Tag: STEVE JOBS

  • اسٹیو جابز کے استعمال کردہ چپل 2 لاکھ سے زائد ڈالرز میں فروخت

    اسٹیو جابز کے استعمال کردہ چپل 2 لاکھ سے زائد ڈالرز میں فروخت

    لاس اینجلس: اسٹیو جابز کے استعمال کردہ چپل ایک نیلامی میں 2 لاکھ سے زائد ڈالرز میں فروخت ہو گئے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 1970 کی دہائی کے وہ سینڈل جو اسٹیو جابز نے پہنے تھے، ایک نیلامی میں 218 ہزار ڈالرز میں نیلام ہو گئے۔

    اسٹیو جابز نے کیلیفورنیا میں اپنے جس گھر میں ایپل کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی، اب ایک تاریخی مقام کی حیثیت حاصل کر چکا ہے، اس گھر کے فرش پر چلتے ہوئے اسٹیو جابز نے جو چپل پہنے تھے، وہ اب تقریباً 220,000 ڈالر میں فروخت ہو گئے ہیں۔

    جولینز آکشنز نے اتوار کو کہا کہ یہ چپل ’اچھی طرح‘ سے استعمال شدہ ہیں، یہ براؤن رنگ کے سابر چپل ہیں جو برکن اسٹاکس نے بنائے تھے، اور ان چپلوں کے لیے ادا کی گئی رقم اب تک کسی چپلوں کے جوڑے کے لیے ادا کی جانے والی سب سے زیادہ رقم ہے۔

    نیلام گھر نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ کارک اور جوٹ کے فُٹ بیڈ پر اسٹیو جابز کے پیروں کا نقش ابھی تک برقرار ہے، جو برسوں کے استعمال کی وجہ سے پڑ گیا تھا۔

    جولینز نے کہا کہ انھیں یہ سینڈل 60,000 ڈالرز میں نیلام ہونے کی توقع تھی، تاہم NFT (نان فنجیبل ٹوکن) کے ساتھ اس کی حتمی فروخت کی قیمت 218,750 ڈالر نکلی۔ یہ چپل کس نے خریدے ہیں، اس سلسلے میں کمپنی کی جانب سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

    یاد رہے کہ جابز اور اسٹیو ووزنیاک نے 1976 میں لاس آلٹوس، کیلیفورنیا میں جابز کے والدین کے گھر پر ایپل کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی، 2013 میں اس پراپرٹی کو لاس آلٹوس ہسٹوریکل کمیشن نے ایک تاریخی علامت قرار دے دیا تھا۔

    جابز 2011 میں لبلبے کے کینسر کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔

  • اسٹیو جابز کا بنایا کمپیوٹر فروخت کے لیے پیش

    اسٹیو جابز کا بنایا کمپیوٹر فروخت کے لیے پیش

    امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹو افسر آنجہانی اسٹیو جابز کا بنایا ہوا ایپل کا نایاب کمپیوٹر 15 لاکھ ڈالرز میں فروخت کے لیے پیش کردیا گیا۔

    ایپل 1 نامی یہ کمپیوٹر اسٹیو جابز اور ان کی کمپنی کے شریک بانی اسٹیو وزنیک نے سنہ 1976 میں بنایا تھا اور اب یہ ای بے پر فروخت کے لیے دستیاب ہے، اسے 15 لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے خریدا جاسکتا ہے۔

    یہ ان 6 باقی بچ جانے والے اصل حالت کے Byte Shop KOA لکڑی کے کیس میں موجود کمپیوٹرز میں سے ایک ہے جن میں سے اب زیادہ تر میوزیم میں موجود ہیں، اس وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہے۔

    کمپیوٹر کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ قابل استعمال اور بالکل درست حالت میں ہے۔

  • قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    انسانی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی سائنسی ایجادات اپنے موجد کو رہتی دنیا تک امر کر جاتی ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں اپنا آئیڈیل بنائے رکھتے ہیں، تاہم کچھ موجد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایجاد تو نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے لیکن انہیں وہ پہچان نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک موجد ڈگلس اینگلبرٹ بھی تھا، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ہمارے آج کل کے کمپیوٹرز کا اہم حصہ، یعنی ماؤس کا موجد تھا۔

