Tag: space

  • خلائی راکٹ کا انجن آزمائش کے دوران پھٹ گیا

    خلائی راکٹ کا انجن آزمائش کے دوران پھٹ گیا

    ٹیکساس: امریکی خلائی راکٹ آپریشنل کمپنی ’اسپیس ایکس‘میں خلائی راکٹ کا انجن آزمائش کے دوران پھٹ گیا، تاہم حادثے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

    کمپنی کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق دھماکہ ’بلاک 5 مرلن‘ انجن کی آزمائش کے دوران ہوا، جسے اس سے قبل بھی کمپنی کے متعدد فیلکن 9 راکٹس میں استعمال کیا جا چکا ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ ہم ’بلاک 5 مرلن‘ انجن سے اس طرح کی ناکامی کی توقع نہیں کررہے تھے، تاہم حادثے سے ہمارا لانچنگ آپریشن متاثر نہیں ہوگا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ حادثہ ’لوکس ڈراپ‘ نامی ٹیسٹ کے دوران پیش آیا جس کے تحت انجن میں آکسیجن مائع فیول کی لیکنگ چیک کی جاتی ہے۔

    مذکورہ کمپنی  کی انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کا کام واقعے کی جامع تحقیقات کرکے حقیقی محرکات کو سامنے لانا ہے۔ کمپنی کے مطابق جائے وقوعہ کی مرمت میں کچھ وقت لگے گا جس کے بعد ’بلاک 5 مرلن‘ انجن کے آپریشنز کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔

    نظام شمسی کی وسعتوں کوعبور کرنے والا خلائی جہاز*

    اسپیس ڈاٹ کام کے مطابق حادثہ کمپنی کی بتائی ہوئی وجوہات کے باعث نہیں بلکہ انجن میں آکسیجن فیول بھرتے وقت پیش آیا ہے، کمپنی کے انجینئرز یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اس انجن میں آکسیجن فیول کے بھرتے ہی دھماکہ ہوجائے گا۔

    ویب سائٹ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی اس سے قبل ’بلاک 4 مرلن‘ انجن کا استعمال کر رہی تھی تاہم اس حادثے کے بعد کمپنی دوبارہ ’بلاک 4 مرلن‘ انجن کے استعمال سے اپنے آپریشنز جاری رکھے گی۔

    واضح رہے کہ ’اسپیس ایکس‘ نامی کمپنی نے رواں سال 17 کامیاب آپریشنز کرچکی ہے اور سال کے آخر تک اس کے کئی آپریشنز شیڈول ہیں۔

    اس سے قبل بھی ’اسپیس ایکس‘ کے آپریشنز حادثات کا شکار ہوچکے ہیں، سال 2015 میں کمپنی کا مشہور راکٹ ’فیلکن 9‘ لانچ کے تین منٹ بعد ہی زمین بوس ہوگیا تھا۔ سال 2016 میں بھی ’فیلکن 9‘ راکٹ میں لانچنگ پیڈ پر ہی آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے باعث راکٹ اور اور اس کا پے لوڈ مکمل طور پر خاکستر ہوگئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خالق کائنات نے صرف ہماری زمین کو ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس پر جتنا غور کیا جائے اتنا ہی ہم پر حیرت و فکر کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔

    زمین کے نظارے تو خوبصورت ہیں ہی سہی، لیکن زمین کی حدود سے باہر خلا میں بھی ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی خلا کی کچھ تصاویر دکھانے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر شاید آپ خلا میں منتقل ہونے کا ارادہ کرلیں۔


    سیارہ مشتری پر سورج گرہن کا منظر


    مختلف رنگوں کی کہکشائیں


    سورج کی بیرونی تہہ میں ہونے والا قدرتی دھماکہ


    امریکا کی وسطی و جنوبی ریاستوں میں تباہی مچانے والا طوفان ماریا خلا سے کچھ یوں دکھائی دیتا ہے


    خلا میں مصروف عمل چند خلا باز


    ستاروں کے درمیان کہکشاں


    خلائی جہاز کیسینی کی تباہی سے پہلے سیارہ زحل کی آخری مکمل تصویر


    خلا سے زمین کی روشنیاں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا میں جانے والے چوہوں پر کیا بیتی؟

