Tag: State Bank of Pakistan

  • اسٹیٹ بینک نے پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ سے متعلق ہدایات جاری کردیں

    اسٹیٹ بینک نے پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ سے متعلق ہدایات جاری کردیں

    کراچی : بینک دولت پاکستان نے پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ کے ڈیزائن اور سیکورٹی خصوصیات کی معیار بندی کے بارے میں رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ اس کا مقصد دھوکہ دہی، اور پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ میں جعلسازی کے خطرے کا سدِ باب کرنا اور عوام کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔

    رہنما ہدایات کے تحت ضروری ہے کہ پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ کی طباعت میں استعمال ہونے والے کاغذ میں ’’کم سے کم سیکورٹی خصوصیات ‘‘استعمال کی جائیں جو واٹر مارک، جعلسازی سے محفوظ روشنائی )، الٹرا وائلٹ فائبر وغیرہ ہیں۔

    ڈیزائن کے معاملے میں یہ چیزیں متعارف کرائی گئی ہیں:

    میگنیٹک انک کیریکٹر ریکگنشن لائن، کی بینک برانچ کا نام (ڈیمانڈ ڈرافٹ کی صورت میں)، خرید کنندہ کے ریکارڈ کی متعلقہ بینک برانچ کی طرف سے خبر گیری وغیرہ۔

    اس کے علاوہ صارفین کی سہولت کے لئے بینکوں/ مائیکرو فنانس بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ پیمنٹ آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ کے مستند ہونے کی تصدیق کے لیے ایک مرکزی طریقہ کار وضع کریں۔

    اس سلسلے میں بینکوں کو چوبیس گھنٹے اور ساتوں دن دستیاب رہنے والی ہیلپ ڈیسک/ کال سینٹرقائم کرنے ہوں گے تاکہ ان کاغذات کا حامل شخص ان کے مستند ہونے کی تصدیق آسانی کے ساتھ کر سکے۔

    مذکورہ شخص اگر خود کسی بینک کی ایسی برانچ پہنچ جائے جو آن لائن بینکاری خدمات فراہم کرتی ہو تو وہ برانچ پیمنٹ آرڈر /ڈیمانڈ ڈرافٹ کے مستند ہونے کی تصدیق کرے گی۔

    بینکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عملے کی مناسب تربیت کا بھی انتظام کریں تاکہ وہ پیمنٹ آرڈر /ڈیمانڈ ڈرافٹ کی سیکورٹی خصوصیات/ مستند ہونے کا جائزہ لے سکے اور تصدیق کر سکے۔

  • اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں، اسٹیٹ بینک

    اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں، اسٹیٹ بینک

    کراچی: بینک دولت پاکستان نے عوام کے ذہنوں سے شکوک اور ابہام رفع کرنے کے لیے پاکستان میں اسلامی بینکاری کے فروغ اور ترقی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

    اسٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت کی مسلسل کوششوں کے باعث بینکاری صنعت کے کل ڈپازٹس میں اسلامی بینکاری کا حصہ 30جون 2015ء تک بڑھ کر 12.8فیصد ہوگیا ہے اور گذشتہ 12برسوں سے 50فیصد سے زائد کی مجموعی اوسط شرح نمو سے بڑھتا جا رہا ہے۔اس وقت 5 مکمل اسلامی بینک، ذیلی ادارہ برائے اسلامی بینکاری اور 17بینکوں کی اسلامی بینکاری کے لیے مختص برانچیں ملک میں خدمات انجام دے رہی ہیں، اور پورے ملک میں ان برانچوں کی تعداد 1700 سے زائد ہے۔

    اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کی کڑی نگرانی میں پاکستان میں اسلامی بینکاری قرآن حکیم کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنت کی بنیاد پر مضبوطی سے قائم ہے۔اسٹیٹ بینک نے اپنے شریعہ بورڈ کے فیصلوں کے مطابق اسلامی بینکاری کی شریعت سے ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے ضوابطی اور نگرانی کا فریم ورک بھی تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بینکاری شعبے میں سیالیت کے انتظام کے لیے شریعت سے ہم آہنگ بازار زر کے سودوں کا بھی اہتمام کیا ہے جو اسلامی دنیا میں بالکل منفرد ہے۔ اسٹیٹ بینک شریعہ بورڈ نے ماضی میں حکومت پاکستان اجارہ صکوک کے ڈھانچے کی بھی منظوری دی اور مستقبل میں بھی اجرا سے قبل ایسے تمام ڈھانچوں کی منظوری اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ دے گا۔

    دسمبر 2013ء میں حکومت پاکستان نے ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی اور جناب سعید احمد کو اس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔ بعد میں جناب سعید احمد کو اسلامی بینکاری کے فروغ کی کاوشوں کی قیادت کے لیے اسٹیٹ بینک کا ڈپٹی گورنر مقرر کیا گیا۔ اس طرح اسلامی مالیات کی ترقی کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی اور اسٹیٹ بینک کی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔ ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں کہ اسٹیٹ بینک میں ایک ڈپٹی گونر کو اسلامی بینکاری کا بھرپور مینڈیٹ دے کر مقرر کیا گیا ہو۔ بعد ازاں، اسلامی بینکاری کے حوالے سے بہتر رابطہ کاری کی خاطر انہیں دیگر شعبے بھی سونپے گئے۔

    اسٹیئرنگ کمیٹی نے اپنا پہلا سال مکمل ہونے پر اپنی پیش رفت کی عبوری رپورٹ سفارشات کے ساتھ وفاقی حکومت کو پیش کر دی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے اسٹیئرنگ کمیٹی کا دورانیہ مزید ایک سال بڑھا دیا تھا جو دسمبر 2015ء میں پورا ہو جائے گا، اور کمیٹی اپنی حتمی رپورٹ جنوری 2016ء تک وفاقی حکومت کو پیش کر دے گی۔

    اسٹیٹ بینک کی ان کوششوں کے نتیجے میں 2020ء تک اسلامی بینکاری کا حصہ بڑھ کر 20 فیصد ہو جانے کی توقع ہے اور اس کے بعد اسلامی بینکاری تیز رفتار نمو حاصل کر لے گی۔

    پاکستان میں اسلامی بینکاری کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جارہا ہےجس کا ثبوت بہت سے اسلامی فنانس ایوارڈز ہیں جو ملک میں اسلامی بینکاری کے مختلف اداروں کو دیے جاچکے ہیں بشمول بحرین کے حالیہ گلوبل اسلامک فنانس ایوارڈز(GIFA) جو وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کو ملک میں اسلامی بینکاری و مالیات کے فروغ کے لیے وزارت خزانہ کے مشاورتی کردار کے اعتراف میں خصوصی طور پر دیا گیا۔مزید یہ کہ تین پاکستانی بینکوں کو اس سال یہ ایوارڈ ملا۔

  • اسٹیٹ بینک اور ایف بی آرکے درمیان مفاہمت کی یادداشت پردستخط

    اسٹیٹ بینک اور ایف بی آرکے درمیان مفاہمت کی یادداشت پردستخط

    کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آرکے درمیان فارم ای کی خود کاری کے سلسلے میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے ہیں جس سے برآمد کنندگان کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔

    اس موقع پربینک دولت پاکستان کے گورنر جناب اشرف محمود وتھرا اور ایف بی آر کے چیئرمین جناب طارق باجوہ نے امید ظاہر کی ہےکہ فارم ای کی خود کاری (automation) سے تمام متعلقہ فریقوں کو متعدد پہلوؤں سے فائدہ ہوگا اور ملک زرِ مبادلہ کے بہاؤ میں اضافے سے مستفید ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس خود کاری سے برآمد کنندگان کے لیے کاروبار کرنے کی لاگت گھٹ جائے گی اور نظام کی کارگزاری بہتر ہوگی۔

    چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ فارم ای کی خود کاری سے برآمد کنندگان کے ڈیوٹی ڈرابیک کے دعووں کی مؤثر پروسیسنگ میں مدد ملے گی نیز جعلی دستاویزات کی روک تھام ہوسکے گی۔

    گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر آج 26اکتوبر2015ء کو اسٹیٹ بینک کے صدر دفتر میں اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی تقریب کے موقعے پر بات چیت کررہے تھے۔

    فارم ای کے اجرا کو سہل بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک اور پاکستان کسٹمز نے فارم ای کے اجرا کی خودکاری کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں متعلقہ فریقوں کی مشاورت سے ایک الیکٹرانک فارم ای (EFE) تیار کرکے پاکستان کسٹمز کے برقی نظام، جوویب بیسڈ ون کسٹمز (WeBOC) کہلاتا ہے، میں شامل کیا گیا ہے۔

    توقع ہے کہ یہ سنگ میل طے ہونے سے متعلقہ فریقوں کو کئی فوائد حاصل ہوں گے جن میں برآمدکنندگان کے لیے کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی، برآمدکنندگان کے ڈیوٹی ڈرا بیک دعووں کی مؤثر پروسیسنگ، جعلی فارم ای کا خاتمہ اور زرمبادلہ کی واپسی میں بہتری سمیت شامل ہیں، نیز موجودہ نظام کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

  • اسٹیٹ بینک 5روپے کا نیا سکّہ آج جاری کررہا ہے

    اسٹیٹ بینک 5روپے کا نیا سکّہ آج جاری کررہا ہے

    کراچی :‌اسٹیٹ بینک پانچ روپے کا نئے سائز اور نئی بھرت کا سکّہ آج سے جاری کررہا ہے ، سکّے کا وزن 3 گرام ہے، اس میں 79 فیصد تانبا، 20 فیصد جست اور ایک فیصد نکل ہے۔ اس کا قطر 18.5 ملی میٹر ہے۔

    سکّے کے سامنے کے رخ پر وسط میں، بڑھتا ہوا ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ ہے، جس کا رخ شمال مغرب کی طرف ہے، ستارے اور ہلال کے اوپر کنارے کے ساتھ ساتھ اردو میں ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کندہ ہے۔ ہلال کے نیچے اور گندم کی بالائی طرف خم کھائی ہوئی دو بالیوں کے اوپر عددی صورت میں تاریخ اجرا درج ہے۔

    سکّے کے پورے کنارے پر چھوٹے دانوں کا دائرہ ہے، سکّے کا پچھلا رخ دائروی صورت میں پھولوں سے آراستہ ہے، یہ پھول وسط میں موجود ستارے کے پانچوں کونوں پر منقطع ہوتے جاتے ہیں۔

    ستارے کے وسط میں سکّے کی عرفی مالیت (face value) کا عدد (5) نمایاں صورت میں اور لفظ ”روپیہ“ اردو میں کندہ ہے۔ سکّے کے پورے کنارے پر چھوٹے دانوں کا دائرہ ہے۔

    واضح رہے کہ پانچ روپے کا موجودہ سکّہ بھی قانونی ہے اور نئے سکّے کے ساتھ وہ بھی بدستور گردش میں رہے گا۔

  • اسٹیٹ بنک 5 روپے کا نیا سکہ جاری کررہا ہے

    اسٹیٹ بنک 5 روپے کا نیا سکہ جاری کررہا ہے

    کراچی: اسٹیٹ بنک آف پاکستان پانچ روپے مالیت کے نئے سکے جاری کررہا ہے نئے سکوں کا اجراء 15 اکتوبر 2015سے ہوگا۔

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نئے سکوں کا وزن 3 گرام ہوگا جس میں 79 فیصد کاپر، 20فیصد زنک اور 1 فیصد نکل ہوگا جبکہ سکے کا حجم 18.5 ملی میٹر ہے۔

    سکے کی اگلی جانب چاند اور پانچ کونون والا ستارہ منقش ہے اور اس پر اسلامی جمیہوریہ پاکستان تحریر ہے ، سکے کے اگلے رخ پرگندم کی بالییاں اور سال اجراء بھی منقش کیا گیا ہے۔

    سکے کے پچھلے رخ پرانگریزی میں 5 لکھا ہے جبکہ اس کے نیچے اردو میں روپیہ لکھا ہے اور نیچے کی جانب پھولوں کے نقش ونگار بنا ہے۔

    واضح رہے کہ نئے سکوں کے ساتھ پرانے سکے بھی قابل استعمال رہیں گے۔

  • یورو بانڈ کے 500 ملین ڈالر موصول، زرمبادلہ کے ذخائرمیں 15سو ملین ڈالرکا اضافہ

    یورو بانڈ کے 500 ملین ڈالر موصول، زرمبادلہ کے ذخائرمیں 15سو ملین ڈالرکا اضافہ

    کراچی: پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 02 اکتوبرکواختتام پذیر ہونے والے معاشی ہفتے کے اختتام پر 20,054.2 ملین امریکی ڈالرکی سطح پر پہنچ گئے۔

