Tag: suicide bomber

  • خود کش حملہ آورساتھی سمیت گرفتار، سنسنی خیزانکشافات

    خود کش حملہ آورساتھی سمیت گرفتار، سنسنی خیزانکشافات

    کراچی : محکمہ انسداد دہشت گردی نے کارروائی کرکے خود کش حملہ آور کو ساتھی سمیت گرفتار کر لیا، ملزمان کا تعلق لشکر جھنگوی گروپ سے ہے، خود کش جیکٹس اور بارودی مواد بھی برآمد کرلیا گیا، دوران تفتیش آٹھ بڑی کارروائیوں کا اعتراف کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے منگھو پیر میں سی ٹی ڈی کی جانب سے چھاپہ مارا گیا جس کے نتیجے میں ایک خود کش بمبار سمیت 2 دہشت گرد وں کوگرفتارکرلیا گیا۔ خودکش حملہ آور نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔

    ایس ایس پی سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو نے نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ خود کش حملہ آور شوکت اور اس کے ساتھی عبدالغی کو منگھو پیر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔

    پولیس حکام کے مطابق ملزمان نے دوران تفتیش آٹھ بڑی کارروائیوں کا اعتراف کیا ہےاور اپنا نیٹ ورک کراچی اور بلوچستان کے بارڈر پر قائم کیا ہوا ہے اور ان کے گینگ ارکان کا تعلق شکار پور، جیکب آباد اور بلوچستان سے ہے۔

    ایس ایس پی پرویز چانڈیو نے کہا ہے کہ ملزم شوکت بڑی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا،دہشت گردوں نے سکھر سی آئی اے سینٹر میں بارود سے بھری گاڑی ٹکرائی تھی۔

    ملزمان کا گروپ شکار پور بم دھماکے علاوہ 2013 میں ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی گاڑی پر حملے میں بھی ملوث ہے۔پولیس نے گرفتار ملزمان کو نا معلوم مقام پر منتقل کرکے ان سے مزیدتفتیش شروع کردی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ لشکر جھنگوی کے ماسٹر مائنڈ افغانستان سے ہدایات لے کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایس ایس پی پرویز چانڈیو کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان سے خود کش جیکٹس اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ جبکہ تین مفرور ملزمان کی تلاش بھی جاری ہے۔

  • راولپنڈی میں خودکش دھماکہ، تین پولیس اہلکارزخممی

    راولپنڈی میں خودکش دھماکہ، تین پولیس اہلکارزخممی

    راولپنڈی: چیک پوسٹ پرخودکش حملہ میں تین پولیس اہلکارزخمی ہوگئے ہیں، ناکہ خفیہ اطلاع پرلگایا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق راولپنڈی پولیس خفیہ اطلاع کی بناء پرواہ گارڈن کے علاقے میں ناکے پرچیکنگ کررہی تھی ، پشاور سے آنے والی بس کی چیکنگ کے دوران ایک مشکوک شخص نے فرار ہونے کی کوشش کی جب پولیس اہلکاروں نے تعاقب کیا تواس نے اہلکاروں پردستی بم سےحملہ کیا جس کے نتیجے میں تین اہلکارزخمی ہوگئے۔

    موقع پرموجود دیگراہلکار جب حملہ آور کے پیچھے بھاگے تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔

    پولیس ذرائع کے مطابق خفیہ اطلاع تھی کہ پشاور میں آنے والی بس میں بم موجود ہے اسی لئے ناکے پربس کو روکا گیا تھا۔

    چند روز قبل اسی علاقے سے 3500 جعلی شناختی کارڈز بھی برآمد ہوئے تھے اوراطلاعات تھیں کہ اس علاقے میں دہشگردوں کے ہمدرد موجود ہیں۔

    پولیس اور ریسکیو اداروں کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہیں اور زخمی پولیس اہلکاروں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

  • اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    تحریر: سید فواد رضا

    پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

    ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔

    شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

    اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔

    وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

    میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔

    راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا