Tag: stephen hawking

  • اسٹیفن ہاکنگ: کائنات کی وسعتوں میں گم ہوجانے والا سائنس داں

    اسٹیفن ہاکنگ: کائنات کی وسعتوں میں گم ہوجانے والا سائنس داں

    اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو کائنات کے راز سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس داں کہا جاتا ہے جن کے سائنسی کارنامے ہی نہیں‌، ان کی زندگی بھی دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک مثال ہے۔

    شہرۂ آفاق سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ 14 مارچ 2018ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” نے انھیں بین الاقوامی سطح‌ پر شہرت اور مقام دلوایا۔ وہ 8 جنوری 1942ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے اور نوجوانی میں زندگی کے ایک بدترین اور تکلیف دہ موڑ پر آکھڑے ہوئے۔ جس وقت انھیں‌ موٹر نیوران جیسی مہلک اور جسم کو مفلوج کردینے والا مرض لاحق ہوا، ان کی عمر صرف 21 سال تھی۔

    ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اسٹیفن مزید دو سال زندہ رہ سکیں گے، لیکن اس نوجوان نے اپنی مضبوط قوّتِ ارادی اور ہمّت سے کام لے کر دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ اس مرض کے ساتھ لڑتے ہوئے 55 سال تک زندہ رہے اور اس عرصے میں ایک بے بس اور معذور انسان کی طرح‌ بستر پر اپنی موت کے دن گنتے ہوئے نہیں گزارے بلکہ اپنی پڑھائی جاری رکھی اور توانا اور متحرک ذہن کی مدد سے کائنات کی وسعتوں کو کھوجتے، سمجھتے رہے اور دنیا کو اس بارے میں بتایا۔

    جین ہاکنگ وہ خاتون ہیں، جنھوں نے بیس برس کی عمر میں ہاکنگ سے شادی کی تھی۔ وہ جانتی تھیں‌ کہ جس نوجوان کا ہاتھ تھامنے جارہی ہیں، وہ ایک اعصابی مرض کا شکار ہے جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ محض دو برس جی سکتا ہے۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ جین اگلے 26 سال تک ہاکنگ کا ساتھ نبھاتی رہی۔ اس جوڑے کے گھر تین بچّے پیدا ہوئے اور اپنے بیمار اور وہیل چیئر تک محدود رہنے والے شوہر کے ساتھ وہ اپنے بچّوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی کرتی رہی۔ جین ہاکنگ اپنے شوہر کو حوصلہ دیتے اور ہمّت بڑھاتے ہوئے اس کی بیماری کے سامنے ڈٹی رہی۔ بعد میں‌ ان کے مابین طلاق ہوگئی، لیکن اسٹیفن ہاکنگ اور جین کی یہ رفاقت اور ایثار دنیا کے لیے مثال بن گیا۔

    اسٹیفن ہاکنگ کا دھڑ حرکت کرنے سے قاصر تھا، وہ قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے اس سائنس داں نے اپنے مضامین اور اہم موضوعات پر چونکا دینے والے اور پُرمغز و نہایت مفید مقالوں سے دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کی تشریح کے علاوہ بلیک ہول سے تابکاری کے اخراج پر اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا جو آنے والوں کے لیے کائنات کو سمجھنے اور اسے مسخّر کرنے میں‌ مددگار ثابت ہورہا ہے۔ وہ ریاضیات، طبیعات اور کونیات پر اپنی تحقیق و جستجو کا نچوڑ کتابی شکل میں دنیا کو دے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دل چسپی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز اور محور علمِ طبیعیات اور اس کے موضوعات تھے۔

    76 سال کی عمر میں وفات پانے والے اسٹیفن ہاکنگ کو خصوصاﹰ بلیک ہول کی پرسراریت اور وقت سے متعلق ان کے نظریات اور سائنسی تحقیق کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • خلاؤں میں نئےجہاں تلاشنے والے اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی برسی

    خلاؤں میں نئےجہاں تلاشنے والے اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی برسی

    شہرہ آفاق سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کو آج ہم سے جدا ہوئے ایک برس بیت گیا، طبیعات کے میدان میں ان کی تھیوریز کو انقلابی حیثیت حاصل ہے۔

    سٹیفن ولیم ہاکنگ ۸ جنوری ۱۹۴۲ کو فرینک ہاکنگ اور آئزوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا ۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ تین سو سال قبل مشہورِز مانہ ماہرِ طبیعات “گلیلیو گلیلی “کی وفات ہوئی تھی ۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تحقیق اور قوانین سے کائنات کے سر بستہ راز وں کے پردے چاک کرنے کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔

    برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ ایک طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔ وہ اپنی نوجوانی میں ہی ایک نہایت نایاب مرض کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    اکیس برس کی عمر میں ان پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بے بسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتے تھے ۔

    خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    ان کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکیں گے؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اس بالشت بھر کے انسان نے جس کی کل کائنات ایک ویل چیئر اور اس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین تھی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

    اس کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ “زمان و مکاں” اور “ٹائم ٹریول “کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے،اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے ہیں۔

    عصر حاضر کا یہ مشہور سائنسداں 76 سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا ۔ طبیعات کے میدان میں انقلابی نظریات پیش کرنے والے ہاکنگ کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی ہولناکی کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ کئی بار دنیا کو اس سے خبردار کر چکے تھے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق زمین سے قریب سیارہ زہرہ (وینس) پر ساڑھے 4 کھرب سال قبل پانی ہوا کرتا تھا۔ مگر اس سیارے کا درجہ حرارت اس قدر گرم ہوگیا کہ اب یہ سیارہ ناقابل رہائش اور گرمی کے تپتے گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    ہاکنگ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے موسمیاتی تغیرات کو روکنے کے لیے کام نہ کیا تو بہت جلد ہماری زمین بھی وینس کی طرح ہوجائے گی جس پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجائے گا۔

    وہ کہتے تھے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کلائمٹ چینج صرف ایک تصور ہے انہیں زہرہ سیارے پر بھیجا جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کس طرح سیارہ زہرہ ایک آتش فشانی گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ’اس سفر کے تمام اخراجات میں اٹھاؤں گا‘۔

