کرنے جاہا تھا تاہم لینڈنگ سے چند ہی لمحے قبل زمینی مرکز سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

    لینڈنگ سے قبل اسرو کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ چاند پر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل زمین پر موجود سائنسدانوں کا اس خلائی مشن میں کردار ختم ہوجائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو جہاز خود کار طریقے سے چاند پر لینڈ کر جائے گا، وگرنہ وہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔

    تاحال اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوسکیں چنانچہ توقع کی جارہی ہے کہ خلائی جہاز تباہ ہوچکا ہے۔

    مشن کی ناکامی کے بعد بھارتی صدر نریندر مودی اسرو پہنچے جہاں انہوں نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع مزید آئیں گے۔

    چندریان 2 کو 22 جولائی کو زمین سے لانچ کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد 20 اگست کو یہ چاند کے مدار میں داخل ہوگیا تھا۔

    بھارت نے اس مشن کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کیا تھا۔ اس کا وزن 640 ٹن ہے (جو کہ کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا ہے) اور اس کی لمبائی 44 میٹر ہے جو کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔

    اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 2.379 کلو ہے اور اس کے تین واضح مختلف حصے ہیں جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ آربیٹر، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ لینڈر، اور سطح پر گھومنے والا حصہ روور شامل تھا۔

    اگر بھارت کا یہ مشن کامیاب ہوجاتا تو وہ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین کے بعد چاند کی سطح پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔ مشن کی کامیابی کی صورت میں ایک اور تاریخ بھارت کی منتظر تھی، بھارتی خلائی جہاز چاند کے اس حصے پر لینڈ کرنے جارہا تھا جہاں آج تک کوئی نہیں گیا۔

    بھارت کا اس مشن کو بھیجنے کا مقصد ایک طرف تو خلائی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا تھا، تو دوسری طرف چاند کی سطح پر تحقیقات کرنا بھی تھا۔ خلائی مشن پانی اور معدنیات کی تلاش کا کام کرنے والا تھا جبکہ چاند پر آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جانی تھی۔

    چاند کے مدار میں گردش کرنے والے حصے کی زندگی ایک سال کی تھی جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے والا تھا، اس کے ساتھ وہ وہاں کی مہین ماحول کو سونگھنے کی کوشش بھی کرنے والا تھا۔

    چاند کی سطح پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ’وکرم‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا وزن نصف تھا اور اس کے بطن میں 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی تھی جس پر ایسے آلات نصب کیے گئے تھے جو چاند کی سرزمین کی جانچ کر سکتے۔

    اس حصے کی زندگی صرف 14 دن تھی اور اس کا نام ’پراگیان‘ رکھا گیا تھا جس کا مطلب دانشمندی ہے۔

    بھارت اس سے پہلے سنہ 2008 میں ایک اور خلائی مشن چندریان 1 چاند کی طرف روانہ کرچکا ہے۔ وہ خلائی جہاز بھی چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا لیکن اس نے ریڈار کی مدد سے چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلی اور سب سے تفصیلی دریافت کی تھی۔

  • ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    چاند پر قدم رکھنا انسان کا وہ خواب تھا جو ہزاروں سال سے شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب پہلے انسان نے چاند پر قدم رکھا تو یہ انسانی ترقی و ارتقا کا ایک نیا باب قرار پایا۔

    اب بہت جلد ایک خاتون کو بھی چاند کی طرف بھیجا جانے والا ہے، امریکی خلائی ادارہ ناسا اس خلائی منصوبے پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ سنہ 2024 میں پہلی خاتون کو چاند پر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    اس منصوبے میں ایک خاتون انجینیئر ہیتھر پال بھی شامل ہیں، پال گزشتہ 25 برسوں سے ناسا سے منسلک ہیں اور فی الوقت وہ اس اسپیس کرافٹ پر کام کر رہی ہیں جو پہلی خاتون کو چاند پر لے کر جانے والا ہے۔

    پال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں انہوں نے بہت سے رجحانات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین آرہی ہیں اور انہیں مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

    چاند پر واپسی کے اس سفر کو قدیم یونان کے چاند کے معبود ’ارٹمیس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارٹمیس دیوی، اپالو کی جڑواں بہن تھی اور اپالو اس خلائی مشن کا نام رکھا گیا جو پہلے انسان کو چاند کی طرف لے کر گیا۔

