Tag: space

  • 17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا مریخ پر پہلا پڑاؤ ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایک 17 سالہ دوشیزہ بھی مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان کا اعزاز حاصل کرنے والی ہیں۔

    ایلیسا کارسن صرف 17 سال کی ہیں جو اس وقت ناسا میں خلا باز بننے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

    وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بننا چاہتی تھیں اور ان کے خواب کی تعبیر انہیں اس طرح مل رہی ہے کہ سنہ 2033 میں وہ مریخ پر بھیجے جانے والے اولین انسانی مشن کا حصہ ہوں گی۔

    امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والی ایلیسا ابتدائی خلائی تربیت مکمل کرنے والی سب سے کم عمر ترین طالبہ ہیں جس کے بعد اب وہ ناسا کا باقاعدہ حصہ ہیں۔

    ایلیسا 4 زبانوں یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور چینی زبان میں عبور رکھتی ہیں جبکہ پرتگالی اور ترکی زبان بھی کچھ کچھ جانتی ہیں، اس کے علاوہ روسی زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    ایلیسا بچپن سے کچھ منفرد کرنا چاہتی تھیں، جب اسے معلوم ہوا کہ انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے لیکن مریخ تاحال ناقابل تسخیر ہے تو مریخ پر جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایک بار مریخ پر جانے کے بعد اس کا زمین پر لوٹنا شاید ممکن نہ ہو، پھر بھی زمین سے تقریباً 40 کروڑ کلومیٹر دور مریخ پر پہنچنے ان کی ضد برقرار ہے۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر جانے کے سفر کے دوران چاند پر عارضی پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا چاند گاؤں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے خلا میں بھیجے گئے سیٹلائٹس نے کامیابی سے کام کا آغاز کردیا

    پاکستان کے خلا میں بھیجے گئے سیٹلائٹس نے کامیابی سے کام کا آغاز کردیا

    کراچی : پاکستان کے خلا میں بھیجے گئے سیٹلائٹس نے کامیابی سے اپنے کام کا آغاز کر دیا، سیٹلائیٹ ماحولیاتی تبدیلیوں ، قدرتی آفات اور زراعت کے شعبوں سے متعلق معلومات فراہم کریں‌ گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان نے چائنہ کی مدد سے تیار کردہ سیٹلائیٹ PRSS-1 اور پاکستانی انجینئرز کا تیار کردہ سیٹلائیٹ پاک ٹیس-1 اے خلا میں بھیجے جو کامیابی سے اپنے کام کا آغاز کر چکے ہیں۔

    سپارکو کے مطابق خلا میں بھیجے گئے سیٹلائیٹ ماحولیاتی تبدیلیوں ، قدرتی آفات اور زراعت کے شعبوں سے متعلق معلومات فراہم کریں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی سمیت مستقبل کی منصوبہ بندی میں بھی سیٹلائیٹ معاونت فراہم کریں گے۔

    چیئرمین سپارکو قیصر انیس خرم چیئرمین سپارکو نے بتایا کہ پاکستان اسپیس سینٹر کا منصوبہ مکمل ہوتے ہی پاکستان ہر قسم کے سیٹلائیٹ بنانے میں خود کفیل ہو جائے گا۔

    چائنہ میں تعینات پاکستانی سفیر مسعود خالد کا کہنا تھا کہ خلا میں بھیجے گئے پاکستانی سیٹلائیٹ پوری دنیا کو کور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سیٹلائیٹس کے خلامیں جانے سے پاکستان کے سپیس پروگرام کو تقویت ملے گی۔


    مزید پڑھیں : پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے


    یاد رہے کہ 9 جولائی کو پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر تیار کیے گئے سیٹلائٹ لانچ کئے تھے۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہونے لگا، جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے گرد محو سفر مزید 12 چاند دریافت کرلیے گئے جس کے بعد مشتری کے چاندوں کی تعداد 79 ہوگئی ہے۔

    مذکورہ دریافت واشنگٹن میں واقع کارنیگی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ماہرین فلکیات نے طاقتور ترین دوربینوں کی مدد سے کی۔

    حالیہ دریافت کے بعد مشتری سب سے زیاد چاند رکھنے والا سیارہ بن گیا ہے۔

    ادارے کے ماہرین کے مطابق مشتری کے نئے چاندوں کی حرکت کا ایک سال تک مشاہدہ کیا گیا جس کے بعد اب ان کی دریافت کا حتمی اعلان کردیا گیا ہے۔

