Tag: Sugar Patient

  • انجیر : موسم سرما میں یہ پھل سوچ سمجھ کر کھائیں ورنہ !!

    انجیر : موسم سرما میں یہ پھل سوچ سمجھ کر کھائیں ورنہ !!

    موسم سرما میں لوگوں کی بڑی تعداد جسم میں گرمائش پیدا کرنے اور سردی کے اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے انجیر کا استعمال کرتی ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ چیز سب کیلئے فائدہ مند نہیں ہے۔

    یہ پھل ہماری صحت کے لیے بے حد مفید پھل ہے اس کو انگریزی میں ’فِج‘ کہتے ہیں،برسوں سے اس پھل کو لوگ ایک انتہائی صحت بخش خشک میوہ کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔

    غذائیت سے بھرپور ہونے کے علاوہ  اس میں فائبر بھی بہت ہوتا ہے جو کہ نظام ہاضمہ کو مضبوط رکھتا ہے پھل کے دیگر فوائد کے علاوہ انجیر کے بیج قبض کو دور کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں، دل کی صحت کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ہے لیکن اس کے صحت سے متعلق فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے محدود مقدار میں استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔

    انجیر جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں موجود غذائی ریشہ نظام ہاضمہ کو بہتر بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    اس میں پوٹاشیم بھی ہوتا ہے جو کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے ساتھ انجیر میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اور فائبر دل کی صحت کو مضبوط بنانے میں مدد دیتے ہیں۔

    انجیر جسم میں کینسر کے خلیات سے لڑنے میں بھی مدد کر سکتی ہے۔ خاص طور پر اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس فری ریڈیکلز کو کنٹرول کرتے ہیں اور صحت کی حفاظت کرتے ہیں۔

    روزانہ کتنے دانے کھانا چاہیے؟

    طبی ماہرین کے مطابق اس پھل کا سائز ہر شخص کی عمر، صحت کی حالت اور ضروریات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ عام طور پر روزانہ 2 سے 3 انجیر کھانا صحت کے لیے اچھا ہے لیکن اس مقدار کو تکنیکی طور پر بڑھا یا کم کیا جا سکتا ہے۔

    یہ پھل کن لوگوں کو نہیں کھانا چاہیے؟ اگر آپ بہت زیادہ انجیر کھاتے ہیں تو یہ صحت کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے جس کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    شوگر کے مریضوں کے لیے نقصان دہ

    اس میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کو یہ پھل متوازن مقدار میں کھانے کا مشورہ نہیں دیا جاتا۔ بہت زیادہ انجیر کھانے سے بلڈ شوگر لیول بڑھ سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو انجیر سے الرجی ہو سکتی ہے۔ ایسے افراد کو انجیر کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    ویب ایم ڈی کے مطابق اس پھل میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ قبض کے مسئلے میں انتہائی فائدے مند ہے۔

    وزن کم کرنے والے پرہیز کریں

    انجیر میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں اور وزن کم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو ان کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ انجیر میں پوٹاشیم کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ ان پھلوں کا استعمال گردوں کے مسائل میں مبتلا افراد کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

    دل کے مریضوں کو بھی پرہیز کرنے کی ضرورت

    دل کے امراض میں مبتلا افراد کو بھی یہ پھل نہیں کھانے چاہئیں۔ کیونکہ اس میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ یہ دل کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ اچھے غذائیت کے ساتھ ساتھ بہت سے صحت کے فوائد بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ کو صحت سے متعلق کوئی مسئلہ ہے تو انہیں مناسب مقدار میں لینا بہتر ہے یا ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔

    سردیوں کے موسم میں انجیر کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ جسم کو گرم رکھتا ہے۔ لیکن سردیوں میں انجیر کے زیادہ استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    انجیر کن لوگوں کو نہیں کھانا چاہیے؟ اگر آپ بہت زیادہ انجیر کھاتے ہیں تو یہ صحت کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے جس کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

  • کیا آپ کو شوگر ہے؟ اپنی تشخیص خود کریں

    کیا آپ کو شوگر ہے؟ اپنی تشخیص خود کریں

    شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین کاکام یہ ہے کہ وہ جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتی ہے۔

