Tag: Strange traditions

  • دنیا میں خوبصورتی کے منفرد اور انوکھے انداز، جسے دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے

    دنیا میں خوبصورتی کے منفرد اور انوکھے انداز، جسے دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے

    فیشن ہر دور میں نئے انداز میں سامنے آتا ہے اور وقت کے ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے، مرد ہوں یا خواتین دونوں کی خوبصورتی کے اپنے علیحدہ معیار ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ خوبصورت نظر آنا ہر عورت کا بنیادی حق ہے جسے وہ استعمال بھی کرتی ہیں اسی لیے دنیا بھر میں فیشن انڈسٹری دن بہ دن ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    ہر ملک میں فیشن اور خوبصورتی کے الگ الگ معیار ہیں، اس کا تعلق کافی حد تک علاقائی ثقافت سے بھی ہوتا ہے، جس کی مناسبت سے یہ انداز بہت دلچسپ اور عجیب نظر آتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں مختلف ممالک میں خوبصورتی کو اجاگر کرنے کیلئے کیے جانے والے انداز کو دکھایا گیا گیا ہے۔

    ایک میاؤ نامی مقام پر رہنے والی خواتین خود کو خوبصورت اور منفرد دکھانے کیلئے اپنے آباؤ اجداد کے بالوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ان بالوں کو لکڑی کے بڑے سے کنگھے پر باندھ کر اپنے سر پر رکھتی ہیں جس کا وزن تقریباً چھ کلو ہوتا ہے۔

    لمبی گردن ہمارے ہاں بھی خوبصورت کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن برما کی خواتین نے اپنی گردنیں ضرورت سے زیادہ ہی لمبی کر رکھی ہیں، جس کیلئے وہ اپنی گردن میں پیتل کی بہت ساری کڑیاں ڈال کر رکھتی ہیں۔

    برما کے علاقے بڈاؤں نامی علاقے کی خواتین اپنے گلے میں 15 کلو وزنی پیتل کی کڑیاں ڈالے رکھتی ہیں، جس ان کی گردنیں ناقابل یقین حد تک لمبی ہوجاتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جس کی گرن جتنی لمبی ہوگی وہ اتنا ہی خوبصورت شمار ہوگی۔

    سفید اور موتی جیسے دانت سب کو پسند ہوتے ہیں جس کیلیے طرح طرح کے لوازمات اور طریقے اپنائے جاتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے دانت سفید کے بجائے کالے کرواتے ہیں۔

    ارگارو نامی علاقے کی خواتین ایک ایسی روایت پر عمل کرتے آرہی ہیں جس میں دانتوں کا باقاعدہ کالا کروایا جاتا ہے، اس میں ایسی اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے جو منہ سے خوشبو آنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح ان کی دولت میں اضافہ ہوگا اور وہ خوبصورت بھی دکھائی دیں گی۔

  • دورِجاہلیت کی یاد دلانے والی چند عجیب وغریب رسومات و روایات

    دورِجاہلیت کی یاد دلانے والی چند عجیب وغریب رسومات و روایات

    پیغمبر اسلام کی آمد سے قبل کے وقت کو زمانہ جاہلیت کا نام دیا جاتا ہے، زمانہ جاہلیت کے لوگ موت زندگی اور خوشی کی تقریبات کا انعقاد اپنے روایتی انداز میں کرتے تھے، جس کے آثار اس دور جدید میں بھی دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    رسومات کا تعلق یا تو مذہب سے ہوتا ہے یا پھر ثقافت سے،  ہر علاقے، قبیلے حتیٰ کہ ہر خاندان میں پائی جانےوالی رسمیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

    یہ رسومات ان کے ماننے والوں کیلئے تو بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ دیگر لوگوں کو یہ عجیب محسوس ہوتی ہیں، مندرجہ ذیل کچھ ایسی ہی روایات کا تذکرہ ہے جسے پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    مُردے سے بھیک منگوانا

    انڈونیشیا کے قبائلی علاقوں میں مردے کے عزیز و اقارب مردے کو سہارا دے کر چلاتے ہیں اور جس جس گلی یا بازار سے مردہ گزرتا ہے لوگ اس کو پیسے دیتے ہیں اس طرح مردہ اپنے دفن کے اخراجات خود اکٹھے کرتاہے۔

    لڑکیوں کے پاؤں موڑنا

    چین میں لڑکیوں کے چھوٹے اور مڑے ہوئے پاؤں خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں ،اسی لئے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے پاؤں زیادہ لمبے نہ ہوں انہیں موڑ کر باندھ دیا جاتا تھا اور پھر سالوں تک اس کے پاؤں ایسے ہی بندھے رہتے لڑکی جب بالغ ہو جاتی تو اس کے پاؤں سے یہ پٹی ہٹا دی جاتی ہے۔

    یہ رواج امیر خاندانوں کی لڑکیاں اپناتی ہیں جبکہ غریب خاندانوں میں صرف گھر کی بڑی لڑکی کے پاؤں اس طرح باندھے جاتے ہیں تاکہ اس کی شادی کسی امیر شخص کے ساتھ کی جا سکے جس سے اس کے گھر والوں کی بھی مالی مدد ہو جائے وگرنہ وہ عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں وہ ان بندھے ہوئے پیروں کے ساتھ ایک قدم بھی چل نہیں سکتیں۔