    ماہرین کے ابتدائی اندازے کے مطابق یہ چاند دراصل اسی مادے سے بنے ہیں جس سے سیارہ مشتری تخلیق ہوا۔ یہ ٹکڑے سیارے سے جڑنے سے رہ گئے جس کے بعد اب یہ چاندوں کی صورت میں مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    نو دریافت شدہ 12 میں سے تین چاندوں کو مشتری کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں زمین کے 2 سال یعنی 730 دن لگ جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر تیار کیے گئے سیٹلائٹ لانچ کردیے۔

    قومی ادارے اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے مطابق لانچ کیے گئے 2 سیٹلائٹس میں سے ایک پی آر ایس ایس 1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کی مختلف خصوصیات اور معدنی ذخائر کا جائزہ لے گا۔

     

    یہ سیٹلائٹ موسمیاتی تبدیلی کا بھی اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہوگا، جس میں گلیشیئرز کے پگھلنے، گرین ہاؤس گیسز کے اثرات، جنگلات میں آتشزدگی اور زراعت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوگا جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔

    دوسرا سیٹلائٹ پاک ٹیس – 1 اے حساس آلات اور کیمروں سے لیس خلا میں 610 کلو میٹر کے فاصلے پر رہے گا اور سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا۔

    دونوں سیٹلائٹس چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیے گئے ہیں۔ سیٹلائٹ کی سمت کا تعین کرنے والی ٹیکنالوجی پاکستان سنہ 2012 میں ہی چین سے حاصل کرچکا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے سیٹلائٹ کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان نے مقامی وسائل سے پاک ٹیس ون اے نامی سیٹلائٹ تیار کیا ہے جس کے تیاری کے تمام مراحل پاکستان میں طے کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سیٹلائٹ زمین کے جغرافیے، موسم، ماحول اور سائنسی تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔ ٹیس ون اے کا وزن 285 کلو گرام ہے اور یہ 610 کلو میٹر کی بلندی پر مدار میں چکر لگائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسداں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی بار انسانوں کا ان سے سامنا بھی ہوچکا ہے، لیکن حکومتوں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

    دی کنورزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیون کنتھ نے دعویٰ کیا کہ ہماری کائنات میں خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی موجودگی کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔

    کیون کنتھ ناسا میں اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد اب ایک امریکی یونیورسٹی میں طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امکان کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ کچھ ایسے اجنبی اڑنے والے آبجیکٹس (آسان الفاظ میں اڑن طشتریاں) موجود ہیں جو ہمارے ایجاد کردہ ایئر کرافٹس سے کہیں بہتر ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے بھی بے تحاشہ ثبوت ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں بات کرنا اس وقت نہایت متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان دعووں کی سائنسی بنیاد پر تحقیق نہیں کی جارہی۔

    ان کے خیال میں اس کی ذمہ دار حکومتیں اور میڈیا ہے جس نے اس موضوع کو نہایت متنازعہ بنا دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    پروفیسر نے کہا کہ خلائی مخلوق ایک حقیقت ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں 300 ارب ستارے موجود ہیں، اور ان میں سے کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جہاں زندگی موجود ہوگی۔

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اب تک ایک بھی ایسا باقاعدہ اور مصدقہ دستاویز تیار نہیں کیا گیا جو اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے حوالے سے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان معلومات کو راز میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوگی اور اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانے والی خلا نورد ماں

    4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانے والی خلا نورد ماں

    واشنگٹن: ناسا کی ایک خلا نورد ماں کی اپنے بیٹے کے ساتھ کھینچی جانے والی خوبصورت تصاویر کو دنیا بھر میں بے حد سراہا جارہا ہے۔

    این مک کلین نامی یہ خلا نورد جو ایک ایرو اسپیس انجینیئر بھی ہیں، ایک خلائی مشن کے ساتھ عالمی خلائی اسٹیشن پر جارہی ہیں۔

    روایت کے مطابق مشن شروع ہونے سے قبل خلائی لباس میں فوٹو سیشن کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ رکھا۔ ماں اور بیٹے کی ان خوبصورت تصاویر کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

    خلا نورد کا 4 سالہ بیٹا اپنے ساتھ گود میں اپنے کھلونے کو لیے بیٹھا ہے۔

    این کا کہنا ہے کہ مشن پر جاتے ہوئے اپنے 4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانا ان کے لیے ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے، وہ بھی ایک ایسے سفر پر جانا جہاں سے ہوسکتا ہے ان کی واپسی نہ ہو، لیکن یہ ان کے بیٹے کی تربیت میں بھی معاون ثابت ہوگا اور وہ زندگی کی معنویت کو سمجھے گا۔

