Tag: space

  • اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    تل ابیب: اسرائیل کی چاند پر خلائی جہاز اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی اور لینڈنگ کے دوران خلائی جہاز تباہ ہوگیا جس کے بعد اسرائیل چاند پر پہنچنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کا نجی سرمایہ کاری سے تیار کردہ خلائی جہاز اپنے مشن میں ناکام ہوگیا۔ برشیٹ نامی خلائی جہاز چاند کی سطح پر بھیجا گیا تھا۔

    مشن کی کامیابی کی صورت میں اسرائیل چاند پر جہاز بھیجنے والا چوتھا ملک بن جاتا، اب تک امریکا، روس (سوویت یونین) اور چین اپنے خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتار چکے ہیں تاہم اسرائیل اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    خلائی جہاز برشیٹ 4 اپریل کو چاند کے مدار میں پہنچا تھا اور اس وقت سے چاند کے گرد گردش کررہا تھا۔ گزشتہ روز مقررہ شیڈول کے مطابق اسے چاند پر لینڈنگ کرنی تھی تاہم لینڈنگ کی تیاری کے دوران انجن میں خرابی پیدا ہوئی اور وہ چاند کی سطح سے ٹکرا گیا۔

    اسرائیلی مشن کنٹرول کا کہنا تھا کہ لینڈنگ سے پہلے جہاز کا انجن خراب ہوگیا تھا جس کے باعث لینڈنگ نہ ہو سکی۔

    مشن سے منسلک ماہرین کے مطابق لینڈنگ سے قبل خلائی جہاز کا زمین سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا، جہاز کی لینڈنگ کی مانیٹرنگ کرتے زمین پر موجود خلائی عملے نے رابطہ بحال کرنے اور انجن کی خرابی دور کرنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے۔

    مذکورہ خلائی جہاز کی تیاری میں 100 ملین ڈالرز کی لاگت آئی تھی اور اسے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز نے ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔

  • خلا میں میزائل تجربہ، امریکہ نے بھارت کو خبردار کردیا

    خلا میں میزائل تجربہ، امریکہ نے بھارت کو خبردار کردیا

    واشنگٹن : امریکا نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے سیارے کو نشانہ بنانے کے تجربے کا جائزہ لے رہے ہیں، سیارہ شکن ہتھیاروں کے تجربات خلاف میں افراتفری کا سبب بن سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کا جنگی جنون زمین کی حدوں سے نکل کرخلاتک پہنچ گیا، بھارت کے سیارہ شکن میزائل تجربے کے بعد امریکا نے خبردارکیا ہے کہ سیارہ شکن ہتھیارکے تجربات خلامیں افراتفری پھیلا سکتے ہیں۔

    نگراں امریکی وزیر دفاع پیٹرک شینیہن نے میڈیا سے گفتگومیں کہا بھارتی تجربے کا جائزہ لے رہے ہیں، خلا کو برباد نہ کریں۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی بھارتی تجربے کے بعد ملبے کوخطرناک قراردیا ہے۔

     مزید پڑھیں : بھارت کاخلامیں تجربہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، پاکستان

    دوسری جانب پاکستان نے خلامیں فوجی تجربات کی مخالفت کرتے ہوئے تمام ممالک سے ذمہ داری کا ثبوت دینے پرزوردیا، ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا بھارت کاخلامیں تجربہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، خلاتمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے ، ایسے تجربات سے اقوام عالم کوخطرات لاحق ہوں گے۔

    بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے بھارت کیجانب سے خلامیں سیارے کونشانہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا  ہمارے سائنسدانوں نے خلا میں 300کلومیٹر کے فاصلے  (ایل ای او) میں محض تین منٹ میں ’مشن شکتی‘کو انجام دیتے ہوئے ایک لائیو سیٹلائٹ کومارگرانے کا مظاہرہ کیا۔

