Tag: study

  • سونگھنے کی حِس میں کمی کا موت سے کیا تعلق ہے؟ ہوشربا تحقیق

    سونگھنے کی حِس میں کمی کا موت سے کیا تعلق ہے؟ ہوشربا تحقیق

    انسان میں پائی جانے والی چھ نمایاں حِسوں میں سونگھنے کی حِس کئی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس حِس کا ہماری یادداشت اور جذبات دونوں سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی سے دماغی بیماری ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو بگڑنے کے بعد انسان کو موت کی جانب بھی لے جا سکتا ہے۔

    ایک نئی سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بو یا خوشبو کو پہچاننے کی صلاحیت میں کمی (جسے "اولفیکٹری امپیئرمنٹ” کہا جاتا ہے) بڑی عمر کے افراد میں موت اور دماغی بیماریوں، خاص طور پر ڈیمنشیا کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔

    طبی جریدے میں شائع کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ماہرین نے سونگھنے کی حس میں کمی یا اس سے متعلق مسائل کے شکار افراد میں پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا۔

    یہ تحقیق سوئیڈش نیشنل اسٹڈی آن ایجنگ اینڈ کیئر” کے ڈھائی ہزار سے زائد افراد پر کی گئی، جن کی عمریں زیادہ تھیں، اس مطالعے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ سونگھنے کی صلاحیت میں کمی کا شکار زیادہ تر لوگ عمر رسیدہ ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل افراد کو 16 سوالات پر مشتمل خوشبو پہچاننے کا ٹیسٹ دیا گیا، محققین کے مطابق ٹیسٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اگر کوئی شخص 16 مختلف خوشبوؤں میں سے زیادہ تر کی پہچان نہ کر سکے، تو چھ سال میں اس کی موت کا خطرہ 6 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جبکہ 12 سال بعد یہی خطرہ 5 فیصد رہ جاتا ہے، یہ کمی دل، دماغ اور سانس کی بیماریوں سے بھی منسلک پائی گئی۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈیمنشیا، یعنی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں کمی، سونگھنے کی حس میں کمی اور موت کے درمیان سب سے مضبوط تعلق رکھنے والا عنصر تھا اور تقریباً 25فیصد موت کے خطرے کی وضاحت صرف اسی ایک وجہ سے ہوئی۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جسمانی کمزوری اور خوراک کی کمی بھی ان افراد کی صحت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جن کی سونگھنے کی حس کمزور ہوچکی ہو۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : اگر آپ یا آپ کے کسی عزیز کو سونگھنے کی حس میں کمی محسوس ہو رہی ہو تو اسے معمولی نہ سمجھیں بلکہ جلد از جلد اپنے معالج سے رجوع کرکے علاج کا آغاز کریں۔

  • کھانستے ہوئے وائرل ذرات کا پھیلاؤ کس طرح کم کیا جاسکتا ہے؟

    کھانستے ہوئے وائرل ذرات کا پھیلاؤ کس طرح کم کیا جاسکتا ہے؟

    کسی بھی شخص کے کھانسنے اور چھینکنے کے دوران وائرل ذرات فضا میں پھیلتے ہیں لیکن اب ماہرین نے بتایا ہے کہ کس طرح اس پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کھانستے ہوئے سر کو فرش کی جانب جھکا لینا ایسے وائرل ذرات کے پھیلاؤ میں کمی لا سکتا ہے جو مختلف امراض جیسے کووڈ 19 کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی جریدے جرنل اے آئی پی ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں پتلوں کو ایک واٹر ٹنل رکھ کر اس جگہ لیزر شعاعوں کا استعمال کر کے دیکھا گیا کہ وائرل ذرات بہہ سکتے ہیں یا نہیں۔

    تحقیق کے لیے پتلوں کو مختلف زاویوں سے رکھا گیا جیسے سر اوپر اٹھا کر یا فرش کی جانب جھکا کر دیکھا گیا۔ ان پتلوں کو حرکت دینے پر دریافت کیا گیا کہ سر اوپر یا سیدھا رکھنے پر ذرات زیادہ آسانی سے پھیلتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سر نیچے کی جانب جھکانے پر وائرل ذرات فرش کی جانب چلے جاتے ہیں اور زیادہ فاصلے تک سفر نہیں کر پاتے۔

    ماہرین نے اسے حیران کن دریافت قرار دیا۔

    انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں وائرل ذرات کے پھیلاؤ کے 2 مختلف پیٹرنز کا مشاہدہ کیا گیا، نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہمیں کھانستے ہوئے سر کو فرش کی جانب جھکالینا چاہیئے تاکہ زیادہ تر ذرات وہاں ہی جائیں۔