    یاد رہے کہ زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے مختلف مشنز کے مطابق زہرہ کی سطح پر متحرک آتش فشاں ہیں جن سے لاوا ابلتا رہتا ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انسان اب اس زمین پر صرف اگلے 100 برس تک رہ سکیں گے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ وقت آجائے جسے مختلف مذاہب میں روز قیامت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ اگر انسان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ 100 سال مکمل ہونے سے قبل زمین کو چھوڑ کر کوئی اور سیارہ ڈھونڈ لیں جہاں وہ رہائش اختیار کرسکتے ہوں۔

    اسٹیفن ہاکنگ اس کی وجہ کلائمٹ چینج اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف وبائی امراض کا پھیلاؤ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، دنیا کے مختلف حصوں میں کیمیائی حملے، مستقبل قریب میں ہونے والی ایٹمی جنگوں، اور خلا سے آنے والے سیارچوں یا بڑی جسامت کے شہاب ثاقب کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ قرار دیتے تھے۔

    ہاکنگ کو امریکی صدر ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں سے بھی اختلاف تھا اور ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے یہ اقدام دنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔

  • خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    وہ ہاسٹل کے کمرے میں سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔ آج مسلسل تیسرا روز تھا ‘ جب اس کی گرل فرینڈ اس سے ملنے آئی تھی اور وہ ملنے نہیں گیا تھا ۔ وہ اب تک اُس لڑکی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا ۔ اپنی اِس نیم مفلوج ٹانگ کے ساتھ وہ کس طرح اُس پیاری ، معصوم سی لڑکی سے جاکر ملتا جس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں محبت کے دیپ جلے ابھی کچھ ایسا زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا ۔ وہ جلد مجھے بھول کر کسی اور کو ساتھی چُن لے گی۔

    اُس نے سرجھٹک کر سامنے ٹیبل پر پڑی کتاب اٹھائی ہی تھی کہ دروازہ بہت زور سے کھلا اور ہاسٹل قوانین کی پرواہ کیئے بغیر جَین اُس کے کمرے میں موجود تھی۔ ہاکنگ گھبرا کر تیزی سے اٹھا ۔ پھر لڑکھڑایا ‘ جِین اپنی جگہ ساکت تھی۔

    "چلی جاؤ! پلیز چلی جاؤ‘ میری زندگی سے ہمیشہ کے لیئے چلی جاؤ ۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا "۔۔وہ آنسوؤں کے درمیان بہت زور سے چلایا ۔۔

    مگر جَین وہیں اپنی جگہ کھڑی رہی ۔۔اور پھر وقت نے دیکھا کہ جین وائلڈ اگلے چھبیس برس تک ہاکنگ کا ساتھ نبھاتی رہی ۔ شدید اعصابی مرض کے باعث ہاکنگ کے اعضاء ایک ایک کر کےناکارہ ہوتے گئے،اس کی زندگی سے کامیابیاں ، امنگیں اور خوشیاں بھی ان کے ساتھ رخصت ہوتی گئیں ‘ مگر جین کسی آہنی چٹان کی طرح پے در پے آنے والے طوفا نوں کا مقابلہ کرتی رہی ۔ ہاکنگ کے پاس زندگی کی طرف واپس لوٹنے کے لیے کچھ بھی تو نہ بچا تھا ۔مگر جین جانتی تھی ، اُس کے پاس بہترین دماغ تھا ۔”اور دماغ یقیناًٌ ہر انسانی عضو کا بادشاہ ہے”۔

    اکیس برس کی عمر میں سٹیفن ہاکنگ پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز واقارب کے لیئے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بےبسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے ۔ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف دو برس اور جی سکتا تھا ۔

    اُس کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ’’آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکے گا تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اِس بالشت بھر کے انسان نےجس کی کُل کائنات ایک ویل چیئر اور اُس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین ہے،نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔۔ وہ آج زندگی کی پچھتر سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے اور اب بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنےکے خواب دیکھتا ہے۔وہ جس کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک معجزہ ہے وہ نا معجزوں پرایمان رکھتا ہے نا ہی پوری طرح خدا کے وجود پر ۔اگرچہ وہ مقدر کا سکندر ہے مگر وہ تقدیر کے لکھے پر یقین نہیں رکھتا اس کا استدلال ہے ۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کے ابتدائی ایام


    "میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ تقدیر کے اَٹل اور نا قابلِ تغیر ہونے پر پختہ ایمان رکھتے ہیں وہ بھی سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں ضرور دیکھتے ہیں”۔ سٹیفن ولیم ہاکنگ ۸ جنوری ۱۹۴۲ کو فرینک ہاکنگ اور آئزوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا ۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ تین سو سال قبل مشہورِز مانہ ماہرِ طبیعات "گلیلیو گلیلی "کی وفات ہوئی تھی ۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تحقیق اور قوانین سے کائنات کے سر بستہ راز وں کے پردے چاک کرنے کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔

    بچپن میں اس کا شمار کچھ زیادہ ذہین طالبعلموں میں نہیں ہوتا تھا ۔پڑھائی کے بجائے وہ ریل گاڑیاں ، راکٹ اور جہاز بنانے میں دلچسپی رکھتا اورفار غ اوقات میں اپنے گھر کے پچھواڑے گھنٹوں تنہا بیٹھ کر آسمان کو تکا کرتا ۔ اس نے ابتدائی تعلیم سینٹ البان سکول اور یونیورسٹی کالج آکسفورڈ سے حاصل کی۔ ہاکنگ کے والدین بھی آ کسفورڈکے فارغ التحصیل تھے ۔۔ فرینک ہاکنگ ٹراپیکل ڈیسزپر ریسرچ کر رہے تھے اور انکا ارادہ اسے بھی میڈیسن میں بھیجنے کا تھا ، مگر انکی توقع کے بر خلاف اُس نے میتھ میٹکس کو ترجیح دی ۔۔چونکہ اس وقت تک آکسفورڈ کالج میں میتھ میٹکس کی ڈگری نہیں تھی سو ہاکنگ نے اپنے لیئے تھیوریٹیکل فزکس کا انتخاب کیا ۔بظا ہر ہونق سے نظر آنے والے ہاکنگ کو صنفِ نازک ہی نہیں عموماٌ اسا تذہ بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتےتھے۔

