Tag: special court

  • پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دینے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قرار

    پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دینے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قرار

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا، خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سابق صدر پرویزمشرف کی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کی ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 6 اور کابینہ فیصلے پر مختلف دلائل دیتے ہوئے کہا 18ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل6 میں ترمیم کی گئی، 3 نومبر 2007 کے اقدام کو سنگین جرم قراردیاگیا اور 26 جون 2013کے کابینہ اجلاس میں مشرف کیس شامل نہیں تھا۔

    سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان کے دلائل کے بعد عدالت نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ جسٹس مظاہر علی اکبر کی سربراہی میں فل بینچ نےمتفقہ فیصلہ سنایا، ینچ میں جسٹس امیربھٹی اورجسٹس مسعود جہانگیر بھی شامل تھے، جس میں عدالت نے پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے آئین شکنی کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔

    عدالت نے کریمنل لااسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976کی دفعہ9 بھی کالعدم کرتے ہوئے کہا آرٹیکل6 کےتحت ترمیم کا اطلاق ماضی سےنہیں کیا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں : خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست قابل سماعت قرار

    یاد رہے سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کےخلاف درخواست دائرکی تھی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، نوازشریف نے اپنی صوابدید پر خصوصی عدالت قائم کی، خصوصی عدالت کے پراسیکیوٹر کی تعیناتی سمیت کوئی عمل قانون کے مطابق نہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ہائی کورٹ خصوصی عدالت کی کارروائی اور تشکیل کو غیرآئینی قرار دے، جس پر عدالت نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی تھی۔

    مزید پڑھیں : آئین شکنی کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

    خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

    پرویز مشرف نے فیصلے پر رد عمل میں کہا تھا کہ مجھے ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو مشکوک سمجھتا ہوں، ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، کیس میں قانون کی بالا دستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔

  • خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست قابل سماعت قرار

    خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست قابل سماعت قرار

    لاہور : عدالت نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دے دی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کابینہ کی منظوری کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے پرویزمشرف کی درخواست پر سماعت کی۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ فوجداری نظام عدل کے تحت مقدمہ درج کرکے ہی انکوائری ہوسکتی ہے، کیا پرویز مشرف کے معاملے میں انکوائری ہوئی ہے۔

    کیا خصوصی عدالت کی تشکیل کے لئے کابینہ سے منظوری لی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے کہا کہ اس معاملے پر ایف آئی اے نے انکوائری کرکے رپورٹ خصوصی عدالت پیش کی۔

    ایف آئی اے نے رپورٹ میں اقدام کو غیرآئینی قراردیا، خصوصی عدالت نےفرد جرم میں اس کا ذکرنہیں کیا،خصوصی عدالت کی تشکیل کے لئے وزیراعظم کی طرف سے وزارت داخلہ کوخط لکھا گیا۔

    اس معاملے پر کابینہ کی منظوری کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے،عبدالحمید ڈوگر کیس میں ایمرجنسی کو غداری قرار نہیں دیا گیا تھا، ترمیم شدہ ہائی ٹریژن ایکٹ میں غداری کی سزا کا ذکرموجود نہیں۔

    پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ایمرجنسی کا نفاذ غداری کے زمرے میں نہیں آتا، سپریم کورٹ نے بھی عبد الحمید ڈوگر کیس میں فوجداری کاروائی کا ذکر نہیں کیا۔

    سینیئر قانون دان علی ظفر نے بیان دیا کہ ان کی رائے میں ایمرجنسی کا نفاذ غداری کے زمرے میں نہیں آتا جس پر عدالت نے قرار دیا کہ پھر یہ سارا کیس چلایا کیسے گیا؟ فوجداری نظام میں پہلے شکایت آتی یے پھر انکوائری اس کیس میں انکوائری پہلے ہوئی شکایت بعد میں۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ہم اسپیشل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں سن رہے بلکہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کارروائی اور قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں۔