    جس کے بعد بھارتی اپوزیشن نے الیکشن سے چند روزپہلے خلائی میزائل کے تجربے کے اعلان پروزیراعظم مودی کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش قراردیا۔

    واضح رہے  2007 میں چین نے خلاء میں موجود ایک ناکارہ موسمیاتی سٹیلائٹ کو تباہ کرکے ایسا ہی تجربہ کیا تھا ،جس سے مدار میں ملبے ایک بڑا بادل پیدا ہوا تھا، اس طرح کا ملبہ خلاء میں موجود مصنوعی سیاروں اور دیگر چیزوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

  • خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    جب سے انسان ترقی یافتہ اور خلائی اسرار سمجھنے کے کچھ قابل ہوا ہے، تب سے وہ اس تلاش میں سرگرداں ہے کہ کیا اس وسیع و عریض کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا ہمارے جیسا کوئی اور بھی سیارہ اپنے اندر زندگی رکھتا ہے؟

    کیا کوئی سیارہ ایسا بھی ہے جہاں زمین کی طرح زندگی رواں دواں ہے؟ کیا اس کائنات میں ہمارے جیسی کوئی مخلوق نت نئی ایجادات اور تحقیقوں میں مصروف ہے یا کم از کم پتھر کے دور میں ہی جی رہی ہے؟

    اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، یعنی ہمارے علاوہ بھی اس کائنات میں زندگی بستی ہے اور لوگ رہتے ہیں تو کیا وہ بھی ایسے ہی کسی کی تلاش میں ہوں گے؟

    امریکا کی ایک کوانٹم آسٹرو کیمسٹ کلارا سلوا اس بارے میں بتاتی ہیں، ’اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی ہے تو وہ باآسانی ہمیں ڈھونڈ سکتا ہے‘۔

    کلارا اس بارے میں مزید کیا بتاتی ہیں، انہی کی زبانی سنیں۔

    ’اگر خلائی مخلوق ہمیں تلاش کرنا چاہیں تو وہ بہت آسانی سے ہمیں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہم گزشتہ 100 سال سے ریڈیو کے سگنلز خلا میں بھیج رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ٹیلی ویژن کے سگنلز بھیجنا شروع کیے۔ اگر یہ سگنلز روشنی کی رفتار سے خلا میں جارہے ہیں تو اب تک یہ طویل فاصلے طے کر کے دور دراز واقع ستاروں اور سیاروں تک پہنچ چکے ہوں گے، ایسے ہی کسی دور دراز سیارے پر موجود، کسی دوسرے سیارے پر زندگی کھوجتی مخلوق آسانی سے یہ سگنلزوصول کرسکتی ہے‘۔

    ’اگر کوئی ایسا ہوگا جو اپنے طاقتور ڈی ٹیکٹرز کا ہماری طرف رخ کیے ہوگا، تو وہ بی بی سی کی براڈ کاسٹنگ سن رہا ہوگا، وہ ہمارے ٹی وی پروگرامز سن رہا ہوگا اور اب تک اندازہ کرچکا ہوگا کہ ہمارا رہن سہن اور طرز زندگی کیسا ہے‘۔

    ’کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک انہایت احمقانہ عمل ہے کہ ہم اپنے بارے میں بہت ساری معلومات پوری کائنات میں بھیج رہے ہیں۔ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق خطرناک بھی ہوسکتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی پوزیشن کے بارے میں نہیں بتانا چاہیئے‘۔

    اگر ہم خلا میں سگنلز نہ بھیجیں کیا تب بھی ہمیں ڈھونڈا جا سکتا ہے؟

    اگر ایک لمحے کے لیے تصور کیا جائے کہ ہم اپنے تمام سگنلز بند کردیں اور بالکل خاموشی سے بیٹھ جائیں، کیا تب بھی خلائی مخلوق ہمیں ڈھونڈ سکتی ہے؟

