Tag: stage drama

  • اسٹیج ڈراموں سے متعلق سعودی خواتین کیلئے حکومت کا اہم اعلان

    اسٹیج ڈراموں سے متعلق سعودی خواتین کیلئے حکومت کا اہم اعلان

    ریاض : سعودی عرب میں پہلی بار تھیٹر کا آغاز کیا جارہا ہے جس میں خواتین اداکارائیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی، سعودی وزیر ثقافت کا کہنا ہے کہ حکومت تھیٹر کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں اسٹیج ڈراموں کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا، اس سلسلے میں سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے کنگ فہد کلچرل سینٹر ریاض میں قومی تھیٹر کا افتتاح کیا۔

    تقریب میں سعودی عرب اور عالم عرب میں تھیٹر آرٹ سے دلچسپی رکھنے والی شخصیات، دانشور اور فن کاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ بدر بن عبداللہ نے کہا کہ وزارت ثقافت ملک میں تھیٹر کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے، اسٹیج ڈراموں کے فنکاروں کو مزید مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔

    اس موقع پر قومی تھیٹر کے سربراہ اور معروف فنکار عبدالعزیز الاسماعیل نے کہا کہ سعودی تھیٹر اپنی آب و تاب کے ساتھ واپس آرہا ہے، اب خواتین اداکارائیں بھی خود کو اسٹیج پر بھی منوائیں گی۔

    تھیٹر کلچر کو عام کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری بھی ہوگی، ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں قومی تھیٹرز کی خدمات اور تجربات کو مدنظر رکھ کر سعودی عرب میں تھیٹر کو فروغ دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے 2016 کے بعد خواتین کو آزادیاں دینا شروع کیں اور گزشتہ چند سال میں خواتین کو جہاں ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی، وہیں انہیں کسی بھی مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر بیرون ملک کا دورہ کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔

    سعودی حکومت نے حالیہ چند سال میں خواتین کو مردوں کے ساتھ کام کرنے سمیت انہیں اداکاری کرنے کی اجازت بھی دی ہے جب کہ خواتین اب وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، سیکیورٹی اور سفارتی عہدوں سمیت دیگر عہدوں پر بھی کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

  • مودی سرکار کیخلاف اسٹیج ڈرامہ کرنے پر دو مسلمان خواتین گرفتار

    مودی سرکار کیخلاف اسٹیج ڈرامہ کرنے پر دو مسلمان خواتین گرفتار

    جھاڑکھنڈ : متنازع قانون کیخلاف ڈرامہ کرنے والی اسکول ہیڈ مسٹریس اور اداکار بچے کی والدہ کو گرفتار کرلیا گیا، دونوں خواتین مسلمان ہیں، جن کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کیخلاف احتجاج کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے، احتجاجی مظاہروں نے مودی سرکار کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا، اس حوالے سے جھاڑکھنڈ کے ایک اسکول میں اسٹیج ڈرامہ کا انعقاد کیا گیا۔

    متنازع قانون کیخلاف ڈرامہ اسٹیج کرنے پر پولیس نے اسکول کی ہیڈ مسٹریس اور ڈرامہ میں کردارادا کرنے والے بچے کی والدہ کو گرفتار کرلیا۔ دونوں خواتین کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

    اسکول ہیڈ مسٹریس اور بچے کی والدہ دونوں مسلمان ہیں، مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسکول ڈرامے میں وزیراعظم نریندر مودی کو منفی اندازمیں پیش کیا گیا۔

    واضح رہے کہ بھارت میں مودی سرکار کے تحت منظور کیے گئے متنازع شہریت بل کے خلاف بھارت کی کئی ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم مغربی بنگال کی اسمبلی میں مسلم مخالف قانون کے خلاف قرارداد کی منظوری کے بعد احتجاج میں تیزی آ گئی ہے۔

    گزشتہ روز ضلع مرشد آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔

  • ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    کسی بھی جرم کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لیے جیوری کو انتہائی باریک بینی سے عدالتی کارروائی کا جائزہ لینا ہوتا ہے ‘ خصوصاً جب مقدمہ قتل کا ہو‘ کوئی شخص مارا جاچکا ہے اور کسی کی زندگی داؤ پر لگی ہو تو ایسے میں جیوری کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ اسی صورتحال پر مشتمل اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم‘ آرٹس کونسل میں پیش کیا جارہا ہے۔

    گزشتہ رات کراچی کے آرٹس کونسل آف پاکستان میں گولڈن بیئر ایوار ڈ یافتہ امریکی فلم’’ ٹویلو اینگری مین‘‘  پر مبنی اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ’اسٹیج نوماد‘ کی پیشکش ہے اور اس کی ہدایت کاری کے فرائض میثم نظر نقوی نے انجام دیے ہیں۔ ڈرامے کو انگلش فلم سے اردو قالب میں ڈھالنے کا مشکل کام وسعت اللہ خاں نے انجام دیا ہے۔