    اس مشن کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں ایک اور تاریخ رقم کی جاسکے۔

  • انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان ایک طرف تو آسمانوں کی وسعت کو چیر کر خلا کو تسخیر کر رہا ہے اور نئے سیاروں پر پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب اپنی سرشت کے ہاتھوں بھی مجبور ہے، یہی وجہ ہے کہ خلا میں کیا جانے والا پہلا جرم بھی سامنے آگیا۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی خلا باز این مک کلین خلا میں اپنے قیام کے دوران ایک جرم کی مرتکب ہوئی ہیں جس کی جلد تحقیقات شروع کردی جائیں گی۔

    این کی ساتھی سمر وورڈن نے الزام لگایا ہے کہ این نے اپنے خلائی قیام کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    اس ہم جنس پرست جوڑے نے سنہ 2014 میں شادی کی تھی، ان کا ایک بچہ بھی ہے جسے این مک کلین خلائی سفر پر جانے سے قبل اپنے ساتھ ناسا کے دفتر لائی تھیں اور اس کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی کروایا تھا۔

    تاہم سمر وورڈن کی شکایت کے بعد اس فوٹو سیشن کو ہٹا دیا گیا۔ یہ دونوں خواتین اپنی شادی کے خاتمے کے لیے قانونی مراحل طے کر رہی ہیں اور بچے کی حوالگی کے لیے بھی ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

    سمر وورڈن جو خود بھی ایک سابق ایئر فورس اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد انہوں نے بینک انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس مقام کے بارے میں بتائیں جہاں سے ان کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔

    انہیں بتایا گیا کہ اس کام کے لیے استعمال کیا جانے والا کمپیوٹر نیٹ ورک امریکی خلائی ادارے ناسا میں رجسٹرڈ ہے جس کے بعد سمر نے نہ صرف پولیس میں رپورٹ درج کروائی بلکہ ناسا میں بھی باضابطہ طور پر اپنی شکایت جمع کروائی۔

    دوسری جانب این نے ان الزمات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک مشکل مرحلے سے گزر رہی ہیں جب انہیں اپنی شادی ختم کرنی پڑ رہی ہے۔

    این مک کلین نے رواں برس اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کرلی تھی جب ان کے خلائی سفر کا اعلان کیا گیا تھا۔ این کو ایک اور خاتون خلا باز کے ساتھ خلائی چہل قدمی (اسپیس واک) کرنی تھی، اور زمین سے ان کی معاونت بھی ایک خاتون خلا باز کرسٹین فیکول کو کرنی تھی جس کے بعد یہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم ہوتی جو خلائی چہل قدمی انجام دیتی۔

    مزید پڑھیں: خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    تاہم ناسا کو اس وقت شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ عین موقع پر خواتین خلا بازوں کو ان کے مناسب سائز کے خلائی لباس فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مجبوراً ناسا کو خلائی چہل قدمی منسوخ کرنی پڑی۔

    این کا جرم سامنے آنے کے بعد اب ناسا کے تفتیش کار مائیکل متایا نے کیس کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اگر جرم ثابت ہوگیا تو این کو مروجہ قوانین کے تحت سزا تو ہوسکتی ہے، تاہم جرم کا خلا سے ہونا اس کیس میں اہم موڑ اور پیچیدگی لا سکتا ہے۔

  • روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں بھیج دیا

    روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں بھیج دیا

    ماسکو : روس نے انسان نما روبوٹ فیڈور کو خلاف میں بھیج دیاجو 10روز تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود رہے گا، جس سے خلا بازوں کو تحقیق میں مدد ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق انسان نما روبوٹ ایک ایسے راکٹ کے ذریعے بھیجا گیا ہے جس میں کوئی انسان سوار نہیں جبکہ روبوٹ 10روز تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود رہے گا،روبوٹ سے خلا بازوں کو تحقیق میں مدد ملے گی۔

    اس روبوٹ کو یفیڈوری کا نام دیا گیا ہے جو فائنل ایکسپیریمنٹ ڈیمانسٹریشن آبجیکٹ ریسرچ کے الفاظ کا مخفف ہے،یہ پہلا موقع ہے کہ جب روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں روانہ کیا ہے۔