    اس بارے میں کلارا کہتی ہیں۔

    ’اگر ہم خلا میں کوئی سنگلز نہ بھیجیں، اور کوئی خلائی مخلوق طاقتور دوربین لگا کر ہمیں ڈھونڈنا چاہے تو اسے ہر جگہ 300 ارب سیارے دکھائی دیں جو خوبصورت سفید روشنیوں کی صورت میں چمک رہے ہوں گے‘۔

    ’تاہم یہ سفید روشنی بھی بہت سارے راز عیاں کرسکتی ہے‘۔

    ’ہم جانتے ہیں کہ جب سفید روشنی میں پانی کا قطرہ داخل ہوتا ہے تو آس پاس موجود اشیا کے رنگ اس میں منعکس ہونے لگتے ہیں (اسی تکنیک سے قوس قزح تشکیل پاتی ہے)۔ اگر خلائی مخلوق ایک طاقتور پریزم (ایک تکون جسم جس سے روشنی گزرتی ہے تو منعکس ہوتی ہے) ہمارے سورج کی طرف کریں تو وہ ہماری قوس قزح کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں‘۔

    ’اور اگر وہ کچھ عرصے تک مستقل اس کا مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہر سال اس قوس قزح میں کچھ نئے رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ رنگ ان مالیکیولز کی وجہ سے ظاہر اور غائب ہوتے ہیں جو ہماری فضا میں موجود ہیں‘۔

    ’ان رنگوں کو دیکھ کر باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس ایک خوبصورت اور متنوع سیارہ موجود ہے۔ ہمارے پاس آبی حیات سے بھرے سمندر ہیں اور آکسیجن پر انحصار کرنے والی زندگیاں ہیں۔‘

    ’ان تمام معلومات پر مبنی ہماری فضا، زمین کے گرد ایک تہہ تشکیل دیتی ہے جسے بائیو سفیئر کہا جاتا ہے اور صرف یہی ہماری موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بائیو سفیئر بتاتا ہے کہ اس سیارے پر کون موجود ہے اور کس طرح زندگی گزارتا ہے۔ گویا اگر ہم اپنے سگنلز بھیجنا بند بھی کردیں تب بھی ہماری موجودگی کے اشارے ملتے رہیں گے‘۔

    کیا اس تکنیک سے ہم بھی خلائی مخلوق کو ڈھونڈ سکتے ہیں؟

    کلارا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہم ایسے ٹولز نہیں بنا سکے جو کسی سیارے کی بائیو سفیئر کی جانچ کرسکیں، ہم صرف اس قابل ہیں کہ اگر کوئی خلائی مخلوق اپنے سگنلز ہماری طرح خلا میں بھیج رہی ہے تو ہم اسے وصول کرسکیں، تاہم میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایسے ٹولز کی تیاری پر کام جاری ہے جو بائیو سفیئر کی جانچ کرسکے۔

    ’ان ٹولز کی تیاری کے بعد ہم ان خلائی مخلوق کو بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جو ہماری طرح ترقی یافتہ نہیں اور خلا میں کوئی سگنلز نہیں بھیج رہی‘۔

  • امریکی افواج کا انخلاء ایرانی فوجیں پورا کریں گی، ترکی الفیصل

    امریکی افواج کا انخلاء ایرانی فوجیں پورا کریں گی، ترکی الفیصل

    ریاض : سعودی شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایران کی مداخلت مزید بڑھ جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں ایک خلا پیدا ہوجائے گا جسے ایران پورا کرے گا۔

    ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، ایک طرف امریکا کہتا ہے کہ شام سے ایران کو نکال رہے ہیں جبکہ دوسری طرف خود اپنی افواج واپس بلا رہا ہے، امریکی افواج کے نکلتے ہی شام میں ایرانی فوجیں موجود ہوں گی۔

    سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عرب ریاستوں بشار الااسد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کیوں بشار الااسد ایران سے دستبردار نہیں ہوگا۔