    عدالت نے خصوصی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے تمام تمام ریکارڈ اور سینئر قانون دان علی ظفر کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔

    عدالت نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراض مسترد کرتےہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وکلاء کو کل مزید دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔

  • پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ 17 دسمبر کو سنائے جانے کا امکان

    پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ 17 دسمبر کو سنائے جانے کا امکان

    اسلام آباد : خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی، عدالت میں حکومتی استعاثہ ٹیم کے نئے رکن علی ضیاء باجوہ عدالت میں پیش ہوئے، روسٹرم پر آتے ہی انہوں نے عدالت کو مخاطب کیا اور جسٹس وقار علی سیٹھ نے انہیں عدالت میں ویلکم کیا۔

    دلائل کے آغاز پر علی ضیا باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں استغاثہ کی ٹیم میں شمولیت کی اطلاع کل ہی ملی اور کل ہی وہ اسلام آباد پہنچے، جہاں انہیں تین "ڈبے” ملے ہیں، جن کو ابھی پڑھنا باقی ہے، ریکارڈ بھی تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے لیکن ان یہ خواہش ہے کہ اس مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ ہو۔

    جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ کو اندازہ ہے کہ یہ خصوصی عدالت ہے اور خصوصی مقدمہ ہے آپ بتادیں کہ کب دلائل دیں گے، باقی مقدمات کو بالائے طاق رکھ کر اس مقدمے کی تیاری کریں۔

    جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ آپ اتنے قابل وکیل ہیں ، پہلے سے استغاثہ کی جانب سے دلائل دئیے گئے ہیں، جو دستاویزات ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں، آپ پہلے سے کی گئی جرح کے پانچ صفحے ہی پڑھ لیں تو کافی ہے، آپ کو تمام دستاویزات پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیس کی تیاری کے لیے 4 دن بھی بہت ہیں۔

    جسٹس نذر اکبر نے مزید کہا کہ 6 سال سے یہ مقدمہ چل رہا ہے اب ہم مزید استغاثہ کے ہاتھ میں نہیں کھیلیں گے، آپ لوگوں کے مؤکل وہ ہیں، جو کسی بھی وقت آپ کو فارغ کرکے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔

    علی ضیاء باجوہ نے بتایا کہ ان پر کافی دباؤ ہے جس پر جسٹس نذر اکبر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر کس بات کا دباؤ ہے، وکیل اور جج پر قانون کے علاوہ کس چیز کا دباو ہوتا ہے ؟ آپ بتادیں آپ پر کیا دباو ہے ؟ آپ کا کام ہے کہ آپ عدالت کی معاونت کریں۔

    علی ضیاء باجوہ نے مزید وقت دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے انہیں مزید 15 دن کا وقت دے دیا۔

    سماعت کے آخر میں پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ انہیں بھی سنا جائے، اس موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ کس حیثیت میں آپ کو سنیں، آپ سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیں، اگر اس فیصلے پر آپ کو کوئی تحفظات ہیں تو اس پر نظر ثانی دائر کریں۔

    سلمان صفدر نے کہا ہماری معاونت سے عدالت کو آسانی ہوگی جس پر جسٹس نذر اکبر نے جواب دیا کہ ہمیں آپ کی آسانی نہیں چاہیے، آپ سپریم کورٹ کے حکم کو عزت دیں، عدالت نے استعاثہ کو 15 دن کا وقت دیتے ہوئے سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کردی اور عدالت نے استعاثہ کو ہدایت بھی کی ہے کسی بھی رکاوٹ کی صورت میں عدالت کو دو دن قبل تحریری دلائل جمع کروائیں بصورت دیگر فیصلہ سنایا جائے گا۔

  • پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ،  28 نومبر کو سنایا جائے گا

    پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، 28 نومبر کو سنایا جائے گا