     

    Stephen Hawking

    اس میں خود اعتمادی کی اس قدر شدید کمی تھی کہ جب وہ آکسفورڈ میں سکالر شپ کا امتحان دینے گیا تو اتنا زیادہ نروس تھا کہ پریکٹیکل امتحان بھی صحیح طرح نہیں دے پایا ۔۔ اس صورتحال میں وہاں داخلہ ممکن نہ تھا سو مایوس ہوکر ہاکنگ کہیں اور قسمت آزمائی کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک روز اسے سکالر شپ لیٹر موصول ہوا۔ یہ اس پر قدرت کی مہربانیوں کا آغاز تھا ۔مستقبل میں بھی بارہا ایسا ہوتا رہاکہ جب کبھی وہ مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق ہوکر فنا ہونے کو تھاتوکہیں نہ کہیں سے آس اور امید کے در وا ہوکر اُسے زندگی کی طرف واپس لاتے رہے۔

    ہاکنگ کے سفر کا زینہ – جین


    اُس نے کیمبرج یونیورسٹی میں تحقیق کے لیے فلکیات کا شعبہ منتخب کیا جو فی الوقت وہاں علاقۂ غیر سمجھا جاتا تھا اور بہت کم طالب علم اس میں طبع آزمائی کی ہمت کر پاتے تھے ۔ یہیں پہلے سال کے دوران اُس کی طبیعت گری گری رہنے لگی ،کئی دفعہ وہ سیڑھوں سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا ۔۔تب سٹیفن ہاکنگ پر یہ خوفناک انکشاف ہواکہ وہ ایک ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے جس سے مسلز کو کنٹرول کرنے والے اعصاب آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس بیماری سے ہمت اور بہادری کے ساتھ لڑنے میں اس کے والدین کے علاوہ جین وائلڈ کا بھی کافی ہاتھ رہا۔

    ہاکنگ کا کہنا ہے کہ ایک طرح سےیہ بیماری میرے لیے گڈ وِل چارم ثابت ہوئی ، مجھے نہیں معلوم تھا کہ زندگی مجھے اور کتنا وقت دینے والی ہے سومیں نے ہر میسر لمحے کو پوری طرح استعمال کیا کہ جب کبھی کسی بے رحم لمحے میں موت اپنے آہنی پنجوں کے ساتھ میری طرف بڑھے تو میری آنکھوں میں کوئی نا تمام حسرت نہ ہو۔ 1965 میں جین وائلڈ کے ساتھ اس کے شادی بھی ایک ایسا ہی سمجھوتا تھی، اگرچہ جین اس سے سچی محبت کرتی تھی مگر اسے شادی کرتے وقت علم تھا کہ یہ ساتھ محض ایک ، دو یا چند برسوں کا ہے ۔جس میں ہاکنگ کی خطرناک بیماری کے باعث کچھ ناگوار اور نا پسندیدہ موڑ آنے کابھی خدشہ موجود تھا مگر وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے اس باہمت شخص کی آخری خواہشات پوری کرنے کا پختہ ارادہ کر چکی تھی اور اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ۔

    Stephen Hawking

    جین کے ساتھ ،محبت اور توجہ نے ہاکنگ کو بڑا سہارا دیا اور چند برسوں تک اعصابی بیماری جیسے تھم سی گئی۔۱۹۶۸ میں ان کے ہاں پہلے بچے "رابرٹ "کی پیدائش ہوئی تو جیسے زندگی کو جینے کا نیا مفہوم ملا پھر ایک سال بعد ننھی "پری لوسی "نے آکر تو جیسےکائنات ہی مکمل کردی ۔ اَسی سال بلیک ہولز پر اس کی ریسرچ کو سراہتے ہوئے اُسے انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرانامی کیمبرج کی اعزازی رکنیت سے بھی نوازا گیا ۔ اتنی ڈھیر ساری خوشیوں نے اسے جینے کا نیا ولولہ عطا کیا اور آہستہ آہستہ جسم پر بیماری کا اثر کم ہوتا چلا گیا ۔یہ ہاکنگ کے عروج کا آغاز تھا اور آج لگ بھگ چھیالیس سال بعد بھی زندگی کے کسی بھی دشوار ترین دور ، کسی بھی اذیت ناک لمحے میں اُسے زوال کا منہ دیکھنا نہیں پڑا ۔

    بیماری کی شدت


    مگر اگلے ہی برس ایک دفعہ پھر اس پر بیماری کا شدید حملہ ہوا ، جس سے اس کا نچلا دھڑ اور ٹانگیں اس قدر متاثر ہوئیں کہ وہ یونیورسٹی جانے کے لیے وھیل چیئر استعمال کرنے لگا ۔ ہاتھوں میں رعشہ اس قدرتھا کہ وہ ہاتھ سے ایک چھوٹی سی ایپلیشن بھی لکھنے سے قاصر تھا ، سوکبھی جَین اور کبھی اس کا کوئی یونیورسٹی فیلو ریسرچ پیپرز ٹائپ کر دیا کرتے تھے ۔انہی کی مدد سے اس نے پہلی کتاب "زمان و مکاں کا تصوراتی ڈھانچہ "تحریر کی ،اگرچہ اس کتاب کو مستقبل میں شائع ہونے والی سٹیفن ہاکنگ کی کتابوں کی نسبت زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی، پھر بھی بلیک ہولز کے خدوخال کے متعلق جو نظریات ہاکنگ نے اِس میں متعارف کروائےاس سےطبیعات اور خاص طور پر فلکیات کے حلقوں میں اسے زبردست شہرت حاصل ہوئی۔۔اور تب ہی "ہاکنگ ریڈییشنز "کی اصطلاح وجود میں آئی ۔ اور اُس کے بعد اِس منہنی سے شخص نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا ۔