    یہ تحقیق کچھ حد تک محدود تھی اور اس میں پانی سے بھرے ماحل میں لیزر کا استعمال کرکے ہوا کے بہاؤ کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ہوا دار مقام میں اس طرح کا تجربہ نہیں کیا گیا مگر ماہرین کو توقع ہے کہ وہ اس تجربے کی بنیاد پر اپنے تحقیقی کام کو حقیقی انسانوں میں کھانسی کے اثرات جاننے کے لیے بڑھا سکیں گے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کا بھی مشورہ ہے کہ کھانستے ہوئے منہ کو کہنی میں چھپا لینا چاہیئے تاکہ وائرل ذرات فضا میں پھیل نہ سکیں۔

  • فائزر کی کورونا ویکسین : محققین نے اہم انکشاف کردیا

    فائزر کی کورونا ویکسین : محققین نے اہم انکشاف کردیا

    سائنسی ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی قسم فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کی افادیت کسی حد تک کم کرنے کا باعث بنتی ہے۔

    اس تحقیق میں 400 کے لگ بھگ ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کوویڈ 19 کی تشخیص ویکسین کی ایک یا دو خوراکیں استعمال کرنے کے بعد ہوئی تھی اور ان مریضوں کی رپورٹس کا موازنہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے کوویڈ مریضوں سے کیا گیا، ان سب مریضوں کی عمریں، جنس اور دیگر عناصر مماثلت رکھتے تھے۔

    کورونا کی جنوبی افریقی قسم بی 1351 کو تحقیق میں کوویڈ کے ایک فیصد کیسز میں دریافت کیا گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے مریضوں میں وائرس کی اس قسم کی شرح ویکسین استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ تھی۔

    مذکورہ تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ فائزر ویکسین وائرس کی اصل قسم اور برطانیہ میں دریافت قسم کے مقابلے میں جنوبی افریقی قسم کے خلاف کم مؤثر ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں ویکسین کی دوسری خوراک لینے والے افراد میں جنوبی افریقی قسم کی زیادہ شرح کو دریافت کیا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ جنوبی افریقی قسم کسی حد تک ویکسین کے تحفظ میں کمی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    تاہم انہوں نے انتباہ کیا کہ اس تحقیق میں جنوبی افریقی قسم سے متاثر کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ اسرائیل میں یہ قسم زیادہ عام نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس تحقیق کا مقصد وائرس کی کیس بھی قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت کا تعین کرنا نہیں تھا بلکہ اس میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں پہلے ہی کوویڈ 19 کی تشخیص ہوچکی تھی تو بیماری کی مجموعی شرح کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔

    یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج پر فی الحال فائزر نے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

    اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹوں میں عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر ویکسین بی 1351 قسم کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں کم مؤثر ہے تاہم اس کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    اسرائیلی تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ نتائج خدشات بڑھانے والے ہیں مگر جنوبی افریقی قسم کا کم پھیلاؤ حوصلہ افزا ہے۔

    محققین کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی افریقی قسم ویکسین کے تحفظ کو کم کر بھی دے تو بھی وہ اسے آبادی میں زیادہ پھیلنے نہیں دیتی۔

  • انسان کی قوت مدافعت کورونا وائرس کیلئے کب تک مؤثر ہے؟ جانیے

    انسان کی قوت مدافعت کورونا وائرس کیلئے کب تک مؤثر ہے؟ جانیے

    نیو یارک : امریکی اور سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ کوویڈ19وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو کب تک یاد رہتا ہے یعنی اس کی طاقت وائرس سے مقابلے کیلئے کتنی مدت تک کارآمد ہے۔

    ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کو شکست دینے والے بیشتر افراد میں اس کے دوبارہ شکار ہونے کا خطرہ کم از کم 6 ماہ تک نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں ایسے متعدد افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کوویڈ 19 میں مبتلاہونے کے بعد صحتیاب ہوگئے تھے، تحقیق نے دریافت کیا کہ وقت کے ساتھ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ جاتی ہے مگر بیماری کو پہچاننے والے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح مستحکم رہتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ خلیات جراثیم کو یاد رکھتے ہیں اور اس کا دوبارہ سامنا ہونے پر مدافعتی نظام کو وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بننے کو متحرک کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ میموری بی سیلز کے افعال میں 6 ماہ میں کمی نہیں آتی بلکہ اس کے ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ کوویڈ19 کے شکار ہونے والے افراد میں اس وائرس کا دوبارہ سامنا کرنے پر برق رفتار اور مؤثر ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں صحت یابی کے بعد اسے ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوتی ہے۔