    روسی خلائی ایجنسی کے ڈائریکٹر ایلگزینڈر بلاسفینکو نے راکٹ کی لانچنگ کے وقت ہونے والی تقریب کے دوران ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ روبوٹ کو بجلی کی تاروں سے کنکٹ بھی کیا جاسکتا ہے اور بغیر کنکشن کے بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ فیڈر کا قد ایک انسان کی مانند 5 فٹ 11 انچ اور وزن 160 کلو ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امید کی جارہی ہے کہ فیڈر بالآخر اسپیس واکس جیسے مزید خطرناک کام انجام دے گا۔

    خیال رہے کہ خلاء میں بھیجا جانے والا فیڈر پہلا روبوٹ نہیں، اس سے قبل سنہ2013 میں جاپان نے بھی خلاء میں روبوٹ بھیجا تھا اور 2011 میں امریکا نے خلا میں روبوٹ بھیجا جسےگزشتہ برس فنی خرابی کے باعث واپس بلایا تھا۔

  • کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    چاند پر قدم رکھنے کے اہم ترین سنگ میل کو 50 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 50 برسوں میں دنیا خلائی میدان میں بھی کافی آگے نکل چکی ہے، چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی کئی کامیاب مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔

    جب سے چاند کا سفر انسان کی دسترس میں آیا ہے تب سے دنیا کے دولت مند افراد چاند پر جانے، وہاں کی زمین کو اپنی ملکیت قرار دینے اور وہاں پر گھر بنانے کی خواہش کر چکے ہیں۔

    یہ وہ افراد ہیں جو زمین کے تمام وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور زمین کی ہر سہولت ان کے لیے قابل رسائی ہے چنانچہ اب ان کا اگلا خواب چاند پر جانا ہے۔

    ایسا ہی ایک شخص ڈینس ہوپ بھی ہے جو پہلے ہی چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرچکا ہے۔ سنہ 1980 میں ڈینس نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور دریافت کیا کہ اگر انہیں اس پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو وہ اسے آگاہ کریں۔

    اقوام متحدہ نے ڈینس کے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد ڈینس خود کو اس حوالے سے کلیئر سمجھتا ہے۔

    اس کے بعد اس نے لونر ایمبسی نامی ویب سائٹ بنائی جہاں اس نے چاند پر جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا، اور صرف یہی نہیں دنیا بھر سے اب تک 60 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعے چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

    ڈینس کے بعد اس کا بیٹا کرس لیمار اب یہ کام کر رہا ہے۔ وہ صرف 24.99 ڈالر کے عوض چاند کا ایک ایکڑ فروخت کر رہا ہے۔

    اگر لونر ایمبسی کی اس قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو چاند کی زمین جو 9 ارب 38 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 198 ایکڑ پر مشتمل ہے، کی کل قیمت 2 کھرب 34 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    لیکن کیا آپ واقعی چاند پر جائیداد خرید سکتے ہیں؟

    سرد جنگ کے دور میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ جاری تھی، تب اقوام متحدہ نے ایک خلائی معاہدہ طے کیا۔

    اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی فلکی جسم جیسے چاند، کسی سیارے یا کسی شہاب ثاقب پر، کوئی بھی قوم حاکمیت، اپنے استعمال یا اس پر اپنے تصرف کے باعث وہاں اپنی ملکیت نہیں جتا سکتی۔

    یعنی کوئی بھی قوم وہاں اپنا جھنڈا لگا کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہماری زمین ہے۔

    تاہم کرس لیمار اور اس کے 60 لاکھ گاہک حکومتیں نہیں ہیں، یہ فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اسے اس معاہدے کا ایک جھول تو کہا جاسکتا ہے، تاہم چاند پر صاحب جائیداد ہونا پھر بھی ممکن نہیں۔

    سنہ 2015 میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایک اسپیس ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انفرادی طور پر چاند سمیت دیگر فلکی اجسام پر کان کنی اور خرید و فروخت کا کام کیا جاسکتا ہے، تاہم چاند کی زمین کی ملکیت پھر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

    ناسا کے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فار انٹرنل افیئرز اسٹیفن ای ڈوئل کے مطابق، جو ایک ریٹائرڈ وکیل بھی ہیں، ’آپ چاند پر جا سکتے ہیں اور وہاں سے اس کی مٹی یا پتھر تو ساتھ لاسکتے ہیں۔ لیکن آپ چاند پر کچھ لکیریں کھینچ کر اسے اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتے‘۔

