Tag: spread

  • کیلیفورنیا میں لگنے والی آگ کیوں پھیلی؟ اہم وجہ سامنے آگئی

    کیلیفورنیا میں لگنے والی آگ کیوں پھیلی؟ اہم وجہ سامنے آگئی

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی شدت میں اضافہ برقرار ہے، موسم کا حال بتانے والوں نے آئندہ ہفتے بھی اسی شدت کی پیشگوئی کی ہے۔

    کیلیفورنیا میں موسم کی پیشن گوئی کرنے والے ادارے ’این ڈبلیو ایس‘ نے سانتا اینا ہواؤں سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہفتے آگ میں ایک بار پھر شدت کا امکان ہے۔

    آگ کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک لاکھ سے علاقہ مکین اپنے گھروں اور املاک کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔

    امریکا کے مقامی قانون سازوں نے کیلیفورنیا میں اکثر ہونے والی جنگل کی آگ سے ہونے والی تباہی سے بچاؤ کیلیے چار سال قبل ہی کچھ قواعد و ضوابط منظور کیے تھے۔ ن قواعد میں اس بات پر زور دیا گیا گیا تھا کہ خشک لکڑیوں سمیت آتش گیر مادوں کو گھروں سے کم از کم پانچ فٹ کے فاصلے تک رکھا جائے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان قواعد و ضوابط کا اطلاق یکم جنوری 2023سے ہونا تھا جو نہ ہوسکا۔

    اس حوالے سے ماہرین کو اس بات کا یقین تو نہیں کہ ان قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن قوانین کے نافذ نہ ہونے پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے۔

    ریاست کے ڈیمو کریٹک سینیٹر ہنری سٹرن کا کہنا ہے کہ قوانین کا نفاذ نہ ہونا انتہائی مایوس کن ہے، میں یہ بات مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناکامی محسوس ہوتی ہے۔

    یاد رہے کہ سینیٹر ہنری سٹرن اُن قانون سازوں کے گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے ان گھروں کو محفوظ رکھنے کے یہ ضوابط منظور کیے تھے۔

    پلیسیڈس کے آتشزدگی سے تباہ ہونے والے علاقے میں زیادہ تر ایسی آبادیاں ہیں جن کو ان ضوابط پر عمل کر کے اپنے گھروں سے آس پاس خشک لکڑیوں اور آتش گیر مواد دور رکھنا تھا۔

    کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات کی طرف سے خشک لکڑیوں کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ آگ لگنے اور پھیلنے کا باعث بنتی ہیں۔

    جنگلات کی حالیہ آگ کو سمندری طوفان سے چلنے والی ہواؤں نے دور تک پھیلایا اور پیسیفک پیلیسیڈس، مالیبو اور ٹوپانگا وادی سمیت قریبی علاقوں میں کم از کم 5 ہزار عمارتیں تباہ ہوئیں جبکہ دیگر شہروں کو بھی ملایا جائے تو یہ تعداد دس ہزار سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

    دوسری جانب محقق اور سائنس دان مائیک فلینیگن کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ بھڑکنے کے اسباب کا ابھی حتمی تعین نہیں ہوا ہے لیکن ان کے بقول تیز ہواؤں کے باعث گرنے والی بجلی کی لائنز ہی اس کا سبب نکلیں گی۔

  • انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    پرندوں میں پھیلنے والی بیماری برڈ فلو انسانوں میں بھی خطرناک شرح سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ برڈ فلو کے انسانوں میں بڑھتے کیسز تشویش ناک ہیں، ڈبلیو ایچ او نے یہ بیان کمبوڈیا میں وائرس سے متاثرہ 11 سالہ لڑکی کی موت کے بعد جاری کیا ہے۔

    کمبوڈیا کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ مرنے والی لڑکی کے والد کا وائرس کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے جس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ برڈ فلو انسانوں کو ایک دوسرے سے لگ سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے وبا اور اس سے نمٹنے کی تیاریوں کے پروگرام کے ڈائریکٹر سلوی بریانڈ نے بتایا کہ ان کا ادارہ کمبوڈیا میں حکام سے قریبی رابطے میں ہے اور مرنے والے لڑکی کے قریبی افراد کے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں۔

    جنیوا میں پریس کانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ انسانوں میں ایک دوسرے سے پھیلا یا پھر متاثرہ تمام افراد اس خاص ماحول کا حصہ رہے جہاں وائرس تھا۔

    ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسانوں میں یہ وائرس پایا جائے، عام طور پر متاثرہ پرندوں سے براہ راست رابطے میں آنے والے افراد برڈ فلو کا شکار ہوتے ہیں۔