    زندگی اُس پر پے در پے ستم توڑتی چلی گئی مگر قسمت ہمیشہ مہربان رہی ۔۔۱۹۸۵ میں سرن میں ایک کانفرنس کے دوران سٹیفن ہاکنگ نمونیا کا شکار ہوا ۔اور چند ہی رو ز میں اس کے حالت اتنی بگڑ گئی کہ ڈاکٹر اس کی زندگی کی طرف سے مایوس ہو کر وینٹی لیٹر ہٹانے لگے تھے ۔مگر جَین کا وجدان کہتا تھا کہ ہاکنگ کو ابھی اور بہت سارے سال جیناہے اس نے فوری طور پر ہاکنگ کو ایڈن بروک ہاسپٹل کیمبرج منتقل کروایا ۔۔ جہاں ڈاکٹر نے ایک بڑا رسک لیتے ہوئے اس کی سرجری کا فیصلہ کیا ۔اِس آپریشن سے پہلے بھی ہاکنگ کی گویائی اتنی متاثر ہو چکی تھی کہ صرف اُس قریب رہنے والے لوگ ہی اس کی بات سمجھ پاتے تھے ،پھر بھی دنیا سے رابطے کا ایک ٹوٹا پھوٹا ہی سہی سہارا تو تھا ۔وہ اپنے سیکرٹری کی مدد سے ریسرچ پیپر لکھوا لیا کرتا تھا ،کانفرنس اور سیمینارز میں اسے ترجمہ نگار کی سہولت فراہم کی جاتی تھی جو اُس کے بے ربط جملوں کو قابلِ مفہوم بناتا ۔مگر اِس آپریشن کے بعدگویا دنیاسے رابطے کا آخری در بھی بند ہو گیا تھا۔

    مایوسی کے افق کے اس پار


    ہاکنگ جتنی ہمت کرتا تھا ز ندگی اس کے لیے اتنا ہی بڑا اور کھٹن امتحان لیکر آتی تھی ۔ایک عرصے تک وہ اپنے گھر کے بیڈ روم ،تو کبھی لاؤنج میں اپنی وہیل چیئر پر بیٹھ کر خلاؤں میں تکتا رہا۔ رات میں جب کبھی شدید ڈپریشن میں کھلے آسمان تلے جا کر بیٹھتا تو اَن گنت ستارے ، سیارے ، سیارچے اور کہکشائیں اس کے گرد رقص کرنے لگتیں ۔وہ ہاکنگ کو کائنات کے انوکھے نغمے ، اَ ن کہی داستانیں سناتے لیکن ظالم وقت نے اس سےدنیا سےرابطے کا آخری وسیلہ بھی چھین لیا تھا ۔

    اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا تھا جس سے وہ دنیا کو آسمانوں کی وہ مخفی کہانیاں سنا سکے ، جو اسے بہت واضح دکھائی بھی دیتی تھیں اور سنائی بھی ۔جَین سے اس کی یہ حالت چھپی نہیں ہوئی تھی‘ راتوں کو جب ہاکنگ گھر کے آنگن میں تنہا بیٹھا ستاروں کو تکا کر تا تو اندر بیڈ روم میں جین کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہتا ۔

    Stephen Hawking

    مایوسی کے انہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روز جَین اُس کے پاس سپیل کارڈلیکر آئی جس پر انگریزی کے حروف واضح درج تھے ۔ہاکنگ ان حروفِ تہجی کو آنکھ کے اشارے سے منتخب کرکے الفاظ اور جملے بناتا ۔ لیکن اس طریقۂ کار سے سامنے والے کے لیے اس کی بات سمجھنا ایک دشوار گزار عمل تھا ۔زندگی اسے ہرانے پر مصر تھی مگر وہ ہار ماننے پر تیار نہیں تھا ،اسے جینا تھا اور بہت کچھ کرکے جینا تھا ۔ بڑھتی ہوئی مالی پریشانیوں نے جَین کو بہت چڑ چڑا کر دیا تھا ۔تین بچوں کا ساتھ اور ایک معذور شخص ۔ ہاکنگ سے اس کی یہ حالت پوشیدہ نہیں تھی سو بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ کچھ عرصے بعد انگلینڈ سے کیلیفورنیا منتقل ہو گئے ۔اگرچہ جین کو ا بتدا میں اس فیصلے پر اعتراض تھا مگر بعد میں کیل ٹیک ( کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ) کی طرف سے جو سہولیات ہاکنگ کو فراہم کی گئیں وہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئیں۔

    یہاں قسمت ایک دفعہ پھر ہاکنگ پر مہربان ہوئی ،کیمبرج کے ڈیوڈ میسن نے اس کی الیکٹرک چیئر اپ ڈ یٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک سپیچ سینتھی سائزرکے ساتھ ایک کمپیوٹر سکرین اس چیئرمیں نصب کی گئی جس کے ذریعے وہ ابتدا میں فی منٹ تین الفاظ منتخب کرسکتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی سوچوں کو الفاظ میں ڈھال کر کمپیوٹر کی ڈسک میں سیو کرنے کی سہولت بھی اسے میسر آگئی تھی ۔یہ طریقۂ کار سٹیفن ہاکنگ آج تک دنیا کی ناموریونیورسٹیز اور سیمینارز میں لیکچرز دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اگرچہ جو آواز سینتھی سائزرنشر کرتا ہے وہ اس کی قدرتی آواز سے مکمل مشا بہہ نہیں ہے مگر یہ اس کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور ہاکنگ کا ٹریڈ مارک سمجھی جاتی ہے۔ حالات کچھ بہتر ہوتے ہی سٹیفن ہاکنگ نے بگ بینگ پر ایک کتاب لکھنے کابیڑا اٹھایا ۔ مگر میں ایک بڑا مسئلہ حسابی فارمولوں اور مساواتیں لکھنے کا تھا کیونکہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے سے قاصر تھا ۔بعض اوقات اس پر اتنی شدید مایوسی طاری ہوجاتی کہ وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا مگر جین اور اس کے دوست ہمہ وقت اس کی ہمت بندھاتے رہے انہی کی معاونت سے اسے "لیٹکس "نامی ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام مل گیا جس کے ذریعے وہ ہر طرح کے فارمولے اور مساواتیں لکھ سکتا تھا ۔”

