Tag: space

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں اب تک کئی متضاد دعوے سامنے آچکے ہیں اور ان میں سے کون سا دعویٰ حتمی ہے، یہ کہنا مشکل ہے تاہم پہلی بار چاند پر قدم رکھنے والے خلانوردوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا، اب سچ ثابت ہوگیا ہے۔

    سنہ 1969 میں امریکی خلائی مشن اپالو 11 چاند پر بھیجا گیا تھا اور اس میں موجود خلا نوردوں نے چاند پر قدم رکھ کر، چاند پر پہنچنے والے اولین انسانوں کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

    مشن پر جانے والے خلا نورد اپنے کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا تاہم ان کے دعوے پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    اب حال ہی میں ان خلا نوردوں کا لائی ڈیٹیکٹر (جھوٹ پکڑنے والی مشین) سے ٹیسٹ کیا گیا جس میں وہ کامیاب ہوگئے، گویا خلائی مخلوق کو دیکھنے کا ان کا دعویٰ درست ہے۔

    یہ ٹیسٹ امریکی ریاست اوہائیو میں واقع انسٹیٹیوٹ آف بائیو ایکوزٹک بیالوجی میں کیا گیا جس میں اپالو 11 میں موجود خلا نورد بز ایلڈرن نے یہ ٹیسٹ پاس کرلیا۔

    ٹیسٹ کے نتائج میں ماہرین نے بتایا کہ ایلڈرن جو نیل آرم اسٹرونگ کے بعد چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے انسان تھے، اس مشن کی واپسی سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ انہوں نے چاند تک اپنے سفر کے دوران خلائی مخلوق کو دیکھا تھا، اب انہوں نے لائی ڈیٹیکٹر کا یہ ٹیسٹ پاس کرلیا ہے چنانچہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ انہوں نے خلائی مخلوق کو واقعتاً دیکھا تھا۔

    ایلڈرن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے چاند کے سفر کے دوران ایک قابل مشاہدہ شے دیکھی تھی جو انگریزی حرف تہجی ’ایل‘ جیسی تھی۔ ٹیسٹ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں تاہم وہ شے کیا تھی، ان کا دماغ اس کی تشریح پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    ٹیسٹ میں خلا نوردوں ایڈگر مچل اور گورڈن کوپر کی آوازوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ دونوں خلا نورد انتقال کرچکے ہیں اور ان کی آواز کے تجزیے کے لیے ان کے ایک پرانے انٹرویو سے مدد لی گئی۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا زمین کی تباہی کا سبب

    ایڈگر مچل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے متعدد اڑن طشتریوں کو دیکھا تھا۔ مذکورہ ٹیسٹ میں ان کی آواز کے تجزیے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ بھی سچ کہہ رہے تھے۔

    خلا نوردوں پر مذکورہ ٹیسٹ کے بعد خلائی مخلوق کی تلاش کے مشنز اور تجربات کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی ہے۔ سائنس داں پر امید ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی کی جانے والی کوششوں کو جلد کامیابی حاصل ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • طوفانوں میں‌ جنم لیتی پراسرار روشنیوں نے سائنس دانوں کو سرجوڑنے پر مجبور کردیا

    طوفانوں میں‌ جنم لیتی پراسرار روشنیوں نے سائنس دانوں کو سرجوڑنے پر مجبور کردیا

    سائنس دانوں نے طوفان برق و باراں میں‌ پیدا ہونے والے پراسرار برقی مظاہر کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک خاص قسم کا مانیٹر نصب کردیا۔

    سائنس دانوں کے مطابق جب ہم گہرے بادلوں میں‌ بجلی گرجتے ہوئے دیکھتے ہیں، تب بادلوں‌ کی اوپری جانب عجیب و غریب قسم کی برقی شبیہ نظر آتی ہیں، جنھیں حالیہ برسوں ہی میں‌ شناخت کیا گیا. یہ شبیہ پریوں اور جنات کے خیالی تصور سے حیران مشابہت رکھتی ہیں.