    سنہ 2021 کے اواخر میں جب یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلا تھا اور دسیوں لاکھ مرغیوں کو تلف کیا گیا، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جنگلی پرندے ہلاک ہوئے۔ یہ وائرس بعد ازاں دیگر دودھ پلانے والوں جانوروں تک بھی پھیلتا گیا۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ عالمی طور پر برڈ فلو کا پھیلاؤ پریشان کن ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں پرندوں کے بعد اب دیگر جانوروں اور انسانوں میں بھی پایا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے اور دنیا کے تمام ملکوں کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے، ان کا کہنا تھا کہ انسانوں میں اس وائرس سے اموات کی شرح 50 فیصد ہے۔

  • اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں، اور اب حال ہی میں سپر کمپیوٹر سے کی جانے والی سیمولیشن سے بھی نیا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک سپر کمپیوٹر سے کیے گئے سیمولیشن سے پتا چلا ہے کہ جب لوگ ماسک پہننے کی صورت میں بھی 50 سینٹی میٹر کے اندر کے فاصلے پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیقی ادارے رکین کے ماہرین اور دیگر کی ایک ٹیم نے فوگاکو کمپیوٹر استعمال کر کے کرونا وائرس کے چھوٹے چھوٹے قطروں کے پھیلاؤ پر سیمولیشن کیا ہے۔

    گزشتہ کلسٹر انفیکشنز کے واقعات کی بنیاد پر بنایا گیا کہ یہ خاکہ اس قیاس پر تھا کہ اومیکرون، ڈیلٹا کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے متاثرہ ماسک پہنے شخص سے 15 منٹ کی گفتگو کے دوران جب دوسرے لوگ ایک میٹر یا اس سے زیادہ دور تھے تو انفیکشن کی اوسط شرح تقریباً صفر تھی۔

    لیکن جب وہ ایک دوسرے سے 50 سینٹی میٹر کے فاصلے پر تھے تو شرح تقریباً 14 فیصد بڑھی۔

    جب وائرس سے متاثرہ شخص ماسک نہ پہن ہوا ہو تو انفیکشن کی یہ شرح ایک میٹر کے فاصلے کے اندر تقریباً 60 فیصد بڑھ گئی اور 50 سینٹی میٹر کے اندر لگ بھگ 100 فیصد بڑھ گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ فاصلہ برقرار رکھنے سے انفیکشن کا خطرہ کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

  • کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کرونا وائرس سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو بالکل ویسے ہی پھیلا سکتے ہیں جیسے کووڈ 19 سے متاثرہ کوئی بالغ شخص۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بچے کووڈ 19 سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو آگے بالغ افراد کی طرح ہی پھیلا سکتے ہیں۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل، برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل اور ریگن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں سابقہ نتائج کی تصدیق کی گئی کہ نومولود بچے، چھوٹے اور بڑے بچوں کے نظام تنفس میں کرونا وائرس کی تعداد بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے اور ان کے جسموں میں اسی شرح سے وائرس کی نقول بنتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 2 ہفتے سے 21 سال کی عمر کے 110 بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے بچوں میں چاہے ان میں بیماری کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں، وائرل لوڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سوال پہلے سے موجود تھا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور زندہ وائرس کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب ٹھوس جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں کہ یہ زیادہ وائرل لوڈ متعدی ہوتا ہے یعنی بچے بہت آسانی سے کووڈ 19 کو اپنے ارگرد پھیلا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر بچے اس وائرس کو جسم میں لے کر پھر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طالب علم اور اساتذہ اب اسکول لوٹ رہے ہیں مگر اب بھی بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے، جیسے
    بیشتر بچوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے یہ غلط خیال پیدا ہوا کہ بچوں سے اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کے وائرل فیچرز کی جانچ پڑتال سے زیادہ بہتر پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

  • ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    نئی دہلی : پہلی بار بھارت میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم اور تباہ کن قسم ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلاؤ پر ماہرین بھی فکر میں مبتلا ہیں۔

