کراچی : اسٹیٹ بینک نے30جون2018کو ختم ہونے والے مالی سال کی معاشی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ مالی سال ترقی کا ہدف6.2فیصد کے مقابلے میں3.3 فیصد رہا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال کی معاشی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ مالی سال ترقی کا ہدف6.2فیصد کے مقابلے میں3.3 فیصد رہا۔
زراعت کے شعبے میں شرح نمو اعشاریہ8فیصد رہی جبکہ صنعتی شرح نمو 1اعشاریہ4فیصد رہی، اسٹیٹ بینک جائزہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال مہنگائی کی شرح7اعشاریہ3فیصد رہی۔
جاری کھاتوں کا خسارہ4اعشاریہ8فیصد رہا جبکہ مالیاتی خسارہ8اعشاریہ9فیصد رہا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال معاشی شرح نمو9سال کی کم ترین سطح پر رہی۔
گزشتہ مالی سال کے دوران شرح سود میں اضافہ ہوا، بجلی، گیس مہنگی ہوئی جس کے باعث گزشتہ سال مہنگائی چار سال بعد اپنے ہدف سے زائد رہی۔
اس کے علاوہ گزشتہ مالی سال معاشی سست روی سے گھریلو اخراجات میں کٹوتی دیکھی گئی اور دیہی اور شہری آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔
کراچی : اسٹیٹ بینک نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شعبہ بینکاری کی کارکردگی دشواری کے باوجود تسلی بخش رہی، اثاثوں میں2019کی پہلی ششماہی کےدوران 5اعشاریہ3فیصد اضافہ ہوا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اپنی جائزہ رپورٹ میں شعبہ بینکاری کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے ایم پی آر برائے2019جاری کردیا ہے جس میں شعبہ بینکاری کی کارکردگی اور مضبوطی کا جامع اندازمیں احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شعبہ بینکاری2019کی پہلی ششماہی کےدوران مضبوط رہا، دشواری کے باوجود بینکوں کی کارکردگی تسلی بخش رہی، بینکوں نے اپنی نمو کی رفتار برقرار رکھی۔
اسٹیٹ بینک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اثاثوں میں2019کی پہلی ششماہی کےدوران 5اعشاریہ3فیصد اضافہ ہوا جبکہ قرضوں کی نمو میں کمی اقتصادی سست روی کا نتیجہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جائزہ رپورٹ کے مطابق شعبہ بینکاری کا بحیثیت مجموعی رسک پروفائل مضبوط رہا۔
کراچی : اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ ستمبر2019میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ25 کروڑ ڈالر رہا جو اگست2019سے35کروڑ ڈالر کم ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ستمبر2019میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ25 کروڑڈالررہا، ماہ ستمبر کا خسارہ اگست سے35کروڑ ڈالرکم رہا۔
مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ1.54ارب رہا جبکہ مالی سال19 کی پہلی سہ ماہی کاخسارہ4.28ارب ڈالر تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ63 فیصد کم ہے، تین ماہ میں تجارتی خسارہ تقریباً4.99ارب ڈالر ہے۔
یہ تجارتی خسارہ سوا 3ارب ڈالر کم ہوا ہے، تین ماہ میں خدمات کاخسارہ1.20ارب ڈالر رہا،اسٹیٹ بینک کے مطابق تین ماہ میں آمدن کا خسارہ1.48ارب ڈالر رہا،جس میں تجارت، خدمات اور آمدن کاخسارہ7.68ارب ڈالر رہا۔
اس کے علاوہ سیکنڈری آمدن کے کھاتوں میں6 ارب 13کروڑ ڈالر آئے اور خسارے کی فنانسنگ کے لئے1.44ارب ڈالر قرض لیا گیا۔
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک حکام نے قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ جنوری سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی، مہنگائی کی شرح گرنے پر پالیسی ریٹ میں بھی کمی پر غور کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اسٹیٹ بینک حکام نے بتایا کہ جنوری سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی، آئی ایم ایف نے مہنگائی 13 فیصد تک بڑھنے کی پیشگوئی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کا اندازہ ہے مہنگائی 11 سے 12 فیصد کے درمیان رہے گی، مہنگائی کی شرح گرنے پر پالیسی ریٹ میں بھی کمی پر غور کیا جائے گا۔
رکن اسمبلی حنا ربانی کھر نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں اضافے سے مہنگائی بھی بڑھ گئی، بتایا جائے پالیسی ریٹ میں اضافے سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہوا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ کمیٹی نے مانیٹری پالیسی میں نرمی اور پالیسی ریٹ میں کمی کی سفارش کردی۔
عاائشہ غوث پاشا نے کہا کہ سخت مانیٹری پالیسی کا فائدہ نجی بینک اٹھا رہے ہیں، پالیسی ریٹ 13.25 کی سطح پر لے جانا ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام کی جانب سے کہا گیا کہ 30 جون سے روپیہ مستحکم ہونا شروع ہو گیا ہے، روپے کی قدر میں 2.5 فیصد بہتری آئی ہے۔ ڈالر کا مستقبل میں زیادہ سے زیادہ متوقع ریٹ 163 روپے ہے، ڈالر ریٹ کا تعین بھی مارکیٹ خود کرے گی۔