    طوفان برق وباراں فطرت کے نہایت شاندار مظاہر میں سے ایک ہے، لیکن ہمیں زمین سے جو کچھ نظر آتا ہے، وہ صرف شروعات ہے، کیوں بجلیاں چمکنے کے بعد زمین کی اوپری فضا میں کیا عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں، ہم ان سے بے خبر رہتے ہیں۔


    ہماری کہکشاں کے وسط میں ایک بڑا بلیک ہول دریافت


    بجلی کی چمک سے پیدا ہونے والی ان عجیب شبیہوں کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک مشن کا آغاز کیا گیا ہے، خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ طوفانوں کے یہ برقیاتی اثرات خلائی اسٹیشن سے متواتر مشاہدہ کیے گئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بجلیاں چمک کر نیچے کی طرف آتی ہیں تو اس وقت بادلوں کے اوپر کچھ عجیب سے مناظر رونما ہوتے ہیں جنھیں عارضی چمکدار مظاہر Transient Luminous Events کہا جاتا ہے اور انھیں پہلی بار 1989 میں اتفاقیہ طور پر دیکھا گیا تھا۔

    مینی سوٹا کے پروفیسر جان ونکلر ایک راکٹ لانچ کرنے کے سلسلے میں ٹی وی کیمرا ٹیسٹ کررہے تھے، جب انھوں نے دور بادل کے اوپر بجلی کی روشن قطاریں دیکھیں، اس مشاہدے نے اس وقت سائنس دانوں کو حیران کردیا۔


    چین کا آسمانی محل زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی تباہ


    ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے ماہر فزکس کا خیال ہے کہ ہوائی جہازوں کے پائلٹ ضرور اس سے واقف رہے ہوں گے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جب ان برقیاتی شبیہوں سے سائنس دان واقف نہیں تھے، تب بھی عام افراد انھیں اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے آرہے رہے ہیں، وہ انھیں راکٹ بجلیاں اور افقی بجلیاں کہا کرتے تھے، اب انھیں ماہرین نے بجلی کی پریوں کا نام دیا ہے، کیوں کہ یہ پراسرار طور پر اوپر کی طرف لہراتی ہوئی جاتی ہیں اور جسامت میں بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بجلیوں سے پیدا ہونے والی ننھی شبیہہ بجلیوں سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہیں، یہ برقی فیلڈ کی لہر ہوتی ہے، جو اوپر کی طرف جاتی ہے۔ بادل سے جس وقت طاقتور برقی لہر زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے ملی سیکنڈز کے بعد یہ شبیہیں ظاہر ہوجاتی ہیں، انسانی آنکھ جب تک انھیں دیکھے، یہ غائب ہوچکی ہوتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلا میں گردش کرتا فائیواسٹار ہوٹل

    خلا میں گردش کرتا فائیواسٹار ہوٹل

    کیلی فورنیا : اب سیاح خلا میں فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کر سکیں گے،  امریکی کمپنی کی جانب سے خلائی اسٹیشن پر ایک منفرد ہوٹل 2021 تک قائم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی کمپنی آرین اسپیَن نے 2021ء تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر فائیو اسٹار ہوٹل تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں مختلف منصوبوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

    آرین اسپیَن کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ہم پہلی بار خلا میں ایک سستا اور لگژری ہوٹل ارورا اسٹیشن شروع کرنے جارہے ہیں، آرین سپین از خود ارورا اسٹیشن تعمیر کررہا ہے ، کمپنی کے کچھ انتہائی اہم انجینئرز اس پر کام کررہے ہیں اور انہوں نے ڈیزائن بنانے اور آئی ایس ایس کو چلانے میں مدد دی ہے جبکہ ہیوسٹن میں ایک ہوٹل اور ساحلی علاقے میں اسے چلانے کے لیے سافٹ فیئر بھی تیار کیا جارہا ہے۔

    ارورا اسٹیشن ایک بڑے جیٹ کے کیبن کے سائز کے برابر ہوگا، اسی کی لمبائی 43.5 فٹ اور چوڑائی 14.1 فٹ ہوگی۔

    خلا میں گردش کرتے اس پرتعیش ہوٹل میں ایک وقت میں چھ لوگ قیام کر سکیں گے لیکن یہاں قیام سستا نہیں ہوگا۔

    سیاحوں سے بارہ دن کے قیام کیلئے ساڑے نو ملین ڈالرز فی کس وصول کیے جائیں گے، اس دوران سیاح ریسرچ پروگرام کا بھی حصہ بن سکیں گے جبکہ وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔

    https://youtu.be/4AsRGV2wXnc

    یاد رہے اس سے قبل روسی کمپنی ’’ روسکوسموس‘‘ نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ 2022 تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر فائیوسٹار ہوٹل تعمیر کرے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلا میں بیڈ منٹن میچ

    خلا میں بیڈ منٹن میچ

    خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے وقت گزارنے والے خلا باز وقتاً فوقتاً اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

    کبھی وہ خلا میں دانت برش کر کے دکھاتے ہیں، کبھی وہ فلم دیکھتے ہیں، حال ہی میں ان کی جانب سے بھیجی گئی ایک ویڈیو میں خلا باز بیڈ منٹن کا میچ کھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پر رہائش پذیر ان خلا بازوں نے زمین کی کشش ثقل کے بغیر خلا میں پہلا بیڈ منٹن میچ کھیل کر نیا ریکارڈ قائم کردیا۔