    یعنی آپ چاند پر زمین کی ملکیت نہیں حاصل کرسکتے۔

    اس کے باوجود چاند کے حوالے سے تجارتی دوڑ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری ہے۔ سنہ 2016 میں مون ایکسپریس وہ پہلی نجی امریکی کمپنی بنی جسے چاند پر لینڈ کرنے کی حکومتی اجازت ملی۔

    تاہم ابھی تک مون ایکسپریس کا شمسی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ کمپنی خلا میں ان خلائی مشنز کے لیے ایک گیس اسٹیشن بنانا چاہتی ہے جو خلا میں دور تک جانا چاہتے ہوں۔

    مون ایکسپریس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی اور ایک اور نجی کمپنی پلینٹری ریسورسز بھی چاند کے حوالے سے تجارتی مقاصد رکھتی ہیں۔ جدید سائنس اور خلائی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاند پر بھی جلد تعمیراتی منصوبے اور ملکیتی تنازعے شروع ہوسکتے ہیں۔

  • زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ اپنے شہر کی گرمی سے سخت پریشان ہیں؟ موسم گرما آپ کے لیے سخت تکلیف لے کر آتا ہے؟ اسی طرح موسم سرما میں بھی آپ مختلف دشواریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو یہ موسم سخت لگتا ہے؟

    اگر آپ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے موسم کے بارے میں جانیں تو زمین آپ کو جنت کا ٹکڑا دکھائی دے گی اور اس کا موسم خدا کی رحمت۔ آئیں دیکھتے ہیں ہمارے پڑوسی سیاروں پر موسم کیسا ہوتا ہے۔

    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    سورج سے قریب ترین سیارہ مرکری سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے گرم جھلسا دینے والی ہواؤں کا مرکز ہے۔ مرکری کی فضا میں آکسیجن بھی بے حد کم ہے۔

    علاوہ ازیں سورج کی تابکار شعاعیں بھی مرکری پر براہ راست آرہی ہوتی ہیں جو زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    سیارہ مرکری پر اگر آپ گرم ہوا سے جھلس کر یا آکسیجن کی کمی سے ہلاک نہ ہوں، تو تابکار شعاعیں ضرور آپ کو ہلاک کرسکتی ہیں۔

    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    سیارہ زہرہ بادلوں سے ڈھکا ہوا سیارہ ہے، تاہم یہ بادل زہریلے ہیں اور ان سے سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش چند لمحوں میں کسی بھی جاندار کے جسم کو گلا سکتی ہے۔

    سیارہ مریخ ۔ مارس

    مریخ لق و دق صحرا جیسا سیارہ ہے جہاں ہر وقت ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ تیز ہوا مٹی کو اڑا کر بڑے بڑے بگولے تشکیل دے دیتی ہے اور یہ بگولے زمین کی بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہوسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مریخ پر اکثر و بیشتر مٹی کے طوفان آتے رہتے ہیں جو کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور پورے سیارےکو ڈھک لیتے ہیں۔

    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے (جو خلائی دوربینوں سے نظر آتا ہے) جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ گویا 300 سال سے یہ طوفان اس سیارے پر موجود ہے۔ اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    اس میگا سٹورم کے علاوہ مشتری پر ایک اور چھوٹا طوفان موجود ہے۔ یہ زمین پر آنے والے درجہ 5 طوفان کے برابر ہے جسے اوول بی اے کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بڑے طوفان سے کچھ چھوٹا ہے اور اس کا حجم زمین کے برابر ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی بار سنہ 2000 میں کیا گیا ہے اور تب سے اب تک اس کے حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    سیارہ زحل کے قطب شمالی میں ہوا کا ایک عظیم طوفان پنپ رہا ہے۔ اس طوفان کے چھ کونے ہیں جس کی وجہ سے اسے ہیگزاگون کا نام دیا گیا ہے، اس کا ہر کونا ہماری زمین سے بڑا ہے۔

    اس طوفان کے مرکز میں بادلوں کا ایک سسٹم موجود ہے جس کا دائرہ زمین پر آنے والے طوفانوں کے دائرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

    سیارہ یورینس

    سیارہ یورینس دیگر سیاروں کی طرح اپنے مدار میں گول گھومنے کے بجائے ایک طرف کو جھک کر گردش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے موسم طویل اور زیادہ شدت کے ہوتے ہیں۔