    مگر حالیہ تحقیقی رپورٹس میں وائرس کے خلاف طویل المعیاد مدافعت کے حوالے سے مدافعتی نظام کے دیگر حصوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

  • ڈیکسا میتھا سون کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آگئے

    ڈیکسا میتھا سون کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آگئے

    لندن: گزشتہ ہفتے کرونا وائرس کے علاج میں ایک امید ثابت ہونے والی دوا ڈیکسا میتھا سون کے حوالے سے ڈیٹا جاری کردیا گیا، دوا کرونا وائرس کے ان مریضوں کے لیے جن کی حالت تشویشناک ہوجائے، فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔

    ایک ہفتے قبل برطانوی میڈیکل جریدے دا لینسٹ میں شائع تحقیق میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس کے مریضوں پر ڈیکسا میتھا سون دوا کا استعمال ان کی موت کے خطرے میں کمی کرسکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں اس دوا کے کامیاب ٹرائل کے بعد دیکھا گیا کہ وینٹی لیٹر پر موجود جن 2 ہزار 1 سو مریضوں کو ڈیکسا میتھا سون دی گئی، ان میں سے 30 فیصد مریضوں کی جان بچ گئی۔

    اب برطانوی ماہرین نے اس دوا کی آزمائش کے نتائج آن لائن شائع کیے ہیں۔

    برطانوی ماہرین نے کرونا وائرس کے 21 سو مریضوں کو یہ دوا دی اور ان کا موازنہ 4 ہزار 321 ایسے مریضوں سے کیا گیا جنہیں یہ دوا نہیں دی گئی۔

    مذکورہ مریضوں میں سے دوا لینے والے 21.6 فیصد مریض چل بسے جبکہ دوا نہ لینے والے مریضوں میں سے 24.6 فیصد جانبر نہ ہوسکے تاہم اس شرح کا انحصار اس بات پر تھا کہ دوا کے استعمال کے وقت مریضوں کی بیماری کس مرحلے پر تھی۔

    برطانوی ماہرین کے مطابق ڈیکسا میتھا سون نے وینٹی لیٹر پر جانے والے مریضوں کی موت کا امکان ایک تہائی (40 فیصد) کم کیا جبکہ وہ مریض جنہیں وینٹی لیٹر کے علاوہ متبادل طریقے سے آکسیجن دی گئی ان میں موت کا خطرہ 25 فیصد کم کیا۔

    ماہرین کے مطابق یہ دوا ان مریضوں کے لیے بے فائدہ ہے جن میں کرونا وائرس کا مرض معمولی طور پر موجود ہے، وہ اضافی احتیاط کر کے صحتیاب ہوسکتے ہوں اور انہیں آکسیجن سپورٹ کی ضروت نہ پڑے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے بھی کہا ہے کہ ڈیکسا میتھا سون کو ان مریضوں کے لیے رکھا جانا چاہیئے جن کی حالت تشویشناک ہوجائے، کیونکہ یہ دوا ایسے مریضوں پر ہی اپنا اثر دکھا سکتی ہے۔

  • کراچی کی 2 یو سیز میں کرونا وائرس کا غیر معمولی پھیلاؤ، ماہرین کی ٹیمیں اسٹڈی کریں گی

    کراچی کی 2 یو سیز میں کرونا وائرس کا غیر معمولی پھیلاؤ، ماہرین کی ٹیمیں اسٹڈی کریں گی

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی 2 یونین کونسلز میں کرونا وائرس کے غیر معمولی پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے ماہرین کی ٹیمیں اسٹڈی کرنے پہنچ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی یو سیز میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے سندھ حکومت نے 2 یونین کونسل پر مشتمل پائلٹ پروجیکٹ شروع کردیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کھارادر اور کہکشاں یو سیز میں کرونا وائرس کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے، دونوں یو سیز کی کمیونٹی سرویلنس اسٹڈی کے لیے ماہرین کی ٹیمیں پہنچ گئیں۔

    سرویلنس ٹیمیں اس بات کی جانچ کریں گی کہ یو سیز میں وائرس کب اور کیسے آیا، اور ضلع جنوبی کی دونوں یو سیز میں کرونا کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں۔

    اسٹڈی میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ دونوں یو سیز سے کرونا کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔

    ذرائع کے مطابق کمیونٹی سرویلنس اسٹڈی رپورٹ مرتب کر کے وزیر اعلیٰ سندھ کو دی جائے گی، اسٹڈی کی کامیابی کے بعد دیگر یو سیز کو بھی پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لیا جائے گا۔ مذکورہ جائزے کا فیصلہ کل وزیر اعلیٰ سندھ نے کیا تھا۔