    ڈرامے کی کاسٹ میں کلثوم فاطمی‘ عثمان شیخ‘ یوگیشور کاریرا‘ شاہ حسن‘ علی حیدر‘ مجتبیٰ رضوی‘ ابراہیم شاہ‘ راؤ جمال‘ منیب بیگ‘ ماہا رحمن‘ فراز علی اور جبران ملک شامل ہیں۔

    ڈرامے کی کہانی‘ قتل کے مقدمے میں ملوث اٹھارہ سال عمر کے ایک نوجوان کے گرد گھومتی ہے‘ جسے اس کے باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی جرح اور گواہوں کے بیان اسے مجرم قرار دیتے ہیں اور وکیلِ صفائی اس نوجوان کی حمایت میں عدالت کو قائل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد جج جیوری کے ارکان کو حکم دیتا ہے کہ وہ باریک بینی سے مقدمے کی کارروائی اور دیگر تمام نکات جائزہ لے کر طے کرلیں کہ آیا یہ لڑکا قصور وار ہے کہ نہیں۔

    ڈرامے کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ جیوری کے بارہ ارکان ایک کمرے میں براجمان ہیں اور پہلی ووٹنگ میں ۱۱ ارکان لڑکے کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ ایک رکن کا خیال ہے کہ انہیں اس مقدمے پر مزید غور وفکر کرنا چاہئے۔

    یہی سے ڈرامے کی بُنت شروع ہوتی ہے اور یکے بعد دیگرے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیوری کے ارکان کی شکل میں مقامی سطح پر پائے جانے والے ہر قسم کے رویے کو یکجا کردیا ہے جس سے اس سنجیدہ موضوع پر بننے والے ڈرامے میں مزاح کا عنصر شامل ہوا اورناظرین ایک لحظے کو بھی بوریت کا شکار نہیں ہوئے۔


    آغا حشر کا ڈرامہ – یہودی کی لڑکی


    ڈرامے میں یہ اداکار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں‘ پھبتیاں کستے ہیں ‘ ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ مقامات پر اپنی رائے کے خلاف بات کرنے والے کو مارنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے‘ کوئی بھی شخص اپنے موقف کی مخالفت میں ایک لفظ سننا نہیں چاہتااور اگر کچھ لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کس قدر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    قتل کے اس مقدمے کے ایک ایک نکتے کو ڈرامے میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے یہاں تک کہ جیوری کے ارکان آپس میں تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے موقف کی حمایت میں اداکاروں نے اس قدر عمدگی سے ڈائیلاگ ادا کیےہیں کہ ناظرین کا ذہن ان کے ساتھ بندھ کر رہ گیا‘ اور ارکان ہی کی طرح ناظرین بھی اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے کہ آیا یہ لڑکا واقعی مجرم ہے؟ یا کچھ اور ہےجس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔

    ایک ڈائیلاگ ڈرامے میں ایسا ہے جہاں وسعت اللہ خاں جیسے ماہر بھی غلطی کرگئے‘ جیوری کا ایک رکن ملزم کی پرورش پر نکتۂ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اسے تو انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں آتی‘‘۔ حالانکہ ڈرامے کا پسِ منظر پاکستانی رکھا گیا ہے۔ اسٹیج پر قائد اعظم کی تصویر موجود ہے اور وہ لڑکا جس نے ساری عمر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں گزاری‘ وہاں انگریزی جاننے یا بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    سیٹ کا ڈیزائن بہت زیادہ متاثر کن نہیں تھا اور اس میں بہت حد تک بہتری کی گنجائش تھی۔ بعض مقامات پر پسِ پردہ موسیقی کی بے پناہ ضرورت محسوس ہوئی تاہم اداکاروں کے لہجے کے اتارچڑھاؤ نے اس کمی پر کسی حد تک پردہ ڈالے رکھا۔

    ڈرامے کے اختتام پر جیوری کے ارکان کس نتیجے پر پہنچے اس کے لیے تو آپ کو آرٹس کونسل کا رخ کرنا پڑے گا جہاں یہ شو 30 جولائی تک جاری ہے‘ تاہم میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ سنجیدہ موضوعات پر بننے والے ایسے اسٹیج شو شہر قائد میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں اور انہیں دیکھنا یقیناً ایک سود مند تفریح ہے۔

    مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی عمدہ کاوش ہے اور اسٹیج ڈرامہ جو کہ ہمارے معاشرے میں متروک شدہ صنف سمجھاجانے لگا تھا‘ ایک بار پھر اپنے قدموں پر سنبھل رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اسی نوعیت کے ڈرامے اس کے قدموں کو توانا کرتے رہیں گے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • لیجنڈری معین اخترکو بچھڑے چاربرس بیت گئے