    کشش ثقل نہ ہونے کے باعث گو کہ یہ مختلف طریقے سے کھیل رہے ہیں تاہم یہ میچ خلابازوں اور زمین پر دیکھنے والوں کے ایک دلچسپ تفریح ثابت ہوا۔

    آئیں آپ بھی اس میچ سے لطف اٹھائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    زمین کے مخصوص حالات سے باہر نکل کر خلا میں جانا کوئی آسان بات نہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی عدم موجودگی کے باعث حالات و واقعات زمین سے مختلف ہوتے ہیں۔

    یہ کشش ثقل زمین پر ہمیں اور تمام اشیا کو سیدھا زمین پر کھڑا رکھتی ہے۔ جب کوئی شے یا کوئی شخص خلا میں جاتا ہے تو وہ کھڑا نہیں رہ پاتا اور خلا میں تیرنے لگتا ہے۔

    کشش ثقل کی یہ عدم موجودگی خلا میں جانے والوں کی جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    خلا میں کچھ عرصہ وقت گزارنے کے بعد زمین پر واپس آنے والے خلابازوں کا جب معائنہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ان کی نظر خاصی کمزور ہوگئی تھی۔

    زمین پر واپسی کے بعد خلا بازوں کو عموماً ڈرائیونگ اور مطالعے کے لیے چشمے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق خلا باز اس کے علاوہ بھی کئی جسمانی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا دل سکڑ جاتا ہے جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔


    کمزوری نظر کی وجہ

    ابتدا میں خیال کیا جاتا تھا کہ نظر کی یہ کمزوری سر پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے ہوجاتی ہے تاہم بعد ازاں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔

    دراصل یہ کمزوری جسم میں موجود سیربرو اسپائنل فلڈ (سی ایس ایف) نامی مائع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مائع ہمارے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود ہوتا ہے اور نمکیات کی جسم میں گردش اور مضر صحت اجزا کا اخراج یقینی بناتا ہے۔

    تاہم اگر طویل عرصے تک زمین کے مدار سے باہر رہا جائے تو یہ مائع آنکھوں کے گرد جمع ہوجاتا ہے۔ اس کے باعث آنکھوں کے اعصاب سوج جاتے ہیں۔

    آنکھوں کے گرد اس مائع کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، خلا باز کو دیکھنے میں اتنی ہی زیادہ تکلیف محسوس ہوگی۔

    بالآخر جب خلا باز زمین پر واپس آتے ہیں تو ان کی آنکھیں معمول کے مطابق نہیں رہ پاتیں اور خلا بازوں کو چشمے کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    ہر برس کی طرح سنہ 2018 بھی اپنے جلو میں کچھ نئے، انوکھے اور یادگار واقعات لیے وارد ہونے والا ہے۔ ان میں بہت سے ایسے نادر فلکیاتی واقعات بھی شامل ہیں جو کئی بر سوں بلکہ بعض اوقات عشروں بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا سیرِ حاصل جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔


    سپر مون / بلو مون: یکم اور 31 جنوری

    نئے سال کا آغاز سال کے پہلے سپر مون سے ہوگا۔ سپر مون اس وقت دکھائی دیتا ہے جب چاند اپنے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین کے قریب ترین مقام ’پیریگی‘ پر آجاتا ہے جس کے باعث وہ معمول سے زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے۔

    یکم جنوری کو نظر آنے والا سپر مون 3 دسمبر 2017 کے چاند سے بہت مشابہہ ہوگا۔ یہ معمول کے سائز سے 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن ہوگا۔ اس چاند کو فلکیاتی اصطلاح میں ‘ وولف مون’ بھی کہا جاتا ہے۔

    اسی ماہ دوسرا مکمل چاند 31 جنوری کی رات دیکھا جائے گا جو ’بلو مون‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک فلکیاتی چار ماہی میں رونما ہونے والا تیسرا مکمل چاند ہوتا ہے اور نسبتاً زیادہ روشن بھی۔


    مکمل چاند گرہن: 31 جنوری اور 27 جولائی

    مکمل چاند گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب دورانِ گردش زمین، چاند اور سورج کے درمیان حائل ہو جاتی ہے جس کے باعث چاند خونی یا سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔

    زمین کا جو گہرا سایہ چاند پر پڑتا ہے وہ فلکیات کی اصطلاح میں ’امبرا‘ کہلاتا ہے۔ 31 جنوری کو رونما ہونے والا چاند گرہن شمالی مغربی امریکہ، مشرقی ایشیا،آسٹریلیا اور بحر الکاہل کے متعدد ممالک میں دکھائی دے گا جبکہ 27 جولائی کا گرہن یورپ، افریقہ، مغربی و وسطی ایشیا، بحر ہند اور مغربی آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں دیکھا جائے گا۔