    خلا میں جانے والے چوہوں پر کیا بیتی؟

    کیا آپ جانتے ہیں خلا میں اب تک صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی جا چکے ہیں؟ آج سے 60 سال قبل روسی خلائی اسٹیشن لائیکا نامی ایک کتے کو خلا میں بھیج چکا ہے جسے خلا میں جانے والے پہلے جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    تاہم اب خلا میں جانوروں پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مزید جانوروں کو خلا میں بھیجا جارہا ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر چھوٹے جانوروں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پروگرام کے سربراہ جولی رابنسن اس بارے میں ان حالات سے آگاہ کرتے ہیں جو جانوروں کو خلا میں بھیجے جانے کے بعد ان پر بیتے۔

    ابتدا میں جب خلا میں جانوروں کو بھیجنے کا آغاز کیا گیا تو پہلے ممالیہ جانوروں جیسے کتا، بلی اور بندروں وغیرہ کو بھیجا گیا۔ تاہم وہاں پہنچ کر ان کی حالت خراب ہوگئی۔ یہ جانور کشش ثقل کے بغیر خلا میں زیادہ نہیں جی سکے اور بہت جلد ہلاک ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    چنانچہ اب ان کے بعد غیر ممالیہ اور چھوٹے جانوروں کو خلا میں بھیجا گیا تاکہ تحقیقاتی عمل مکمل کیا جاسکے۔ ان جانوروں میں چوہے اور مچھلیاں سرفہرست تھیں۔

    چوہے کے خلا میں پہنچنے کے بعد چوہے اور وہاں موجود خود خلا باز بھی تناؤ کا شکارہوگئے۔ ابتدا میں چوہے پریشان رہے کہ بنا کشش ثقل یہاں کیسے زندگی گزاری جائے، تاہم بہت جلد انہوں نے اس ماحول سے مطابقت کرلی اور وہ عام انداز میں خلا میں تیرنے، کھانے پینے اور سونے لگے۔

    خلا بازوں نے جب چوہوں کو پرسکون دیکھا تو انہوں نے بھی اطمینان کی سانس لی۔

    ان کے برعکس مچھلیوں نے بہت جلد خلا کے ماحول سے مطابقت کرلی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد چوہوں میں کم و بیش وہی طبی و جسمانی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جو انسانوں میں نظر آتی ہیں۔ زمین پر واپس آنے کے بعد بھی وہ انہی مسائل کا شکار ہوگئے جن سے انسان ہوتے ہیں جیسے ہڈیوں اور جوڑوں یا پٹھوں میں کمزوری اور وزن گھٹ جانا وغیرہ۔

    جولی رابنسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیقاتی مطالعے کو وسیع کرنے کے لیے بہت جلد مزید جانور بھی خلا میں بھیجے جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ سنگی بارش صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے ۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ہیں جو پوری کائنات کی طرح ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔انھیں ’میٹی یور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’میٹی یور شاور‘ کہا جاتا ہے ۔

    عموما ََ میٹی یور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں لہذا‘ انکی دم سے خارج ہونے والی’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیںجنھیں ” شوٹنگ سٹار ” یا ” فالنگ سٹار ” بھی کہا جاتا ہے یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھرے ہو ئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ًبڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے تیس سے اسی میل کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے ‘ کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں لہذا ٰ ہر میٹی یور شاور کا نام "کانسٹی لیشن” یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    گلگت بلتستان میں شہاب ثاقب گرنے کی اطلاعات*

    گذشتہ ہفتے دنیا بھر میں 20-21 اور 21-22 کی راتیں فلکیات کے شیدائیوں کی توجہ کا مرکز رہیں جب انھیں آسمان سے ان جلتے پتھروں کی بارش دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ ایونٹ اس حوالے سے منفرد رہا کہ چاند کی ابتدائی تاریخوں کے باعث افق پر زیادہ روشنی نہ تھی ، یوں گرتے ہوئے میٹی یور کا با آسانی مشاہدہ کیا گیا ۔ 21 اور 22 اکتوبر کی رات مشا ہدہ کی جانے وال پتھروں کی بارش کو ’اورینائڈ میٹی یور شاور‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ یہ’اورین کانسٹی لیشن ‘ کی جانب سے تھی ۔ اور دنیا بھر سے کروڑوں شائقین نا صرف اس انوکھی بارش سے لطف اندوز ہوئے بلکہ ’ایسٹروگرافرز‘ نے اسے اپنے کیمروں میں ہمیشہ کے لیئے مقید بھی کیا ۔