    اسلام آباد : خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، کیس کا فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس پر سماعت کی ، عدالتی حکم پر وفاقی سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں جسٹس وقاراحمد نے استفسار کیا کیااستغاثہ ٹیم کوہٹانے سےپہلے عدالت سےاجازت لی گئی؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا حکومت تبدیلی کے بعد پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کواستغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا۔

    جسٹس شاہدکریم نے کہا عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا ، انہیں بات کرنے دیں، جس کے بعد عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو روسٹرم سے ہٹا دیا، جسٹس وقار احمد سیٹھ کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے جو کافی ہیں، پرویزمشرف کے وکیل کہاں ہیں؟ رجسٹرار خصوصی عدالت نے بتایا مشرف کے وکیل رضا بشیر عمرے پر گئے ہیں۔

    جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے کہا آج مشرف کے وکیل کو دلائل کے لئے تیسرا موقع دیا تھا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا میں وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوں، جس پر جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت تو اس کیس میں فریق ہی نہیں۔

    جسٹس شاہد کریم نے کہا سیکرٹری داخلہ اس کیس میں شکایت کنندہ ہیں ، وزارت داخلہ کوعلم نہیں تھا پراسیکیوٹر کے استعفے کے بعد بھی ٹیم کام کر رہی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کو شاید اس بات کا علم ہو، جسٹس نذر اکبر نے کہا وزارت داخلہ کے حکام کئی بار عدالت میں پیش ہوئے، کیسے ممکن ہے پیش ہونے والے افسران کو علم نہ ہو، شاید کیا بات ہے؟

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا حکومت کی تبدیلی پر پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کو استغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا، جسٹس نذراکبر کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کا اس کیس میں کوئی کردار نہیں۔

    جسٹس وقاراحمدسیٹھ نے کہا مختصر وقفے کے بعد اس حوالے سے مزید کارروائی کریں گے، بعد ازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، خصوصی عدالت 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنائے گی ، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کو دفاعی دلائل سے روک دیا تھا اور پراسیکیوشن کی نئی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا ، نئی ٹیم مقرر کرنے میں تاخیر پر عدالت نے بغیر سماعت فیصلہ محفوظ کیا، عدالت کا کہنا ہے کہ مشرف کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرادیں۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا، مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

    بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

  • آئین شکنی کیس: پرویز مشرف کی بیماری کی  بنیاد پر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد

    آئین شکنی کیس: پرویز مشرف کی بیماری کی بنیاد پر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : آئین شکنی کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی کیس کے التوا کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کے دفاع کے لئےسرکاری وکیل مقرر کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ ٹرائل شروع ہوچکا وہ ملزم کی بیماری یاعدم حاضری کی وجہ سے روکا نہیں جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی،  پرویزمشرف پھر پیش نہیں ہوئے۔

    سماعت میں استغاثہ نے عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی جانب سےمقدمہ خارج کرنےکی درخواست سے متعلق جواب جمع کرادیا، استغاثہ کی جانب سے  مقدمہ خارج کیے جانے کی مخالفت کی گئی اور جواب کی کاپی پرویز مشرف کے وکیل کےسپرد کر دی گئی۔

    وکیل پرویز مشرف نے خصوصی عدالت سے مشرف کی پیشی کے لیے ایک اور موقع دینے کی استدعا کی ، وکیل نے کہا کہ پرویزمشرف زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ ذہنی اورجسمانی طور پراس قابل نہیں کہ ملک واپس آسکیں، ان کا وزن تیزی سے کم ہورہا ہے، وہ وہیل چیئر پر ہیں اور پیدل بھی نہیں چل سکتے۔

    وکیل کا کہنا تھا ہر تاریخ سماعت پر کیس کے التواءکی استدعا پر ہمیں بھی شرمنگی ہوتی ہے، ان کے دل کی کیمو تھراپی ہورہی ہے، جس کے بعد صحت مزید خراب ہوتی ہے، انہیں ایک موقع اور دیاجائے تاکہ وہ خودعدالت میں پیش ہوسکیں۔