    بلیک مون: فروری

    اس برس جنوری اور مارچ میں 2، 2 مکمل چاند یا بلو مون رونما ہونے باعث درمیان کے مہینے فروری میں ایک دفعہ بھی مکمل چاند نظر نہیں آسکے گا۔ یہ امر ’بلیک مون‘ کہلاتا ہے جو ہر 20 برس کے بعد رونما ہوتا ہے۔

    اگرچہ بلیک مون کوئی باقاعدہ فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے مگرحالیہ چند برسوں میں سوشل میڈیا اور آسٹرولوجرز کی جانب سے اس کے کثرت استعمال کے باعث یہ زبان زد عام ہو گیا ہے۔

    بلیک مون اب دوبارہ 2038 میں رونما ہوگا۔


    جزوی سورج گرہن: 15 فروری، 13 جولائی اور 11 اگست

    سنہ 2018 کا پہلا جزوی سورج گرہن 15 فروری کو رونما ہوگا جو چلی، ارجنٹینا اور انٹارکٹیکا میں دیکھا جاسکے گا۔ 13 جولائی کا سورج گرہن آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا میں جبکہ 11 اگست کو ایک دفعہ پھر چاند، زمین اور سورج کے درمیان کچھ وقت کے لیے حائل ہوگا جس کا مشاہدہ شمال مشرقی کینیڈا، گرین لینڈ، شمال شمالی یورپ، روس کے متعدد شمالی علاقوں اور شمال مشرقی ایشیا میں کیا جاسکے گا۔

    یہ سال کا سب سے بڑا سورج گرہن ہوگا جس کا دنیا بھر میں مشاہدہ کیا جائے گا۔


    میٹی یور شاورز یا شہابِ ثاقب کی برسات

    ہر برس کی طرح سال 2018 میں بھی آسمانی پتھروں کی بارش یا میٹی یور شاورز جاری رہیں گی۔ یہ کثرت سے دکھائی دینے والا عمل دراصل اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ تیزی سے زمین کے قریب سے گزرتا ہے تب اس کی دم سے خارج ہونے والے چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر یا کنکریاں برسات کی صورت میں گرتی ہوئی واضح دکھائی دیتی ہیں جنہیں ان کے متعلقہ کانسٹی لیشن یا برج کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

    ان میں لیونائڈ، جیمینائڈ ، ٹورئڈ اور پرسیڈ شاورز قابلِ ذکر ہیں۔ سنہ 2018 میں 12 اور 13 اگست کی رات پر سیڈ میٹی یور شاور دکھائی دے گا جس میں پتھروں کی گرنے کی رفتار ساٹھ میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی، جبکہ 13 اور 14 دسمبر کی رات سال کا زبردست شاور دیکھا جاسکے گا جس کی رفتار ایک سو بیس میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی۔


    بلیک ہول کے ایونٹ ہوریزون کا مشاہدہ

    کسی بلیک ہول کا وہ مقام جہاں اس کا ثقلی دباؤ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ روشنی جو کائنات کی تیز ترین شے سمجھی جاتی ہے وہ بھی اس مقام سے خارج نہیں ہو پاتی، ایونٹ ہوریزون کہلاتا ہے۔

    اپریل 2018 فلکیات اور خلا کی تسخیر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک بڑی خبر لارہا ہے جب خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ ملٹی ٹیلی سکوپ کے ذریعے ہماری ملکی وے گلیکسی کے مرکز میں واقع بلیک ہول ’سیجی ٹیریس اے‘ کی تصاویر لی جائیں گی۔

    اس اسپیشل ٹیلی سکوپ کو ایونٹ ہوریزون ٹیلی سکوپ کا نام دیا گیا ہے۔ تقریباً 5 روز تک مسلسل مشاہدے کے بعد جو تصویر حاصل ہوگی وہ یقیناً بہت سی کائناتی گتھیوں کو سلجھانے کے علاوہ کچھ نئی دریافتوں کا بھی سبب بنے گی۔


    چاند کا سفر

    اگرچہ 1972 کے بعد سے چاند کی جانب کوئی نئی پیش قدمی نہیں کی گئی مگر سنہ 2018 اس حوالے سے خبروں کا مرکز رہے گا۔ چین اور انڈیا اپنے اپنے روبوٹک سپیس پروب چاند پر بھیجنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے برس کے وسط تک یہ مشنز روانہ کیے جا چکے ہوں گے۔