    معرکتہ الآراء تصانیف


    اگرچہ وہ اب تک خدا کی مدد پر یقین نہیں رکھتا مگر خدا بار بار حالات کی سختی کو گھما کر اس کی طرف لاتا رہا ہے کہ شاید کبھی اس کا ایمان پختہ ہوجائے ،ہاکنگ آج تک انسانیت اور سائنس کے لیئ جو کچھ کر پایا ہے بظاہر وہ سائنس کا کرشمہ نظر آتا ہے ،مگر در حقیقت یہ ہر اس ذی شعور کے لیے قدرت کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے جو ٹیکنالوجی سے متا ثر ہو کر ملحد بنتا جا رہا ہے "۔ انہی حالات میں اس کی دوسری کتاب "وقت کا سفر "شائع ہوئی اور کاسمولوجی کی دنیا میں اِ س کتاب نے تہلکہ مچا دیا ۔

    یہ کتاب مسلسل چارسال تک "لندن سنڈے ٹائمز” کی بیسٹ سیلر لسٹ پر رہی ۔ اس کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ "زمان و مکاں” اور "ٹائم ٹریول "کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے،اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے۔ "وقت کا سفر ” کے پیچیدہ ترین اور ہمہ گیر موضوع سے قطعۂ نظر اِسے ایک ایسے شخص نے لکھا تھا جو پوری طرح اپنے ہاتھوں کو جنبش بھی نہیں دے سکتا ۔

    ہاتھ سے لکھنے والے شاید اندازہ کر سکیں کے اِس شخص نے ایک ایک لفظ کمپیوٹر سکرین پر منتخب کرکے یہ دقیق کتاب کس طرح لکھی ہوگی ، اگرچہ اُس وقت ہاکنگ اپنی انگلیوں کو جنبش دے سکتا تھا لیکن اِس کے بعد شائع ہونے والی اپنی تمام کتابیں اُس نےگالوں اور مسلز کی حرکت کی مدد سے لکھی ہیں۔

    Stephen Hawking

    اس کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی دو یا تین سمتوں میں چیزوں کو پرکھتا ہے ،جب کہ وہ گیارہ سمتوں میں پرکھنےکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اِس گیارہ سمتوں والے تصور کو ہاکنگ نے ۲۰۱۰ میں شائع ہونے والی اپنی معرکتہ الاآرا کتاب”دی گرینڈ ڈیزائن ” میں انتہائی دلچسپ طریقے سے بیان کیا ہے ۔اگرچہ اِس کتاب پر رومن کیتھولک چرچ اور پادریوں کی طرف سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے کہ سٹیفن ہاکنگ نوجوان نسل کو بھٹکا کر اُن میں دہریت کو فروغ دے رہا ہے مگر وہ آج تک اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے ،ہاکنگ خدا کے وجود کا پوری طرح منکر نہیں ہے لیکن وہ آفاقی قدرتی قوانین کو جس پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔

    وقت کا دھارا بہتا رہا 1975، کے بعد جوں جوں سٹیفن ہاکنگ کے اعضاء اُس کا ساتھ چھوڑتے گئے ،زندگی اُس پر کامیابیوں کے اُتنے ہی دَر وا کرتی گئی ۔انٹیل کارپوریشن نے اس کی وہیل چیئر کے کمپیوٹر سسٹم کو ایک دفعہ پھر اپ ڈیٹ کیا ۔کیونکہ اب انگلیوں کی جنبش بھی ہاکنگ کا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔تب سے آج تک وہ گالوں اور چہرے کے خدوخال کی حرکت کی مدد سے کمپیوٹر سکرین آپریٹ کرتا ہے ۔بڑھتی عمر اور ہمہ روز کی بیماروں نے اس کے چہرے کے خدوخال کو بہت متاثر کیا ہے‘اس کا چہرہ ایک جانب ڈھلک چکا ہے۔ "لیکن اس کا دماغ آج پہلے سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے”۔

    جین سے جدائی


    ایک سیلیبریٹی ! راک سٹار سائنٹسٹ کا امیج رکھنے کے با وجود سٹیفن ہاکنگ کی ذاتی زندگی کچھ ایسی خوشگوار نہیں رہی ۔اگرچہ جَین ہاکنگ ایک بلند حوصلہ خاتون تھی ، جس نے ہر کھٹن وقت میں ہاکنگ کا بھر پور ساتھ نبھایا ۔ اِس عورت نے اپنی بھرپور جوانی کے پچیس سال ایک ایسے شخص کے ساتھ نبھاتے گزار دیئے جس کے اپنے اعضاء اس کا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے ۔لیکن ہاکنگ محسوس کرنے لگا تھا کہ جَین اب تھک چکی ہے ۔ جین اور ہاکنگ کی غیر معمولی محبت اور ایثار کو اس کی زندگی پر بنا ئی جانے والی فلم ” تھیوری آف ایوری تھنگ ” میں بہت خوبصورت انداز میں فلمایا گیا جو ایک خون کے آنسو رلا دینے والی داستان ہے ۔ ان دونوں کا مشترکہ دکھ ،جب زندگی سسکتی رہی اور زمانے کے نشیب و فراز میں ان کی محبت کہیں خلاؤں میں گم ہو گئی ۔

    فاصلے اتنے بڑھ گئے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار تھے سو 1991میں ان کی علیحدگی اور چار سال بعد باقاعدہ طلاق ہو گئی ۔جین آج کسی اور کی شریک حیات ہے مگر وہ اب بھی ہاکنگ کے دل کے نہاں خانوں میں رہتی ہے۔ اگرچہ ایک سال بعد ہاکنگ بھی اپنی نرس کےساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا تھا مگر بد قسمتی سے یہ بندھن بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا ۔۔اور ۲۰۰۶ میں اُن کی طلاق ہو گئی ۔

    عصر حاضر کا یہ  مشہور سائنسداں گزشتہ برس مارچ میں 76 سال کی عمر میں انتقال کرگیا تھا۔ ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اور ان کے اقوال


    سٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اتنی متنوع اور ہمہ گیر تھی کہ اُسے الفاظ کے کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ ہر روز ایک نئے عزم کے ساتھ جاگتا تھا ،ہر طلوع ہوتا سورج اُس پر کائنات کے کچھ اور نئے ، اچھوتے پوشیدہ رازوں کو آشکارکرتا تھا۔اس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے اُسے ایک "راک سٹار "کا امیج دیا ہوا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہر سلیبریٹی کی ایک خاص وجۂ شہرت ہوتی ہے اور میری پہچان میری یہ وہیل چیئر ہے ۔ میں اس وھیل چیئر کے ساتھ ہر میسر لمحے سے بھرپور لطف اٹھاتا ہوں کیونکہ میرا یقین ہے کہ زندگی سے اگرتفریح اور مزاح کو نکال دیا جائے تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچتا ۔

    Stephen Hawking

    وہ خود بھی ہنستا تھا ،اوروں کو بھی ہنساتا رہتا تھا ۔اسے دوسروں کے دکھ سمیٹ کر اُن کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا کمال فن آتا ہے۔ کبھی وہ کسی کامیڈی شو میں اپنی جھلک دکھلاتا ہے تو کبھی ٹی وی چینلز پر دنیا کے نامور سائنسدانوں کے ساتھ مباحثوں میں شرکت کر کے ایک عالم پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے ۔

    سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں تو یقیناٌ اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے ،، لیکن اپنے پیاروں اور ارد گرد کے لو گوں سے ترس کی توقع کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کیجئے ،جسمانی معذوری کو نفسیاتی مسئلہ بننے سے روکیے ۔ مثبت طرزِ فکر اپنائیے ۔خود کو حتی الامکان حد تک مصروف رکھیئے اور زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھ کے قبول کیجئے۔آج میں پچھتر برس کی عمر میں بالکل آسودہ اور مطمئن ہوں میں نے کبھی زندگی سے لڑنے کی کوشش نہیں کی ، یہ جو ستم مجھ پرتوڑتی گئی میں نے ہمیشہ انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا ۔ زندگی میرے لیے بیک وقت بہت مہربان بھی رہی اور ظالم بھی ،مگر میں نے لوگوں کے رویوں پر آنسو بہانے کے بجائے خودکو اِس قابل بنایا کہ "آج ایک عالم کائنات کے سربستہ رازوں کی گھتیاں سلجھانے کے لیے مجھ سے رجوع کرتا ہے”۔

  • اسٹیفن ہاکنگ کی وہیل چیئر لاکھوں ڈالرز میں فروخت

    اسٹیفن ہاکنگ کی وہیل چیئر لاکھوں ڈالرز میں فروخت

    لندن: آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کے زیراستعمال خود کار وہیل چیئر کو 10 لاکھ ڈالرز میں نیلام کردیا گیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کے مقالے اور زیراستعمال دیگر اشیا نیلامی کے لیے 8 نومبر کو پیش کی گئیں جس میں ایک شخص نے وہیل چیئر کی بولی لگا کر اُسے خریدا۔

    آنجہانی سائنس دان کی 22 اشیاء نیلامی کے لیے پیش کی گئیں، بولی میں حصہ لینے والے خواہش مند افراد نے چیزوں کی آن لائن  کی قیمتیں بھی لگائیں۔

    اسٹیفن ہاکنگ کے مقالے اور دیگر خطوط بھی نیلامی کے لیے پیش کیا گیا، سائنسی دستاویزات کی قیمت 13 لاکھ سے ساڑھے 19 لاکھ جبکہ وہیل چیئر کی 10 سے 15 لاکھ  امریکی ڈالر قیمت رکھی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا نیلامی کے لیے پیش

    لندن میں واقع کرسٹی نیلام گھر میں اشیاء کی نیلامی کا پروگرام شروع ہوا تو سب سے پہلے لوگوں نے وہیل چیئر کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی، برطانوی شہری نے سب سے زیادہ 10 لاکھ امریکی ڈالر (تیرہ کروڑ 35 لاکھ روپے) بولی لگا کر وہیل چیئر حاصل کی  جبکہ آنجہانی سائنس دان کے ایک مقالے کو دوگنی رقم ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ میں فروخت کیا گیا۔

    UK Stephen Hawking - Auktion bei Christie's (picture-alliance/Photoshot/Ray Tang)

    اسٹیفن ہاکنگ کے سن 1965 میں لکھے گئے ایک سو ستر صفحاتی مقالے ’پراپرٹیز آف ایکسپینڈنگ یونیورسز‘  کو  قریب پانچ لاکھ پچاسی ہزار پاؤنڈز میں فروخت کیا گیا۔

    default

    آنجہانی سائنس دان کی صاحبزادی لوسی نے اعلان کیا کہ اشیاء کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم ’ ہاکنگ ویلفیئر‘ میں عطیہ کی جائے گی، اس اقدام سے اسٹیفن کے چاہنے والوں کو اُن کی غیر معمولی زندگی کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملے گا۔

    واضح رہے کہ رواں سال 14 مارچ کو معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ 76 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے وہ طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی تھا۔

    اسٹیفن کی تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ کو دنیا میں  سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

  • لندن: آنجہانی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا نیلامی کے لیے پیش کردی گئیں

    لندن: آنجہانی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا نیلامی کے لیے پیش کردی گئیں

    لندن: برطانوی معروف آنجہانی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا نیلامی کے لیے پیش کردی گئیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق لندن میں معروف آنجہانی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا نیلامی کے لیے پیش کردی گئی ہیں جن میں اسٹیفن ہاکنگ کے تھیسز سے لے کر وہیل چیئر سمیت بائیس اشیا شامل ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کی اشیا کی نیلامی آٹھ نومبر تک آن لائن جاری رہے گی۔

    اس موقع پر اسٹیفن ہاکنگ کی بیٹی کا کہنا تھا کہ معروف سائنس دان کی اشیاء کی نیلامی ان کے پرستاروں کے لیے ایک سنہری موقع ہے جس کو خرید کر وہ ان کے والد کی غیرمعمولی زندگی میں استعمال کی گئی اشیاء ایک نشانی کے طور پر رکھ سکیں گے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی ان سائنسی دستاویزات کی قیمت 130000 سے 195000 امریکی ڈالر ہے اور ان کی سائنسی طرز پر بنائی گئی وہیل چیئر جو نیلامی کا حصہ بنی ہے اس کی قیمت 10000 سے 15000 پاؤنڈ تک رکھی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    واضح رہے کہ رواں سال 14 مارچ کو معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ 76 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے وہ طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔

    اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

  • متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    لندن: آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق بھی سامنے آگئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ  پر صرف  ہماری کائنات اکیلی نہیں بلکہ اس جیسی متعدد کائناتیں موجود ہیں جنہیں عام انسان نہیں دیکھ سکتا۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی موت سے 10 روز قبل ایک خط تحریر کر کے جرنل آف ہائی انرجی فزکس کو ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے دیگر کائناتوں کی موجودگی کا انکشاف کیا۔

    پروفیسر ہاکنگ بستر مرگ تک اس بات کا جواب تلاش کرنے کے لیے سرگرداں تھے کہ ہمارے یعنی انسانوں کے علاوہ دنیا میں اور کتنی مخلوقات ہیں اور ایسی ہی کتنی رنگین کائناتیں موجود ہیں؟۔

    آنجہانی پروفیسر نے اپنی آخری تحقیقاتی تحریر میں ماہرینِ فلکیات کی رہنمائی کا بھی تذکرہ کیا جس کے مطابق زمین کے علاوہ متوازی کائناتوں کے شواہد موجود ہیں، جو آنے والے وقتوں میں عام انسان کو نظر آنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں

    اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحریر 20 سالہ محنت کا ثمر ہے جس میں سائنسی نظریے ’اسٹرنگ تھیوری‘ میں استعمال ہونے والی پیچیدہ ریاضی کی تکنیک کو بھی شامل کیا گیا تاکہ آنے والے وقتوں میں سائنسی ماہرین یا طالب علم اس سے استفادہ حاصل کرسکیں۔

    اس ضمن میں پروفیسر ہرٹوگ کا کہنا ہے کہ اسٹیفن نے اپنی آخری تحریر میں یہ بات تحریر کی کہ فزکس قوانین کے تحت ہماری جیسی کئی کائناتیں مستقبل میں وجود میں آسکتی ہیں، یہ تصورات ذہن کو چکرا سکتے ہیں تاہم اس خط کے ذریعے سائنس دانوں کو کائنات کے وجود میں آنے کا حتمی نظریہ قائم کرنے میں مدد بھی ملے گی۔

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعات تھے، آپ کو آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائئنسدان قرار دیا جاتا تھا۔ پروفیسر نے زیادہ تر کام ثقب اسود یعنی بلیک ہول، نظریاتی کونیات کے میدان میں کیا اور زندگی بھر اس گھتی کو سلجھانے کی کوشش کی کہ انسانوں کو کسی طرح دیگر کائناتوں کی موجودگی کے حوالے سے قائل کرسکیں۔

    یہ بھی پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ دنیا کے لیے مثالی شخصیت تھے

    اسٹیفن ہاکنگ نے ویسے تو متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں سے اُن کی ایک کتاب A Brief History of Time  آسان الفاظ میں لکھی گئی جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس کتاب کو انقلابی حیثیت حاصل ہوئی۔

    اسٹیفن ہاکنگ دماغی طور پر تو صحت مند تھے تاہم جسمانی طور پر وہ ایک خطرناک بیماری سے مبتلاء تھے جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر اور پاؤں تک ہلانے کے قابل نہیں تھے، اس تمام تر صورتحال کے باوجود آنجہانی پروفیسر نے بلند حوصلے کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا اور اپنے خیالات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

    واضح رہے کہ برطانوی سائنسدان نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ انسان جس خلائی مخلوق کی کھوج میں ہے وہ اس کے لیے تباہی لائے گی، ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو وہی ہوگا جو کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے بعد ریڈ انڈینز کے ساتھ ہوا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    پروفیسر ہاکنگ نے کہا تھا کہ اجنبی مخلوق سے رابطوں کی کوشش کے بجائے ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے، سائنس دانوں نے خلا میں ایسے مشن بھیجے ہیں جن پر انسانوں کی تصویریں اور زمین تک پہنچنے کے نقشے تھے، ممکنہ خلائی مخلوق سے رابطے کے لیے ویڈیو بیمز بھی بھیجی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ ہالی ووڈ اداکار ایڈی ریڈمائن نے 2014 میں بنائی جانے والی فلم ‘دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کا کردار ادا کیا تھا جبکہ ان کی اہلیہ کا کردار اداکارہ فلیسٹی جونز نے نبھایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں

    معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں

    لندن: دور حاضر معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں، ان کو نیوٹن اور چارلس ڈارون کی قبر کے قریب دفنا دیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 14 مارچ کو انتقال کرنے والے اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات کیمبرج یونیورسٹی کے گریٹ سینٹ میری چرچ میں ادا کی گئیں۔

    اسٹیفن ہاکنگ کو ویسٹ منسٹرایبے میں نیوٹن اور چارلس ڈارون کی قبر کے قریب دفنایا گیا، تدفین کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد چرچ کے باہر موجود تھی۔

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعات تھے۔ انہیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائئنسدان قرار دیا جاتا تھا، ان کا زیادہ تر کام ثقب اسود یعنی بلیک ہول، نظریاتی کونیات کے میدان میں ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی ایک کتاب وقت کی مختصر تاریخ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جسے انقلابی حیثیت حاصل ہے، یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی نہایت عمدہ کتاب ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، وہ ایک خطرناک بیماری سے دوچار تھے اور چلنے پھرنے سے قاصر تھے ہاتھ پاؤں ہلا نہیں سکتے تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ دماغی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلے کی وجہ سے اپنا کام جاری کھے ہوئے تھے، وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے، ان کی بیماری ان کو تحقیقی عمل سے روک نہ سکی۔

    واضح رہے کہ برطانوی سائنسدان نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ انسان جس مخلوق کی کھوج میں ہے، وہ اس کے لیے تباہی لائے گی، ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو وہی ہوگا جو کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے بعد ریڈ انڈینز کے ساتھ ہوا تھا۔