    جس پر عدالت نے کہا گذشتہ تاریخ پر رعایت دی،اب باری ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم کو اہمیت دیں اور استغاثہ کے وکیل سے پوچھا کیا آپ پرویز مشرف کی طبیعت سےمتعلق چیلنج کرتے ہیں؟ جس پر وکیل استغاثہ نے جواب دیا وکیل صفائی کے اپنے پاس براہ راست ا طلاع نہیں، ہمارے پاس بھی ان کی  صحت کےبارےمیں تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں، ہم اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

    استغاثہ کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے عدالت سے درخواست کی کہ مشرف کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے قلمبند کرنے کا موقع دیا، فریقین کو سننے کے بعد سماعت ملتوی کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویزمشرف کی بیماری کی بنیاد پر سماعت ملتوی کرنےکی استدعامسترد کردی اور سنگین غداری کیس میں  پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کرتے ہوئے مشرف کےموجودہ وکیل بیرسٹرسلمان کودلائل سےروک دیاگیا ، بیرسٹرسلمان کودلائل سےسپریم کورٹ کےحکم پرروکاگیا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کر تے ہوئے کہاہے کہ مفرور ملزم وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں کر سکتا ، مشرف خود کو قانون کے حوالے کریں تو  اپنی مرضی کا وکیل کر سکتے ہیں۔

    عدالت نے حکم دیا مقدمہ خارج کرنےکی درخواست زیر غورنہیں لائی جاسکتی، مشرف کے دفاع کیلئے وزارت داخلہ وکیل یا وکلا ٹیم مقررکرے، ٹرائل شروع ہو چکا، ملزم کی بیماری یاعدم حاضری پرروکا نہیں جاسکتا۔

    عدالت نے مشرف کی بریت کی درخواست بھی ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس کی سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی۔

  • غداری کیس : عدالت نے پرویز مشرف کو 342 کے بیان کیلئے سوالنامہ بھجوا دیا

    غداری کیس : عدالت نے پرویز مشرف کو 342 کے بیان کیلئے سوالنامہ بھجوا دیا

    اسلام آباد :  خصوصی عدالت  نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو 342 کے بیان کیلئے سوالنامہ بھجوا دیا ہے ، سوالنامے میں2007 کی ایمرجنسی لگانے سمیت 26 سوالات شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کے معاملے پر سابق صدر پرویز مشرف کو 342 کے بیان کیلئے سوالنامہ بھجوا دیاہے۔ سوالنامے میں 2007 کی ایمرجنسی لگانے سمیت 26 سوالات شامل ہیں۔

    سوالنامے میں سابق صدر سے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا یہ درست ہے مذکورہ تمام اقدامات آپ نے بغیر مجاز حکام کے مشورے کے انفرادی طور پر اٹھائے؟،کیا آپ اپنے دفاع میں کوئی ثبوت پیش کرنا چاہیں گے؟۔سوالنامے میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 340 دو کے تحت خود ہی حلف اٹھا کر اپنے حق میں گواہ بننا چاہیں گے؟

    آپ کے خلاف یہ مقدمہ کیوں بنایا گیا؟،استغاثہ اور ریاست کے گواہان نے آپ کے خلاف گواہی کیوں دی ہے؟۔ سابق صدر سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟ سنگین غداری کی سزا کے قانون کے سیکشن ٹو کے تحت قابل سزا ہے؟ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ درست ہے آئین معطل کر کے آپ نے آئین پامال کیا اور یوں آپ سنگین غداری کے مرتکب ہوئے؟

    کیا یہ درست ہے ایمرجنسی کا نفاذ کر کے آپ آئین کو معطل کرنے کے مرتکب ہوئے؟ سوالنامے میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ کے ان تمام اقدامات کو کبھی بھی کسی مجاز فورم نے جائز قرار نہیں دیا؟ ۔