بینک کی جانب سے کہا گیا کہ لوگ جتنی افواہیں پھیلائیں، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی بنیاد پر طے ہوگا، اسٹیٹ بینک اس وقت مداخلت کرتا ہے جب وہ ضروری سمجھتا ہے۔
کراچی : اسٹيٹ بينک آف پاکستان نے کہا ہے کہ فارن کرنسی کی غیر مجاز خرید و فروخت اور منتقلی غیر قانونی ہے، غیرقانونی زرمبادلہ کے کاروبار میں ملوث افراد یا ادارے کیخلاف کارروائی ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق اسٹيٹ بينک آف پاکستان نے عوام کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ سے محفوظ رکھنے کی مہم کا آگاز کردیا۔
اسٹیٹ بینک نے غير قانونی فارن ايکسچينج آپريٹرز کو خبردار کیا ہے کہ فارن کرنسی کی غير مجاز خريد و فروخت اور منتقلی غير قانونی ہے اس لیے صرف مجاز بينکوں اور ايکس چينج کمپنيوں کو ہی زرمبادلہ کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔
اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا ہے کہ غیر قانونی زرمبادلہ کے کاروبار میں ملوث افراد یا ادارے کیخلاف کارروائی ہوگی، غیرقانونی کرنسی کے کاروبار، حوالہ اور ہنڈی آپریٹرز کیخلاف کارروائی ہوگی۔
مرکزی بینک نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ مجاز بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے زرمبادلہ کی منتقلی کریں اور اپنی ٹرانزیکشن کی سسٹم جنریٹڈ آفیشل رسید لینا نہ بھولیں۔
اسلام آباد : اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، بیرونی ادائیگیوں کاخسارہ1ارب55کروڑ ڈالر کم ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے خسارے میں مجموعی طور پر نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ بیرونی ادائیگیوں کاخسارہ1ارب55کروڑ ڈالر کم ہوگیا۔
اس حوالے سے ترجمان اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ جولائی 2019میں خسارہ 57کروڑ90لاکھ ڈالررہ گیا، جولائی 2018میں یہ خسارہ 2ارب 13کروڑ ڈالر تھا۔
خدمات اورمصنوعات کی تجارت کاخسارہ بھی نمایاں کم ہوگیا، تجارتی خسارےمیں1ارب68کروڑڈالرکی کمی، ترجمان اسٹیٹ بینک کے مطابق جولائی 2019میں تجارتی خسارہ 2ارب32کروڑڈالررہا۔
جولائی 2018میں تجارتی خسارہ4ارب ڈالرسے زائد تھا، تجارتی خسارے میں کمی کے ساتھ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی ریکاڈ کی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 10کروڑ30لاکھ ڈالرکی کمی رہی، جولائی 2019میں غیر ملکی سرمایہ کاری 7کروڑ50لاکھ ڈالرتھی، جولائی 2018میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری17 کروڑ80 لاکھ ڈالر تھی۔
کراچی : اسٹیٹ بینک نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر نئے کرنسی نوٹوں کے لئے عوام کی طلب کو پورا کرنے کی خاطر284ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ جاری کردیئے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر تمام بینکوں کو مختلف مالیت کے مجموعی طور پر284ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ جاری کیے گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کے ذریعے 274ارب روپے اور ایس بی پی بی ایس سی کیش کاؤنٹرز کے ذریعے جاری کیے گئے دس ارب روپے شامل ہیں۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمرشل بینکوں کو سو روپے تک مالیت کے12ارب روپے کے نئی کرنسی نوٹ جاری کیے گئے ہیں۔
مذکورہ نئے نوٹ بینکوں کو عوام اور اپنے کھاتے داروں میں تقسیم کرنے کے لیے فراہم کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ترجمان اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے عیدالاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران تمام بینکوں کو اے ٹی ایم آپریشنز کو بھی بلا رکاوٹ چلانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
حکم نامے کے مطابق عیدالاضحیٰ کے دوران اسٹیٹ بینک حکام ملک بھر میں اے ٹی ایم مشینوں کے فعال رہنے کا معائنہ اور نگرانی کریں گے تاکہ عید کی چھٹیوں میں عوام کو نقد رقوم کی بلاتعطل دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2019 کا مالیاتی مجموعہ جاری کردیا گیا۔ رواں مالی سال میں حکومت نے 2345 ارب روپے قرض لیا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2019 کا مالیاتی مجموعہ جاری کردیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2019 میں زر وسیع کی نمو 12.23 فیصد رہی۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ سال 2019 میں زیر گردش کرنسی 583 ارب روپے بڑھی، سال کے اختتام پر زیر گردش کرنسی کا اسٹاک 4971 ارب ہوگیا۔ بینکوں کے ڈپازٹس 1365 ارب روپے بڑھے ہیں اور سال کے اختتام پر ڈپازٹس کا اسٹاک 12947 ارب روپے ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں حکومت نے 2345 ارب روپے قرض لیا، بجٹ سپورٹ کے لیے 2412 ارب روپے قرض لیا گیا۔ بجٹ سپورٹ کے لیے قرضوں کا اسٹاک 11464 ارب ہوگیا۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ کمبوڈٹی آپریشن کی مد میں 63 ارب کی ادائیگی کی گئی، کمبوڈٹی آپریشن میں قرضوں کا اسٹاک 756 ارب ہوگیا۔ رواں مالی سال میں نجی شعبے کو 682 ارب کے قرض دیے گئے۔ سرکاری اداروں نے 329 ارب روپے قرض لیے۔