    لیجنڈری معین اخترکو بچھڑے چاربرس بیت گئے

    کراچی ( ویب ڈیسک) – چاردہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرنے والےہردلعزیزفنکارمعین اختر کا آج ہم سے بچھڑے چار برس بیت چکے ہیں۔ فن کی دنیا میں مزاح سے لیکر پیروڈی تک اسٹیج سے ٹیلی ویژن تک معین اختروہ نام ہے جس کے بغیر پاکستان ٹیلیویژن اوراردو مزاح کی تاریخ نامکمل ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے معین اختر 24 دسمبر 1950 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے کام کا آغاز 6 ستمبر 1966ء کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی تقاریب کے لیے کیے گئے پروگرام سے کیا۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں، سٹیج شوز میں کام کرنے کے بعد انور مقصود اور بشرہ انصاری کے ساتھ ٹیم بنا کر کئی معیاری پروگرام پیش کیے۔

    نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرئر کی ابتداء ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔

    معین اختر نے کئی یادگار اور مثالی کردار ادا کئے جنہیں لازوال حیثیت حاصل ہے۔ جن میں میڈم روزی اورسیٹھ منظوردانہ والا بے پناہ مشہور ہیں

    مرحوم معین اختر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول تھے،اے آر وائی کا پانچ سال تک جاری رہنے والاشہرہ آفاق پروگرام لوزٹاک بھارت میں بھی بے حد مقبول رہا، جس میں انہوں نے چارسو کے قریب مختلف روپ دھارے،اوراس پروگرام سے متاثرہوکراسی طرز کا ایک پروگرام بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی پیش کیا گیا۔

    لیجنڈ اداکار معین اخترنے ریڈیو ٹی وی اور فلم میں ادا کاری کے کئی یاد گا جوہر دکھائے،چوالیس سال تک کامیڈی اداکاری گلوکاری اور پروڈکشن سمیت شوبز کے تقریباً ہرشعبے میں ہی کام کیا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں ہاف پلیٹ، سچ مچ ،عید ٹرین میں، مکان نمبر 47، فیملی ترازو،سات رنگ، بندرروڈ سے کیماڑی،بند گلاب، اسٹوڈیو ڈھائی،یس سرنو سر،انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو ودیگر شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ انہوں نے مختلف پروگراموں میں میزبانی کے دوران اپنے برجستہ جملوں سے اپنے لاکھوں سننے والوں کو محظوظ کیااور زبردست شہرت پائی۔

    ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں، بچاؤ معین اخترسے، ٹارزن معین اختر، بے بیا معین اختر، بکرا قسطوں پر، بایونک سرونٹ، بس جانے دو معین اختر،قابل ذکر ہیں۔

    مزاح نگار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر فلم اور اسٹیج کے فنکار بھی تھے۔ انہیں متعدد اعزازا ت سے بھی نوازا گیا، انہیں انکے کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغا حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔
    معین اختر22 اپریل 2011 میں اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک عظیم فنکار سے محروم ہو گیا۔

    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
    ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے

  • خیبر پختونخوا میں غیراخلاقی فلموں، سٹیج ڈراموں پرپابندی

    خیبر پختونخوا میں غیراخلاقی فلموں، سٹیج ڈراموں پرپابندی

    پشاور:خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار تحریک انصاف کی حکومت نے کیبل پر نشر کیے جانے والی غیر اخلاقی فلموں، سٹیج اورسی ڈیزڈراموں پرپابندی عائد کرنے کے لیے ایک بل صوبائی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔

    یہ بل منگل کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا۔

    بل کے مطابق ’صوبے بھر میں سنسر بورڈز کی اجازت کے بغیر کیبل پر نشر کیے جانے والے اخلاق سے گرے ہوئے مواد اور غیر اسلامی تمام فلموں، ڈراموں اور شوز پر پابندی عائد کی جائے گی جبکہ عوامی مقامات پر فلموں اور ڈراموں کی عکس بندی پر بھی پابندی ہوگی۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں کوئی فلم، ڈرامہ یا سٹیج شو سنسر بورڈ کی منظوری کے بغیر نمائش کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا بصورت دیگر خلاف ورزی کرنے والوں پر تین سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    بل کے تحت صوبے میں ایک سے زائد سنسر بورڈز کا قیام عمل میں لایا جائےگا جبکہ ہر بورڈ چیئرمین سمیت چار ممبران پر مشتمل ہوگا۔

    بل کے قانون بننے کے بعد صوبے میں ایک سال کے اندر اندر بننے والی تمام فلموں اور سٹیج ڈراموں کو بھی سنسر بورڈ سے سرٹیفکیٹ لینا ہوگا ورنہ ان پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔

    بل کےمطابق اس سلسلے میں درجہ اول مجسٹریٹ کےکسی بھی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا اور نہ ہی کسی عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ مجسٹریٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکے۔

    خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں کبیل پر ایک عرصہ سے غیر اخلاقی فلمیں اور پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں جس پرعوامی حلقوں کی جانب سے متعدد بار اعتراضات کیے گئے ہیں۔

    تاہم حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مواد میں کچھ عرصہ پہلے تک اضافہ دیکھا جا رہا تھا لیکن آج کل کیبل پرایسا مواد کم ہی نظر آرہا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہےکہ کاپی رائٹ کے قوانین کے نہ ہونے کی وجہ سے فلمیں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں اور فنکاروں کو بھی خسارے اور مشکلات کا سامنا ہے۔