    اس کے ساتھ ہی گوگل بھی اپنا روبوٹک پروب اسی برس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ تاخیر ہو جائے۔ جبکہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ناسا کی جانب سے بھی چاند پر دوبارہ مشن بھیجنے کے اعلانات سننے کو ملے ہیں۔ لہٰذا چاند کے شیدائیوں اور اپولو الیون کی لینڈنگ کو جھوٹا قرار دینے والوں کے لیے 2018 بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

    اسی برس سپیس ایکس کی جانب سے بھیجی جانے والی خلائی گاڑی زمین کے قریب ترین سیارچے پر اترے گی جس کی واپسی 2023 تک متوقع ہے۔ یقیناً اس مشن سے بھی زحل کے کیسینی مشن کی طرح گراں قدر معلومات حاصل ہوں گی۔


    عطارد کی جانب سفر

    ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کا خلا اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمندیں ڈالنے کا سفر کافی عرصے سے جاری ہے مگر حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بڑی خبریں سامنے آئی ہیں اور خلا کے شیدائیوں کو نوید ہو کہ 2018 میں یورپین سپیس ایجنسی اور جاپان کی سپیس ایجنسی اپنا مشترکہ مشن عطارد کی جانب بھیجنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ عطارد سورج کے سب سے نزدیک واقع سیارہ ہے۔ اس مشن کے لیے بھیجی جانے والی سپیس پروب 2025 تک عطارد پر لینڈ کر سکے گی مگر جیسے جیسے یہ عطارد کے قریب پہنچے گی، سورج سے فاصلہ کم ہونے باعث سائنسدانوں کو اس سے موصول ہونے والے سگنلز سے نہایت اہم معلومات حاصل ہوں گی۔

    اس مشن کو ’بی بی کولمبو‘ کا نام دیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2017 میں ہونے والی اہم ترین ایجادات

    سنہ 2017 میں ہونے والی اہم ترین ایجادات

    زندگی کا ایک اور یادگار سال اپنے جلو میں بہت سی کامیابیاں اور ناکامیاں لیے اختتام پزیر ہونے کو ہے، اس برس سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کئی سنگِ میل عبور کیے گئے ، سائنس فکشن ناولز اور موویز ہر برس کی طرح 2017میںبھی دھوم مچاتی رہیں اور انہی آئیڈیاز سے متاثر ہو کر سائنسدان ، انجینئرز اور محققین نئی ایجادات پر کام کرتے رہے ۔ بہت سو ں کو اپنی کاوشوں میں ناکامی کا سامنا کر کے منہ کی کھانی پڑی جن میں سام سنگ اور ایپل کے آئی فونز قابلِ ذکرہیں ، تو دوسری طرف کچھ ایجادات کو توقع سے بڑھ کر پزیرائی حاصل ہوئی ۔زیر ِنظر تحریر کچھ ایسی ہی ایجادات سے آگاہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے جو اس وقت ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر نا صرف زیرِ استعمال آچکی ہیں، بلکہ ان کواپ ڈیٹ کر کے ان کے نئے ورژنز بھی بنائے جا رہے ہیں اور انہی آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے آنے والے برس 2018 میں مزید حیرت انگیزاور تہلکہ خیز ایجادات کی آمد بھی جلد متوقع ہے۔

    انفارمیشن ٹیکنالوجی


    یہ برس بھی آئی ٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہا ۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کی نوجوان نسل دراصل آئی ٹی ہی کی دنیا میں جیتی ہے ، سیل فونز ، ٹیبلٹ، آئی پیڈ، لیپ ٹاپس اور کمپیوٹر گیمزکے بغیر جیسے آج کا نوجوان ادھورا ہے ۔سو آئی ٹی ورلڈ میں سوفٹ ویئر کمپینیز آئے روز اپنی پراڈکٹس متعارف کرواتی رہیں ، جن میں سب سے زیادہ پذیرائی ورچوئل ریئلٹی اور آگمنٹڈ رئیلٹی کو حاصل ہوئی۔ ان دونوں میں بنیادی فرق تکنیک کا ہے ۔ آگمنٹڈ رئیلیٹی میں صارف سکرین پر چلتی فلم کو اس طرح بھی دیکھ سکتا ہے جس طرح وہ حقیقت میں ہے ۔اور اس کے لیئے روزمرہ میں استعمال کی جانے والی ڈیوائسز جیسے سمارٹ فون ہی استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ورچوئل ریئیلٹی کے لیے ایک ہیڈ سیٹ الگ سےاستعمال کرنا پڑتا ہے جو کافی مہنگے ہونے کے باعث ابھی تک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔

    ایپل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک کے مطابق اے آر میں وی آر کی نسبت زیادہ کشش ہے اور سمارٹ فونز کے ساتھ اس کے ہیڈ سیٹ با آسانی لگائے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے سماجی رابطہ بھی ممکن ہوگا ۔ جبکہ وی آر میں اس طرح کی سہولت ابھی تک ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی کیمرہ فیچر میں اے آر متعارف کروا چکی ہیں ۔ گوگل نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سپیشل افیکٹس اور لینز فوکسنگ میں اس کےپراڈکٹس متعارف کروا نے کا پروگرام بنایا ہے ۔دوسری طرف ٹینگو اور پوکومین اے آر کو بڑے پیمانے پر گیمز میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں سو آنے والا برس بلاشبہ آگمنٹڈ ریئلٹی کا سال ہوگا۔

    سال2017 کی کچھ اہم آئی ٹی ایجادات یہ ہیں۔

    بیٹری فری موبائل فونز ‘ نیٹ ورک فری سمارٹ فونز ‘ گوگل وائس سرچ ان اردو ‘ سمارٹ سیکیورٹی کیمرہ‘ گوگل پیٹنٹ ٹاک ‘ موتھ آئی فار مور گلیئر ‘ مشین کرننگ ایوولیوشن اور فزیکل ڈیجیٹل انٹیگریشن ۔

    ایروسپیس


    بین الاقوامی خلائی مرکز میں طویل عرصے تک قیام کرنے والے خلابازوں کو سب سے زیادہ مسئلہ نیند کی کمی اور اعصابی دباؤ کا ہوتا ہے کیونکہ معلق حالت کی وجہ سے نیند کے دوران یا سپیس واک کے دوران ان کےگم ہوجانے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ رواں برس اس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہوئی ۔کیمبرج میسا جوسسٹس میں واقع چارلس سٹارک لیبارٹری کے سپیس انجینئر کیون ڈیوڈ ا نے ایک سیلف ریٹرن سپیس سوٹ تیار کیا ہے جو خلا میں جی پی ایس کی کسی مخصوص جگہ غیر موجودگی اور خراب خلائی حالات میں بھی خلابازوں کی درست جگہ نشاندہی کر سکےگا۔ اس سپیشل سوٹ میں پہلے کی نسبت زیادہ آکسیجن اور دیگر سہولیت کا بھی انتطام کیا گیا ہے جس میں واپسی کے راستے کی درست معلو مات قابل ذکر ہیں ۔ فی الوقت خلا باز جو لباس استعمال کرتے ہیں وہ کافی حد تک مینول ہے اور خلا میں ان کی کسی جگہ موجودگی کے بارے میں سگنلز دینے سے قاصر ہے ۔ ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کے سائنسدان اس جدید خلائی لباس کو ایک انقلابی ایجاد قرار دے رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ مارس مشن پر جانے والے خلابازوں کو ہوگا۔

    سال 2017 کی کچھ اہم ایرو سپیس ایجادات یہ ہیں ۔

    اپولو سیلف ڈرائیون ٹیکنالوجی‘ بے بی وورن فار مارس سیٹلرز‘ ہوائی جہازوں کی چھت پر وائی فائی کی تنصیب‘ ڈرون بائک‘ اسٹیلتھ طیاروں کا نیا انجن اوربغیر پائلٹ کے اڑنے والےخود کار طیارے

    بایو ٹیکنالوجی


    ہر سال کی طرح 2017 میں بھی نامور کمپنیوں نے نئی بایو لوجی تکنیکس متعارف کروائیں مگر سب سے بڑی انقلابی ایجاد ’فنگر پرنٹس ‘ کی جدید تکنیک کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے محض انگلیوں کے نشانات سے کسی بھی شخص کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔مثلا ََ اس نے کس چیز کو ہاتھ لگایا تھا یا اس کی صنف ، خوراک ، منشیات و شراب نوشی کے بارے میں معلوم کیا جاسکے گا جس کے ذریعے عدالتوں میں مقدمات کے دوران انقلابی پیش رفت ممکن ہوگی اور دھوکا دینا یا جھوٹے ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں رہیگا ۔ برطانیہ کی شیفلڈ ہالم یونیورسٹی کے سائنسدان برطانوی پولیس کی مدد سے اس طریقۂ کار پر تجربات میں مصروف ہیں اور اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزاء ہیں ۔ سائنسدان پر امید ہیں کہ فنگر پرنٹ کی نئی ٹیکنالوجی سے سنگین نوعیت کے جرائم جیسے ریپ یا قتل کے مجرموں کو پکڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سیمونا اس امر پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ انگلیوں کے نشانات میں پسینہ ہوتا ہے اس سے بھی مجرم کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔

    سال2017 کی کچھ اہم بایو ٹیک ایجادات یہ ہیں ۔

    سمارٹ ایگزو سکیلی ٹن‘ بَگ ڈیلیوری ڈرونز( حشرات کو پکڑنے والے ڈرونز )، سمارٹ ٹیپ ریکارڈر اور انسانی جسم کے اندر دیکھنے والا کیمرہ

    ہارڈ ویئر


    دنیا کے مختلف خطوں میں آبادی اور تیز ذرائع رسل و رسائل کے ساتھ توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے جس میں پاکستان سر فہرست ہے۔ موجودہ حالات میں بایو فیول کو توانائی کا ایک اہم متبادل سمجھا جا رہا ہے ۔ 2017 اس حوالے سے یادگار رہے گا کہ اس برس این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے چند ہونہار طلبا و طالبات نے نیم اور جٹروفا کے بیجوں سے بایو ڈیزل بنانے کا میاب تجربہ کیا جس میں ان کے بیجوں سے تیل نکال کر اور کیمیائی عمل سے گزار کر میتھا نول اور کیٹالسٹ شامل کرکے ایک مخصوص درجۂ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے جس سے یہ ڈیزل اور گلیسرین میں تحلیل ہوجاتا ہے انھیں بعد میں باآسانی الگ کر لیا جاتا ہے ۔فی الوقت یہ طلبا ء اسی یونیورسٹی کےآٹو موٹو انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے بایو ڈیزل کو گاڑیوں میں استعمال کرنے پر تجربات کر رہے ہیں اور پھر اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ اس فیول کی ایک افادیت یہ ہے کہ خوردنی بیجوں سے حاصل کیے جانے کے باعث اس سے آلودگی زیادہ نہیں ہوگی اور یہ ماحول میں کم کاربن خارج کریگا ،اس کے علاوہ دیگر ذرائع کے برعکس اسکی لاگت بھی انتہائی کم ہے۔ اگر اس منصوبے کو حکومتی سر پرستی حاصل ہوجائے تو پاکستان میں توانائی اور آلودگی دونوں کے بحران سے با آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔

    سنہ 2017 کی کچھ اہم ہارد ویئر ایجادات یہ ہیں ۔

    بیم آف ویزیبلیٹی ( پانی کے اندر چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت)‘ ڈزنی میجک بینچ ‘ سیلف ڈرائیونگ کا ر نوبز ‘ انڈکشن ہیٹنگ مشین‘ ہائیدروجن ٹرین (ہائیڈروجن سیل نظام پر چلنے والی ٹرین ) اور فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ربر۔

    روبوٹس


    آرٹیفیشل انٹیلی جینس نے ہر شعبے میں اپنی اہمیت منوا کر انسان کو ایسے دور میں داخل کردیا ہے جہاں اے آئی کے بغیر اس کی زندگی نا مکمل اور ادھوری ہے۔ اگرچہ یہ ایک خطرناک صورتحال بھی ہےاور مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس کے حد سے زیادہ استعمال پروقتاََ فوقتا ََ آواز بھی اٹھائی جا تی رہی ہے مگر دوسری جانب اس کی افادیت سے بھی ہر گز انکار ممکن نہیں ۔ رواں برس ہمسایہ ملک چین کے کئی شہروںمیں ایسے ‘لیگل روبوٹس’ عدالتوں میں تعینات کیئے گئے ہیں جو مقدمات کی از خود جانچ پڑتال کر کے فیصلہ سنا سکیں گے ۔ اس سے فوری اور بروقت انصاف کے ساتھ مکمل شفاف فیصلہ ممکن ہوگا ۔ ستمبر میں اپنے کام کا آغاز کرنے والے یہ لیگل روبوٹس اب تک ہزاروں کی تعداد میں کیس نمٹا چکے ہیں ۔ اشیائی ممالک خصو صاً انڈیا اور پاکستان میں اس طرح کے روبوٹس کی شدید ضرورت ہے جہاں عدالتی کاروائیاں بعض اوقات عشروں پر محیط ہوجاتی ہیں اور تب بھی شفاف فیصلہ ممکن نہیں ہوتا ۔ان لیگل روبوٹس کو انسانی دھڑ کی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے مگر ان کے ہاتھ نہیں بنائے گئے۔ ان کی چہرہ نما ڈیجیٹل سکرین پر آنکھیں اور منہ نما یاں دکھائی دیتے ہیں ۔

    سنہ 2017 کی کچھ اہم روبوٹکس ایجادات یہ ہیں ۔

    روبوٹ جیسا موبائل فون‘ بچوں کے جذبات سمجھنے والی روبوٹ گڑیا ‘ ڈرائیونگ اورفلائنگ کے ماہر روبوٹ‘ روبوٹس کے لیے آرٹیفیشل سکن‘ اور پولیس مین روبوٹس۔