آج پاکستان کے مرکزی بینک ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی سالگرہ ہے، یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا افتتاح کیا تھا۔
بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ اس کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا اوراس کے صدر دفاتر کراچی اور اسلام آباد میں قائم ہیں۔
اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائد اعظم اورفاطمہ جناح
پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا اس علاقے کا مرکزی بینک تھا۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد یہی بینک ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا۔ یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرکے ریزرو بینک آف انڈیا کی اجارہ داری ختم کردی تھی ۔
قائد اعظم اسٹیٹ بنک کا تالا کھولتے ہوئے
30 دسمبر 1948 کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد ملا۔ اُس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک پرائیوٹ یا نجی بینک تھا۔
یکم جنوری 1974ء کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا، ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔
فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فائننشیل سیکٹر ری فورم کے نام پر خود مختاری دے دی۔
21جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار کر دیا۔ اب یہ حکومت ِ پاکستان کے ماتحت نہیں رہا تھا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ تھا ، تاہم ابھی بھی اس کے گورنر کی تعیناتی وفاقی حکومت کے حکم سے کی جاتی ہے۔
سنہ 2005 میں اس وقت کی حکومت نے ملک میں کام کرنے والےمنی ایکسچینجز کو قانونی درجہ دے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کردیا گیا تھا ، جس سے اسٹیٹ بینک کو مزید استحکام ملا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہر سال وزیر خزانہ کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔
اپنے قیام کے وقت اس کے پہلے گورنر زاہد حسین تھے جو کہ 19 جولائی1953 تک اسٹیٹ بینک کے گورنر رہے۔ موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر ہیں جو کہ 05 مئی 2019 سے آئندہ تین سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہیں۔
قائداعظم پاکستانی کرنسی کا معائنہ کرتے ہوئے
اپنے چارٹرکے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان مارکیٹ میں روپے کی ترسیل، مضبوط معاشی نظام کی یقینی بنانے، قواعد و ضوابط کی پاسداری کرانے اور دیگر بینکوں کے مالیاتی امور کی نگرانی کرنے ، بین الاقوامی مارکیٹ سے ایکسچنج ریٹ طے کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 2 ماہ کے لیے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا جس کے مطابق شرح سود میں اضافہ ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی بینک دولت کی جانب سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا، اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ 50 بیسز پوائنٹس بڑھا دیا جبکہ پالیسی ریٹ 10.75 فیصد تک پہنچ گیا۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی صورتحال دیکھتےہوئےشرح سود میں اضافہ کیا گیا، شرح سود میں اضافے کا اہم مقصد افراط زر کو روکنا بھی ہے۔
اسٹیٹ بینک ترجمان کے مطابق رواں مالی سال کےپہلے7ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں2.3فیصدکمی دیکھی گئی جبکہ بیرون ادائیگیوں کی صورتحال میں بہتری آئی۔ قبل ازیں معاشی ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ بنیادی شرح سود میں 75بیسس پوائنٹس تک اضافہ متوقع ہے جبکہ شرح سود کو بھی 10.25 فیصد بڑھایا جاسکتا ہے۔
خیال رہے گزشتہ سال جنوری سےاب تک شرح سودمیں ساڑھے4فیصداضافہ کیاگیا ہیں اور اس وقت شرح سود 10اعشاریہ25فیصد پر ہے۔
یاد رہے جنوری 2019 میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹ کا اضافہ کرکے شرح سود 10.25 فیصد مقرر کردی گئی تھی، گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کا کہنا تھا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اب بھی بلند ہیں لیکن پچھلے 12 ماہ میں اس خسارے میں کمی ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا امید ہے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا، معیشت کو چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دونوں کم کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے یکم دسمبر کو اسٹیٹ بینک نے شرح سودمیں ڈیڑھ فیصدکا اضافہ کیا تھا، جس کے بعد شرح سود پانچ سال کی بلند ترین سطح پرپہنچ گئی تھی۔