    سوال کیا گیا ہے کہ کیا صدارتی حکم نامہ نمبر 5 کے مطابق  پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گئی، آپ کے ان اقدامات کو ئی نہ کوئی استثنیٰ حاصل ہوا جس کے باعث یہ تمام اقدامات آئین کی خلاف ورزی تھے؟ ۔سوال کیا گیا ہے کہ کیا تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں استغاثہ نے آپ کیخلاف یہ کیس بنایا اور فرد جرم عائد کی؟ ۔

    کیا ایف آئی اے نے 2013 کو تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کر دی؟ ۔کیا تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں دستاویزی ثبوتوں،گواہان کی فہرست اس عدالت میں جمع کرائی؟۔

    سوال کیا گیا ہے کہ کیا خط میں استغاثہ کے گواہ اور نامزد افسر سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایات دیں؟۔کیا شق270 اے اے اے کو آئین میں شامل کرکےایمرجنسی نفاذ تا اختتام اقدامات کو جائزقراردیا، توثیق کی؟ ۔

    سوالنامے میں پوچھا گیا ہے کہ کیا صدارتی حکم نامہ نمبر 5 کے مطابق  پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گئی۔کیا ججز حلف کے حکم نامے کے بعد اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے دوبارہ حلف بھی لیا؟۔

    سوال کیا گیا ہے کہ کیا آپ نے15 دسمبر 2007 کو بطور صدر ایمرجنسی نفاذ کے حکم ،عبوری آئین کافرمان منسوخ کرنے کاحکم نامہ جاری کیا۔سوالنامے میں پوچھا گیا ہے کہ کیا20 نومبر2007کو بطور صدر مملکت صدارتی حکم نامہ نمبر پانچ جاری کیا؟ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ درست ہے؟ چیف جسٹس آف پاکستان،سپریم کورٹ ججز ،چیف جسٹسز ہائی کورٹس اور ججز کی تقرری کی گی؟

  • خصوصی عدالت کا پہلا فیصلہ : گونگی بہری بچی سے زیادتی کے مجرم کو قید و جرمانہ

    خصوصی عدالت کا پہلا فیصلہ : گونگی بہری بچی سے زیادتی کے مجرم کو قید و جرمانہ

    لاہور : بچوں پر تشدد سے متعلق قائم خصوصی عدالت کا پہلا فیصلہ سامنے آگیا، گونگی بہری بچی سے زیادتی کے مجرم کو عمرقید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں بچوں پر تشدد سے متعلق قائم خصوصی عدالت نے پہلا فیصلہ سنا دیا ہے، عدالت نے یہ پہلا فیصلہ گونگی بہری بچی سے زیادتی کیس کا سنایا۔

    عدالت نے مجرم جاوید کو عمر قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، مجرم نے2015میں 15سال کی گونگی بہری بچی کو زیادتی کانشانہ بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں بچی سے زیادتی اور قتل کے تین ملزمان کے ڈی این اے میچ کرگئے

    علاوہ ازیں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں زیادتی کے بعد قتل بچی کے کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، گرفتارملزم رحیم اور فضل کا ڈی این اے میچ کرگیا، ملزم فضل کا بیٹابھی دھرلیا گیا۔ دوسری جانب اسٹار گیٹ سے لاپتہ گیارہ سالہ مسکان کا تاحال کچھ پتہ نہ چل سکا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔  

  • سابق صدر مشرف کی میڈیکل رپورٹ محکمہ صحت کے حوالے

    سابق صدر مشرف کی میڈیکل رپورٹ محکمہ صحت کے حوالے

    کراچی: گیارہ رکنی میڈیکل بورڈ نے سابق صدر پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ تیار کرکے محکمہ صحت سندھ کے حوالے کردی ہے، میڈیکل بورڈ بلوچستان حکومت کی درخواست پر تشکیل دیا گیا تھا۔

    سروسز اسپتال کے ایم ایس کے مطابق میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کی صحت سے متعلق تمام طبی صورتحال کی تفصیلات شامل کردی ہیں تاہم میڈیکل رپورٹ کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔

     ذرائع کے مطابق میڈیکل بورڈ کے اراکین نے سابق صدر پرویز مشرف کی رہائش گاہ جاکر ابتدائی طبی رپورٹ کے حوالے سے صلاح مشورہ کیا تھا ابتدائی طبی معائنے کے بعد بورڈ کے مختلف ڈاکٹروں کی جانب سے بنائی گئی میڈیکل رپورٹ سیل کرکے محکمہ صحت کے حوالے کردی گئی ہے ۔

  • سابق صدر مشرف کی درخواست کی سماعت آج ہو گی

    سابق صدر مشرف کی درخواست کی سماعت آج ہو گی

    اسلام آباد : سابق صدر پرویز مشرف کی سابق حکام کو شریک ملزم بنانے کی درخواست پر فیصلہ آج متوقع ہے، کیس کی سماعت آج اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں ہوگی۔

    جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس طاہر ہ صفدر اور جسٹس یا ور علی خان پر مشتمل خصو صی عدالت ملزم  پرویز مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کے مقدمہ کی 78 سماعتیں کر چکی ہے۔

    پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا کہ اکیلے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ امتیازی سلوک ہے اسے ختم کیا جائے یا ان کے 600سول و فوجی مددگاروں اور معاونین کو بھی شریکِ ملزمان کے طور پر شامل کرکے ازسر نو مقدمہ دائر کرنے کے احکامات دیئے جائیں۔

  • مشرف غداری کیس: خصوصی عدالت میں’کھراسچ‘ کا تذکرہ

    مشرف غداری کیس: خصوصی عدالت میں’کھراسچ‘ کا تذکرہ

    اسلام آباد: سابق صدرپرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کیس میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پرجرح کے دوران پروگرام ’کھراسچ‘ کا تذکرہ کیا گیا، فروغ نسیم نے تفتیشی ٹیم کے انچارج خالد قریشی سے سوال کیا کہ مبشر لقمان نے اپنے پروگرام میں ایمرجنسی سےمتعلق شوکت عزیز کا کلپ سنایا تھا، کیا آپ نے وہ پروگرام دیکھا؟

    غداری کے مقدمے کی سماعت خصوصی عدالت میں جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، تفتیشی ٹیم کے انچارج خالد قریشی کے بیان کے بعد پرویزمشرف کے وکیل فروغ نسیم نے جرح کی۔

    دورانِ جرح اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’کھراسچ ‘کا تذکرہ بھی آیا، فروغ نسیم نے سوال کیا کہ مبشر لقمان نے اپنے پروگرام میں سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کا ایک کلپ سنایا، جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ ایمرجنسی ان کی ایڈوائز پر لگائی گئی، کیا آپ نے وہ پروگرام دیکھا؟، جس کے جواب میں خالد قریشی نے کہا کہ نہیں وہ پروگرام نہیں دیکھا۔

    فروغ نسیم نے کہا کہ آپ نے تین نومبرکی پرویز مشرف کی تقریر کا ریکارڈ پی ٹی وی سے حاصل کرلیا، چارنومبرکی شوکت عزیزکی پریس کانفرنس کاریکارڈ کیوں حاصل نہیں کیا؟۔

    خالد قریشی نے جوام میں کہا کہ ایمرجنسی کے بعد جس کسی کی جانب سے جو بھی اقدامات اوراعلانات تھے، وہ ایمرجنسی کو تسلیم کرنے کے لئے تھے اوران کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وزیراعظم صدرکوایڈوئز دیتے ہیں جبکہ تین نومبر کی ایمرجنسی بطور چیف آف آرمی اسٹاف لگائی گئی۔ خالد قریشی پرجرح کل بھی جا ری رہے گی۔