Tag: Standing Committee on Finance

  • گوادر کو خصوصی اقتصادی ڈسٹرکٹ بنانے کا معاملہ وفاقی کابینہ کو پیش

    گوادر کو خصوصی اقتصادی ڈسٹرکٹ بنانے کا معاملہ وفاقی کابینہ کو پیش

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر کو خصوصی اقتصادی ڈسٹرکٹ بنانے کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں گوادر کے 1200 مربع کلو میٹر کے علاقے کو خصوصی اقتصادی ڈسٹرکٹ ڈکلیئر کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

    نمائندہ بلوچستان حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیئرمین سینیٹ نے اس پر خصوصی اجلاس بلائے ہیں۔

    کمیٹی نے گوادر کو خصوصی اقتصادی ڈسٹرکٹ بنانے کا معاملہ کابینہ کو بھیج دیا۔

    اجلاس میں نیشنل ٹیرف کمیشن (این ٹی سی) حکام نے بتایا کہ لیکوڈ پیرافین پر کسٹم اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی صفر کرنے کی تجویز ہے، لیکوڈ سوڈا پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی 4 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    این ٹی سی کی جانب سے کہا گیا کہ لیکوڈ سوڈا پر 4 ہزار فی میٹرک ٹن کسٹم ڈیوٹی اور 7 فیصد اے سی ڈی عائد ہے، کیلشیئم کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 3 فیصد سے بڑھا کر 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

    کمیٹی نے این ٹی سی کی متعدد تجاویز کی منظوری دے دی۔

  • پنجاب انتخابات: الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا معاملہ قومی اسمبلی بھیجنے کا فیصلہ

    پنجاب انتخابات: الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا معاملہ قومی اسمبلی بھیجنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا معاملہ قومی اسمبلی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر رقم مختص کی لیکن اس کے اجرا کا اختیار اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز کے اجرا کے معاملے پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں سپریم کورٹ کے اسٹیٹ بینک کو جاری احکامات کا قانونی جائزہ لیا گیا۔

    گورنر اسٹیٹ بینک بیرون ملک دورے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، تاہم خصوصی دعوت پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت اور سیما کامل نے شرکت کی۔

    وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان، آڈیٹرجنرل آف پاکستان محمد اجمل گوندل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، وزیر تجارت سید نوید قمر اور وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

    وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور پختونخواہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات سنانا چاہتا ہوں جس پر رکن کمیٹی برجیس طاہر نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو بریفنگ سے روک دیا۔

    برجیس طاہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 63 اے میں ترمیم کی، اب آرٹیکل 84 میں بھی مرضی کی ترمیم کرلے، اسٹیٹ بینک کا الیکشن کروانے کے لیے فنڈز جاری کرنا خلاف قانون ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر صرف پنجاب میں الیکشن ہوئے تو یہ پورے ملک کو اثر انداز کریں گے، ابھی ہونے والے الیکشن چھوٹے صوبوں کا استحصال کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم خلاف آئین فنڈز نہیں دے سکتے، ہم نے آئین کی پاسداری کا حلف لیا ہے، 21 ارب کی خلاف ضابطہ فراہمی آڈٹ پر اعتراضات اٹھیں گے۔

    قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 21 ارب روپے مختص کرنے کا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر رقم مختص کی لیکن اس کے اجرا کا اختیار اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں۔

    وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے لیکن فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ حکومت کا ہے، اس سال بجٹ میں الیکشن کے لیے پیسے مختص نہیں کیے گئے ہیں، سپلیمنٹری گرانٹ کے طور پر منظوری قومی اسمبلی سے لینا ہوگی۔

    کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا کہ حکام وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک حکام کو توہین عدالت سے نہ ڈرائیں، پارلیمنٹ کو بھی اپنی توہین پر ایکشن کا اختیار ہے، پارلیمنٹ کی توہین کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا پورا اختیار ہے، پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے۔

    رکن کمیٹی موسیٰ گیلانی نے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کی دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرے اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے کا اختیار میرے والد کو بھی نہیں ہوسکتا، اسٹیٹ بینک کون ہوتا ہے جو پبلک منی کو قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر خرچ کرے۔

    اجلاس میں الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا معاملہ قومی اسمبلی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، کیمٹی نے فیصلہ کیا کہ وزارت خزانہ الیکشن کمیشن فنڈز کی سمری کابینہ میں لائے اور قومی اسمبلی سے منظوری لے۔

    وفاقی حکومت نے فنڈز کے لیے سمری آج ہی وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ کابینہ سے منظوری کے بعد آج ہی معاملہ قومی اسمبلی لے جایا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کا اختیار نہیں، قومی اسمبلی نے منظوری دی تو فنڈز جاری ہوجائیں گے۔ خزانہ ڈویژن بھی کابینہ اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر فنڈز استعمال نہیں کر سکتی۔

  • منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے لیے جرمانے اور سزا میں اضافہ

    منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے لیے جرمانے اور سزا میں اضافہ

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے لیے 50 لاکھ جرمانے، زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا اور جائیداد ضبط کی سفارش منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2019 کا جائزہ لیا گیا۔

    اجلاس میں منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے لیے سزاؤں میں اضافے کی تجویز دی گئی، تجویز میں کہا گیا کہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو 50 لاکھ جرمانہ، 10 سال قید کی سزا اور جائیداد ضبط کی جائے۔

    فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈائریکٹر جنرل منصور صدیقی نے کہا کہ سخت سزاؤں کا مقصد منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف سفارشات پر عمل ہے۔ سعودی عرب میں منی لانڈرنگ پر 10 سال قید اور 50 لاکھ ریال جرمانہ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سنگاپور میں منی لانڈرنگ پر 5 لاکھ ڈالر جرمانہ ہے۔

    چئیرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کا متعلقہ حصہ پڑھا جس کے بعد سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ جو ترمیم کی جا رہی ہے وہ ایف اے ٹی ایف سفارشات کے مطابق نہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف کم از کم سزا ایک سال برقرار رہنی چاہیئے، اصل مسودہ قانون مناسب ہے اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ کم از کم سزا ختم کرنا مناسب نہیں۔

    بعد ازاں کمیٹی نے جائیداد ضبطگی کا دورانیہ 90 دن سے بڑھا کر 180 دن کرنے کی سفارش منظور کر لی۔

    وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے کہا کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لیے زیادہ دورانیہ درکارہے۔ منی لانڈرنگ کے ملزمان کے خلاف تحقیقات 90 دن میں مکمل نہیں ہوسکتی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ بینک ریکارڈ اور تحقیقات کے لیے 190 دن ضروری ہیں۔