    پروفیسر ہاکنگ نے کہا تھا کہ اجنبی مخلوق سے رابطوں کی کوشش کے بجائے ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے، سائنس دانوں نے خلا میں ایسے مشن بھیجے ہیں جن پر انسانوں کی تصویریں اور زمین تک پہنچنے کے نقشے تھے، ممکنہ خلائی مخلوق سے رابطے کے لیے ویڈیو بیمز بھی بھیجی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ ہالی ووڈ اداکار ایڈی ریڈمائن نے 2014 میں بنائی جانے والی فلم ‘دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کا کردار ادا کیا تھا جبکہ ان کی اہلیہ کا کردار اداکارہ فلیسٹی جونز نے نبھایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کوسپردخاک کرنے کے بجائے نذرآتش کیا جائے گا

    آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کوسپردخاک کرنے کے بجائے نذرآتش کیا جائے گا

    لندن : آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کو سپرد خاک کرنے کے بجائے نذرآتش کیا جائے گا، آخری رسومات31  مارچ کو ہوں گی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مشہورسائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات اکتیس مارچ کو ویسٹ منسٹرچرچ میں ادا کی جائیں گی۔

    آنجہانی سائنسدان کے اہلخانہ نے اعلان کیا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کوسپردخاک کرنے کے بجائے نذرآتش کیا جائے گا، جس کے بعد ان کی راکھ ویسٹ منسٹر سے متصل قبرستان میں معروف سائنسدانوں آئزک نیوٹن اور چارلس ڈارون کی قبرکے قریب دفنائی جائے گی۔

    اسٹیفن ہاکنگ کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ ہمارے والد نے گونویلے اینڈ سیسز کالج میں اپنی زندگی کے 50 سال سے زائد عرصہ خدمات انجام دیں،  وہ اس شہر اور یونیورسٹی کا اہم حصہ تھے ، اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کی آخری رسومات کالج سے متصل چرچ میں ادا کی جائیں گی۔

    معروف سائنسدانوں آئزک نیوٹن کو 1727 اور چارلس ڈارون  کو 1882 میں  ویسٹ منسٹر چرچ سے متصل قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  شہرہ آفاق سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے


    یاد رہے 76 برس کے اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال چودہ مارچ کوہوا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ موٹر نیورو مرض میں مبتلا تھے، جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے، ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے جبکہ اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

    انجہانی برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ جاتے جاتے انسانوں کو غیر زمینی مخلوق کےخطرے سے خبردار کرتے ہوئے نصیحت کی  اجنبی مخلوق سے رابطوں کی کوشش کے بجائے ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے،   اجنبی مخلوق سے رابطہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    انھوں نے کہا  تھا کہ انسان جس مخلوق کی کھوج میں ہے، وہ اس کےلیے تباہی لائے گی۔ ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو وہی ہوگا جو کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے بعد ریڈ انڈینزکے ساتھ ہوا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زمین کی ممکنہ تباہی سے بار بار خبردار کرنے والا ہاکنگ اب نہیں رہا

    زمین کی ممکنہ تباہی سے بار بار خبردار کرنے والا ہاکنگ اب نہیں رہا

    عصر حاضر کے مشہور سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ 76 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ طبیعات کے میدان میں انقلابی نظریات پیش کرنے والے ہاکنگ کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی ہولناکی کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ کئی بار دنیا کو اس سے خبردار کر چکے تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ بارہا کلائمٹ چینج کے خطرے کی طرف نشاندہی کر چکے تھے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق زمین سے قریب سیارہ زہرہ (وینس) پر ساڑھے 4 کھرب سال قبل پانی ہوا کرتا تھا۔ مگر اس سیارے کا درجہ حرارت اس قدر گرم ہوگیا کہ اب یہ سیارہ ناقابل رہائش اور گرمی کے تپتے گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    ہاکنگ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے موسمیاتی تغیرات کو روکنے کے لیے کام نہ کیا تو بہت جلد ہماری زمین بھی وینس کی طرح ہوجائے گی جس پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجائے گا۔

    وہ کہتے تھے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کلائمٹ چینج صرف ایک تصور ہے انہیں زہرہ سیارے پر بھیجا جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کس طرح سیارہ زہرہ ایک آتش فشانی گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ’اس سفر کے تمام اخراجات میں اٹھاؤں گا‘۔

    یاد رہے کہ زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے مختلف مشنز کے مطابق زہرہ کی سطح پر متحرک آتش فشاں ہیں جن سے لاوا ابلتا رہتا ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انسان اب اس زمین پر صرف اگلے 100 برس تک رہ سکیں گے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ وقت آجائے جسے مختلف مذاہب میں روز قیامت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ اگر انسان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ 100 سال مکمل ہونے سے قبل زمین کو چھوڑ کر کوئی اور سیارہ ڈھونڈ لیں جہاں وہ رہائش اختیار کرسکتے ہوں۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اسٹیفن ہاکنگ اس کی وجہ کلائمٹ چینج اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف وبائی امراض کا پھیلاؤ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، دنیا کے مختلف حصوں میں کیمیائی حملے، مستقبل قریب میں ہونے والی ایٹمی جنگوں، اور خلا سے آنے والے سیارچوں یا بڑی جسامت کے شہاب ثاقب کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ قرار دیتے تھے۔

    ہاکنگ کو امریکی صدر ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں سے بھی اختلاف تھا اور ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے یہ اقدام دنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شہرہ آفاق سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے

    شہرہ آفاق سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے

    مشہور برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ 76 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ گزشتہ طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔

    شہرہ آفاق برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے طبیعات کی بے شمار تھیوریز پیش کی تھیں۔ وہ اپنی نوجوانی میں ہی ایک نہایت نایاب مرض کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    اکیس برس کی عمر میں ان پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بے بسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتا تھا۔

    اس کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکے گا؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اس بالشت بھر کے انسان نے جس کی کل کائنات ایک ویل چیئر اور اس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین تھی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    مزید پڑھیں: کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔

    اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