    طبی ماہرین بھی پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

    برطانیہ اور بھارت کے طبی ماہرین کی مشترکہ نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیا وائرس اپنی نقول بنانے اور اس کے تیزی سے پھیلاؤ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا کا پھیلاؤ ممکنہ طور پر وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر حملے کی صلاحیت اور زیادہ متعدی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں لیبارٹری میں تجربات اور ویکسین کے بعد لوگوں کے بیمار ہونے یا بریک تھرو انفیکشنز کا تجزیہ کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ ڈیلٹا اپنی نقول بنانے اور وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیلاؤ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا قسم کے خلاف گھٹ جاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ممکنہ طور پر 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں کورونا کی تباہ کن لہر کا باعث بنے۔ یہ جاننے کے لیے ڈیلٹا قسم کس حد تک مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہوسکتی ہے، تحقیقی ٹیم نے خون کے نمونوں سے نکالے گئے سیرم کے نمونے حاصل کیے۔

    یہ نمونے ان افراد کے تھے جو پہلے کوویڈ کا شکار ہوچکے تھے یا ان کی ایسٹرازینیکا یا فائزر ویکسینز سے ویکسی نیشن ہوچکی تھی۔

    سیرم قدرتی بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز پر مشتمل تھے اور تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں قدرتی بیماری سے پیدا ہونے وای اینٹی باڈیز کی حساسیت یا افادیت 5.7 گنا کم ہوگئی۔

    ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا کے خلاف ایلفا کے مقابلے میں 8 گنا کمی دریافت ہوئی۔

    اسی حوالے سے دہلی کے 3 ہسپتالوں میں کام کرنے والے 100 طبی ورکرز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور ان میں ڈیلٹا کی تصدیق ہوئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ متاثرہ افراد میں ڈیلٹا کی منتقلی کا امکان ایلفا قسم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری تجربات کے لیے ڈیلٹا والی میوٹیشنز پر مبنی وائرس تیار کرکے اسے لیب میڈ تھری ڈی اعضا کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا خلیات میں داخل ہونے کے لیے دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے کیونکہ اس کی سطح پر اسپائیک پروٹین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

    ایک بار خلیات میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی نقول بنانے کے حوالے سے بھی دیگر اقسام سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ یہ دونوں عناصر وائرس کی اس قسم کو دیگر اقسام کے مقابلے میں سبقت حاصل ہوئی ہے اور یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں یہ دنیا کے مختلف ممالک میں بالادست قسم بن چکی ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کی قسم تیزی سے پھیلاؤ اور لوگوں کو بیمار کرنے کی بہتر صلاحیت کی وجہ سے دنیا بھر میں بالادست قسم بن گئی، یہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے وای مدافعت کے خلاف مزاحمت کی بھی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی مدافعت کے نتیجے میں ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر عموماً بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے مگر اس سے ان افراد کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے جو پہلے سے مختلف امراض کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر وائرس کی اقسام کے خلاف ویکسین کے ردعمل کو بہتر بنانے کے ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ بیماری کی روک تھام کے اقدامات کی ضرورت ویکسین کے بعد بھی ہوگی۔

    اس تحقیق میں برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ ریسرچ جبکہ بھارت کی وزارت صحت، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی کے ماہرین نے مل کر کام کیا تھا۔

  • بڑے شہروں میں کرونا وائرس کیسز کی شرح میں مسلسل اضافہ

    بڑے شہروں میں کرونا وائرس کیسز کی شرح میں مسلسل اضافہ

    اسلام آباد: ملک کے بڑے شہروں میں کرونا وائرس کیسز کی یومیہ شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے، کرونا وائرس کیسز کی یومیہ بلند ترین شرح راولپنڈی میں 23.93 فیصد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے بڑے شہروں میں کرونا وائرس کیسز کی یومیہ شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے، 2 اضلاع میں کرونا وائرس کیسز کی یومیہ شرح 20 فیصد سے تجاوز کر گئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 اضلاع میں کرونا وائرس کی یومیہ شرح 5 فیصد جبکہ مزید 7 اضلاع میں 10 فیصد سے زائد ہے۔ کرونا وائرس کیسز کی یومیہ بلند ترین 23.93 فیصد شرح راولپنڈی میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

    گلگت میں کرونا وائرس کیسز کی یومیہ شرح 9.26 فیصد، اسکردو میں 19.42 فیصد، دیامر میں 6.42 فیصد، مظفرآباد میں 15.85 فیصد اور میرپور میں 14.29 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

    کراچی میں کرونا وائرس کیسز کی یومیہ شرح 20.59 فیصد، حیدر آباد میں 16.67 فیصد، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 10.55 فیصد، پشاور میں 16.59 فیصد، صوابی میں 5.88 فیصد، مردان میں 8.86 فیصد اور ایبٹ آباد میں 7.65 فیصد رپورٹ کی گئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹے میں لاہور میں کرونا وائرس کے یومیہ کیسز کی شرح 7.51 فیصد، گجرات میں 1.82 فیصد، فیصل آباد میں 4.27 فیصد، گوجرانوالہ میں 2.60 فیصد اور بہاولپور میں 11.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