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار معاشی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کچھ اس طرح ہیں۔

    مرکزی بنک کے پاس موجود ذخائر کی مالیت 15,202.0 ملین امریکی ڈالر ہے جبکہ دیگر بنکوں کے پاس موجود ذخائر 4,852.2 ملین امریکی ڈالرہے۔

    مرکزی بنک اوردیگر بینکوں کے پاس موجود رقم کا کل میزان 20,054.2 ملین امریکی ڈالرہے۔

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ معاشی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 02 اکتوبر 2015 جو اختتام پذیر ہونے والے معاشی ہفتے کے اختتام پر مذکورہ ذخائر میں 15,202 ملین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

    رواں ہفتے پاکستان کو آئی ایم ایف سے یورو بونڈ کی مد میں 500 ملین امریکی ڈالر حاصل ہوئے ہیں جبکہ 376 ملین امریکی ڈالرکولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں اور263 ملین امریکی ڈالر سنڈیکیٹ فنانسنگ کی مد میں حکومتِ پاکستان کو موصول ہوئے ہیں۔
    (more…)

  • اسٹیٹ بنک جعلی نوٹوں پرقابو پانے کے لئے کوشاں ہیں: اعلامیہ

    اسٹیٹ بنک جعلی نوٹوں پرقابو پانے کے لئے کوشاں ہیں: اعلامیہ

    کراچی: اسٹیٹ بنک نے جعلی نوٹوں کی منظم گردش کی تردید کرتے ہوئے ایسی خبروں کو بے بنیاد قراردے دیا،جعلی نوٹوں کی گردش سے نمٹنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔

    گزشتہ دنوں بینک دولت پاکستان کی ایک ٹیم کی طرف سے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے مالیات کو دی گئی بریفنگ میں جعلی زیر گردش نوٹوں کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ بریفنگ کے دوران مجلس قائمہ کے چیئرمین نے اسٹیٹ بینک کی ٹیم سے کہا کہ وہ بعض بینکوں سے عوام کو جعلی نوٹ موصول ہونے کی شکایات کا جائزہ لے۔ بدقسمتی سے یہ معاملہ میڈیا کے ایک حلقے میں ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ بینک منظم طور پر جعلی کرنسی کو گردش میں لانے میں ملوث ہیں۔ اسٹیٹ بینک سختی سے ایسی خبروں کی تردید کرتا ہے اوروضاحت کرتا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں ظاہر کیے گئے خیالات میڈیا میں غلط طریقے سے پیش کیے گئے ہیں۔

    جعلی کرنسیوں کی موجودگی نہ صرف ہمارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اسٹیٹ بینک اس معاملے سے باخبر ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرتا رہا ہے۔

    جعلی نوٹوں کی گردش سے نمٹنا بنیادی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے تاہم اسٹیٹ بینک نے اس خطرے کے سد ِّباب کے لیے ایک سہ رخی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس حکمت عملی میں یہ اقدامات شامل ہیں: (i)اپنے نوٹوں میں بہترین حفاظتی خواص کو یقینی بنانا جن کی جعلسازی مشکل ہو، (ii) عوام کو اصلی اور مصدقہ نوٹ جاری کرنے کے لیے بینکوں کے ساتھ ضروری استعداد اور انفراسٹرکچر تشکیل دینا، اور (iii) عوام میں اپنے نوٹوں کے حفاظتی خواص کے بارے میں آگہی پیدا کرنا۔ اس حکمت عملی کے تحت اسٹیٹ بینک نے 2005ء سے 2008ء کے درمیان نوٹوں کی ایک نئی سیریز جاری کی ہے جس میں حفاظتی خواص کو خاصا بہتر بنایا گیا ہے اور جو یورو، پونڈ اسٹرلنگ اور امریکی ڈالر کے مقابلے کے ہیں۔

