نیٹ فلکس کی مقبول ترین ڈرامہ سیریز ’اسکوئڈ گیم‘ سے متعلق ایک اہم انکشاف کیا جارہا ہے کہ اس کا اسکرپٹ ماضی کی ایک سچی کہانی سے ماخوذ ہے۔
اسکوئڈ گیم ایک کورین ڈرامہ سیریز ہے جو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی ہے۔ اس میں 456 افراد کو ایک پراسرار کھیل میں حصہ لینے کی دعوت دی جاتی ہے جہاں انہیں بچوں کے روایتی کھیل کھیل کر بھاری انعامی رقم جیتنے کا موقع ملتا ہے، لیکن دوسری جانب ہارنے والوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسکوئڈ گیم میں شرکاء کو 6 مختلف بچوں کے کھیل کھیلنے ہوتے ہیں، جن میں ‘سرخ بتی، سبز بتی کھلونے کا کھیل’, ‘کھمبی کاٹنے کا کھیل’, ‘ماربل’ اور ‘پُل کا کھیل’ شامل ہیں۔
ہر کھیل میں ہارنے والے کو جان سے مار دیا جاتا ہے اور جو سب سے آخری کھلاڑی بچتا ہے وہ 45.6 بلین وان (کورین کرنسی) کا انعام جیت جاتا ہے۔
اس سیریز نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے موضوعات، کرداروں اور اس کی کہانی پر بہت زیادہ بحث کی گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں کچھ سوشل میڈیا ویڈیوز خاص طور پر ٹک ٹاک پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسکوئیڈ گیم دراصل 1986میں پیش آنے والے ایک سچی واقعے پر مبنی ہے۔
ان ویڈیوز میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایک ’نو مینزلینڈ‘ (یعنی ایسا علاقہ جو کسی ملک میں نہیں آتا) میں ایک زیر زمین بنکر میں کچھ لوگوں کو زبردستی رکھا گیا اور انہیں زندہ رہنے کے لیے خطرناک کھیل کھیلنے پڑے تھے۔
حقیقت کیا ہے؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات کے کوئی واضح اور مضبوط شواہد موجود نہیں کہ 1986 میں واقعی ایسا کچھ ہوا تھا جس کی بنیاد پر اسکوئیڈ گیم بنایا گیا ہو۔ ’نو مینزلینڈ‘ سے مراد شاید کوریا کے شمال اور جنوب کے درمیان غیر فوجی علاقہ ہو سکتا ہے، لیکن اس میں ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ پر موجود نہیں۔
ان ٹک ٹاک ویڈیوز میں کچھ تصاویر دکھائی جا رہی ہیں وہ اصلی ہیں لیکن وہ تصاویر ’اسکوئیڈ گیم‘ کی سچی کہانی ثابت نہیں کرتیں۔ دراصل وہ تصاویر کوریا میں موجود اس مقام کی ہیں جسے ’برادرز ہوم‘ کہتے ہیں۔
برادرز ہوم : انتہائی خوفناک سچائی
1980کی دہائی میں کوریا میں حکومت نے گداگروں اور بے گھر افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ تاکہ ایشین گیمز اور سیول اولمپکس سے پہلے ملک کی اچھی تصویر دنیا کو دکھائی جائے۔ جس کیلیے اس وقت کے صدر نے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ سڑکوں سے ’آوارہ‘ لوگوں کو فعری طور پر ہٹایا جائے۔
ایسے میں ’ویلفیئر سینٹرز‘ قائم کیے گئے جہاں اصل میں ان لوگوں کو جبراً رکھا جانے لگا ان مراکز میں ہزاروں لوگوں کو پکڑ کر رکھا گیا، ان پر تشدد ہوا، جنسی زیادتیاں ہوئیں اور کئی لوگ مارے گئے۔
ان مراکز میں قیدیوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی، حکومت کی طرف سے اتنے زیادہ پیسے ملتے۔ اسی لیے پولیس نے بچوں، مزدوروں اور شناختی کارڈ نہ رکھنے والوں کو بھی پکڑ کر ان مراکز میں ڈال دیا۔
ان مراکز میں ’برادرز ہوم‘ ہی سب سے بدنام تھا جہاں قیدیوں کو وہاں بھوکا رکھا جاتا، مارا پیٹا جاتا اور طرح طرح کی اذیت دی جاتی تھی۔
کچھ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو سخت جسمانی مشقت اور مبینہ ’کھیلوں‘ میں زبردستی شامل کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے کچھ لوگ اسکوئیڈ گیم کی کہانی کو اس حقیقی واقعے سے جوڑتے ہیں۔