    وہ کہتی ہیں، ’میرے پاس دو راستے تھے، ایک یہ کہ میں بہت آرام دہ اور نارمل زندگی گزاروں، اور دوسرا یہ کہ ایک غیر معمولی زندگی گزاروں جو نہ صرف مجھ پر زندگی کے نئے دریچے وا کرے گی بلکہ دوسروں کے لیے بھی رہنما ثابت ہوگی۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا‘۔

    این کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ان کے بغیر بہت تنہائی محسوس کرتا ہے، لیکن جب وہ بڑا ہوگا تو اسے اندازہ ہوگا کہ ضروری نہیں ہر شخص کو ایک جیسی زندگی ملے۔ ’بڑے مقصد کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پوپ فرانسس کے لیے خلائی لباس کا تحفہ

    پوپ فرانسس کے لیے خلائی لباس کا تحفہ

    ویٹی کن سٹی: عیسائیوں کے مذہبی و روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو عالمی خلائی اسٹیشن کے خلا بازوں نے خلائی لباس کا تحفہ پیش کیا جسے دیکھ کر پوپ نہایت خوش ہوئے۔

    یہ تحفہ پوپ کو اس وقت پیش کیا گیا جب 4 خلا بازوں کا وفد ان سے ملاقات کے لیے ویٹی کن سٹی پہنچا۔ ان خلا بازوں میں سے 3 کا تعلق امریکا جبکہ ایک کا تعلق روس سے ہے۔

    پوپ فرانسس کو یہ تحفہ بے حد پسند آیا اور انہوں نے مذاقاً خلا بازوں سے کہا کہ اب آپ کو میرے خلائی سفر کے انتظامات بھی کرنے ہوں گے۔

    پوپ فرانسس کو پیش کیے جانے والے لباس پر ان کا نام اور ان کے وطن ارجنٹائن کا جھنڈا چپساں ہے۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ یوں تو یہ لباس عام خلا بازوں کے لباس جیسا نیلا ہی ہے، لیکن چونکہ پوپ ایک ممتاز مذہبی شخصیت ہیں لہٰذا ان کے لیے لباس کے ساتھ سفید رنگ کی خصوصی کیپ بھی تیار کی گئی ہے جس پر ناسا کا لوگو اور کشیدہ کاری سے پوپ فرانسس درج ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ برس پوپ فرانسس نے ویٹی کن سٹی سے عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود خلا بازوں سے ویڈیو کال پر گفتگو بھی کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی فٹبال خلاء میں پہنچ گئی

    پاکستانی فٹبال خلاء میں پہنچ گئی

    پاکستانی فٹبال دنیا بھر میں شہرت کمانے کے بعد خلا میں بھی پہنچ گئی، روسی خلابازوں نے بھی کھیلنے کے لئے پاکستانی فٹبال کو ہی پسند کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی اسپورٹس گڈز دنیا بھر میں مشہور ہے،  پاکستانی فٹ بالز ورلڈ کپ میں اپنا لوہا منوانے کے بعد اب خلاء میں جا پہنچی ، روسی خلا باز اپنے ساتھ پاکستانی فٹ بال بھی خلا میں لے گئے اور پھر خلا میں انوکھا فٹ بال میچ ہوا، زیرو گراویٹی میں کھیلا گیا میچ کافی الگ لگ رہا تھا۔

    روسی اسٹیٹ اسپیس ایجنسی ‘روس کوسموس’ کی جانب سے میچ کی فوٹیج جاری کردی ہے، جس میں 2 روسی خلاباز اینٹون شکاپلیروو اور اولیگ آرٹیم ییو فٹبال کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کھیل کے دوران خلابازوں کو گول روکتے اور کِک لگانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2018 14 جون سے روس میں شروع ہو رہا ہے ، پاکستانی فٹ بال ‘ایڈیڈاس ٹیلی اسٹار 18 اس سال روس میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں بھی استعمال ہوگی۔

    گزشتہ روز روس، امریکا اور جاپان سے تعلق رکھنے والے تین خلا باز زمین پر لوٹ آئے، انھوں نے ساڑھے 5 ماہ تک خلائی اسٹیشن میں قیام کیا، خلا بازوں کا کیپسول نے قازقستان میں لینڈ کیا تھا۔