    [bs-quote quote=”امریکی افواج کے انخلاء کے بعد شام میں ایک خلاء پیدا ہوگا جسے اگلے ہی روز ایرانی فورسز پورا کردیں گی” style=”style-8″ align=”left” author_name=”شہزادہ ترکی الفیصل” author_job=”سربراہ سعودی خفیہ ایجنسی” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2019/03/Tukey-Al-Faisal.jpg”][/bs-quote]

    شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ شامی حکومت نے شامی شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور ایران کی مدد سے انہیں دربدر کردیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عرب حکومتوں یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ روس شام پر ایران کی مداخلت کم کرنے کےلیے دباؤ ڈالے گا کیوں کہ گزشتہ تین برسوں میں شامل میں ایرانی مداخلت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ ہم نے داعش کو شکست دے دی، اور آئندہ 30 دنوں میں امریکی فورسز شام سے نکل جائیں گی۔

    مزید پڑھیں : صدر ٹرمپ سے اختلافات، امریکی وزیر دفاع مستعفی ہوگئے

    شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس اور دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ میکگرک نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    خیال رہے کہ داعش کے خلاف شام میں صدر باراک اوبامہ نے پہلی مرتبہ سنہ 2014 میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر باضابطہ شام کی خانہ جنگی میں حصّہ لیا تھا۔

  • خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    چاند پر سب سے پہلا قدم کس نے رکھا تھا، یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔ تاہم زمین سے باہر خلا میں جانے والا پہلا شخص اور پہلی خاتون کون تھی اس کے بارے میں بہت کم افراد جانتے ہیں۔

    سنہ 1969 میں جب چاند پر پہلے انسان نے قدم رکھا، اس سے 8 سال قبل ہی روس اپنے پہلے خلا نورد کو خلا میں بھیج چکا تھا۔ یوری گگارین کو خلا میں جانے والے پہلے شخص کا اعزاز حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    اس کے صرف 2 سال بعد 1963 میں ایک باہمت خاتون ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی پہلی خاتون کاا عزاز حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام درج کروا چکی تھیں۔

    سنہ 1937 میں سوویت یونین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والی ویلینٹینا کے والد ٹریکٹر ڈرائیور تھے جبکہ والدہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازمت کرتی تھیں۔

    ویلینٹینا کی عمر صرف 2 سال تھی جب ان کے والد فوج کی ملازمت کے دوران مارے گئے۔ والد کی موت کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ فیکٹری میں کام کرنے لگیں۔

    ویلینٹینا کو پیراشوٹنگ کا بہت شوق تھا۔ اپنی پہلی نوکری کے دوران اس نے کچھ رقم جمع کی تھی تاکہ وہ پیراشوٹ جمپنگ کر کے اپنا شوق پورا کرسکے۔

    22 سال کی عمر میں وہ ایک مشاق اسکائی ڈائیور بن چکی تھی۔

    یہ وہ وقت تھا جب روس خلائی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ روس کی جانب سے پہلی بار کسی انسان کو خلا میں بھیجا جا چکا تھا اور اب وہ کسی خاتون کو خلا میں بھیجنے کا خواہشمند تھا۔

    اس وقت ویلینٹینا نے خطرہ مول لیا اور خلا باز بنانے کے لیے درخواست دے دی۔

    جب خلا میں جہاز بھیجے جانے کے حتمی امتحان کا وقت آیا تو ویلینٹینا نے 400 مرد و خواتین کو شکست دے کر اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے بعد اس کی خلائی تربیت شروع کردی گئی۔

    ویلینٹینا کو خلائی مشن ووسٹوک اسپیس کرافٹ کا پائلٹ منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 26 برس تھی۔

    اس کے ساتھ ٹریننگ پر موجود تمام دیگر امیدوار مرد تھے اور اس سے عمر میں کہیں زیادہ بڑے تھے۔ ان کی ٹریننگ بھی ویلینٹینا سے کہیں زیادہ مشکل تھی۔

    ویلینٹینا نے اپنے ٹرینر سے درخواست کی کہ اسے ویسی ہی تربیت دی جائے جو اس کے ساتھی مرد خلابازوں کو دی جاتی ہے۔