    خیال رہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے مطابق ملک بھر میں کرونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 19 ہزار 103 ہوچکی ہے، وائرس سے اب تک 440 اموات ہوچکی ہیں۔

  • اونرا کا فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر نے کا اعلان

    اونرا کا فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر نے کا اعلان

    یروشلم : فلسطینی پناہ گزینوں کے امور کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا کی طرف سے اسکولوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کیے جانے کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاج کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اونروا کی طرف سے اسکولوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کرنے پر فلسطین کے بعد لبنان میں بھی موجود فلسطینی پناہ گزینوں نے احتجاج کیا اور اونروا کے خلاف دھرنا دیا۔

    اونروا نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ وہ مالی بحران کے باعث فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر دیں گے۔اونروا کے اس اعلان کے بعد لبنان میں سول سوسائٹی، ملازمین یونین، عوامی کمیٹیوں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اقوامتحدہ میں فلسطینی ملازمین نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ اونروا کی طرف سے اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کرنے سے 3000 فلسطینی طلباءکا مستقبل داﺅ پر لگ جائے گا جب کہ 10 ہزار طلباءکے موسم سرما کے تعلیمی پروگرام متاثر ہوں گے اور 250 فلسطینی ملازمین کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    فلسطینی پناہ گزینوں کے دفاع کی ذمہ دار کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل علی ھویدی نے بیروت میں منعقدہ مظاہرے سے ٹیلیونک خطاب میں کہا کہ انہیں اس ریلی میں براہ راست شرکت نہ کرنے کا افسوس ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اونروا کے اسٹڈی سپورٹ پروگرام کے ذریعے فلسطینی پناہ گزین طلباءکے 70 فی صد تعلیمی اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔

  • بھارت: مینڈک کی نئی نسل دریافت

    بھارت: مینڈک کی نئی نسل دریافت

    نئی دہلی: بھارتی کے تحقیقاتی ماہرین نے مینڈک کی نئی نسل دریافت کرلی جو بھارت کے جنوبی پہاڑی علاقے میں پائی جاتی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی کی تحقیقاتی ٹیم کو بھارت کے جنوب میں واقع مغربی گٹ کے پہاڑی علاقے سے منفرد مینڈک ملا جس کا منہ چھوٹا ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کی رکن سونالی گارک کے مطابق ’چھوٹے منہ والے مینڈک کو میسٹیکیولس کا نام دیا گیا، ہم اس نسل پر گزشتہ تین برس سے تحقیق کررہے تھے جس کا نتیجہ بالآخر مل گیا‘۔

    اُن کا کہنا تھاکہ مینڈک کی یہ نسل اب تک دنیا کی نظروں سے اوجھل تھی، اُن کا تولیدی عمل سارا سال میں صرف چار دن ہوتا ہے اور اسی دوران وہ پہاڑوں سے نکل کر زمین پر آتے ہیں۔

    سونالی گارگ کا مزید کہنا تھا کہ ’سال 2016 میں کھدائی کے دوران مینڈکوں کی چار نسلیں دریافت ہوئیں تھیں جن پر ہم نے مطالعہ شروع کردیا تھا‘۔

    مزید پڑھیں: غار کی گہرائی میں رہنے والی خوبصورت مچھلی دریافت

    تحقیقی ٹیم کے سربراہ ایس ڈی بیجو کا کہنا تھا کہ مینڈک کی نئی قسم دریافت ہونے کے حوالے سے مائیکروہلڈ نے بھی تصدیق کردی جبکہ جلد عالمی ماہرین بھی مغربی علاقے کا دورہ کریں گے۔

    یاد رہے کہ تحقیقاتی ماہرین کرہ ارض پر رہنے والی مخلوق کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس میں آئے روز پیشرفت بھی سامنے آتی ہے، گزشتہ ماہ جنوری میں امریکی محققین نے 10 روز کی تلاش کے بعد  غار میں رہنے والی خوبصورت مچھلی دریافت کرلی۔

  • سیاہ چاول صحت کے لیے مفید قرار

    سیاہ چاول صحت کے لیے مفید قرار

    نیویارک: امریکی ماہرین نے کالے یا سیاہ چاؤل کے فوائد تلاش کرتے ہوئے انہیں استعمال کرنے کا مشورہ دے دیا۔

    چاولوں کی خاص قسم کی بڑی مقدار انڈونیشیاء، تھائی لینڈ اور بھارت میں پائی جاتی ہے، سیاہ چاول کو انڈیا کی ریاست مانی پور میں ’چکھاؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سیاہ چاول کے فوائد کے بارے میں پہلی مرتبہ ماہرین نے بیان کیا۔