    درخت سے شادی رچانا

    ہندوؤں میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ لڑکی کی باقاعدہ شادی سے پہلے اس کی شادی ایک درخت کے ساتھ کر دی جاتی ہے اور شادی کے بعد اس درخت کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ بالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ اداکار امیتابھ بچن کی بہو اور نامور خوبرو اداکارہ ایشوریہ رائے کی ابھیشک بچن سے ہونے والی شادی سے قبل ہندوانہ رسومات کے تحت درخت سے شادی کرائی گئی تھی۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ میں کہا گیا تھا کہ چونکہ اپنے زائچے کے مطابق ایشوریا’’ منگلک‘‘ ہیں اور ہندو مذہب کی رو سے اس کے ان کے شوہر کی زندگی پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں، لہٰذا ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے ہندو روایت کے مطابق پہلے ان کی شادی کسی درخت سے کی گئی تھی۔ تاہم بچن خاندان اس بات سے ہمیشہ انکار کرتا آیا ہے۔

    بچوں کے اوپر سے کودنا

    اسپین میں سال میں ایک دن’’ کیتھولک ضیافت ‘‘نامی یہ تہوار منایا جاتا ہے جس میں سال بھر میں پیدا ہونے والے بچوں کو سڑک پر لٹا دیا جاتا ہے اور ایک شخص شیطان کا روپ دھار کر ان کے اوپر سے کودتا ہے، تاکہ ان کو شیطانی خطرات سے دور رکھا جاسکے ۔

    آگ کے فٹبال کا کھیل

    انڈونیشیا میں ماہ رمضان کے آنے کی خوشی میں آگ کے ساتھ ایک کھیل کھیلا جاتا ہے، اس کھیل میں آگ سے ایک گولا تیار کیا جاتا ہے، اس کھیل میں بھی فٹ بال کی طرح ہر ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں اور مخالف ٹیم کے خلاف گول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    اس کھیل کو کھیلنے کیلئے کھلاڑیوں کو روحانی عمل سے گزرنا پڑتا ہے، جس میں کھیل سے پہلے اکیس دن کے روزے رکھنا ہوتے ہیں،آگ پر پکے ہوئے کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے، کھلاڑی اکیس دنوں پر محیط تزکیہ نفس کی اس مشق کے بعد روحانی طور پر پاک ہوجاتے ہیں۔ ان اکیس دنوں میں کھلاڑی دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر جاگتے ہیں۔

    بیٹی کی پیدائش پر 111 نئے پودے لگائے جاتے ہیں

    بھارتی ریاست راجھستان میں بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں علاقے میں ایک سو گیارہ نئے پودے لگائے جاتےہیں۔

    درخت میں تدفین

    اس قبیلے کی ایک اور روایت ہے کہ اگر کوئی بچہ فوت ہو جائے تو اسے ان پہاڑوں پر دفنانے کی بجائے درختوں میں دفنایا جاتا ہے۔ بچے کی ماں بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر درخت میں سوراخ کر کے اس میں لٹادیتی ہے اور پھر اوپر سے سوراخ کو بند کر دیا جاتا ہے جیسے جیسے درخت کا سوراخ مندمل ہوتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ مرنے والے بچہ اس میں جذب ہو ہا ہے۔

    موت پر پرتکلف ضیافت کا اہتمام

    انڈونیشیا کے علاقے جنوبی سولاویسی میں کسی شخص کی موت پر علاقے کے تمام لوگوں کیلئے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں درجنوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں، اس قبیلے میں لوگ زندگی بھر اس لئے پیسے جمع کرتے ہیں تاکہ ان کے مرنے پر کھانے کا خاص انتظام کیا جاسکے۔

    دھواں زدہ ممی

    پاپوا جینوا میں’’ آنگا قبیلے‘‘ کے لوگ مرنے والے شخص کی لاش کو تیس دن کیلئے ایک جھونپڑی میں چھوڑ دیتے ہیں جہاں آگ جلا کر دھوئیں میں لاش کو سینکا جاتا ہے پھر اسے دفنانے یا جلانے کی بجائے گاؤں میں موجود پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں پر رسیوں کے ساتھ باندھ کرلٹکا دیا جاتا ہے تاکہ گاؤں میں داخل ہوتے ہی دور سے ان پر نظر پڑتی رہے۔

    مردے کے منہ، کان اور ناک کو سی دیا جاتا ہے تاکہ باہر سے کوئی بھی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہوسکے۔ جب ایک دفعہ لاش کو دھوئیں سے سِکا لیا جاتا ہے تو اس پر مٹی کا لیپ کر دیا جاتا ہے،اس سے ممی گلنے سڑنے سے محفوظ رہتی ہے۔

    غم کے اظہار کیلئے انگلیاں کاٹنا

    انڈونیشیا میں ’’ڈانی قبیلے‘‘ کے لوگ کسی کے مرنے پر روتے ہوئے نہ صرف خاک اور دھواں اپنے چہرے، سر پر ملتے ہیں بلکہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ہی کاٹ دیتے ہیں۔ انگلیاں کاٹنے سے پہلے انگلیوں کے پوروں کو تیس منٹ کیلئے باندھ دیا جاتا ہے۔ کاٹنے کے بعد انگلیوں کے کٹے ہوئے پوروں کو خشک ہونے کیلئے رکھ دیا جاتا ہے اور بعد میں ایک خاص جگہ پر دفنا دیا جاتا ہے۔