    عوام کو بینکوں کی جانب سے اصلی اور مصدقہ نوٹوں کے اجرا کو یقینی بنانے کے لیے بینکوں پر لازم ہے کہ اپنے کیش کاؤنٹرز اور اے ٹی ایمز سے صرف سورٹیڈ (sorted)نقد جاری کریں۔ برانچوں میں وصول کردہ نقد اس وقت تک جاری نہیں کیا جاسکتا جب تک سورٹ نہ کرلیا گیا ہو۔ تاہم زیادہ تر سورٹنگ ہاتھ سے کی جاتی ہے اور اس میں انسانی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ اس استعداد کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ نوٹوں کی تصدیق اور سورٹنگ کی مشینیں نصب کریں۔ 2جنوری 2017ء سے بینک اپنی برانچوں اور اے ٹی ایمز سے صرف مشینوں سے تصدیق شدہ نوٹ جاری کررہے ہوں گے۔

    مثال قائم کرنے کی خاطر اسٹیٹ بینک بھی اپنے ذیلی ادارے ایس بی پی بی ایس سی میںڈیسک ٹاپ سورٹنگ مشینیں استعمال کرنے کے علاوہ نوٹ پروسیس کرنے والی تیز رفتار جدید ترین مشینیں نصب کررہا ہے۔ اس اقدام سے بینکاری نظام کی کرنسی کی جعلسازی کی روک تھام کی استعداد بہت بہتر ہونے کی توقع ہے۔

    اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک عوام کو پاکستان کے بینک نوٹوں کے حفاظتی خواص سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرتا ہے۔ ’’روپے کو پہچانو ‘‘ کے عنوان سے وقتاً فوقتاً مہمیں چلائی جا تی ہیں جن میں ملک بھر میں عوامی آگاہی کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں، ویب سائٹ پر اس مہم کے تحت صفحات موجود ہیں، بینکوں کی برانچوں، ایس بی پی بی ایس سی کے دفاتر میں اور دیگر اہم عوامی مقامات پر معلومات پر مبنی پوسٹر آویزاں کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں، بینک نوٹوں کے حفاظتی خواص کے بارے میں ایک مختصر دستاویزی فلم تیار کی گئی ہے، جو رواں ماہ کے دوران جاری کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسمارٹ فون کی ایک ایپلی کیشن بھی تیار کی گئی ہے تاکہ عوام کو نوٹوں کے حفاظتی خواص کے بارے میں مکمل معلومات بآسانی دستیاب ہوں۔ سینیٹ کی مجلس قائمہ کو بریفنگ کے دوران بھی یہ دستاویزی فلم دکھائی گئی تھی اور اسے موبائل فون ایپلی کیشن کے بارے میں بتایاگیا۔ مجلس قائمہ نے دستاویزی فلم کو بے حد سراہا اور حکومت سے سفارش کی کہ اسے مفادِ عامہ کے پیغام کا درجہ دے کرٹی وی چینلوں پر مفت چلوائے۔

    کرنسی کی جعلسازی کو کم سے کم کرنے کے سلسلے میں ان اقدامات کی کامیابی کا انحصار دیگر پہلوؤں کے علاوہ عوام کے تعاون پر ہوگا کہ وہ جعلی نوٹوں کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیں۔ عوام طریقہ کار اور رویے کی دشواریوں سے بچنے کی خاطر جعلی نوٹوں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ عوام کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرنا کرنسی کی جعلسازی میں ملوث افراد؍گروہوں کو پکڑنے میں مدد دینے کے سلسلے میں اہم قدم ہے۔

  • بنکوں کے منافع میں حیرت انگیز اضافہ

    بنکوں کے منافع میں حیرت انگیز اضافہ

    کراچی : اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بینکنگ سیکٹرکی 30 جون 2015 کو اختتام پذیر ہونی والی دوسری سہہ ماہی کی کارکردگی جاری کردی ہے جس کے مطابق بنکوں کے منافع میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    30 جون 2015ء کو ختم ہونے والی سہ ماہی کے لیے بینکاری شعبے کی کارکردگی کا سہ ماہی جائزہ (QPR) اسٹیٹ بینک نے آ ج جاری کر دیا ہے جس کے مطابق سال بسال بنیادوں پر بینکاری شعبے کے بعد از ٹیکس منافع میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں سودی و غیر سودی آمدنی دونوں کا حصہ ہے۔ اس لیے جون 15ء میں اثاثوں پر منافع جون 14ء کے 2.1 فیصد سے بڑھ کر 2.7 فیصد تک پہنچ گیا۔ شرح کفایت سرمایہ CAR 17.2 فیصد کی مستحکم سطح پر رہی جو 10 فیصد کی مقامی شرط اور 8 فیصد کے بین الاقوامی نشانیہ (benchmark) سے خاصا زیادہ ہے۔