    اسی طرح صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ 24 گھنٹے میں کرونا وائرس کیسز کی شرح 4.37 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

    یاد رہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کے نئے یومیہ کیسز کی تعداد 5 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، مثبت کیسز کی شرح بھی 9 فیصد ہوگئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 60 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 23 ہزار 635 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 5 ہزار 661 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 10 لاکھ 53 ہزار 660 ہوگئی۔

  • ہوائی جہاز میں بھی کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنا ممکن، لیکن کیسے؟

    ہوائی جہاز میں بھی کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنا ممکن، لیکن کیسے؟

    واشنگٹن: امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر ہوائی جہاز کے مسافروں کے درمیان ایک نشست کا فاصلہ رکھا جائے تو کووڈ 19 کا خطرہ 50 فیصد سے بھی زائد کم ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٖضائی سفر کے دوران طیاروں کی درمیانی نشستوں یا مڈل سیٹس کو خالی رکھ کر مسافروں کو کرونا وائرس سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ طیارے میں مڈل سیٹس کو خالی رکھ کر کرونا سے متاثر کسی فرد سے وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ 23 سے 57 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں فضائی کمپنیوں پر زور دیا گیا کہ وہ طیاروں میں محدود تعداد میں مسافروں کی موجودگی کی حکمت عملی پر عملدر آمد جاری رکھیں، تاہم امریکا میں فضائی کمپنیوں میں اب تمام نشستوں پر بکنگ کی جارہی ہے۔

    ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ فلٹرز اور ہوا کے بہاؤ کے نظام مسافروں کے فیس ماسکس پہننے پر طیاروں کو وائرس کے پھیلاؤ سے روکتے ہیں۔

    یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) اور کنسس اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ہوا سے وائرس کے ذرات طیارے کے اندر کس حد تک پھیل سکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے طیارے کے کیبن جیسے ماحول میں پتلوں کا استعمال کرکے وائرل ذرات کے پھیلاؤ کی جانچ پڑتال کی۔

    تاہم اس تحقیق میں فیس ماسک کے استعمال کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا اور نہ ہی مسافروں کی ویکسی نیشن کے پہلو کو زیر غور رکھا گیا۔

    سی ڈی سی نے کچھ دن پہلے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے تاہم انہیں غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ طیارے میں مسافروں کے درمیان سماجی دوری لوگوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ 57 فیصد خطرہ اس صورت میں کم ہوتا ہے جب کووڈ کے مریض اور صحت مند فرد کے درمیان 3 نشستوں کا فاصلہ ہو۔

  • برطانیہ سے شہریوں کی واپسی کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا: یاسمین راشد

    برطانیہ سے شہریوں کی واپسی کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا: یاسمین راشد

    لاہور: صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے شہریوں کی واپسی کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لوگوں کی جانب سے بھی احتیاط میں کمی آئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں 126 کرونا وائرس وینٹی لیٹر پر ہیں۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ برطانیہ سے شہریوں کی واپسی کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لوگوں کی جانب سے بھی احتیاط میں کمی آئی۔

    انہوں نے کہا کہ صوبے میں بھرپور طریقے سے کرونا ویکسی نیشن شروع کردی ہے، ایکسپو سینٹر ویکسی نیشن کے حوالے سے سب سے بڑا مرکز بنایا گیا ہے۔ 1 لاکھ سے زائد ہیلتھ کیئر ورکرز اور 4 ہزار سے زائد بزرگوں کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی سائیڈ افکیٹ ہوتا تو اب تک علم ہو چکا ہوتا، ویکسی نیشن سے اگر کوئی موذی بیماری ہو تو بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس وافر مقدارمیں ویکسی نیشن موجود ہے، 60 سال سے زائد عمر کے لوگ مکمل ہوجائیں پھر نیچے کی طرف آئیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب تک صرف حکومت ویکسین منگوا رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹرز ویکسین منگوا سکتے ہیں تو امپورٹ کرلیں۔ کوویکس ہمارا سب سے بڑا ڈونر ہے، کوویکس ہماری 20 فیصد آبادی کو ویکسین دے گا۔

    صوبائی وزیر نے بتایا کہ صوبے میں شام 6 بجے کے بعد کسی بھی قسم کا پارک نہیں کھلے گا، ہمارے سامنے سب سے اہم چیلنج کرونا وائرس تھا، اب حالات نے مجبور کر دیا کہ دوبارہ سے پابندیاں لگائی جائیں۔