    ماہرین کے مطابق کالے چاولوں میں آئرن، وٹامن ای کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے جو عام چاول میں نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ سیاہ چاول دیگر کے مقابلے میں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں اور ان کے استعمال سے وزن میں اضافہ بھی نہیں ہوتا۔

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاہ چاول انسانی صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں کرتے بلکہ ان میں موجود معدنیات ذیابیطس اور عارضہ قلب جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: چاولوں کی کون سی قسم صحت کے لیے فائدہ مند؟

    یہ بھی پڑھیں: خبردار! چاول گرم کرکے کھانا موت کاسبب بن سکتا ہے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاہ چاولوں میں فائبر کی کثیر مقدار بھی پائی جاتی ہے جو خون میں موجود شوگر کی مقدار کو کم یا کنٹرول کرنے میں بہت مدد فراہم کرتی ہے۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’کالے چاول استعمال کرنے والے صحت مند اور توانا رہتے ہیں جبکہ یہ غذا اُن کے میٹابولزم کو بڑھانے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔

    ماہرین نے ذیابیطس کے مریضوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کالے چاولوں کا استعمال اپنے معالج سے مشورے کے بعد کریں کیونکہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال بیماری کو مزید خراب کرسکتا ہے۔

    اسے بھی پڑھیں: چاول کا پانی، حسن و دلکشی بڑھانے کا باعث

  • تحقیقاتی ماہرین کو روزے کے  مزید طبی فوائد مل گئے، روزہ صحت کے لیے مفید قرار

    تحقیقاتی ماہرین کو روزے کے مزید طبی فوائد مل گئے، روزہ صحت کے لیے مفید قرار

    فرانس: جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد روزے کو انسانی صحت کے لیے فائدے مند قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے طبی ماہرین نے روزے کی سائنسی اہمیت کے حوالے سے جامع اور سائنسی تحقیق کی جس میں 1400 سے زائد افراد نے حصہ لیا۔

    ’پلوس‘ نامی طبی جریدے میں تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی جس میں ماہرین نے بتایا کہ ’جرمنی کے شہریوں نے جنوبی علاقے میں واقع کونسٹانس جھیل کے قریب پانچ سے 20 روز تک بحالیِ صحت کے لیے روزے رکھے‘۔

    رپورٹ کے مطابق تحقیق برلن یونیورسٹی اسپتال کے تعاون سے کی گئی جس میں غذا کے ذریعہ علاج کرنے کے طریقے پر بھی غور کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: نماز جوڑوں اور کمر درد سے نجات میں معاون: امریکی تحقیق

    ماہرین کے مطابق تحقیق میں شامل ہونے والے افراد نے جب روزہ رکھا اور اُن کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے، ایک مخصوص وقت تک بھوک اور پیاس کی حالت میں رہنے سے اُن کے جسم میں موجود کولیسٹرول کم ہوا۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزن میں کمی یا موٹاپے کا علاج کرنے کا موزوں طریقہ روزہ ہی ہے کیونکہ روزے داروں کے وزن میں تیزی سے کمی ہوئی جبکہ ایسے افراد جنہوں نے روزہ رکھا اُن کے معدے کا سائز بھی کم ہوا۔

    یہ بھی پڑھیں: روزے کے انسانی صحت پرحیرت انگیزفوائد

    ماہرین کے مطابق روزے داروں کا بلڈپریشر، خون میں گلوکوز کی مقدار بہتر ہوئی جبکہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ روزہ رکھنا امراض قلب سے بچاؤ کا سب سے آسان اور اہم ذریعہ ہے اس کے علاوہ ذیابیطس اور ذہنی تناؤ کے مریضوں کے علاج میں بھی یہ معاون ثابت ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل 84 فیصد افراد جوڑوں کے درد، خون میں چکنائی کی زیادتی، جگر کی سوزش جیسے دائمی امراض میں مبتلا تھے، اُن سب کے مرض میں بھی کمی ہوئی جبکہ 93 فیصد افراد نے ماہرین کو یہ بھی بتایا کہ انہیں روزے کے اوقات میں بھوک کا احساس نہیں ہوا۔

    اسے بھی پڑھیں: روزہ انسان کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرتا ہے

    تحقیقاتی ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ مطالعے میں ایسے بھی افراد شامل تھے جنہیں سردرد، بے خوابی جیسی بیماریاں تھیں ایسے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور منفی اثرات ختم ہوئے۔