    ڈگلس اینگلبرٹ سنہ 1960 میں امریکا کے اسٹینڈ فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھا، اس وقت تک کمپیوٹر کو جوائے اسٹک اور کی بورڈ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم ڈگلس کو یہ آلات ناپسند تھے۔

    اس نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو اسکرین پر کرسر کے ذریعے کام کرتی تھی، اس کا نام دا بگ رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر ماؤس کی ابتدائی شکل تھی۔

    اس ایجاد پرمثبت ردعمل سامنے آتا رہا، سنہ 1966 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ایک بہترین ٹیکنالوجی قرار دیا۔

    2 سال بعد ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی بل انگلش کے ساتھ اسے سان فرانسسکو کے سائنسی میلے میں 1 ہزار افراد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت اس کے ڈیمو کو تمام ڈیموز کی ماں قرار دیا گیا۔

    یہ طے تھا کہ آنے والے وقت میں دا بگ ایک اہم شے بننے والا تھا۔

    5 سال بعد ڈگلس اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر چھوڑ کر ایک امریکی ڈیجیٹل کمپنی زیروکس کے ساتھ منسلک ہوگیا۔

    سنہ 1979 میں ایک شخص نے زیروکس کو اپنی کمپنی میں شیئرز لگانے کی پیشکش کی اور بدلے میں زیروکس کے ریسرچ سینٹر تک رسائی چاہی، یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو جابز تھا اور اس کی کمپنی ایپل تھی۔

    زیروکس کے ریسرچ سینٹر میں جابز کو ماؤس کا آئیڈیا بے حد پسند آیا اور اس کے وژن نے لمحے میں بھانپ لیا کہ یہ آنے والے وقتوں کی اہم ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

    جابز نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو تمام کام روک دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس ڈیوائس کو نئے سرے سے بنا کر، اسے اپ گریڈ کر کے، ایپل کی پروڈکٹ کی حیثیت سے ری لانچ کیا جائے۔

    اس وقت تک اس پروڈکٹ (ماؤس) کا پیٹنٹ یعنی جملہ حقوق اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر کے پاس تھے، اسٹیو جابز اسے اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی حیثیت سے لانچ کرنے جارہا تھا اور اس کا اصل موجد یعنی ڈگلس اینگلبرٹ دم سادھے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

    ایپل کا ری لانچ کیا ہوا ماؤس

    یہ یقینی تھا کہ تہلکہ مچا دینے والی اس ایجاد کا مستقبل میں ڈگلس کو کوئی منافع نہیں ملنے والا تھا۔

    ڈگلس غریب کا آئیڈیا تو بے حد شاندار تھا، تاہم وہ اس آئیڈیے کو وہ وسعت پرواز نہیں دے سکا جو اسے ملنی چاہیئے تھی۔ یوں کہیئے کہ یہ بڑی ایجاد اس کے چھوٹے خوابوں سے کہیں آگے کی چیز تھی۔

    اسے نصیب کا ہیر پھیر کہیئے یا وژن کی محرومی، ڈگلس اپنی ایجاد کی اہمیت کا ادراک نہیں کرسکا، اور بلند حوصلہ، پرجوش اور آنے والے وقتوں کی بصارت رکھنے والا وژنری اسٹیو جابز اس ایجاد کو اپنے نام کر گیا۔

  • ایپل کا تیارکردہ پہلا پرسنل کمپیوٹر نیلامی کے لیے پیش

    ایپل کا تیارکردہ پہلا پرسنل کمپیوٹر نیلامی کے لیے پیش

    کمپیوٹربنانے والی معروف کمپنی ایپل کا ڈیزائن کردہ سب سے پہلا پرسنل کمپیوٹرنیلامی کیلئے پیش کردیا گیا۔

    نادر و نایاب اشیا جمع کرنے والے افراد کیلئے ہے خوشخبری،ایپل کا ہاتھوں سےبنایا گیا پہلا پرسنل کمپیوٹر فروخت کے لیے پیش کردیا گیا،ایپل ون نامی کمپیوٹرایپل کے بانیوں اسٹیو وزنائیک اوراسٹیو جابز نے کیلیفورنیا میں قائم کمپنی کے گیرج میں مختلف آلات جوڑتے ہوئے بنایا تھا۔

    چھ سو چھیاسٹھ ڈالرز میں فروخت ہونے والے کمپیوٹرکی چھ لاکھ ڈالر میں فروخت ہونے کی اُمید ظاہر کی جارہی ہے۔