    کہتے ہیں کہ شوگر ایک خاموش قاتل ہے اور اس کا علم مریض کو تب ہوتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ اپنی شوگر کو وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہنا چاہیے۔

    یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کسی کو کبھی بھی لاحق ہو سکتی ہے، لہٰذا اس پر توجہ رکھنا بہت ضروری ہے۔

    یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کرکے خون میں شامل نہیں کر پاتا، اس پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

    اگر آپ کو شوگر کے حوالے سے کوئی خدشہ ہو کہ آپ کو شوگر (ذیابیطس) ہے یا نہیں، تو اس کا پتہ اس کی علامات سے باآسانی لگا سکتے ہیں ان علامات کو جاننے کیلئے صبح کا وقت زیادہ موزوں ہے۔

    زیر نظر مضمون کا مطالعہ کرکے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ وہ کون سی علامات ہیں کہ جس سے اس بات پتہ لگایا جاسکے کہ آپ کو ذیابیطس ہے یا نہیں؟

    اہم علامات :

    ذیابیطس کی اہم علامات میں بہت زیادہ پیاس لگنا، معمول سے زیادہ پیشاب آنا، خصوصاً رات کے وقت، تھکاوٹ محسوس کرنا، وزن کا کم ہونا، دھندلا نظر آنا اور زخموں کا نہ بھرنا شامل ہیں۔

    زیادہ پیاس لگنا : 

    یہ تبدیلیاں صبح چار بجے سے آٹھ بجے کے درمیان محسوس کی جاتی ہیں۔ یہ اس وقت دیکھا جاتا ہے جب صبح کے وقت بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہوتی ہے، شوگر کی زیادہ مقدار ہمیں پیاس کا احساس دلاتی ہے۔ اگر ہائی بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول نہ کیا جائے تو گلوکوز بڑھ جاتا ہے اور جسم کو زیادہ سیال کی ضرورت ہوتی ہے اور پانی کی کمی اور پیاس زیادہ لگتی ہے۔

     پیشاب کی زیادتی : 

    بار بار پیشاب آنا شوگر کی اعلیٰ سطح کی نشاندہی کرتا ہے، یہ عام طور پر رات یا صبح سویرے ہوتا ہے، گردے گلوکوز کو فلٹر کرنے کے لیے زیادہ پیشاب پیدا کرتے ہیں۔

    صبح کی سستی : 

    جاگنے پر زیادہ سستی اور کاہلی محسوس کرنا بھی ہائی شوگر کی ایک علامت ہے، گلوکوز کی سطح گرنے کی وجہ سے جسم کو مناسب توانائی نہیں مل پاتی، اس لیے ہم صبح کے وقت سستی محسوس کرتے ہیں حالانکہ نیند کی کمی کی وجہ سے بھی صبح کے وقت سستی اور چڑچڑا پن ہو سکتا ہے۔

    سر میں درد

    ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام علامت سر کا درد ہے، اگر شوگر کی مقدار زیادہ ہو تو اسے ہائپرگلیسیمیا کہا جاتا ہے اور اگر یہ کم ہو تو اسے ہائپوگلیسیمیا کہا جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اکثر سر درد ہوتا ہے۔

    منہ کا خشک ہونا

    جاگنے کے فوراً بعد منہ خشک محسوس ہوتا ہے۔ یہ زیادہ شوگر لیول کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ جسم میں سیال کی زیادتی کی وجہ سے لوگ پانی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے منہ سوکھاپن پیدا ہوجاتا ہے۔

    بھوک میں اضافہ

    انسولین کی کمی کی وجہ سے جسم میں گلوکوز کی مقدار کافی نہیں ہو پاتی، نتیجتاً زیادہ بھوک لگتی ہے۔ تھوڑے وقت کے بعد، جسم کو دماغ سے اشارے ملتے ہیں کہ خوراک مہیا کی جائے۔

    اگر آپ صبح سویرے ان علامات میں سے کوئی بھی دیکھیں تو فوری طور پر اپنے معالج سے رجوع کریں، اگر اس مسئلے پر شروع میں ہی قابو پالیا جائے تو صحت مزید خراب ہونے سے بچ جائے گی۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ ا