    یہاں موسم سرما میں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔ یہ سیارہ سورج سے خاصا دور ہے لہٰذا اس کے موسم سرما کا دورانیہ زمین کے 21 سالوں جتنا ہوتا ہے۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 216 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جاتا ہے۔

    سیارہ نیپچون

    سیارہ نیپچون کو ہواؤں کا سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 1 ہزار 930 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں۔

    یہ رفتار زمین پر آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جبکہ اس رفتار پر سفر کیا جائے تو امریکی شہر نیویارک سے لاس اینجلس پہنچنے میں صرف سوا 2 گھنٹے کا وقت لگے گا۔ یہ سفر عام طور پر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

    ان تمام سیاروں کے موسم کے مقابلے میں زمین کا موسم نہایت معتدل ہے۔ نہ زیادہ گرمی، نہ زیادہ سردی اور نہ ہی طوفانی ہوائیں، اور ہاں یہاں تیزابی بارشیں، تابکاری اور مٹی کے عظیم بگولے بھی نہیں آتے۔ تو پھر زمین کے موسم کی شکایت کرنا چھوڑیں اور ہر موسم کا لطف اٹھائیں۔

  • خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی خلا باز کرسٹینا کوچ کا زمین کے مدار سے باہر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر مشن 11 ماہ کی طوالت اختیار کرنے والا ہے جس کے بعد وہ خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی خاتون پیگی وٹسن کا ریکارڈ توڑ دیں گی۔

    کرسٹینا کوچ رواں برس 14 مارچ کو اپنے 2 ساتھی خلا بازوں کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر پہنچی تھیں، ان کا مشن ابتدائی طور پر 6 ماہ کا تھا تاہم اب اس میں توسیع کردی گئی ہے۔

    کرسٹینا کے ساتھ موجود بقیہ دونوں خلا باز 3 اکتوبر کو زمین پر واپس لوٹ آئیں گے تاہم کرسٹینا فروری 2020 تک اسٹیشن پر ہی رکیں گی جس کے بعد وہ پیگی وٹسن کا ریکارڈ توڑ دیں گی۔

    پیگی وٹسن نے خلا میں لگ بھگ 10 ماہ یعنی 288 دن گزار کر خلا میں طویل ترین وقت گزارنے والی خاتون خلا باز کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔ اب کرسٹینا 11 ماہ خلا میں گزارنے والی ہیں۔

    ابتدائی طور پر کرسٹینا کے مشن میں خلائی چہل قدمی بھی شامل تھی جو بذات خود ایک ریکارڈ بننے جارہا تھا۔ کرسٹینا اور ان کے ساتھ ایک اور خاتون خلا باز اینی مک کلین کو اسپیس واک کرنی تھی، اور زمین سے ان کی معاونت بھی ایک خاتون خلا باز کرسٹین فیکول کو کرنی تھی جس کے بعد یہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم ہوتی جو خلائی چہل قدمی انجام دیتی۔

    تاہم ناسا کو اس وقت شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ عین موقع پر خواتین خلا بازوں کو ان کے مناسب سائز کے خلائی لباس فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مجبوراً ناسا کو خلائی چہل قدمی منسوخ کرنی پڑی۔

    کرسٹینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنا تھا کہ ان کا مشن متوقع طور پر طوالت اختیار کرسکتا ہے اور اب جبکہ ان کے مشن کا ایک حصہ منسوخ ہوگیا، لیکن بہرحال وہ خلائی تاریخ میں ایک اور ریکارڈ بنانے جارہی ہیں تو ان کا دیرینہ خواب پورا ہونے جارہا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ کرسٹینا کا خلا میں طویل وقت گزارنے کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ خلا میں انسان پر کتنے عرصے میں کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ مشن چاند اور مریخ کی جانب متوقع مشنز بھیجنے میں بھی سہولت فراہم کرے گا۔

    خیال رہے کہ جون سے ستمبر کے دوران کئی خلا باز اپنے مشنز مکمل کر کے اسٹیشن سے واپس زمین پر آئیں گے اور زمین سے کئی نئے خلا باز مختلف مشنز کے ساتھ اسٹیشن پر پہنچیں گے۔

    زمین سے جانے والوں میں متحدہ عرب امارات کے پہلے خلا باز ھزا علی خلفان المنصوری بھی شامل ہوں گے، المنصوری 8 روز خلا میں گزاریں گے۔