    لیکن اگر کسی وجہ سے آپ اس دلفریب منظر کو دیکھنے اور اپنے کیمرے میں مقید کرنے سے قاصر رہے تو فکر کی چنداں ضرورت نہیں ، اگلے ماہ نومبر اور دسمبر میں آپ کو یہ موقع دوبارہ حاصل ہونے والا ہے۔ سال 2017 کے لیے ناسا کی جانب سے جاری کردہ فلکیاتی کیلنڈر کے مطابق اس برس کے اختتام تک تین مختلف کانسٹی لیشنز کی جانب سے یہ میٹی یور شاور مزید دیکھنے کو ملے گی ،جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ واضح رہے کہ ناسا ہر برس کے آغاز میں سال بھر میں رونما ہونے والے اہم فلکیاتی عوامل اور ایونٹس کا ایک کیلنڈر جاری کرتا ہے ۔

    ٹورڈ میٹی یور شاور : فلکیات کے شائقین 10-11 نومبر کی درمیانی شب اس بارش کانظارہ کر سکین گے جو دراصل دم دار ستارے ’اکی‘ کی دم سے خارج ہونے والی دھار کے باعث نظر دکھائی دے گی ۔ چونکہ یہ ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے زمین کی طرف گریں گے اس وجہ ا سے
    ٹورڈ میٹی یور شاور کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ یورپ اور بر طانیہ میں دیکھا جاسکے گا اور ا س میں گرنے والے پتھر بھی نسبتا ََ سست رفتار ہوں گے اور مکمل چاند کی وجہ سے یہ ز یادہ واضح بھی نہیں ہوگا ۔

    لیو نائڈ میٹی یور شاور : شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں، گیارہ نومبر کے صرف چند دن بعد 16-17 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ میٹی یور شاور وقوع پزیر ہوگا جسے ابتدائی چاند کی تاریخوں کے باعث بہت واضح دیکھا جا سکے گا۔

    فلکیاتی پتھروں کی یہ بارش دم دار ستارے ٹیمپل ٹٹل کی دم سے اخراج شدہ دھار کے باعث ہوگی اور فی گھنٹہ پندرہ میٹی یور گرتے ہوئے دکھائی دیں گے یہ دم دار ستارہ 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

    جیمی نائڈ میٹی یور شاور : ایک ماہ کے وقفے کے بعد سال 2017 کی آخری میٹی یور شاور سے آپ 14-15 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے جسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور 12 اگست یا 21 اکتوبر کی راتوں کی طرح فلکیاتی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور ’لائٹ پولوٹڈ ‘ علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ،میٹی یور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعادور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا کے سالانہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار اس بار ایک بنگلہ دیشی نژاد طالبہ کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بہترین ایجاد کی۔

    امریکی پروفیسر رابرٹ ایچ گوڈرڈ کے نام پر قائم ناسا کے پروگرام گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹرز انٹرنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی آر اے ڈی) میں بنگلہ دیشی نژاد انجینئر محمودہ سلطانہ کو سال کے بہترین تخلیق کار کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    سلطانہ نے خلا میں مزید بہتر طریقے سے کام کرنے والے نینو مٹیریلز اور ڈیٹیکرز بنانے کا تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور سلطانہ کو اس اعلیٰ اعزاز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے گوڈرڈ کے چیف ٹیکنالوجسٹ نے سلطانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ ایک بہترین تکنیکی و تخلیقی ذہن کی مالک اور متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ اس کم عمر طالبہ کی کامیابی سے نہایت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سلطانہ مستقبل میں مزید کارنامے سر انجام دے گی۔

    سلطانہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں، ’جب ہم اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے تو سب کے پاس نہایت اچھوتے آئیڈیاز تھے جو باہر کی دنیا کے افراد کے لیے نہایت انوکھے اور ناقابل عمل تھے۔ لیکن سب نے اپنے تخیلات و تصورات پر کام کیا اور سب ہی اس میں کامیاب ہوئے‘۔

    محمودہ سلطانہ اس وقت دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ساتھ بھی طبیعات کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    سلطانہ نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کیلی فورنیا میں مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی سے ہی کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی بھی کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    اس ہفتے آپ ممکنہ طور پر نہایت ہی خوبصورت فلکیاتی مظہر دیکھ سکیں گے۔

    دراصل آج رات آسمان پر شہاب ثاقب کی روشنیوں کی بھرمار ہوگی جن میں سے کچھ شہاب ثاقب زمین پر بھی آ گریں گے، لیکن ڈرنے کی بات نہیں، یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور دلفریب نظارہ ہوگا۔

    یہ فلکیاتی مظہر دراصل ہیلے نامی دمدار ستارے کے ملبے کا زمین کی حدود میں داخل ہونے کے بعد رونما ہوگا، تاہم یہ زمین کے باسیوں کے لیے 74 سے 79 برس بعد قابل مشاہدہ ہوتا ہے، اور آج کی رات وہی رات ہے جب زمین والے اس نظارے کو دیکھ سکیں گے۔