    واضح رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا بھر میں فٹ بالز درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور سالانہ چار کروڑ فٹ بالز درآمد کرتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    پیرس: یورپ کے گایا سیٹلائٹ کی طرف سے ہماری کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ جاری کردیا گیا جس کے بعد ہماری کہکہشاں میں موجود ستاروں کے رنگ اور حرکت کو مزید وضاحت سے دیکھنا ممکن ہوجائے گا۔

    گایا سیٹلائٹ نے یہ ڈیٹا 22 ماہ میں جمع کیا ہے جس میں 1 ارب 70 کروڑ ستاروں کی معلومات شامل ہیں۔

    یہ نقشہ ان ستاروں کی آسمان میں صحیح سمت، ان کی روشنی اور رنگ کے بارے میں نہایت درست معلوم فراہم کرتا ہے۔

    سنہ 2013 میں لانچ کیا جانے والا یہ سیٹلائٹ زمین سے 9 لاکھ 30 میل کے فاصلے پر خلا میں موجود ہے۔

    سیٹلائٹ نے 22 ماہ تک فی منٹ 1 لاکھ ستاروں کی معلومات جمع کیں جبکہ دن میں 50 کروڑ پیمائشیں کی۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا علم فلکیات میں انقلابی اضافے کرے گا جس کے بعد کہکہشاں کو سمجھنا مزید آسان ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا خاصی حد تک مکل ہے اور اس حد تک مکمل ڈیٹا اس سے پہلے جاری نہیں کیا گیا۔

    گایا نے کہکہشاں کا پہلا نقشہ ستمبر 2016 میں جاری کیا تھا جس میں 1 ارب 15 کروڑ ستاروں کی معلومات شامل تیھں۔

    اب اس میں مزید معلومات شامل کی گئی ہیں جن میں ستاروں کی تعداد 1 ارب 70 کروڑ ہوگئی ہے۔

    گایا کی جانب سے بھیجی جانے والی معلومات کی جانچ پڑتال اور ترتیب میں 20 ممالک کے 450 ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں نے حصہ لیا۔

    ان میں سے ایک سائنس داں ایٹونلا ویلنری کا کہنا ہے کہ اس نقشے کو دیکھنا کسی چاکلیٹ باکس کو کھولنے جیسا ہے۔ ’یہ بہت شاندار کام ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    بنی نوع انسان نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کی وسعتوں کو بھی چھاننا شروع کردیا ہے اور آج کے دور میں مختلف سیاروں کو سر کیے جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جن میں سے ایک مریخ بھی شامل ہے، ناسا کی ایک سینیئر انجینیئر کا کہنا ہے کہ مریخ پر پہلا قدم رکھنے والا انسان کوئی مرد نہیں بلکہ خاتون ہونا چاہیئے۔

    امریکا کے خلائی ادارے ناسا میں بطور انجینیئر اپنی خدمات سر انجام دینے والی ایلسن مک انتارے کا کہنا ہے کہ چاند پر اب تک 12 افراد کو بھیجا جا چکا ہے جن میں سے ایک بھی خاتون نہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ مریخ پر جانے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں تو اس بار مریخ پر پہلا قدم رکھنے کا اعزاز ایک خاتون کو ہونا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ایلسن گزشتہ 30 برس سے ناسا سے منسلک ہیں اور ان کے مطابق انہوں نے وقت کو بدلتے دیکھا ہے۔ ’پہلے ادارے میں رکھے جانے والے افراد زیادہ تر مرد ہوتے تھے اور بہت کم خواتین کو ترجیح دی جاتی تھی، تاہم اب وقت بدل گیا ہے اب خواتین بھی مردوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر فائز کی جارہی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے شعبے کے ڈائریکٹر اور ڈویژن انچارج کی ذمہ داریاں بھی خواتین کے پاس ہیں، ’یقیناً خواتین مریخ پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہر کرسکتی ہیں‘۔

    ایلسن مک انتارے کی اس تجویز کا تمام حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ خلا میں جانے والی سب سے پہلی خاتون کا اعزاز روسی خلا نورد ویلینٹینا ٹریشکووا کے نام ہے جنہوں نے 60 کی دہائی میں زمین کے مدار سے باہر نکل کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    ایک اور خلا باز پیگی وٹسن کو خلا میں سب زیادہ دن گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پیگی 3 خلائی مشنز میں مجموعی طور پر 665 دن خلا میں گزار چکی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