    جون 1963 کی ایک صبح ویلینٹینا کے خلائی جہاز نے زمین کو پیچھے چھوڑا اور خلا کی طرف رخت سفر باندھا۔ ویلینٹینا نے خلا میں 3 دن گزارے اور اس دوران زمین کے گرد 48 چکر لگائے۔

    مشن کے دوران ویلینٹینا کو احساس ہوا کہ اس کے خلائی کیپسول میں زمین پر واپسی کا پروگرام سیٹ نہیں کیا گیا۔

    ویلینٹینا نے بغیر کسی گھبراہٹ کے زمین پر رابطہ کیا، اس میں کافی وقت لگا۔

    بالآخر اس نے زمین پر موجود سائنسدانوں کی ہدایات کے مطابق مہارت سے واپسی کا پروگرام سیٹ کیا اور زمین کی فضا سے 4 میل کے فاصلے پر کامیابی سے خود کو خلائی جہاز سے علیحدہ کرلیا۔

    ویلینٹینا کہتی تھیں، ’جس طرح کوئی پرندہ صرف ایک پر کے ساتھ پرواز نہیں کرسکتا، اسی طرح خلائی مشنز میں مزید کامیابی کے لیے مرد کے ساتھ خواتین کی شرکت بھی ضروری ہے‘۔

    ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی اب تک کی سب سے کم عمر خاتون ہیں۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • پاکستان کا اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ

    پاکستان کا اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : پاکستان نے اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ، وفاقی کابینہ اجلاس میں پاک چین خلائی مشن معاہدے کی توثیق کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان نے چین کے تعاون سے اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے، پاکستان چین کی مدد سے پاکستان کو اسپیس مشن پر بھیجے گا۔

    وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خلانوردوں سے متعلق معاملات ایجنڈے کا حصہ ہیں، کابینہ پاک چین خلائی مشن معاہدے کی توثیق کرے گی۔

    یاد رہے 9 جولائی کو پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار چائنہ کی مدد سے تیار کردہ سیٹلائیٹ PRSS-1 اور پاکستانی انجینئرز کا تیار کردہ سیٹلائیٹ پاک ٹیس-1 اے خلا میں بھیجے تھے۔

    دونوں سیٹلائٹس چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں : پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پی آر ایس ایس 1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کی مختلف خصوصیات اور معدنی ذخائر کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ دوسرا سیٹلائٹ پاک ٹیس – 1 اے حساس آلات اور کیمروں سے لیس خلا میں 610 کلو میٹر کے فاصلے پر رہے گا اور سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا۔

    سپارکو کے مطابق خلا میں بھیجے گئے سیٹلائیٹ ماحولیاتی تبدیلیوں ، قدرتی آفات اور زراعت کے شعبوں سے متعلق معلومات فراہم کریں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی سمیت مستقبل کی منصوبہ بندی میں بھی سیٹلائیٹ معاونت فراہم کریں گے۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہونے لگا، جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔

    بعد ازاں 14 اگست کو خلا میں بھیجی جانے والی پہلی ریموٹ سنسگ سیٹلائٹ کا مکمل کنٹرول پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا، جس پر صدر مملکت اور نگراں وزیراعظم نے سپارکو کے انجینئرز اور سائنسدانوں کو مبارکباد پیش کی تھی۔

  • خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا مرکز (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔

    یہ اسٹیشن امریکا، روس، یورپ، جاپان اور کینیڈا کے خلائی مراکز کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد زمین سے باہر خلا میں مختلف تجربات اور مشاہدات کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کب تک کارآمد رہے گا؟

    یہ اسٹیشن دوسرے سیاروں کی طرف جانے والی مہمات اور خلابازوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے جبکہ خلا میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسلسل سائنس دانوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں اس اسٹیشن سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہے؟ تو چلیں پھر آج وہاں سے زمین کی سیر کرتے ہیں۔