    دمدار ستارے ہیلے کے ٹوٹے ہوئے ذرات جب زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جل اٹھتے ہیں اور آسمان پر روشنی کا نہایت دلفریب نظارہ تخلیق کریتے ہیں۔

    یہ عمل ہر سال پیش آتا ہے جس کے باعث آسمان کم از کم 30 کے قریب شہاب ثاقبین کی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔

    سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہر جگہ دکھائی دے گا، بس آپ کے مطلوبہ مقام کی فضا آلودگی اور مصنوعی روشنی سے پاک ہو اور آسمان دھندلا نہ دکھائی دیتا ہو۔

    شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں کی جگمگاتی روشنیوں میں تو یہ ہرگز نظر نہیں آئیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے آپ شہر سے دور کسی ویران جگہ کا رخ کریں جہاں مصنوعی روشنیاں آنکھوں کو چندھیاتی نہ ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان 2018 میں خلا میں سیٹلائٹ بھیجے گا

    پاکستان 2018 میں خلا میں سیٹلائٹ بھیجے گا

    کراچی: پاکستان آئندہ برس جدید ترین خلائی سیارہ پاکستان ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹ(پی آرایس ایس) خلا میں بھیجے گا‘ اس تجربے کے بعد خطے سے جدید ترین دفاعی مقاصد کے لیے سیارے پاکستان سینتھیٹک اپرچر ریڈار سٹیشن (سار) خلا میں بھجوانے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

    یادگاری ڈاک ٹکٹ

     

    تفصیلات کےمطابق حکومت نے اس میگا پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے سوا بارہ ارب روپے سپارکو کے لیے مختص کیے ہیں۔ 2017 سے 2020 تک یہ رقم خلائی پروگرام پر خرچ کی جائے گی۔سنہ 2018 کے اختتام تک پاکستان خود سیارے بنانے کے قابل ہو جائے گا۔

    پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن(سپارکو) کے مطابق پاکستان نے پہلا خلائی سیارہ ‘بدر’ فضا میں چھوڑا تھا اور اب پاکستان نے جدید ترین خلائی سیارہ پاکستان ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (پریس) کی تیاری شروع کر دی ہے جس میں چین کا تعاون بھی شامل ہے۔

    یہ پراجیکٹ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ 2018 میں پی آر ایس ایس کو خلا میں بھجوائے جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔

    بدر ۱

    اس کامیاب تجربے کے بعد پاکستان سیٹیلائٹ کراپ ، فارسٹ مانیٹرنگ ، تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش، موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے بارے میں قبل از وقت معلومات حاصل کر کے ان کی تباہ کاریوں سے بچنے کی حکمتِ عملی تیار کر سکے گا جس کے ذریعے ہر سال ہونے والے جانی اور ،مالی نقصان پر قابو پایا جاسکتا ہے اور مستقبل میں پاکستان کو محفوظ اور بہتر بنایا جا سکے۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر اہم کاموں کے ساتھ یہ سیٹلائٹ پاک چین اقتصادی کاریڈور ( سی پیک) کی نگرانی کے فرائض بھی انجام دے گا۔

    یاد رہےکہ پاکستان نے اپنا اسپیس پروگرام سنہ 1961 میں بھارت سے آٹھ سال قبل شروع کیا تھا اور پہلا راکٹ راکٹ بدر ۱ آئندہ سال ناسا کے تعاون سے لانچ کیا تھا۔ اسرائیل اور جاپان کے بعد خلا میں راکٹ بھیجنے والا تیسرا ایشیائی ملک پاکستان تھا ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    زمین کے پڑوسی سیارے مریخ جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، پر انسانی آبادیاں اور مزید دریافتیں کرنے کے مشن پر کام جاری ہے، اور اس سلسلے میں مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند پر عارضی پڑاؤ قائم کیا جاسکتا ہے۔

    جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کی سالانہ کانفرنس میں کہا گیا کہ مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند بہترین پڑاؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں 4 ہزار کے قریب ماہرین فلکیات نے شرکت کی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ ہم زمین کے مدار سے باہر بھی کاروباری سرگرمیاں شروع کریں اور نئی جہتوں کو دریافت کریں۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ایک خلائی ماہر پائرو میسینا کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 17 سال سے زمین کے محور سے بالکل باہر رہ رہے ہیں۔

    یہاں ان کی مراد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ہے جو زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    سنہ 1998 میں لانچ کیا جانے والا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن 27 ہزار 6 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر 92 منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔

    خلائی اسٹیشن پر متعدد خلا باز بھی موجود ہیں جو اسٹیشن پر مختلف خلائی آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔

    اب یہ اسٹیشن مریخ کی طرف بڑھنے جارہا ہے اور یہ مریخ کی طرف جانے والا پہلا انسانی مشن ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    خلائی ماہرین کے مطابق اس سفر کے دوران چاند پر رک کر ایک مستقل پڑاؤ ڈالنا بہترین طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بنایا جانے والا سب سے تیز رفتار خلائی جہاز زمین سے مریخ تک کا سفر 39 دن میں طے کر سکتا ہے۔

    مریخ پر پہنچ کر انسانی آبادی بسانے کا ابتدائی مرحلہ رواں برس عالمی خلائی اداروں کا مشن ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی سنہ 2024 تک عالمی خلائی اسٹیشن کو ختم کرکے چاند پر مستقل کالونی بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خلاؤں کی مزید تسخیر اب چاند پر رہتے ہوئے کی جاسکے۔

    دوسری جانب امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی چاند پر ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    چاند پر ایک مستقل باقاعدہ رہائشی پڑاؤ بنانے کا کام جاری ہے اور اس سلسلے میں یورپی خلائی ایجنسی نے روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس سے معاہدہ بھی طے کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جب چاند نے 3 سیاروں کا راستہ روک دیا

    جب چاند نے 3 سیاروں کا راستہ روک دیا

    رواں ماہ کے چاند نے اپنی گردش کے دوران ایسا تاریخی سفر کیا جو ماہرین کے مطابق بے حد کم دیکھنے میں آتا ہے۔

    اپنے مقررہ راستے پر سفر کرتا ہوا چاند اس بار 3 سیاروں اور ایک ستارے کے درمیان آگیا جس نے ماہرین فلکیات کے لیے ایک دلچسپ نظارہ پیدا کردیا۔

    اس سفر میں زمین کا پڑوسی سیارہ زہرہ، مریخ، سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد اور آسمان پر اس وقت موجود سب سے روشن ستارہ ریگیولس اور چاند ایک ہی قطار میں آگئے۔

    ماہرین کے مطابق یہ نظارہ آسمان پر خالی آنکھ سے بغیر کسی خلائی اسکوپ سے دیکھنا ممکن تھا تاہم یہ صرف کچھ ہی ممالک میں نظر آیا جیسے وسطی اور جنوبی امریکا، میکسیکو اور بحر الکاہل کے کنارے واقع کچھ ممالک میں دیکھا جاسکا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ منظر اس سے قبل سنہ 2008 میں دیکھا گیا تھا، جبکہ اب اس نوعیت کا مشاہدہ جولائی سنہ 2036 میں ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مختلف مہینوں کے مختلف چاند


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    میامی: اس صدی میں جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا سیارچہ کل یکم ستمبر کو زمین سے ایک محفوظ فاصلے پر گزرے گا۔

    عالمی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ گو کہ اس سیارچے کا فاصلہ زمین سے اس قدر ہوگا کہ یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، تاہم یہ فاصلہ گزشتہ سیارچوں کے مقابلے میں بے حد کم ہوگا اور یہ زمین سے صرف 70 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے سے گزرے گا۔

    یہ سیارچہ سنہ 1981 میں دوربین کی زد میں آیا تھا اور اس وقت کی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس سیارچے کا نام فلورنس رکھا گیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ زمین سے اس قدر کم فاصلے پر گزرنے والے یہ سیارچہ اپنی جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ ان کے مطابق اس سیارچے کا حجم لگ بھگ اتنا ہے جتنا مصر کے 30 اہراموں کو یکجا کردیا جائے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل زمین کے قریب سے گزرنے والے تمام سیارچے مختصر جسامت کے تھے۔

    مزید پڑھیں: جبل الطارق سے بڑا سیارچہ زمین کے قریب

    ناسا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی کئی سیارچے زمین کی طرف آئے ہیں تاہم وہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے مطابق لاکھوں کروڑوں سال میں ایک ہی واقعہ ایسا رونما ہوتا ہے جب کوئی سیارچہ زمین سے آ ٹکرائے اور زمین پر تباہی مچادے۔

    سائنس دانوں کو یقین ہے کہ فلورنس سیارچہ ہرگز ان سیارچوں میں سے نہیں جو زمین کے لیے کسی نقصان کا سبب بن سکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ اس سیارچے کی تصاویر اور معلومات حاصل کریں گے تاکہ وہ مستقبل کی خلائی ریسرچز میں معاون ثابت ہو سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