    ہوم ایپلی کینس


    سمارٹ ہومز کا تیزی سے بڑھتا استعمال سائنسدانوں کو ایسی نئی ایجادات پر اکسا رہا ہے جن کے ذریعے سمارٹ ہومز کے تصور کو پوری طرح حقیقت کے روپ میں پیش کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 2017 میں ایک بڑی پیش رفت معروف امریکی کمپنی’ٹیسلا ‘ نے کی اور ایسی ٹائلز متعارف کروائی جو سورج کی روشنی سے از خود بجلی پیدا کر سکتی ہیں ۔ ان ٹائلز سے بنی چھت کو ‘سولر روف ‘ کا نام دیا گیا ہے جنھیں مضبوط شیشے سے بنایا گیا ہے تقریبا ََ اکسٹھ لاکھ پاکستانی روپوں میں دستیاب اس سولر روف سے گھر کو ایک مکمل سٹالش انداز میں تعمیر کیا جاسکےگا جو توانائی میں خود کفیل ہوگا ،اس روف کی تیس برس کی گارنٹی بھی ساتھ دی جائےگی۔ فی الحال سمارٹ ہوم کی یہ سہولت صرف امریکہ میں دستیاب ہے۔

    دوسری جانب جرمنی کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایسے عینک تیار کیے ہیں جو ایک موبائل فون کو چارج کرنے کے لیے بجلی پیدا کرتے ہیں ۔اس کے ذریعے کھڑکیوں کے ایسے شیشے بھی بنائے جا سکتے ہیں جو سولر سیل کے طور پر لگائے جائیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مارکیٹ میں اگلے برس تک اس طرح کے سیلز مختلف رنگوں اور سائز میں دستیاب ہونگے۔

    سال  2017میں سائنسدانوں نے شب و روز محنت سے صارفین کو بڑی مقدار میں گھریلو سہو لتیں فراہم کیں ، جن میں سے کچھ اہم یہ ہیں ۔

    سمارٹ سٹریٹس ‘ ڈیجیٹل تالا‘ سمارٹ الارم ‘ سمارٹ کلاتھ سٹینڈ‘ الیکٹرانک ہینگر‘ روبو فریج اور سمارٹ سیکیورٹی کیمرا


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔ ناسا کا چاند مشن سنہ 2011 میں معطل کردیا گیا تھا۔

    پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے نئے چاند مشن سے مریخ مشن کی بنیاد پڑے گی۔ امریکی خلا بازوں کا دوبارہ چاند پر پہنچنا اہم قدم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف چاند پر اپنا پرچم لہرائیں گے اور نقش چھوڑیں گے بلکہ مستقبل میں مریخ کو بھی تسخیر کرنے کی کوشش کریں گے۔

    اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک کھلونا خلا باز کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔

    یاد رہے کہ ناسا کا اپولو پروگرام نامی چاند مشن 1969 سے 1972 تک فعال رہا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت امریکا نے پہلی بار چاند کو تسخیر کیا تھا اور خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے چاند پر قدم رکھ کر چاند پر جانے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلاء میں پیزا پارٹی ،  سپر مون کا مزہ دوبالا

    خلاء میں پیزا پارٹی ، سپر مون کا مزہ دوبالا

    واشنگٹن : چٹورے پن نے خلا میں بھی انسان کا پیچھا نہ چھوڑا، ناسا اسپیس اسٹیشن میں شاندار پیزا پارٹی نے سپر مون کا مزہ دوبالا کر دیا۔

    زمین سے سپر مون کا نظارہ تو دل موہ ہی لیتا ہے لیکن اگر آپ زمین سے چار سو کلومیٹر دور ہو اور خلا سے سپر مون کا شاندار نظارہ کریں تو پھر پارٹی تو بنتی ہے۔

    انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن پر سجی اس پارٹی میں خلانوردوں نے پیزا تیار کرنے کے لیے تمام لوازمات استعمال کیے ، کشش ثقل سے آزاد ماحول میں لذیذ پیزا تیار کر کے اسپیس اسٹیشن کے مکینوں نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف اچھے خلانورد ہی نہیں، اچھے شیف بھی ہیں۔

    خلانورد پاؤلو نیسپولی نے خلا سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں یڈیو میں نظر آنے والے ان خلاء نوردوں کو ہی دیکھ لیں جو سب کا پسندیدہ پیزا نہ صرف بنا رہے ہیں بلکہ خوب مزے لے لیکر رکھا بھی رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