  • کیا کرونا وائرس کا مریض صرف بات کرنے سے بھی وائرس پھیلا سکتا ہے؟ ویڈیو نے سوال کھڑے کردیے

    کیا کرونا وائرس کا مریض صرف بات کرنے سے بھی وائرس پھیلا سکتا ہے؟ ویڈیو نے سوال کھڑے کردیے

    اب تک کرونا وائرس کو چھونے، چھینکنے یا کھانسنے سے پھیلنے والا وائرس سمجھا جاتا رہا تاہم حال ہی میں انکشاف ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ شخص صرف بات کرنے سے بھی اس وائرس کو پھیلا سکتا ہے۔

    حال ہی میں جاپانی سائنسدانوں نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ باتوں کے دوران کسی شخص کے منہ سے خارج ہونے والی ہوا کس طرح دوسروں کو کرونا وائرس کا شکار بنا سکتی ہے۔

    مذکورہ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں کہا کہ ہیئر ڈریسرز، بیوٹیشنز اور میڈیکل پروفیشنلز اس ذریعے سے کرونا وائرس کو اپنے کلائنٹس اور مریضوں تک منتقل کرسکتے ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس کے لیے اسموک اور لیزر لائٹ کے ذریعے منہ سے خارج ہونے والی سانس کو جانچا۔

    انہوں نے بتایا کہ جب ایک مخصوص انداز میں کسی شخص پر جھکا جائے، جیسے کوئی ہیئر ڈریسر بال دھونے یا کوئی ڈینٹسٹ مریض کے دانتوں کے معائنے کے لیے اس پر جھکتا ہے تو بہت امکان ہے کہ صرف اس کے بات کرنے سے بھی اس کی سانس کے ذریعے مضر ذرات دوسرے شخص کے قریب جاسکتے ہیں۔

    اس تجربے کے لیے دونوں افراد کا ماسک سمیت اور بغیر ماسک کے تجزیہ کیا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماسک نہ پہننے والے کی سانس کشش ثقل کی وجہ سے نیچے کی طرف جاتی ہے، ماسک پہننے کی صورت میں وہ اوپر ہی رہتی ہے اور قریب موجود شخص کے گرد ایک ہالہ سا قائم کرلیتی ہے، دونوں صورتوں میں سامنے والا شخص متاثر ہوسکتا ہے۔

    اس سے قبل یہ دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے کے دوران اس کے منہ سے نکلنے والے ذرات اور لعاب دہن کے قطرے دوسرے شخص تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔

    اب بات کرنے کے دوران ہونے والی ذرات کی اس منتقلی نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

  • کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 85 ہزار تک پہنچ گئی

    کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 85 ہزار تک پہنچ گئی

    بیجنگ / واشنگٹن: دنیا بھر میں جان لیوا کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 85 ہزار ہوچکی ہے، وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 3 ہزار جبکہ مختلف ممالک میں وائرس سے متاثر 42 ہزار افراد صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین میں گزشتہ روز مزید 47 افراد وائرس سے ہلاک ہوگئے جس کے بعد اموات کی تعداد 2 ہزار 70 ہوگئی ہے۔ ہفتے کے روز کرونا وائرس کے مزید 573 کیس رپورٹ ہوئے جس کے بعد وائرس سے متاثرین کی مجموعی تعداد 79 ہزار 251 ہوگئی ہے۔

    چین میں گزشتہ روز وائرس سے متاثر 2 ہزار 623 افراد علاج کے بعد اسپتالوں سے ڈسچارج کردیے گئے، ملک بھر میں اب تک 41 ہزار 625 وائرس کا شکار افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔

    جنوبی کوریا میں کرونا وائرس کے مزید 813 کیس رپورٹ ہوئے جس کے بعد مریضوں کی مجموعی تعداد 3 ہزار 150 ہوگئی، جنوبی کوریا میں وائرس سے اموات کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔ حکام نے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    قطر میں بھی کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا، عراق میں مزید 5 کیسز سامنے آگئے۔ ایران میں اب تک 43 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 543 ہوگئی ہے۔

    ادھر اٹلی میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 29 ہوگئی جبکہ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 1 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ فرانس میں بھی متاثرین کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔

    امریکا میں کرونا وائرس کے باعث پہلی ہلاکت نے حکام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن میں 50 سالہ خاتون کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد جان کی بازی ہار گئیں۔ امریکا میں کرونا کے مزید 3 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد مریضوں کی تعداد 66 ہوگئی ہے۔

    چین سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس سے اب تک 3 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