    سہ ماہی کے دوران بینکاری شعبے کی اثاثہ جاتی بنیاد میں 5.7 فیصد (19.2 فیصد سال بسال) نمو ہوئی جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں یہ 3.4فیصد تھی۔ اثاثوں میں بیشتر اضافہ سرکاری شعبے کی مالیاتی ضروریات اور اجناس کی کارروائیوں کے لیے قرضوں کی نمو میں اضافے کا نتیجہ تھا۔ مجموعی اثاثوں میں سرمایہ کاریوں کے حصے میں اضافہ ہوتا رہا جس کا سبب حکومتی تمسکات کے اسٹاک میں نمو تھی۔

    جائزے کے مطابق جون 15ء میں اثاثہ جاتی معیار میں کچھ بگاڑ دیکھا گیا کیونکہ غیر فعال قرضے NPLs 1.6 فیصد اضافے (5.8 فیصد سال بسال) کے ساتھ بڑھ کر 630 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ تاہم، خام قرضوں (4.7 فیصد) میں تناسب سے زیادہ اضافے کے باعث غیر فعال قرضوں اور خام قرضوں کا تناسب 39 بی پی ایس کمی کے بعد 12.4 فیصد ہو گیا جبکہ خالص غیر فعال قرضوں اور خالص قرضوں کا تناسب اپریل تا جون 2015ء کے دوران 18 بی پی ایس کمی کے بعد 2.7 فیصدہو گیا۔ فنڈنگ کے لحاظ سے ڈپازٹس کی بنیاد میں بتدریج نمو سے اثاثہ جاتی نمو کی مالکاری (Financing) کے لیے درکار وسائل کی فراہمی میں مدد ملی۔ سہ ماہی کے دوران 7.9 فیصد کے صحت مند اضافے (13.6 فیصد سال بسال) کے ساتھ بینکوں کے ڈپازٹس جون 15ء میں بڑھ کر 9.97 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔

    اسٹیٹ بینک دسمبر 2014ء سے بینکاری شعبے کی سہ ماہی کارکردگی کا جائزہ شائع کر رہا ہے۔ جون 15ء کی کارکردگی کا سہہ ماہی  جائزہ  درج ذیل لنک پر دستیاب ہے


     

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار


     

     

     

  • پاکستان کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرمیں 134 ملین امریکی ڈالرکا اضافہ

    پاکستان کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرمیں 134 ملین امریکی ڈالرکا اضافہ

    کراچی: پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ لے کے ذخائر 11 ستمبر کو اختتام پذیر ہونے والے معاشی ہفتے پر 18,726.1 ملین امریکی ڈالرکی سطح پر پہنچ گئے۔

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار معاشی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کچھ اس طرح ہیں۔

    مرکزی بنک کے پاس موجود ذخائر کی مالیت 13,689.5 ملین امریکی ڈالر ہے جبکہ دیگر بنکوں کے پاس موجود ذخائر 5,036.6 ملین امریکی ڈالرہے۔

    مرکزی بنک اوردیگر بینکوں کے پاس موجود رقم کا کل میزان 18,726.1 ملین امریکی ڈالرہے۔

    اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ معاشی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 11 ستمبر 2015 جو اختتام پذیر ہونے والے معاشی ہفتے کے اختتام پر مذکورہ ذخائر میں 134 ملین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

  • دو ماہ میں بینکوں کے ڈیپازٹس میں 121 ارب روپے کی کمی

    دو ماہ میں بینکوں کے ڈیپازٹس میں 121 ارب روپے کی کمی

    کراچی : رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں بینکوں کے ڈیپازٹس میں ایک سو اکیس ارب روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے آغاز پر بینکوں کے پاس اکیانوے کھرب اکتالیس ارب روپے کے ڈپازٹس تھے، جو دو ماہ میں کم ہو کر نوے کھرب بیس ارب روپے ہوگئے ہیں۔

    بینکنگ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے بینک ٹرانزیکشنز پر لگائے گئے ٹیکس کے باعث ڈپازٹس میں کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔

    اس کے علاوہ بینکوں کو لیکیوڈیٹی کے مسائل کا سامنا ہے، جس کیلئے مرکزی بینک کو سسٹم میں پیسے ڈالنے پڑتے ہیں۔